دفتر 1 حکایت 10: اس امر کا بیان کہ مردِ زرگر کا قتل اشارہِ الٰہی سے تھا، نہ کہ خیالِ باطل سے

دفتر اول: حکایت: 10


در بیانِ آنکہ کشتنِ مردِ زرگر باشارۂ الٰہی بود نہ بخیالِ باطِل
اس امر کا بیان کہ مردِ زرگر کا قتل اشارہِ الٰہی سے تھا، نہ کہ خیالِ باطل سے
1
کشتنِ آں مرد بر دستِ حکیم
نے پئے امید بود و نے ز بیم
ترجمہ: حکیم کے ہاتھ سے اس مرد (زرگر) کا مارا جانا نہ (تو اس) امید سے تھا (کہ کنیزک صحت یاب ہو جائے تو انعام ملے گا) اور نہ (اس) خوف سے (کہ صحت یابی نہ ہوئی تو بادشاہ ناراض ہو جائے گا)۔
مطلب: آغازِ قصہ میں بادشاہ کے مردِ صالح اور طبیب کے ولی اللہ ہونے کا ذکر آ چکا ہے۔ یہاں شک پیدا ہو سکتا تھا کہ زرگر بیگناہ کو قتل کرنا شیوۂ صالحین کے خلاف ہے۔ اب مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس شک کا جواب دیتے ہیں کہ اس قتل کا وقوع اشارۂ غیب سے تھا۔ بادشاہ یا طبیب کے دامن پر اس سے ظلم کا دھبہ نہیں آ سکتا۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
آلودہ شد ہیچ گہے دامنِ پاکش
زاں خونِ عزیزاں کہ بزیرِ قدمش رفت
2
اُو نکشتش از برائے طبعِ شاہ
تا نیامد امر و الہام از اِلٰہ
ترجمہ: اس حکیم نے اس کو بادشاہ کی خاطر قتل نہیں کیا تھا۔ تا وقتیکہ خدا کی طرف سے حکم و الہام نہیں آیا۔
3
آں پسر را کِش خِضر ببرِید حلق
سرِّ آں را در نیابد عام خلق
ترجمہ: جس لڑکے کا گلا خضر علیہ السلام نے کاٹ ڈالا تھا۔ عام خلقت اس کا بھید نہیں سمجھ سکتی۔
مطلب: یہ شعر تمثیل ہے اس امر کی اہل اللہ کے بعض کام اگرچہ عوام کو خلافِ عقل و شریعت نظر آئیں مگر حقیقت میں مطابقِ حق ہوتے ہیں۔ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے قصے کی طرف اشارہ ہے۔ جو قرآن مجید کی سوۂ کہف کے آخر میں مفصل طور پر بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کو اپنا ایک عالم اور صاحبِ بصیرت بندہ دکھائے تو حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے چند ایسے کام کیے جو بظاہر خلافِ عدل تھے مگر ان کی بنا غیبی مصالح پر تھی جس کو عوام نہیں سمجھ سکتے بلکہ خدا کی حکمت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ان سے آگاہ نہ تھے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بار بار ان کاموں پر اعتراض کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔ ان کاموں میں سے ایک یہ تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک کھیلتے کھیلتے بچے کو قتل کر ڈالا جس کا بظاہر کوئی جرم یا قصور سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت خضر علیہ السلام نے بتایا کہ یہ بڑا ہو کر بدکار آدمی بننے والا تھا اور اس کے ماں باپ صالح و نیک ہیں۔ اس لیے اس کا اسی عمر میں قتل ہونا مناسب ہے اللہ تعالیٰ اس کے ماں باپ کو اور نیک بچہ عطا کرے گا۔
رفعِ شبہات: (1) یہاں یہ شبہ عارض ہو سکتا ہے کہ مذکورہ واقعہ سے حضرت خضر علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے علم میں افضل ہونا ثابت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ علومِ الٰہیہ جن کا تعلق اعمالِ انسانیہ سے ہے دو طرح کے ہیں، ایک علمِ احکام جو بطورِ قانونِ الٰہی و ضابطہ کلیہ ایک عام اور ہمہ گیر حکمت کے لحاظ سے نافذ ہوتا ہے اور ہر شخص اس پر عمل کرنے کے لیے مکلّف ہے۔ مثلًا یہ کہ نماز فرض ہے اور روزہ و زکوٰۃ فرض ہے، شراب حرام ہے، قتلِ نفس حرام ہے، قصاص ضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ علم خاص مرسلین صلوٰت اللہ علیہم اجمٰعین کا حصہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا علم اس صنف کا تھا۔ دوسرا علمِ لدنّی جو پہلے علم سے ادنٰی ہے وہ یہ ہے جو بعض جزئیات کے متعلق شریعت سے استثنائی طور پر اللہ تعالیٰ کسی اپنے بندے کو عطا فرماتا ہے جو اگرچہ بظاہر نظر حکم شرع سے متعارض دکھائی دے مگر حقیقت میں وہ کسی جزئی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کا علم اس دوسری قسم سے تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ عَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ (الکھف: 65) چنانچہ وہ لڑکا کھیل رہا تھا تو شرعِ الٰہی کے علم کا تقاضا یہ تھا کہ کوئی دستِ قتل اس پر دراز نہ ہو۔ مگر حضرت خضر علیہ السلام کو اس عام حکم سے استثنائی طور پر خاص اس لڑکے کے متعلق یہ جزئی علم ہو گیا کہ اس کا قتل بہتر ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ رسلِ کرام علیہم السلام کو یہ علم بھی حاصل ہو اور اسی لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو با وجود رسول ہونے کے یہ علم حاصل نہ تھا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ایک وزیرِ اعظم قلمروئے سلطنت کے انتظامی امور کا پورا ماہر ہے مگر ایک وقت اپنے ایوانِ وزارت کے پیچھے اسے معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے تو اس سے وزیر کی شانِ وزارت میں فرق نہیں آ سکتا۔ اسی طرح جزوی امور کے متعلق خبر نہ ہونے سے فضلِ رسالت میں کمی نہیں آ سکتی اور نہ یہ امر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضرت خضر علیہ السلام سے کمتر ہونے کی صحیح دلیل بن سکتا ہے کیونکہ جزئی فضیلت کلی فضیلت سے فائق نہیں ہو سکتی۔
(2) یہاں یہ شبہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا ایک امر کے متعلق شرعًا و قضاءً جو فیصلہ مسلّمہ ہو کسی کے علمِ لدنی یا الہامی و کشف کی بنا پر اس کے خلاف عمل ہو سکتا ہے؟ جیسے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے یا اس طبیبِ الٰہی نے کیا۔ جواب یہ ہے کہ حکمِ شریعت کے مقابلے میں کسی کا اپنے الہام یا لدنّی علم پر عمل کرنا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کی بعثت سے پہلے جائز تھا کیونکہ اس زمانہ میں تعددِ شرائع ممکن بلکہ واقع تھا اور ایک نبی کے زیرِ عمل ایسی شریعت ہو سکتی تھی جو دوسرے نبی کی شریعت سے موافق نہ ہو۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت ان کی اپنی امت کے لیے محدود تھی۔ حضرت خضر علیہ السلام اس پر مکلّف نہ تھے۔ بس جس طرح حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے علم کی بنا پر اس لڑکے کو قتل کر ڈالا جس کا قتل شریعتِ موسویہ کے نزدیک جائز نہ تھا۔ اسی طرح یہ ہو سکتا ہے کہ زرگر کے قتل کا فیصلہ اس طبیبِ الٰہی نے اپنے الہام کی بنا پر اپنے نبی کی شریعت کے ماتحت کیا ہو۔ جو اگرچہ اس وقت کی ظاہر شریعت کے مخالفت ہو لیکن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کی بعثت چونکہ کافۂ انام کے لیے ہے اور کوئی فرد بشر آپ کی شریعت سے خارج نہیں اس لیے اب یہ جائز نہیں کہ کوئی مُلْہَم اپنے الہام کی بنا پر حکمِ شرع کے خلاف کچھ کر سکے۔ اس عہد میں اول تو الہام کا اثر صرف مُلْہَم کی ذات تک محدود رہے گا۔ غیر کے لیے حجت نہیں ہو سکتا۔ دوسرے وہ بھی صرف مباحات میں نافذ ہو سکتا ہے۔ حلّت و حرمت پر یہ مؤثر نہیں ہوتا۔
4
آنکہ از حق باید او وحی و خطاب
ہر چہ فرماید بود عینِ صواب
ترجمہ: جو شخص خدا کی طرف سے وحی و خطاب پاتا ہے۔ وہ جو کچھ ارشاد کرے عین صواب ہوتا ہے۔
مطلب: وحی و خطاب سے حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت کی طرف اشارہ ہے اور طبیبِ الٰہی کے الہام کے واجب العمل ہونے کی تائید میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یا شاید وہ طبیب نبی ہو اور اسی کو مشرّف بوحی کہا ہو جیسے کہ سابقًا "صادقش داں کو امین و صادق ست" اور "مرحبا یا مجتبٰے یا مرتضٰے" سے اس کا اشارہ پایا گیا ہے۔
5
آنکہ جاں بخشد اگر بکشد رواست
نائب ست و دستِ او دستِ خداست
ترجمہ: وہ (خداوند عالم) جو جان عطا کرتا ہے اگر مار ڈالے تو روا ہے (اور اس کے حکم سے مارنے والا) اس کا نائب ہے اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے۔
مطلب: اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَؕ یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ﴾ (الفتح: 10) ”(اے پیغمبر !) جو لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں وہ خدا ہی سے بیعت کر رہے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے“۔
6
ہمچو اِسمٰعیلؑ پیشش سَر بنہ
شاد و خنداں پیشِ تیغش جاں بدہ
ترجمہ: حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی طرح (اپنے آپ کو قربانی کے طور پر پیش کرنے کے لیے) اس کے آگے سر رکھ اور ہنسی خوشی اس کی چھری کے آگے جان دے دے۔
مطلب: یعنی جو نائبِ حق تیرے قتل کرنے پر خدا کی طرف سے مامور ہو اور تیرا قتل اس کے نزدیک تشریعی ہو تو تیرا اس کی تیغ کے آگے سر رکھنا ابدی زندگی حاصل کرنا ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
تیر چو جاناں زند جلوہ دلے را کنند
تیغ چو سلطاں کشد مژدہ سرے را دہند
یہاں مدعا قتل سے ریاضاتِ شاقہ ہیں جن سے انسان کو فنا کا درجہ حاصل ہو۔
