دفتر اول: حکایت: 11
حکایتِ مردِ بقّال و روغن ریختن طوطی
ایک دکاندار اور طوطے کے تیل گرانے کا قصّہ
1
بُود بقّالے مر اُو را طوطیے
خوشنوا و سبز و گویا طوطیے
ترجمہ: کوئی بقّال تھا (اور) اس کا ایک خوش آواز اور سبز اور بولنے والا طوطا تھا۔
2
بر دکاں بودے نگہبانِ دکاں
نکتہ گفتے با ہمہ سوداگراں
ترجمہ: وہ طوطا دکان پر بیٹھا دکان کی حفاظت کیا کرتا (اور) تمام خریداروں سے دلچسپ باتیں کرتا رہتا۔
3
در خطابِ آدمی ناطِق بُدے
در نوائے طوطیاں حاذِق بُدے
ترجمہ: آدمی سے مخاطب ہو کر عقل کی باتیں کرتا تھا۔ طوطوں کے چہچہے میں بڑا ماہر تھا۔
4
خواجہ روزے سُوئے خانہ رفتہ بود
در دُکاں طُوطی نگہبانی نمود
ترجمہ: مالک ایک دن گھر کی طرف گیا ہوا تھا۔ طوطا دکان کی حفاظت کر رہا تھا۔
5
گربۂ برجست ناگہ از دُکان
بہرِ موشے طُوطیک از بیمِ جاں
6
جَست از صدرِ دُکاں بہرِ گریخت
شیشہائے روغنِ بادام ریخت
ترجمہ: اچانک دکان سے ایک بلی کسی چوہیا (کو پکڑنے) کے لیے اچھلی تو بے چارہ طوطا جان کے خوف سے بھاگنے کے لیے دکان کے صدر سے اچھل پڑا (اور اس حرکت سے) اس نے روغن بادام کی بوتلیں گرا دیں۔
7
از سُوئے خانہ بیامد خواجہ اش
بر دکاں بنشست فارِغ شاد و خوش
ترجمہ: اس کا مالک گھر سے آیا اور بے خبری میں فارغ البال اور خوش خوش دکان پر بیٹھ گیا۔
8
دِید پُر روغن دُکان و جاش چرب
بر سرش زد گشت طوطی کل ز ضَرب
ترجمہ: (مگر جب) دکان کو روغن سے پر اور اپنی جگہ کو چکنی پایا (تو) اس (طوطے) کے سر پر (کچھ) مارا (اس) چوٹ سے طوطا گنجا ہو گیا۔
9
روزکے چندے سخن کوتاہ کرد
مردِ بقّال از ندامت آہ کرد
ترجمہ: (پھر طوطے نے) چند روز تک بولنا چھوڑ دیا۔ مردِ بقّال نے (اپنے کئے پر) ندامت سے افسوس کیا۔
10
رِیش برمیکَند و میگفت اے دریغ
کافتابِ نعمتم شد زیرِ میغ
ترجمہ: (حسرت کے ساتھ) ڈاڑھی نوچتا تھا اور کہتا تھا۔ افسوس! میری نعمت کا آفتاب بادل کے نیچے آ گیا۔
11
دستِ من بشکستہ بودے آں زماں
چُوں زدم من بر سرِ آں خوش زباں
ترجمہ: الٰہی اس وقت میرا ہاتھ ہی ٹوٹ گیا ہوتا۔ جب میں نے اس خوش زباں (پرندے) کے سر پر چوٹ لگائی تھی۔
12
ہدیہ ہا میداد ہر درویش را
تا بیابد نطقِ مُرغِ خویش را
ترجمہ: ہر فقیر کو نذریں دیتا تھا۔ تاکہ کسی طرح اپنے پرندے کی گویائی (سے پھر لذت) حاصل کرے۔
13
بعد سِہ روز و سِہ شب حیران و زار
بر دُکاں بِنشستہ بُد نومیدوار
ترجمہ: تین دن اور تین رات کے بعد جب کہ، وہ دکان پر حیران و بد حال اور مایوسی کے عالم میں بیٹھا تھا۔
14
با ہزاراں غصّہ و غم گشت جفت
کاے عجب ایں مرغ کَے آید بگفت
ترجمہ: (اور جبکہ) وہ بے انتہا غم و غصہ میں مبتلا ہو رہا تھا کہ تعجّب ہے یہ پرندہ کب بولنے لگے گا۔
15
می نمود آں مرغ ہر گوں شگفت
در تعجب لب بدنداں می گرفت
ترجمہ: (اور) ہر طرح کی عجیب چیز اس پرندے کو دکھاتا تھا (کہ کسی طرح بولے) اور (جب وہ نہیں بولتا تھا تو) تعجب سے دانتوں میں (اپنے) لب کو دباتا تھا۔
16
دمبدم میگفت از ہر در سخن
تاکِہ باشد کاندر آید در سخن
ترجمہ: (اور) دم بدم (ہر قسم کی) ادھر اُدھر کی باتیں کرتا تھا تاکہ شاید (یہ پرندہ) باتیں کرنے لگے۔
17
براُمیدِ آنکہ مرغ آید بگفت
چشمِ او را با صُُوَر میکرد جفت
ترجمہ: (اور) اس امید پر کہ پرندہ بولنے لگے اس کی آنکھ کو تصویروں سے مقابل کرتا تھا۔
18
ناگہانے جَو لقیے میگذشت
با سرِ بے مُو بسانِ طاس و طشت
ترجمہ: (اس وقت) اچانک ایک کمبل پوش جا رہا تھا جس کا بالوں کے بغیر سر تھال اور پرات کی طرح صاف تھا۔
19
طوطی اندر گفت آمد در زماں
بانگ بر وے زد بگفتش در عیاں
ترجمہ: (اس کو دیکھتے ہی) فورًا طوطا بول اٹھا (اور) اس کو چلا کر برملا کہنے لگا۔
20
کز چہ اَے کَل با کَلاں آمیختی
تو مگر از شِیشۂ روغن ریختی
ترجمہ: کہ اے گنجے! کس سبب سے تو گنجوں میں شامل ہوا؟ شاید تو نے (بھی) بوتل سے تیل گرا دیا ہوگا۔
21
از قیاسش خندہ آمد خلق را
