دفتر 1 حکایت 5: بادشاہ کی ملاقات اس طبیبِ الٰہی سے جس کو خواب میں دیکھا تھا اور جس کی آمد کی بشارت اس کو دی گئی تھی

دفتر اول: حکایت: 5


ملاقاتِ بادشاہ با طبیبِ الٰہی کہ در خوابش دیدہ بود و بشارت بقدومِ او دادہ شد
بادشاہ کی ملاقات اس طبیبِ الٰہی سے جس کو خواب میں دیکھا تھا اور جس کی آمد کی بشارت اس کو دی گئی تھی
1
شہ چو پیشِ میہمانِ خویش رفت
شاہ بود ولیک بس درویش رفت
ترکیب: پہلا مصرعہ جملہ فعلیہ ہو کر شرط جس میں "پیشِ مہمانِ خویش" بترکیبِ اضافی مفعول فیہ ہے۔
صنائع: شاہ و درویش میں تضاد ہے۔
ترجمہ: بادشاہ جب اپنے مہمان کے پاس گیا، (اگر چہ) وہ بادشاہ تھا مگر (اس کے سامنے عجز و انکسار سے) بالکل (ایک) درویش (بن کر) گیا۔
مطلب: مہمان تھا تو مسافر مگر وہ ایک مرد خدا تھا جس کے آگے سلطان کی سلطانی جھک گئی۔ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بے خانماں کہ ہیچ ندارد بجز خدائے
او را گدا مگوئے کہ سلطان گدائے اوست
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
باعاشقانِ شیدا سلطان کجا برآید
درپیشِ آشنایاں بیگانۂ چہ سنجد
2
دست بکشاد و کِنارانش گرفت
ہمچو عِشق اندر دِل و جانش گرفت
ترکیب: "کناراں" حرفِ در مقدّر کا مجرور ہے۔ "کنارانش" اور "جانش" کی ضمیر مہمان کی طرف راجع ہے۔
صنائع: مہمان کو اس کے دل نشین ہونے میں عشق سے تشبیہ دی ہے جو ایک پُر لطف تشبیہ ہے۔
ترجمہ: ہاتھ پھیلا کر اس سے بار بار ہمکنار ہوا۔ عشق کی طرح اس کو (اپنے) دل و جان میں جگہ دی۔ (؎
جامی بپردۂ دل خود ساخت جائے تو
یعنی درونِ پردہ توئی راز دارِ دل)
3
دست و پیشانیش بوسیدن گرفت
وز مقام و راہ پُرسیدن گرفت
ترجمہ: اس کا ہاتھ اور ماتھا چومنے لگا اور مقام اور راستے کا حال پوچھنا شروع کیا۔
مطلب: لذّتِ ہمکلامی کے لیے مہمان سے مقام و راہ کے سوال کئے۔ ورنہ بادشاہ کو خواب کے ذریعہ سے اس کا آنا معلوم تھا۔ بقولِ کسے ؎
لذیذ بود حکایت دراز تر کردم
چنانکہ حرفِ عصا گفت موسیٰ اندر طور
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
سخنِ دراز کشیدیم و ہمچناں باقی ست
کہ ذکرِ دوست نیارد ہیچگونہ ملال
4
پُرس پرساں میکشیدش تا بہ صَدر
گفت گنجے یافتم امّا بہ صَبْر
ترکیب: ":پرس پرساں" حال۔ "میکشید" کی ضمیر ذو الحال۔ دونوں مل کر فاعل۔ دوسرے مصرعہ کے شروع میں واؤ عاطفہ مقدّر۔ "امّا" بمعنی لٰکن حرفِ استدراک۔
صنائع: "گنج" استعارہ ہے مہمان کی تشریف آوری سے۔
ترجمہ: پوچھتا پوچھتا اس کو صدر (کی جگہ) تک لے جا رہا تھا اور کہتا تھا مجھ کہ خزانہ مل گیا مگر صبر کے ساتھ۔
5
صبر تلخ آمد ولیکن عاقبت
میوۂ شیریں دہد پُرمنفعت
ترکیب: "صبر" مبتدا۔ "تلخ" خبر۔ "آمد" فعل بمنزلہ حرفِ ربط۔ دوسرا جملہ مستدرک۔ "عاقبت" ظرف۔ "شیریں" اور "پُرمنفعت" دونوں صفتیں میوہ کی۔