خلاصۂ روایت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اور انبیاء و مرسلین پر جو وحی نازل ہوتی ہے اس کی اقسام میں سے ایک خواب بھی ہے جو کبھی عینی ہوتا ہے کبھی تمثیلی۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب میں چاند، سورج اور ستاروں کو سجدہ کرتے دیکھنا اور شاہِ مصر کا خواب میں سات موٹی اور سات دبلی گائیں دیکھنا تمثیلی خواب تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب بھی تمثیلی خواب تھا اور فرزند کی تعبیر دنبہ تھی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اجتہادی غلطی سے اس کو عینی سمجھ لیا اور اپنے اکلوتے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے لگے(سرخ الفاظ میں جو عبارت ہے اس کی ہمیں کوئی سند نہیں ملی لہذا یہ مصنف کی اپنی بات ہے)۔ تاہم جنابِ باری میں یہ کمالِ رضا و تسلیم مقبول ہوا اور ندا آئی: ﴿یَاۤ اِبْرَاھِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا﴾ (الصافات: 103) ”اے ابراہیم (علیہ السلام) تم نے اپنے خواب کو سچا کر دیا“۔ پھر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بجائے دنبہ کی قربانی کی گئی۔
رفعِ اشتباہ: یہ خیال نہ کیا جائے کہ جب طبیبِ الٰہی کا قتلِ زرگر اور حضرت خضر علیہ السلام کا قتلِ طفل حکمِ الٰہی کی صحیح و مشروع صورت پر تھا تو اس کی نظیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیِ فرزند کا ذکر کیونکر مطابق ہو سکتا ہے جو مبنی بر خطا تھا کیونکہ اجتہادِ پیغمبر اگرچہ نفس الامر میں غیر صائب ہو، تا وقتیکہ اس کی خطا ظاہر نہ ہو جائے اس پر عمل واجب ہے۔
مسئلہ خلافیہ: قرآن مجید میں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے فرزند کی قربانی کرنے کا ذکر ہے۔ وہاں یہ تصریح نہیں ہے کہ وہ کون سے فرزند تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام یا حضرت اسحٰق علیہ السلام۔
یہودی چونکہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے دشمن تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ فضیلت آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے دادا اسماعیل علیہ السلام سے منسوب ہو اس لیے وہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی کے قائل ہو گئے۔ اور جمہور اہلِ اسلام کا یہ مذہب ہے کہ قربانی کے لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیش ہوئے، جیسے کہ مولانا کے کلام سے ظاہر ہے۔ مگر صوفیہ کا مسلک جداگانہ ہے چنانچہ علامہ بحر العلوم لکھتے ہیں کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے "ہمچو اسمٰعیل پیشش سر بنہ" بطریقِ تمثیل لکھ دیا جو علمًا ظاہر میں مشہور ہے، ورنہ اربابِ کشف و شہود کے نزدیک حضرت اسحاق علیہ السلام ذبیح ہیں۔ انتہٰی۔ تفسیرِ مدارک میں لکھا ہے: "وَ الْاَظْھَرُ اَنَّ الذَّبِیْحَ اِسْمَاعِیْلُ وَ ھُوَ قَوْلُ اَبِیْ بَکْرٍ وَّ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَ جَمَاعَۃٍ مِّنَ التَّابِعِیْنَ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ لِقَوْلِہٖ اَنَا ابْنُ الذَّبِیْحَیْنِ فَاَحَدُھُمَا جَدُّہٗ اِسْمٰعِیْلُ وَ الْاٰخَرُ اَبُوْہُ عَبْدُاللّٰہِ الخ" یعنی "زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں۔ اسی کے قائل حضرت ابوبکر اور ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم اور بہت سے تابعین ہیں۔ جس کی دلیل رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کا یہ قول ہے کہ میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں۔ صاحبِ مدارک لکھتے ہیں کہ ان دو ذبیحوں میں سے ایک آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے دادا اسمٰعیل علیہ السلام ہیں اور دوسرے آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے والد عبد اللہ ہیں۔ انتہٰی۔ اگر بقولِ علامہ بحر العلوم اربابِ کشف و شہود کے نزدیک ذبیح حضرت اسحٰق علیہ السلام تھے تو کیا امّتِ محمدیہ میں حضرت ابو بکر اور ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر کوئی اہلِ کشف و شہود ہو سکتا ہے۔ درِّ مختار میں لکھا ہے: "وَ الْمُخْتَارُ اَنَّ الذَّبِیْحَ اِسْمٰعِیْلُ"۔ "مختار یہ ہے کہ ذبیح اسمٰعیل علیہ السلام ہیں" اور ردّ المحتار میں لکھا ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں اور اکثر محدّثین نے اس کو ترجیح دی ہے۔ ابو حاتم نے اس کو صحیح اور بیضاوی نے اس کو اظہر کہا ہے اور ہدیٰ میں لکھا ہے کہ علماء صحابہ و تابعین کے نزدیک صواب یہی ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کے قول کو بیس سے زیادہ وجوہ رد کرتی ہیں۔ بحر میں لکھا ہے کہ حنفیہ پہلے قول پر مائل ہیں اور امام ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ نے بستان میں لکھا ہے کہ کتاب و سنت سے یہی ثابت ہے کہ ذبیح اسمٰعیل علیہ السلام تھے۔ چنانچہ قرآن سے تو یوں ثابت ہوتا ہے کہ ذبح کے قصہ کے بعد فرمایا ﴿وَ بَشَّرْنَاہُ بِاِسْحٰقَ﴾ (الصافات: 107) اور حدیث سے ثبوت یہ ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: "اَنَا ابْنُ الذَّبِیْحَیْنِ" الخ (مستدرک حاکم) مولانا شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیرۃ نبوی میں لکھتے ہیں: "توریت کی مسخ شدہ صورت اگرچہ یہودیوں کی رنگ آمیزی سے صاف طور پر حضرت اسحٰق علیہ السلام کے ذبیح ہونے پر ہی ناطق ہے مگر اس کے بھی قدرتی خدوخال جا بجا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ذبیح ہونے کی شہادت دیتے ہیں، چنانچہ لکھا ہے کہ جو انسان کا بچہ یا حیوان خدا کی نظر کیا جائے وہ پہلوٹا ہو اور اس کو باپ کے مال سے ورثہ نہ ملے اور یہ بات حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پر ہی صادق آتی ہے، وہ پہلوٹے بھی تھے اور صرف پانی کی ایک مشک کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے الگ ہوئے تھے۔ ورثۂ پدری حضرت اسحاق علیہ السلام کو ہی ملا تھا۔ غرض خود توریت کی شہادات حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ذبیح ہونے کی تائید کر رہی ہیں۔
7
تا بماند جانت خنداں تا ابد
ہمچو جانِ پاکِ احمدؐ با احد
ترجمہ: تاکہ تیری جان (ان ریاضات و مجاہدات کے نیک نتائج سے) ہمیشہ کے لیے خوشی کے ساتھ کھلی رہے۔ جیسے حضرت احمد صلّی اللہ علیہ و سلّم کی جانِ پاک (اپنی رضا و تسلیم کی بدولت) حضرتِ احد کے ساتھ قرب حاصل کر کے مسرور ہے۔
8
عاشقاں جامِ فرح آنگہ کَشند
کہ بدستِ خویش خوباں شاں کُشند
ترجمہ: عاشق لوگ (سچی) خوشی کا پیالہ اس وقت پیتے ہیں جب کہ معشوق ان کو خود اپنے ہاتھ سے قتل کرتے ہیں۔
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
اندر روشِ زندہ دلاں زندہ کسے نیست
جز کشتۂ خوباں کہ در آں مُرد و در آں زیست
غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
دمد روحِ دگر تیغِ تو در تن
سرم بردار و منت نہ بگردن
9
شاہ آں خُوں از پئے شہوت نکرد
تو رہا کُن بدگمانی و نبرد
ترجمہ: بادشاہ نے وہ خون نفسانی خواہش سے نہیں کیا۔ تم اس کے متعلق فضول بد گمانی اور جھگڑا چھوڑ دو۔
مطلب: واقعہ کی جو ظاہری صورت ہے کہ بادشاہ کنیزک پر عاشق تھا اور پھر اس نے زرگر کو قتل کرا دیا، جو کنیزک کا محبوب تھا اس سے کہیں اس غلط فہمی میں نہ پڑ جانا کہ بادشاہ نے محض رقیبانہ حسد میں اپنی شہوت پرستی کے خیال سے زرگر کو ہلاک کیا۔ کیونکہ بادشاہ تو ایک صالح، مرتاض اور مردِ پاکباز تھا۔ اس پر ایسا گمان ہی بیجا ہے باقی رہی نوعیتِ واقعہ۔ سو سینکڑوں ایسے واقعات ہماری نظر سے گزرتے ہیں کہ ہم ان کی ظاہری صورت سے کچھ قیاس کرتے ہیں۔ مگر نفس الامر میں اس کا سلسلۂ اسباب کچھ اور ہوتا ہے۔ انسان جو معمولی سے معمولی واقعات کی حقیقت فہمی سے عاجز ہے خدا کی بڑی بڑی حکمتوں کو کیا سمجھے۔
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
منجمیکہ کند صد غلط بہ تختۂ خاک
ز نورِ چرخ چہ داند اگرچہ ہشیار ست
10
تو گُماں کردی کہ کرد آلودگی
در صفا غش کے ہلد پالودگی
ترجمہ: تو نے یہ گمان کیا ہے کہ اس بادشاہ نے (اس کام سے گناہ کا) دھبہ لگا لیا ہے (بھلا) صاف (دل) میں صفائی کھوٹ کو کب چھوڑتی ہے۔
مطلب: بادشاہ ایک پاک نفس آدمی تھا جس کی طبیعت میں ریاضت نے کوئی اخلاقی آلودگی باقی نہیں چھوڑی تھی۔ پس کسی ارتکابِ شناعت کا احتمال اس کے متعلق کیونکرِ صحیح ہو سکتا ہے؟
11
بہرِ آن است ایں ریاضت ویں جفا
تا برارد کورہ از نقرہ جُفَا
ترجمہ: یہ ریاضت اور یہ جفا کشی اس لیے ہے کہ (محنت کی) بھٹی (نفس کی) چاندی سے (رذائل کا) میل نکال دے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
قفلِ دل را نیست مفتاحے بغیر از دستِ سعی
سنگ زن بر سینہ تا ایں در برویت وا شود
12
بہرِ آنست امتحانِ نیک و بد
تا بجوشد، بر سر آرد زر، زبد
ترجمہ: اچھے برے (سونے) کا امتحان بھی اس لیے ہوتا ہے کہ سونا جوش کھا کر (اپنا) میل اوپر لے آئے۔