کو چُو خود پنداشت صاحبِ دلق را
ترجمہ: اس (طوطے) کے اس قیاس سے لوگوں کو ہنسی آئی کہ اس نے کملی پوش کو اپنے جیسا ہی سمجھا۔
رفعِ اشتباہ: اس حکایت میں طوطے کے متعلق جو نطق، نکتہ گوئی، خطابِ آدمی، قیاس، پنداشت وغیرہ اوصافِ مخصوصہ بذوی العقول کا ایراد ہوا ہے بطور افتراض ہوا ہے، کیونکہ یہ حکایت مثال کی قبیل سے ہے۔ ورنہ طوطے کے نقلِ کلمات و محاکاتِ الفاظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اپنے الفاظ کو سمجھتا اور ان کو کچھ سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ بقول کسے ؎
آدمیت اور شے ہے لکھنا پڑھنا اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
22
کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن سِیر شیر
ترجمہ: (اے عزیز) پاک لوگوں کے معاملہ کو اپنے پر قیاس نہ کرو۔ سیر (لہسن) اگرچہ لکھنے میں شیر (یعنی دودھ کا ہم شکل) ہوتا ہے (مگر دونوں کے طعم میں اور خواص میں بڑا فرق ہے)۔
الخلاف: بعض نسخوں میں دوسرا مصرعہ یوں درج ہے: "گرچہ باشد در نوشتن شیر شیر"۔ پہلا "شیر" بیاے مجہول بمعنٰی اسد مشہور درندہ ہے، دوسرا "شیر" بیائے معروف دودھ کے معنٰی میں ہے۔ ایک صاحب نے راقم سے بیان فرمایا کہ ہم نے بعض مثنوی پڑھنے والوں سے اس شعر کے بعد یہ شعر بھی سنا ہے۔
23
شِیر آں باشد کہ مرد او را خورد
شیر آں باشد کہ مردم را درد
ترجمہ: (یعنی اگرچہ شِیر اور شیر کتابت میں یکساں نظر آتے ہیں مگر) شِیر (یعنی دودھ) وہ چیز ہوتی ہے جس کو آدمی پیتا ہے (اور) شیر وہ جانور ہوتا ہے جو لوگوں کو پھاڑ ڈالتا ہے (ممکن ہے بعض نسخوں میں شعر موجود ہو احتیاطًا درج کیا گیا۔)
24
جملہ عالم زیں سبب گمراہ شُد
کم کسے ز ابدالِ حق آگاہ شُد
ترجمہ: اس غلط قیاس کے سبب سے تمام جہاں گمراہ ہو گیا (اور) شاذ و نادر ہی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ابدال سے واقف ہوا۔
مطلب: ابدال لوگوں میں ملے جلے رہتے ہیں جن کی شناخت کے لیے معنٰی شناس نظر اور صحیح بصیرت کی ضرورت ہے لیکن جو شخص سب کو اپنے اوپر قیاس کرتا ہے وہ ان کو نہیں پہچان سکتا۔ مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ شیخِ اکبر قدس سرہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابدال وہ اولیاء اللہ ہوتے ہیں جو کسی دوسرے شخص کو اپنی شکل و صورت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ حتّٰی کہ دوسرے دیکھنے والے کو اس تبدیلی کا گمان بھی نہ گزرے۔ ان کی تعداد سات ہے اور ساتوں ابدال اقالیمِ سبعہ کے قطب ہیں۔ کبھی نقباء کو بھی ابدال کہہ دیتے ہیں جن کی تعداد بارہ سے کم و بیش نہیں ہوتی جو دوازدہ بروج کی تعداد پر ہے اور ہر نقیب کو ایک خاص برج کی تاثیرِ کواکب و خواصِ نجوم سے تعلق ہے۔ نقباء علمِ شرائع میں ماہر اور مکرِ نفوس سے واقف ہوتے ہیں اور ابلیس کو دیکھتے ہیں کبھی رجبیوں کو بھی ابدال کہہ دیتے ہی جن کی تعداد پوری چالیس (40) ہے ان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ لوگ ماہ رجب میں اپنے مقام پر مقیم ہوتے ہیں اور باقی سال بھر گشت کرتے رہتے ہیں۔ اس ماہ کے پہلے دن ان پر اس قدر ثقل غالب ہوتا ہے کہ ایک انگلی تک کو حرکت میں نہیں لا سکتے۔ دوسرے روز اس ثقل میں تخفیف اور تیسرے روز بالکل افاقہ ہو جاتا ہے۔ ان میں سے بعض کو سال بھر کشف ہوتا ہے۔ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود ایک رجبی بزرگ کی زیارت کی ہے جن پر روافض کا حال منکشف ہو جاتا تھا یہ لوگ ان کو بصورتِ خنزیر نظر آتے تھے اور جب کوئی ان میں سے صدقِ دل سے تائب ہو جاتا تو وہ ان کو بشکلِ انسان دکھائی دینے لگتا تھا۔ اگر کوئی جھوٹے دل سے کہتا کہ میں رفض سے توبہ کرتا ہوں تو وہ بزرگ اس کو بدستور بشکلِ خنزیر پا کر کہہ دیتے تھے کہ تم نے صدقِ دل سے توبہ نہیں کی۔
25
اشْقِیا رادِیدۂ بِینا نبُود