صنائع: "میوہ" کنایہ ہے نتیجہ اور انجام سے۔ "تلخ" کنایہ ہے ناگوار سے۔
ترجمہ: صبر (یوں تو) ناگوار ہوتا ہے لیکن آخر کار نہایت میٹھا اور مفید پھل دیتا ہے۔ (سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
صبر تلخ است و لیکن برِ شیریں دارد
؎
گر چہ ہے صبر کا آغاز بڑا تلخ و ترش
پر نِرا لطف ہے انجامِ شکیبائی میں
خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
دِلا منال ز شامیکہ صبح در پے اوست
کہ نیش و نوش بہم باشد و نشیب و فراز
6
گفت اے نورِ حق و دفعِ حرج
معنیِ اَلصَّبْر مِفْتَاحُ الْفَرَج
ترکیب: اس شعر کا عطف بہ تقدیر عاطف "گفت گنجے یافتم الخ" پر ہے۔ "نورِ حق الخ" ہر سہ معطوف علیہ و معطوف منادٰی ہیں۔
صنائع: حدیث "اَلصَّبْرُ الخ" سے اقتباس کیا ہے۔
ترجمہ: (اور بادشاہ نے) کہا اے خدا کے نور اور تنگی دور کرنے والے (یہ حدیث جو آئی ہے کہ) صبر کشایش کی کنجی ہے (اس) کا مصداق (تو ہے)۔
مطلب: یہ کہ بادشاہ مہمان سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ میں نے اپنی مصیبت پر صبر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اجر میں آپ کو میری طرف بھیج دیا۔ جن کی بدولت میری کشودِ کار ہوگی، اور آپ اس حدیث کے مضمون کے مصداق ہیں۔ خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
صبر و ظفر ہر دو دوستانِ قدیم اند
بر اثرِ صبر نوبتِ ظفر آید
7
اے لقائے تو جوابِ ہر سُوال
مشکل از تو حل شود بے قیل و قال
ترکیب: "آنکہ" مقدّر اسمِ موصول اور "لقائے تو الخ" جملہ اسمیہ اس کا صلہ۔ مل کر منادٰی، جو سابق پر معطوف ہے۔ مصرعۂ ثانیہ جوابِ ندا۔
صنائع: ملاقات کو ہی جوابِ ہر سوال قرار دینا۔ مدح میں مبالغہ مقبول ہے۔
ترجمہ: اے (وہ بزرگ) جس کا دیدار ہر سوال کا جواب ہے۔ تجھ سے بلا کہے، سنے (یا بلا کلام) مشکل حل ہو جاتی ہے۔
مطلب: آپ کے دیدار میں ایک ایسی غیبی روشنی ہے کہ آپ کو دیکھتے ہی دل کے تمام شکوک و اشکال کی تاریکی دور ہو جاتی ہے اور سوال کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ عارف جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
روشن آں دیدہ کہ در آئینہ طلعتِ دوست
پرتوِ حسنِ ازل دید بنقشِ خط و خال
8
ترجمانِ ہرچہ ما را در دل ست
دستگیرِ ہرچہ پایش در گِل ست
ترکیب: "ترجمان" مضاف۔ "ہرچہ" اسم موصول۔ اور مبتدا محذوف "مخفی" خبرِ محذوف۔ "ما را" اور "در دل" ہر دو جار مجرور اس کے متعلق۔ موصول و صلہ مل کر "ترجمان" کے مضاف الیہ ہوئے۔ اسی طرح مصرعہ ثانیہ بتقدیرِ عاطف۔ ہر دو مصرعہ معطوف علیہ و معطوف مل کر خبر ہوئے مبتدا محذوف ”تو“ کی۔
ترجمہ: (تو) ہمارے دل کی ہر بات کو بیان کر دینے والا ہے۔ جو شخص (درماندگی کے) کیچڑ میں (پھنسا ہوا) ہو (تو) اس کا دستگیر ہے۔
9
مَرْحَبَا یَا مُجْتَبٰی یَا مُرْتَضٰی
اِنْ تَغِبْ جَاۤءَ الْقَضَا ضَاقَ الْفَضَا