مطلب: اوپر کے دونوں شعروں میں قرآن مجید اس آیت کا اقتباس ہے: ﴿وَ مِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءًۚ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللهُ الْاَمْثَالَ﴾ (الرعد: 17) ”یعنی اور یہ جو (لوگ) زیور یا دوسرے ساز و سامان کے لیے دھاتوں کو آگ میں تپاتے ہیں۔ اس میں بھی اسی طرح کا جھاگ (یعنی کھوٹ ملا ہوا) ہوتا ہے (اور وہ تپانے سے الگ نکل آتا ہے) یوں اللہ حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے۔ سو جھاگ تو رائیگاں جاتا ہے اور (پانی) جو لوگوں کے کام آتا ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے (الغرض) اللہ یوں مثالیں بیان فرماتا ہے۔“
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس قرآنی تمثیل میں سونے چاندی کی دھاتوں سے انسانی اخلاق اور ان کے میل سے اخلاقی رذائل مراد ہیں اور آگ میں تپانا ریاضات و مجاہدات ہیں۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
علاجِ مردہ دلاں جسم را گداختن ست
زمینِ سوختہ را ایں سراب مے باید
13
بگذر از ظنِّ خطا اے بدگماں
اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ را بخواں
ترجمہ: اے بدگمان (آدمی) بدگمانی چھوڑ دے اس (آیت) کو پڑھ (جس میں لکھا ہے) کہ بعض ظن گناہ ہے۔
مطلب: سوۂ حجرات کی اس آیت کا اقتباس ہے ﴿یَاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ (الحجرات: 12) یعنی ”مومنو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو، کیونکہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔“
14
گر نبودے کارش الہامِ اِلٰہ
اُو سگے بُودے درانندہ نہ شاہ
ترجمہ: اگر اس (بادشاہ) کا کام الہام (پر مبنی) نہ ہوتا تو (فی الواقع) وہ ایک پھاڑ کھانے والا کتا ہوتا نہ کہ بادشاہ۔
مطلب: یعنی اگر اس زرگر کو محض اپنی نفس کی خاطر قتل کیا ہوتا تو اس کا خیال اس کتے کے فعل سے مشابہ ہوتا جو کسی کو بے گناہ پھاڑ کھاتا ہے۔
15
پاک بود از شہوت و حرص و ہَوَا
نیک کرد او لیک نیکِ بدنما
ترجمہ: وہ نفسانی خواہش اور حرص و ہوا سے پاک تھا۔ اس نے جو (کچھ کیا) اچھا کیا لیکن ایسا اچھا جو (بظاہر) برا لگتا ہے۔
16
گر خِضر در بحر کشتی را شکست
صد دُرستی در شکستِ خضر ہست
ترجمہ: اگر حضرت خضر علیہ السلام نے دریا میں کشتی کو توڑ ڈالا تھا (تو، خضر علیہ السلام کے توڑ ڈالنے میں بھی سینکڑوں مرمتیں (مخفی) ہیں۔
مطلب: اوپر بیان ہو چکا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کئی ایسے کام کئے تھے جو بظاہر قابلِ اعتراض معلوم ہوتے تھے۔ مگر ہر کام کسی نہ کسی مصلحت پر مبنی تھا ان میں سے ایک کام یہ تھا کہ انہوں نے دریا میں ایک غریب ملاح کی کشتی توڑ ڈالی اور مصلحت اس میں یہ تھی کہ وہ کشتی اس غاصب و ظالم بادشاہ کی دستبرد سے بچ جائے۔ جس کے حکم سے اس وقت تمام کشتیاں ضبط ہونے والی تھیں چنانچہ اس کی کشتی شکستہ دیکھ کر چھوڑ دی گئی۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
بسا شکست کزو کارہا درست شود
کلیدِ زرقِ گدا پائے لنگ و دستِ شل ست
17
وہمِ موسٰیؑ با ہمہ نور و ہنر
شُد اَزَاں محجوب تو بے پَر مپر
ترجمہ: (اس کا راز تم تو کیا سمجھو) خود موسیٰ علیہ السلام کا نورانی اور خوبی بھرا خیال بھی (اس کے سمجھنے میں) دھوکا کھا گیا پس تم بے پر کی نہ اڑاؤ۔
مطلب: جب قدرت کے مخفی اسرار کا یہ عالم ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جیسے اُولو العزم پیغمبر اپنے سے کم رتبہ نبی خضر علیہ السلام کے فعل کی حکمت کو نہ سمجھ سکے تو تم کم رتبہ ہو کر بڑے لوگوں کے اسرار کا انکار کیوں کرتے ہو۔
رفعِ اشتباہ: (1) بعض جاہل فقیر کہا کرتے ہیں کہ شریعت یعنی علمِ ظاہر سے طریقت یعنی علمِ باطن افضل ہے اور اس کی دلیل میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیھما السلام کا مذکورہ قصہ پیش کیا کرتے ہیں۔ یہ محض لفظی غلط فہمی ہے۔ طریقت شریعت کے برعکس یا اس سے مختلف نہیں ہے بلکہ شریعت ہی کا ایک جزو ہے شریعت کے معنٰی ہیں ظاہری و باطنی اصلاح کا طریقہ اور یہ طریقہ دو شعبوں پر منقسم ہو جاتا ہے۔ ایک شعبہ علمی جو علمِ عقائد، علمِ فقہ، علمِ اخلاق پر مشتمل ہے۔ دوسرا شعبہ عملی جو مجاہدات و ریاضات سے سر انجام پاتا ہے اور جس کا نام تصوف یا سلوک یا معرفت ہے اسی کو ایک حیثیت سے علمِ باطن کہتے ہیں اور ان دونوں کے مجموعہ کا نام شریعت ہے جس کی ایک نہایت روشن برہان یہ ہے کہ باطنی فیوض کے بڑے سے بڑے سرچشموں سے ایک حضرت علی کرم اللہ وجہہ تسلیم کئے جاتے ہیں جن کو سالکانِ باکمال سے لے کر مبتدع فقراء تک سب کے سب طریقت کے امام الائمہ مانتے ہیں اور ساتھ ہی اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تمام فضائل ظاہری و باطنی رسولِ مقبول صلّی اللہ علیہ و سلّم کے اتباع سے پیدا ہوئے ہیں لیکن رسولِ مقبول صلّی اللہ علیہ و سلّم صاحبِ شریعت کہلاتے ہیں حالانکہ آپ سے نہ صرف علمِ ظاہری شائع ہوا بلکہ علمِ باطنی کے مورث بھی آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم ہی ہیں تو گویا آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم کی تمام تعلیمات و افاضات کا شریعت کے سوا اور کوئی نام نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ علمِ ظاہری جو فقہاء و محدثین کے حصہ میں آیا اور علمِ باطنی جس کے اہلِ سلوک وارث ہوئے دونوں کا مجموعہ شریعت ہے۔ پس جزو کل سے کیونکر افضل ہو سکتا ہے؟