نیک و بد در دیدہ شاں یکساں نمود
ترجمہ: یہ بدبخت لوگ حق بین آنکھوں سے محروم تھے۔ (اس لیے) ان کی نظر میں نیک اور بد یکساں دکھائی دیا (چنانچہ):
الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخے میں نہیں ہے۔
26
ہمسری با انبیا برداشتند
اَولیا را ہمچو خود پِنداشتند
ترجمہ: (اپنے غلط قیاس سے کبھی) انہوں نے انبیاء کی برابری کا دعوٰی کھڑا کر دیا ہے (کبھی) اولیاء کو اپنے برابر سمجھ لیا۔
مطلب: یہی حال ہے آج کل کے بعض بے ادب و خیرہ سر اسلامی فرقوں کا ہے، جو اولیاء کی وقعت اپنے دل میں نہیں رکھتے اور اس میں شک نہیں کہ عوام کا انبیاء کی برابری کا دعویٰ کرنا پرلے درجے کی شقاوت ہے تو اولیاء کی برابری کرنا انتہائی بے ادبی ہے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
گفت بر خورشید کہ من چشمۂ نورم
دانند بزرگاں کہ سزاوارِ سہا نیست
27
گفتہ اینک ما بَشَر ایشاں بشر
ما و ایشاں بستۂ خوابیم و خور
ترجمہ: (اگر کسی نے اس سوءِ ادب پر اعتراض کیا تو) کہہ دیا ایلو! ہم بھی انسان یہ بھی انسان۔ ہم اور یہ دونوں، سونے اور کھانے کے پابند ہیں (پھر فرق کیا ہوا؟)۔
مطلب: پہلا مصرعہ ترجمہ ہے ادعائے ہمسری کے اس مشہور مقولہ کا کہ "نَحْنُ رِجَالٌ وَّ ھُمْ رِجَالٌ"۔ ”ہم بھی آدمی ہیں وہ بھی آدمی“ اور اس میں تلمیح ہے۔ قرآن شریف کی اس آیت کی طرف کہ ﴿قَالُوْۤا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا﴾ (یٰس: 15) ”کفار نے کہا تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہو“ دوسرے مصرعہ میں اس آیت کی طرف تلمیح ہے کہ ﴿وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا﴾ (فرقان: 7) ”اور (کافر) کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں پھرتا ہے۔ اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیج دیا گیا کہ اس کے ساتھ ہو کر وہ بھی (لوگوں کو خدا کے عذاب سے) ڈراتا۔“
28
اِیں ندانستند ایشاں ازعَمٰی
ہست فرقے درمیاں بے مُنتہٰی
ترجمہ: (مگر) انہوں نے اپنی کور باطنی سے یہ نہ سمجھا کہ دونوں (فریقوں میں) بے انتہا فرق ہے۔
مطلب: ان لوگوں کی چشمِ بصیرت میں نورِ تمیز نہیں کہ گوہر و سنگ کو ہم رتبہ سمجھتے ہیں۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
نیک و بد را امتیازے نیست در بازارِ دہر
مے شود در ہر ترازو سنگ با گوہر طرف
29
ہر دو گوں زنبور خوردند از محل
لیک شد زاں نیش و زاں دیگر عسل
ترجمہ: (مثلاً) ہر دو رنگ کی زنبوروں (یعنی بھڑ اور شہد کی مکھی) نے (پھولوں اور شگوفوں کا رس) ایک ہی جگہ سے چوسا۔ مگر اس سے ڈنگ پیدا ہوئی اور اس دوسری سے شہد۔
مطلب: ڈنگ شہد کی مکھی میں بھی ہوتا ہے مگر اس کی اذیت بھڑ کے ڈنگ سے کم ہوتی ہے اور ایک قسم کی مصری بنانا بھڑ کا کام بھی ہے مگر وہ شہد کی مکھی کے کام سے کم ہے، لہٰذا ڈنگ اور شہد کی تخصیص ایک ایک کے ساتھ اضافی زیادتی کے لحاظ سے ہے۔
اختلاف: بعض نسخوں میں پہلا مصرعہ یوں ہے: "ہر دو یک گل خور و زنبور و نحل"۔ اور ظاہر ہے کہ اس نسخہ میں کلمہ "گل" اور "نحل" نے ترکیبی تکلّفات کی احتیاج باقی نہیں رہنے دی۔
30
ہر دو گُوں آ ہُو گیا خوردند و آب
زیں یکے سرگیں شد و زاں مُشکناب
ترجمہ: (دوسری مثال یہ کہ) دونوں قسم کے ہرنوں نے (ایک ہی طرح کی) گھاس چری اور ایک گھاٹ سے پانی پیا۔ (لیکن) اس ایک سے تو مینگنیاں بن گئیں اور اس سے خالص کستوری۔
31
ہر دو نَے خوردند از یک آبخور
آں یکے خالی و آں پر از شکر
ترجمہ: (تیسری مثال یہ کہ) دونوں (قسم کے) نَے ایک ہی گھاٹ سے سیراب ہوئے لیکن ایک کھوکھلا ہے اور وہ دوسرا، شکر (بننے والے رس) سے پر ہے۔
مطلب: اوپر کے تین شعروں میں اس مضمون کی توضیح کے لیے کہ "ہست فرقے درمیان بے منتہٰی" تین مثالیں دی ہیں۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ ہر چند دو چیزیں، ہم شکل، ہم جنس اور ہم اصل ہوں مگر ان کے خواص اور افعال الگ الگ ہو سکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں۔