ترکیب: "یَا" حرفِ ندا۔ "مُجْتَبٰی، مُرْتَضٰی" بربطِ عطف منادٰی۔ "مَرْحَبًا" مفعولِ مطلق جس کا فعل اور فاعل محذوف ہیں۔ اور یہ سب مل کر جملہ فعلیہ ہو کر جوابِ ندا ہوا۔ "اِنْ تَغِبْ" شرط۔ باقی کلمات و جملے بتقدیر عاطف مل کر جزا۔
صنائع: قضا اور فضا میں تجنیسِ خط۔
ترجمہ: آئیے آئیے! اے برگزیدہ و پسندیدہ (بزرگ) اگر آپ چل دیے تو (ہم مشتاقوں کی) موت آ جائے گی اور (زندگی کا) میدان تنگ ہو جائے گا۔
مطلب: بیانِ شوق اور غمِ جدائی کا اظہار۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
بے تو بر فرشِ گل ز بے تابی
مرغ در خون طپیدہ دامانم
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
میدہم جان مرد از من و گرت باور نیست
پیش ازاں خواہی تو بستانِ و نگہدار جُدا
10
اَنْتَ مَوْلَی الْقَوْمِ مَنْ لَّا یَشْتَھِیْ
قَدْ رَدٰی کَلَّا لَئِن لَّمْ یَنْتَہٖ
ترکیب: "اَنْتَ" مبتدا۔ "مَوْلٰی الْقَوْمِ" بترکیبِ اضافی اس کی خبر۔ "مَنْ" اسم موصول۔ "لَا یَشْتَہِیْ" فعل جس میں ضمیر راجع بموصول اس کا فاعل۔ "اِیَّاکَ" ضمیر مفعول بہ محذوف۔ یہ جملہ فعلیہ ہو کر صلہ ہوا۔ "مَنْ" موصول و صلہ مل کر مبتدا ہوا۔ "قَدْ رَدٰی" فعل اپنی ضمیر مستتر فاعل کے ساتھ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر اس کی خبر۔ باقی کلمات آیتِ قرآنیہ سے اقتباس ہیں جو ایک صنعتِ بدیع ہے۔
ترجمہ: تو آقائے قوم ہے جو شخص تجھے نہیں چاہتا وہ یقینًا ہلاک ہو گیا (بقولِ خداوند تعالیٰ) "حقًا اگر وہ باز نہیں آئے گا تو الخ"۔
مطلب: اس شعر میں اقتباس ہے۔ اس آیت سے کہ ﴿كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَاً بِالنَّاصِيَةِ﴾ (العلق: 15) اللہ تعالیٰ ابوجہل کے بارے میں فرماتا ہے کہ اگر وہ (رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کی مخالفت سے) باز نہیں آئے گا تو ہم اس کے بال پکڑ کر (جہنم کی طرف) گھسیٹیں گے۔ ولی سے محبت نہ رکھنا اگر محض بے رغبتی سے ہے تو ہلاکت کے یہ معنٰی ہیں کہ وہ شخص اس کے فیوض و برکات سے محروم رہے گا کیونکہ بزرگوں کے فیوض لوگوں کے لیے بمنزلۂ حیات ہیں۔ اگر عدمِ محبت بوجہ بغض و عداوت ہو تو ہلاکت سے مراد کوئی نہ کوئی وبال ہے۔ حدیث میں آیا ہے "مَنْ عَادٰی لِيْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ:" یعنی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "جو شخص میرے کسی دوست سے عداوت رکھے میں اس کو جنگ کا چیلنج دیتا ہوں"۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
بس تجربہ کردیم دریں دیرِ مکافات
با دُر کشاں ہرکہ در افتاد بر اُفتاد
11
چوں گذشت آں مجلس و خوانِ کرم
دستِ او بگرفت و بُرد اندر حرم
ترجمہ: جب وہ مجلس برخاست ہوئی اور (ضیافت کا) خوانِ کرم اٹھایا گیا تو (بادشاہ نے) اس (مہمان) کا ہاتھ پکڑا اور حرم سرا میں لے گیا۔