(2) رہی یہ بات کہ مذکورہ روایت کی رُو سے حضرت موسٰی علیہ السلام علمِ باطن میں حضرت خضر علیہ السلام سے کم ثابت ہوئے، یہ محض سوءِ فہم ہے جب شریعت علمِ ظاہر و باطن کا مجموعہ ٹھہری تو کوئی رسولِ اولوالعزم جو صاحبِ شریعت ہو، جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے، علمِ باطن میں کسی نبی سے پیچھے نہیں رہ سکتا۔ لیکن قتلِ صبی اور شکستِ کشتی اور تعمیرِ جدار کی حکمتوں میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام لاعلم رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک رسولِ صاحبِ شریعت کے لیے یہ لازم امر نہیں ہے کہ وہ تمام جزئیات کی حکمتوں پر حاوی ہو۔ حضرت خضر علیہ السلام بعض جزوی حالات میں اصلاح النّاس پر مامور تھے اور بقول بعض علماء و صوفیہ اب بھی ہیں اور منفرد واقعات کے متعلق ان کو خاص انکشافات و الہامات ہو جاتے ہیں اور یہ مقام حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے رسولِ گرامی قدر و صاحبِ کتاب و حاملِ شریعت کے مقام سے افضل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ اشخاصِ خاص کے لیے نہیں بلکہ جمیع امت کے لیے ایک شریعت جامعہ اور ضابطہ عمومیہ کے امین ہیں جو تمام افرادِ امّت پر بطور قانون واجب العمل نافذ تھا۔ اور ہر شخص اس پر مکلّف تھا اور اس سے تکمیلِ امّت مقصود تھی۔ بخلاف اس کے حضرت خضر علیہ السلام کے الہامات صرف خضر علیہ السلام کے لیے معمول بہ ہیں۔ دوسرا شخص ان پر مکلّف نہیں اور ان سے تکمیلِ امت نہیں بلکہ اصلاحِ بعض افراد منظور ہے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کا علم ظاہرًا و باطنًا افضل و اکمل ہے حضرت خضر علیہ السلام کے علم سے۔ مولانا کے الفاظ بھی بہ بیانِ واضح بتا رہے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کا علم افضل تھا ع وہمِ موسیٰ با ہمہ نور و ہنر۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علمی نور و ہنر کی شان بمقابلہ حضرت خضر علیہ السلام کے بڑھ کر تھی اور جبھی تو ان کا اسرارِ خضریہ سے خالی الذہن ہونا باعثِ عبرت ہے ورنہ اگر حضرت خضر علیہ السلام کا علم اعلیٰ و واسع ہوتا تو اس کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ادنیٰ و اقل علم پر غالب آ جانا ہمارے لیے کوئی مایۂ عبرت نہ تھا اور نہ مولانا کے لیے اس میں کچھ تمثیل لانے کی خصوصیت تھی۔
(3) ان دونوں پیغمبروں کی باہم ملاقات ہونے اور مذکورہ جزوی واقعات کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خفت اٹھانے میں حکمت یہ تھی کہ انہوں نے ایک سائل کے جواب میں کہا تھا "اَنَا اَعْلَمُ" یعنی میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں تو مشیتِ خداوندی ان پر یہ ظاہر کر دینے کی مقتضی ہوئی کہ بعض لوگ ایسے جزوی و مقامی علوم سے واقف ہیں جو اگرچہ آپ کے علومِ الٰہیہ اور معارفِ عالیہ سے ان کا رتبہ کم ہو مگر وہ آپ کی نظر سے مخفی ہیں۔
18
آں گلِ سرخ است، تو خونش مخواں
مستِ عقلست او، تو مجنُونش مداں
ترجمہ: وہ (بادشاہ) گلاب کا پھول ہے تم اس کو خون نہ کہو۔ وہ عقل سے مست ہے تم اس کو دیوانہ نہ سمجھو۔
مطلب: کسی کی ظاہری صورت و ہیئت پر نظر کر کے کچھ کا کچھ نہ سمجھ لینا چاہیے۔ چنانچہ معرفتِ حق کمالِ عقل ہے اگر ایک شخص اس رتبہ کو پہنچ کر مشاہدۂ جمال سے مست ہو گیا تو اس کو ایک فاتر العقل دیوانہ نہ کہو وہ تو کامل العقل ہے۔ بقول سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
سعدیا نزدیکِ رائے عاشقاں
خلق مجنوں اند و مجنوں عاقل ست
18
گر بُدے خونِ مسلماں کامِ اُو
کافرم! گر بُردمے من نامِ اُو
ترجمہ: اگر مسلمان کا خون (کرنا) اس کا مقصود ہوتا تو میں کافر ہوتا اگر اس کا نام تک بھی لیتا (مدح کرنا تو بڑی بات ہے)۔
19
مے بلرزد عرش از مدحِ شقی
بدگماں گردد ز مدحش متقی
ترجمہ: بد ذات آدمی کی تعریف سے عرش کانپتا ہے۔ اس کی تعریف سے پرہیزگار بدگمان ہو جاتا ہے۔