32
صد ہزاراں ایں چنیں اشباہ بیں
فرق شاں ہفتاد سالہ راہ بیں
ترجمہ: ایسی ہی لاکھوں نظریں دیکھو (گے) ان میں ستر (70) برس کی راہ کا فرق پاؤ گے۔
33
ایں خورد گردد پلِیدی زو جُدا
واں خورد گردد ہمہ نُورِ خُدا
ترجمہ: یہ (غذا) کھاتا ہے تو اس سے نجاست بنتی ہے اور وہ جو کھاتا ہے تو سب کا سب نورِ خدا بن جاتا ہے۔
34
ایں خورد زاید ہمہ بخل و حَسَد
واں خورد زاید ہمہ نورِ اَحَد
ترجمہ: یہ کھاتا ہے تو سراسر بخل اور حسد پیدا ہوتا ہے اور وہ کھاتا ہے تو نورِ خدا (یعنی معرفت اور عشقِ حقیقی) پیدا ہوتا ہے۔
مطلب: اس شعر میں بخل و حسد کے الفاظ سے شعرِ سابق کے لفظِ پلیدی کی تفسیر کی گئی ہے۔ انسان کے تمام افعال کا مَبدا اس کا نفسِ ناطقہ اور اس کا آلۂ عمل اس کا جسمِ عنصری ہے جس کے بغیر نفسِ ناطقہ سے کوئی ایسا عمل جس پر جزا و سزا مترتب ہو وقوع میں نہیں آ سکتا۔ پس نفس سے اعمال کا صدور و وقوع پانا جسم کی سلامتی پر موقوف ہے اور جسم کا قوام و قیام غذا کے ساتھ وابستہ ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام نیک و بد آدمی غذا تو ایک ہی قسم کی کھاتے ہیں مگر نیک آدمی کی غذا اس کے جسم کی صحت کو بحال رکھ کر اس سے نیک اعمال کے صادر ہونے کا باعث بن جاتی ہے اور برے آدمی کی غذا اس کے جسم کو جوع و عطش کی آفات سے محفوظ رکھ کر گویا اس کو برے افعال کے ارتکاب کے قابل بناتی ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است
تو معتقد کہ زیستن از بہرِ خوردن است
35
اِیں زمیں پاک و آں شورست و بد
اِیں فرشتہ پاک و آں دیوست دَد
ترجمہ: یہ زمین پاک ہے اور وہ شور اور خراب ہے۔ یہ پاک فرشتہ ہے اور وہ شیطان اور درندہ ہے (یہ مثال ہے سعید و شقی کی)
36
ہر دو صورت گر بہم ماند رواست
آبِ تلخ و آبِ شِیریں را صفاست
ترجمہ: اگر (سعید و شقی) دونوں (کی) صورتیں ملتی جلتی ہیں تو یہ ممکن ہے۔ چنانچہ تلخ پانی اور میٹھے پانی (دونوں) میں صفائی موجود ہے۔
37
جُز کہ صاحِبِ ذوق کِہ شناشد بیاب
او شناسد آبِ خوش از شورہ آب
ترجمہ: صاحبِ ذوق کے سوا کون پہچان سکتا ہے (اس صاحبِ ذوق سے) ملاقات کر (کیونکر) وہی خوشگوار پانی اور شور پانی میں فرق کر سکتا ہے۔
مطلب: (1) صاحبِ تمیز کھرے کھوٹے کو الگ کر دکھاتا ہے۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
عاقل از نام برد پے بہ نشانِ ہمہ کس
جوہرِ دانش اگر ہست نگیں آئنہ است
(2) جو بزرگ نیکی و بدی میں تمیزِ تام اور عقلِ کامل رکھتا ہو۔ اس کی صحبت غنیمت سمجھو جس طرح بھی اس کا قرب میسّر ہو سکے۔ حاصل کرو۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مگسل یک نفس از صحبتِ عیسیٰ نفساں
نقد انفاس عزیز است غنمیت دارش
38
جز کہ صاحبِ ذوق کہ شناسد طعوم
شہد را نا خوردہ کے دَاند ز مُوم
ترجمہ: صاحب ذوق کے سوا کون ذائقوں کو پہچان سکتا ہے۔ جس شخص نے شہد نہ کھایا ہو وہ اس میں اور موم میں کیا فرق کر سکتا ہے۔
39
سِحر را با معجزہ کردہ قیاس
ہر دو را بر مکر بنہادہ اساس
ترجمہ: (ایسے حقیقت ناشناس لوگوں نے) جادو کو معجزہ پر قیاس کیا (اور) دونوں کی بنیاد مکر و فریب رکھی۔
مطلب: ظاہر پرست جس طرح سحر کو فریب اور مکاری سمجھتا ہے۔ معجزہ کو بھی خارقِ عادت ہونے میں اس سے مشابہ پا کر ایسا ہی سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ ہر پیغمبر جو معجزہ دکھاتا تھا۔ کفار کی زبان سے جادوگر کا خطاب پاتا تھا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے حق میں فرعون نے کہا ﴿اِنَّ ھَذَا لَسَاحِرٌ عَلِیْمٌ﴾ (الاعراف: 109) ”بے شک یہ تو کوئی بڑا ماہر جادوگر ہے“ اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم کے بارہ میں منکرین کہتے ہیں ﴿ھٰذَا لَسٰحِرٌ کَذَّابٌ﴾ (ص:4) ”یہ جادوگر بڑا جھوٹا ہے۔“ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
آہ آہ از دستِ صرافانِ گوہر ناشناس
ہر زماں خرمہرہ را با دُر برابر میکنند
40
ساحِراں با مُوسٰیؑ از استیزہ را
برگرفتہ چوں عصائے او عَصا
ترجمہ: جادوگروں نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کے لیے ان کے عصا کی طرح عصا اٹھایا۔
مطلب: حضرت موسٰی علیہ السلام کا معجزہ تھا کہ جب اپنا عصا زمین پر ڈالتے تو وہ ایک ہولناک اژدہا بن جاتا۔ فرعون نے، جو اس زمانے کا بادشاہ تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کے لیے اطرافِ ملک سے جادو گر جمع کئے، انہوں نے بھی رسیاں اور لاٹھیاں جادو کے زور سے سانپ بنا کر دکھا دی۔ ﴿فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعٰی﴾ (طٰہٰ: 66) ”تو بس موسٰی علیہ السلام کو جادو کی وجہ سے ایسا معلوم ہوا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں۔
41
زیں عصا تا آں عصا فرقیست ژرف
زِیں عمل تا آں عمل راہے شگرف
ترجمہ: (مگر) اس عصا اور اس عصا میں گہرا فرق ہے۔ اس کام میں اور اس کام میں ایک فاصلۂ دراز ہے۔
42
لعنۃ اللہ ایں عمل را در قفا
رحمۃ اللہ آں عمل را در وفا
ترجمہ: (چنانچہ) اس کام (یعنی سحرِ ساحر) کے پیچھے خدا کی لعنت (لگی ہوئی) ہے (اور) اس کام (یعنی اعجازِ موسوی کی مدد) کے لیے خدائی رحمت ہمہ تن حاضر ہے۔
مطلب: مصرعۂ اولیٰ میں اس آیت کے مضمون کی طرف تلمیح ہے۔ ﴿وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی﴾ (طٰہٰ: 69) ”اور جادوگر کہیں بھی جائے اس کو فلاح نہیں ہوتی“ دوسرے مصرعہ میں اس ارشادِ خداوندوی کی طرف اشارہ ہے جو جادوگروں کے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھا۔ ﴿قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى۔ وَ اَلْقِ مَا فِىْ يَمِيْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا﴾ (طٰہٰ: 68-69) ”ہم نے کہا موسیٰ (علیہ السلام) ڈرو مت کچھ شک نہیں کہ تم ہی برتر رہو گے اور تمہارے دائیں ہاتھ میں جو لاٹھی ہے اس کو (میدان میں) ڈال دو کہ ان جادوگروں نے جو کچھ بنایا ہے سب کو ہڑپ کر جائے گا۔"
43
کافِراں اندر مِرے بوزینہ طبع
آفتے آمد درُونِ سینہ طبْع
ترجمہ: کافر لوگ (پیغمبر علیہ السّلام کی) ہمسری کا دعویٰ کرنے میں بندر کی خصلت رکھتے ہیں۔ (یہ) خصلت (بھی) سینے میں ایک چھپی ہوئی آفت ہے۔
مطلب: چونکہ کافر لوگ پیغمبری کی ہمسری اس لیے کرتے ہیں کہ مال و جاہ حاصل کریں۔ اس لیے یہ بدنیّتی ان کے لیے آفت ہے۔
44
ہرچہ مردم میکند بوزینہ ہم
آں کند کز مرد بیند دمبدم
ترجمہ: (1) جو کچھ آدمی کرتا ہے بندر بھی وہی کرتا ہے کیونکہ وہ آدمی سے (اس کا وقوع) دم بدم دیکھتا ہے۔
(2) جو کچھ آدمی کرتا ہے بندر بھی وہی کرتا ہے جس کو آدمی سے (واقع ہوتا) دم بدم دیکھتا ہے۔
(3) جو کچھ آدمی کرتا ہے بندر بھی (کرتا ہے اور بندر) دم بدم وہی کچھ کرتا ہے جو آدمی سے دیکھتا ہے۔
45
او گماں بُردہ کہ من کردم چُو او
فرق را کے بِیند آں استیزہ جو
ترجمہ: وہ یعنی بندر، خیال کرتا ہے کہ میں نے (جو کام کیا ہے) اسی کی طرح کیا ہے (بھلا) وہ لڑاکا (جانور اصل و نقل کے) فرق کو کب سمجھ سکتا ہے۔
46
اِیں کند از اَمر و آں بہرِ ستیز
بر سرِ استیزہ رویاں خاک بیز
ترجمہ: یہ (یعنی) پیغمبر جو کچھ کرتا ہے۔ خدا کے حکم سے کرتا ہے اور وہ (یعنی کافر) جھگڑے کے لیے (کرتا ہے) جھگڑالو لوگوں کے سر پر خاک ڈالو۔
47
آں منافق با مُوافِق در نماز
از پئے استیزہ آید نے نیاز
ترجمہ: وہ ایک منافق، موافق (بالدین یعنی مسلمان) کے ساتھ مل کر نماز پڑھتا ہے (تو) مقابلے کے لیے پڑھتا ہے نہ کہ عبادت کے لیے۔
48
در نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ
با منافق مُومِناں در برد و مات
ترجمہ: نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ میں (فائق رہنے کے لیے) مومن (لوگ) منافق (لوگوں) کے ساتھ جیت ہار (کے میدان) میں (جنگ آزما) ہیں۔