مطلب: یہ اس حدیث کا مضمون ہے: "عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا مُدِحَ الْفَاسِقُ غَضِبَ الرَّبُّ تَعَالىٰ وَاهْتَزَّ لَهٗ الْعَرْشُ"۔ (مشکوٰۃ) یعنی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا جب بدکار آدمی کی مدح کی جاتی ہے تو یہ پروردگار کے غضب کا موجب ہے اور اس کا عرش کانپنے لگتا ہے۔ مولانا شمس الاسلام کیتھلی مرحوم ؎

جانبِ مدحتِ دوناں نگراید دلِ من

لرزد از مدحِ شقی عرشِ خدائے ذوالمنن

دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی خوشامدی کسی شقی و فاسق کی مدح کرتا ہے تو صالح لوگوں کو یہ بدگمانی ہوتی ہے کہ مادح بھی اسی قماش کا ہوگا۔ "من ترا حاجی بگویم تو مرا ملّا بگو"۔ یا ایک اجنبی نیک دل آدمی کو یہ مدح سن کر ممدوح کے متعلق بدگمانی ہوتی ہے اور وہ ایک بدکار کو نیکوکار سمجھنے لگتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات خراب نکلتا ہے۔

20

شاہ بود و شاہ بس آگاہ بود

خاص بود و خاصۂ اللہ بود

ترجمہ: وہ بادشاہ تھا اور بادشاہ بھی بڑا عارف تھا۔ وہ ایک خاص (آدمی) تھا اور خاصانِ خُدا میں سے تھا۔

؎ تاج کو تھا ناز اس پر مفتخر اس سے سریر

تخت پر شہ تھا مصلّائے عبادت پر فقیر

21

آں کسے را کِش چنیں شاہے کُشد

سُوئے تخت و بہتریں جاہے کَشد

ترجمہ: جس شخص کو ایسا بادشاہ قتل کرے (حقیقت میں اس کو وہ قتل نہیں کرتا بلکہ نجاتِ ابدی کے) تخت اور بلند ترین درجہ کی طرف لے جاتا ہے۔

مطلب: یہ قتل زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے اور قابلِ شکر ہے۔ بقول امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

سلطانِ مرا عمر فزوں باد بدولت

کز دولتِ او خلعتِ عاشق کفنے شد

کیونکہ جس طرح حضرت خضر علیہ السلام کے ہاتھ سے مقتول ہونے والا طفل بلوغ سے پہلے قتل ہو کر گناہوں سے بچ گیا اور مستحقِ بہشت ہو گیا، کیا تعجب ہے کہ زرگر کو بھی اپنے قتل سے کوئی ایسا ہی نفع ہوا ہو۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

سرِ قبول بیاید نہاد و گردنِ طوع

کہ آنچہ حاکمِ عادل کند ہمہ دادست

22

نِیم جاں بِستاند و صد جاں دہد

آنچہ درو ہمت نیاید آں دہد

ترجمہ: (وہ) آدھی جان لے گا تو سو جانیں دے بھی دے گا اور وہ (انعام) دے گا کہ تمہارے خیال میں بھی نہ آئے۔ بقول عارفے ؎

کشتگانِ خنجرِ تسلیم را

ہر زمان از غیب جانے دیگرست

23

قہرِ خاصے از برائے لطفِ عام

شرع میدارد رَوا بگزار گام

ترجمہ: عام لوگوں پر (امن و انصاف) کی مہربانی (کرنے) کے لیے شرع (کسی فرد) خاص کا (حبس یا قتل سے) مقہور بنانا، جائز رکھتی ہے (پس معترضانہ طریق پر) گام (زن ہونا) چھوڑ دے۔