49
مومناں را بُرد باشد عاقِبت
منافِق مات اندر آخِرت
ترجمہ: (مگر) انجام کار مومن کو فتح نصیب ہوگی (اور) آخرت میں منافق کو شکست (ملے گی)۔
مطلب: مومن و منافق جو دنیا میں یکساں نمازی نظر آتے ہیں۔ قیامت میں بلحاظ مدارج الگ الگ ہوں گے۔ کما قال اللہ تعالیٰ: ﴿وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (یس: 59) ”اے گنہگار لوگو! آج الگ ہو جاؤ“۔
50
گرچِہ ہر دو بر سرِ یک بازی اند
لیک باہم مرغزی و رازی اند
ترجمہ: اگرچہ دونوں ایک ہی بازی لگائے بیٹھے ہیں، لیکن (دونوں) آپس میں (بُعد و دوری کے لحاظ سے گویا) باشندۂ شہرِ مرغز اور باشندۂ خطہ رَے ہیں۔
51
ہر یکے سوئے مَقامِ خود رَوَد
ہر یکے بر وَفِق نامِ خود رَوَد
ترجمہ: (ان میں سے) ہر ایک اپنے اپنے مقام کو جائے گا اور ہر ایک اپنے نام کے موافق چلے گا۔
مطلب: ایک کا مقام جنت اور دوسرے کا دوزخ ہے اور ہر ایک کا جیسا نام ویسا انجام ہے۔ شاید کسی کو یہ خیال آئے کہ ذکر تو یہ تھا کہ عمل کی ظاہر صورت غیر مفید اور اس کی نیت اور باطنی کیفیت معتبر ہوتی ہے پھر نام کے موافق انجام کیوں فرمایا۔ نام تو ایک امرِ ظاہر ہے۔ جواب یہ ہے کہ مومن و منافق دونوں کے نام چونکہ ان کے مختلف باطنوں کے عنوان ہیں اس لیے نام کا ذکر بلحاظ اس کے عنوان باطن ہونے کے آیا ہے بخلاف اس کے منافق کی نماز اس کے باطن کا عنوان نہیں ہوتی۔ نیچے کا شعر اس بات کی تائید کرتا ہے۔
52
مومِنش خوانیش جانش خوش شود
ور منافِق تند و پُر آتش شود
ترجمہ: (اگر) اس کو مومن کہتے ہیں تو اس کی جان خوش ہو جاتی ہے اور اگر منافق کہتے ہیں تو جھنجھلاتا اور غصے کی آگ سے پر ہو جاتا ہے۔
مطلب: ہر چند کہ فعلِ عبادت دونوں کا ایک سا ہے مگر باطن میں دونوں کے درمیان جو زمین و آسمان کا تفاوت ہے وہ ان کے ناموں سے ظاہر ہے یہ نہ سمجھیں کہ مومن و منافق دونوں نام ایک زبان سے ملفوظ اور ایک قلم سے مکتوب ہونے کے لحاظ سے ایک سے ہوں گے۔ نہیں، کسی کو ان ناموں سے الگ الگ مخاطب کرو تو دیکھو گے کہ ایک نام اس کے لیے مایۂ صد افتخار اور دوسرا نام باعثِ تنگ و عار ثابت ہو گا۔
53
نامِ آں محبُوب از ذاتِ وَیست
نامِ ایں مبغوض ز آفاتِ ویست
ترجمہ: اس مومن کا نام اس کی ذات (والا صفات) کی وجہ سے پیارا لگتا ہے اور اسی طرح اس منافق کا نام اس کی آفتوں کے سبب سے ناپسند ہے۔
مطلب: اوپر دونوں ناموں میں تفاوتِ تاثیر کا ذکر تھا۔ اب اس تفاوت کی تصریح فرماتے ہیں کہ اسمِ مومن اپنے مسمٰی کی محبوبیت کے لحاظ سے محبوب ہے اور اسمِ منافق اس لیے برا لگتا ہے کہ اس کا مسمٰی موردِ آفات ہے ورنہ محض حروف میں کیا دھرا ہے۔
54
میم و واؤ و میم و نون تشریف نیست
لفظِ مومن جز پئے تعریف نیست
ترجمہ: (ورنہ لفظِ مومن میں) میم، واؤ، میم اور نون (کے حروف ہی کوئی) عزت (کے باعث) نہیں ہیں، کیونکہ مومن کا لفظ تعریف کے سوا (اور کسی مقصد) کے لیے (موضوع) نہیں ہوا۔
55
گر منافق خوانِیش ایں نامِ دوں
ہمچو کژدم مے خلد در اندروں
ترجمہ: (غور کرو کہ) اگر تم اس کو منافق کہہ دو تو یہ منحوس نام اس کے دل کو بچھو کی طرح کاٹتا ہے۔
مطلب: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام میں لفظی حیثیت کے علاوہ کوئی اور ہی مؤثر خاص ہے اور اس کا معنٰی ہے۔
56
گر نہ آں نامِ اِشتقاقِ دوزخ ست
پس چَرا در وے مذاقِ دوزخ ست
ترجمہ: (پس) اگر وہ نام جہنم (میں لے جانے والے اوصاف) سے مناسبت نہیں رکھتا تو اس (کے سننے) میں دوزخ کا مذاق کیوں ہے (کہ آتشِ غضب بھڑک اٹھتی ہے)۔
مسئلہ: یہاں سے یہ نصیحت مستنبط ہوتی ہے کہ چونکہ کسی کو ایذا دینی شرعًا حرام ہے اس لیے کسی کا ایسا نام بھی نہ رکھنا چاہیے جو اس کے لیے بچھو کے ڈنگ کی طرح ایذا رساں ہو اور اس سے اس کی آتشِ غضب بھڑک سکتی ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ﴾ (الحجرات: 11) یعنی "اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے۔" انتہٰی۔ چونکہ نام انسان کا عنوانِ وجود ہے اس لیے لازم ہے کہ اولاد کے بھی مبارک اور مناسب نام رکھے جائیں جن میں کوئی بدفالی نہ ہو اور نہ غرور و تعلّی کی بُُو پائی جائے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: "اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کَانَ یُغَیّرُ الْاِسْمَ الْقَبِیْحَ" (مشکوٰۃ) یعنی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم برے نام کو بدل ڈالتے تھے۔ ایک شخص کا نام "حزن" (غم) تھا۔ آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے اس کو "سہل" سے بدل دیا۔ ایک خاتون کا نام "برّہ" (بہت پارسا) بدل کر "زینب" رکھا۔ بعض شاعروں کے تخلّص بھی قابلِ نظر ہوتے ہیں۔ مثلًا: رند، شریر، مجروح، محروم، حزین، وحشی، احمق، بغلول، بھنگڑ، نشتر وغیرہ مذکورہ معیارِ شرع سے ایسے تخلّص بھی قابلِ ترک و تبدیل ہیں۔
57
زِشتیِ ایں نامِ بد از حرف نیست
تلخیِ آں آبِ بحر از ظرف نیست
ترجمہ: (لہٰذا ثابت ہوا کہ) اس خراب نام کی خرابی (صرف) حرف سے نہیں (بلکہ اس کے معنٰی سے ہے) نہ اس آبِ دریا کی تلخی برتن سے ہے (بلکہ خود پانی سے ہے)۔
مطلب: یہ شعر مقدّماتِ سابقہ کے بعد بمنزلۂ نتیجہ ہے۔ یعنی لفظِ مومن کا موجبِ مسرّت ہونا اور اسمِ منافق کا باعثِ غضب ہونا (حالانکہ میم، نون وغیرہ میں بالذّات کوئی وجہِ تاثیر نہیں ہے) اس امر کا ثبوت ہے کہ ان ناموں کی خوبی و زشتی حروف سے نہیں بلکہ معنٰی سے ہے، اور اپنے مدّعا کی تائید میں مجسّمات میں سے ایک تمثیل پیش کی ہے، یعنی جس طرح تلخی و شیرینی کا محل پانی ہے نہ کہ پانی کا برتن۔ اسی طرح خوبی و زشتی کا مبدا معنٰی ہے نہ کہ حرف۔ پھر اس کے بعد تطبیقِ مثال خود فرماتے ہیں:
58
حرف ظرف آمد درُو معنٰی چو آب
بحرِ معنٰی عِنْدَہٗ اُمُّ الْکِتَاب
ترجمہ: چنانچہ حرف (بمنزلہ) برتن ہے (اور) اس میں معنٰی پانی کی طرح ہیں (اور) دریائے معنٰی (تو وہ ذاتِ پاک ہے) جس کے پاس اُمّ الکتاب ہے۔
مطلب: پہلا مصرعہ مذکورہ تشبیہ و تمثیل سے متعلق ہے۔ دوسرے مصرعہ سے افادۂ جدید مقصود ہے جس سے مولانا بیانِ توحید کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔ یعنی وہ ذاتِ واحد جو مبدءِ کُلّ ہونے کے لحاظ سے سمندر کے مشابہ ہے بحرِ معانی ہے، اور اس کے پاس اُمّ الکتاب یعنی لوحِ محفوظ ہے اور یہ الفاظ اس آیت سے اقتباس ہیں: ﴿لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ۔ یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ اُمُّ الْکِتَابِ﴾ (الرعد: 38-39) ”خدا جس کو چاہتا ہے منسوخ کر دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) قائم رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب یعنی لوح محفوظ ہے۔“
59
بحرِ تلخ و بحرِ شیریں ہمعِنان
درمیاں شاں بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیَان
ترجمہ: (اوصافِ رذیلہ کا) دریائے شور اور (اوصافِ حمیدہ کا) دریائے شیریں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، جن کے درمیان ایک آڑ ہے (جس کی وجہ سے) وہ ایک دوسرے پر غالب نہیں ہوتے۔
مطلب: نیک و بد اخلاق ایک دریا کی سی تیزی سے برابر چل رہے ہیں جن میں بعض اوقات ظاہر بینوں کو اشتباہ واقع ہو جاتا ہے۔ مثلًا ایک شخص محض نمائش کے لیے عبادت کرتا ہے اور دوسرا خالصًا لوجہ اللہ۔ تو ظاہر بین دونوں کے فعل کو یکساں سمجھے گا۔ اسی طرح ایک متکبر اور ایک عالی ہمت میں، ایک بے غیرت اور ایک متحمّل میں، ایک مُسرِف اور ایک سخی میں امتیاز مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر جن لوگوں کو چشمِ بصیرت عطا ہوئی ہے وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کے متشابہ و متشاکل اخلاق کے مابین ایک خاص حدِ فاصل ہے جو ان کو ایک دوسرے سے جدا کر رہی ہے۔ نمائشی چیز اور ہے، حقیقی اور۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