مطلب: اوپر فرمایا تھا زرگر کا قتل اس کے لیے عین فوز و فلاح تھا کیونکہ مشیتِ ایزدی عمومًا بندے کے لیے بہتری کی بھی مقتضی ہے لیکن اگر مخالف اس کو تسلیم نہ کرے تو مولانا علٰی سبیل التّنزل فرماتے ہیں کہ بالفرض اگر یہ قتل زرگر کے لیے عذاب اور ضرر ہی تھا تو بھی شبہ اور اعتراض فضول ہے کیونکہ ایک فردِ خاص کا ضرر منفعتِ عامّہ کے لیے شرع کے نزدیک جائز ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ محّدث دہلوی اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں نبی کے اوصاف کے بیان میں فرماتے ہیں: "لَا یُؤْذِیْ اَحَدًا اِلَّا بِالْغَرْضِ بِاَنْ یَّتَوَقَّعَ النَّفْعَ الْعَامَّ عَلَیْہِ" یعنی "نبی کسی کو ایذا نہیں دیتا مگر جب کہ اس ایذا سے نفعِ عام کی توقّع ہو"۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

جہاں سوز را کشتہ بہتر چراغ

یکے بہ درِ آتش کہ خلقے بداغ

اور زرگر کے زندہ رہنے سے مضرّتِ عام یہ تھی کہ کنیزک اس کے عشق میں بادشاہ سے اعراض رکھتی اور وہ عادل بادشاہ کنیزک کے عشق میں ہلاک ہو جاتا تو اہلِ ملک اس کے سایہ سے محروم ہو جاتے۔ باقی رہی یہ بات کہ منفعتِ عامّہ کے لیے ایذائے خاص کی شرع میں اجازت ہے۔ سو مضرّتِ عام کو روکنے کے لیے ایک شخص کو ضرر رسانی میں، اگر ضرر سے حبس یا حجر وغیرہ کوئی ایذاء ما دون القتل مراد ہے، تو ہماری شریعت میں بے شک مصلحتِ عامہ پر ایک شخص کی مصلحت کو قربان کرنے کی اجازت ہے اگرچہ وہ بے گناہ ہی ہو۔ جس کی تفصیل کتبِ فقہ کی کتاب الحجر میں درج ہے۔ لیکن قتل کے ساتھ ضرر رسانی منفعتِ عامّہ کے لیے صرف قتلِ نفس یا ارتداد یا بغاوت جیسے جرائم کے بدلے میں ہی ہوتی ہے اور ایسے ضررِ خاص سے منفعتِ عام ظاہر ہے۔ بحکمِ ﴿وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُوْلِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 179) ”عقلمندو! قصاص کے قاعدے میں تمہارے لیے زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی سے) باز رہو“۔ قصاص میں زندگی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جانوں کی حفاظت ہے کہ قصاص کے ڈر سے لوگ خونریزی سے پرہیز کرتے ہیں مگر قصہ مذکور میں جو زرگر قتل ہوا تو بظاہر اس سے قتل و ارتداد وغیرہ کی قسم کا کوئی جرم سرزد نہیں ہوا تھا۔ اس طرح کا قتل ہماری شریعت میں ہرگز جائز نہیں۔ ہاں ممکن ہے کہ سابقہ شرائع میں جائز ہو۔ جیسے کہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے گلستان میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کسی مرضِ ہائل میں مبتلا ہو گیا، حکمائے یونان نے زہرۂ انسان اس کی دوا تجویز کی ”قاضی فتوٰی داد کو خونِ یکے از رعیت ریختن سلامتِ نفسِ پادشاہ را روا باشد“ اور یہ بھی اسلام سے پہلے کا قصہ معلوم ہوتا ہے۔ پس مولانا کی مراد یا تو ضرر سے ضرر ما دون القتل ہے یا شرع سے شرائعِ قدیمہ۔

24

گر ندیدے سُودِ اُو در قہرِ اُو

کے شدے آں لطفِ مطلق قہر جُو

ترجمہ: اگر وہ اس (زرگر) پر قہر کرنے میں اس کا فائدہ نہ سمجھتا تو وہ سراپائے لطف (ہو کر) کیوں (ایسا) غضب ڈھاتا۔

مطلب: اس میں رجوع ہے مضمونِ سابق "آں کسے را کش الخ" کی طرف۔

25

طِفل می لرزد ز نیشِ احتجام

مادرِ مشفق دراں غم شاد کام

ترجمہ: بچہ پچھنے کے زخم سے ڈر کر کانپتا ہے (لیکن) محبت کی ماری ماں (اس کے) اس غم میں (بھی اس کے پچھنے لگوانے میں) خوش ہے (کیونکہ یہ زخم مفیدِ صحت ہے)۔

مطلب: یہ مثال ہے مضمونِ سابق کی کہ زرگر کا دردِ مصیبت حقیقت میں شربتِ عافیت تھا۔ بقول امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

صد شربتِ عافیت شمار ست

یک چاشنئے دردِ ما را

26

تو قیاس از خویش میگیری و لیک

دُور دُور افتادۂ بنگر تو نیک

ترجمہ: تو (افعالِ قدرت کو) اپنے اوپر قیاس کرتا ہے لیکن اچھی طرح غور کرے تو تجھ کو معلوم ہو جائے گا کہ (تو حقیقت سے) بہت دور جا پڑا ہے۔

27

پیشتر آ تا بگویم قصّۂ

بو کہ یابی از بیانم حصّۂ

ترجمہ: ذرا اور آگے آؤ تاکہ میں ایک قصہ سناؤں۔ شاید اس سے تم میرے بیان کو کچھ نہ کچھ سمجھ جاؤ۔