نہ ہر کہ چہرہ برافروخت دلبری داند
نہ ہر کہ آئینہ دارد سکندری داند
مولانا نے اس حدِّ فاصل کو برزخ سے تعبیر کیا ہے، جو اس آیت کی تلمیح ہے: ﴿مَرَجَ البَحرَيْنِ يَلتَقِيَانِ۔ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ﴾ (الرحمن: 19-20) ”اسی نے دو سمندر بنا نکالے کہ آپس میں ملتے ہیں (اور پھر بھی) دونوں میں ایک پردہ رہتا ہے کہ ایک دوسرے کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔“
60
داں کہ ایں ہر دو ز یک اصلے رواں
درگذر زِیں ہر دو تا معنےِ آں
ترجمہ: یاد رکھو کہ یہ دونوں (دریا) ایک منبع سے جاری ہیں اور ان دونوں سے گزر کر ان کی اصل تک پہنچو۔
مطلب: اخلاقِ ذمیمہ کا مظہر اسمِ مُضِلّ اور اخلاقِ حسنہ کا مظہر اسمِ ہادی ہے اور یہ دونوں اسمائے الٰہیہ سے ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں متضاد صفتوں کی اصل ذاتِ حق ہے۔ پس سالک کو چاہیے کہ اس تفرقہ سے گزر کر خاص ذاتِ واحد کے ساتھ واصل ہو (بحر العلوم) چونکہ اصل دلیل مثبت اور علّتِ فاعلی کو بھی کہتے ہیں اور اہل سنت و الجماعت کے عقیدے میں تمام اخلاق و افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اس لیے اس کو نیک و بد اخلاق کی اصل یعنی ان کا خالق کہا۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
از خدا داں خلافِ دشمن و دوست
کہ دلِ ہر دو درتصرّفِ اوست
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
از دست دورِ مہ و مہر نے ز گردشِ چرخ
کہ دائرہ زنگارندہ نے زیر کارست
61
زرِّ قُلب و زرِّ نیکو در عیار
بے محک ہرگز ندانی اعتبار
ترجمہ: (برے اخلاق کا) کھوٹا سونا اور (نیک اوصاف کا) کھرا سونا پرکھنے میں کسوٹی کے بغیر ہرگز قابلِ اعتبار نہ سمجھنا۔
مطلب: جس طرح کھرے کھوٹے سونے کی شناخت کے لیے کسوٹی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بھلے آدمی اور برے اخلاق کی تمیز کے لیے نورِ بصیرت کی ضرورت ہے اور یہ نورِ بصیرت وہ قوتِ ممیّزہ ہے جو شرع شریف کے اتباعِ کامل سے مومن کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور جس کے ذریعے سے مومن نیکی و بدی میں امتیاز کر سکتا ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
خوش بود گر محک تجربہ آید بمیاں
تا سیہ روئے شود ہر کہ درو غش باشد
62
ہر کِرا در جاں خُدا بِنہد محک
ہر یقین را باز داند او زِ شک
ترجمہ: خدا جس کے دل میں (نورِ بصیرت کی) کسوٹی رکھ دیتا ہے۔ وہ ہر ایک یقینی بات اور مشتبہ بات میں تمیز رکھتا ہے۔
؎ لاف ہر ناخلف از جانبرد جامؔی را
راہِ موسٰی نزند بانگ چو گوسالہ کند
63
آنچہ گفت اِسْتَفْتِ قَلْبَک مصطفٰیؐ
آں کسے داند کہ پُر بُود از وَفا
ترجمہ: وہ جو مصطفٰی صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا ہے کہ اپنے دل سے فیصلہ طلب کر اس کو (عمل میں لانا وہی شخص جانتا ہے جو احکامِ الٰہیہ) کو پوری طرح بجا لاتا ہے۔
مطلب: اوپر بیان کیا ہے کہ روحانی کسوٹی جو دوسرے لفظوں میں ایک ایسا نورِ بصیرت یا ایسی قوتِ ممیّزہ ہے جس سے نیکی و بدی میں امتیاز کر سکتے ہیں، بعض لوگوں کے دلوں میں قدرتًا ودیعت ہوتی ہے۔ اس کسوٹی سے وہ حق و باطل کو پرکھ سکتے ہیں۔ اس دعویٰ کی دلیل یہ حدیث ہے جو وابصہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: "یَا وَابِصَۃُ! جِئْتَ تَسْئَالُ عَنِ الْبِرّ وَ الْاِثْمِ"۔ ”اے وابصہ! کیا تم نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھنے آئے ہو؟۔“ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے اپنی انگلیاں جوڑ کر سینہ پر ماریں اور فرمایا "اِسْتَفْتِ نَفْسَکَ، اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ" اس کو تین مرتبہ فرمایا۔ یعنی ”اپنے نفس سے پوچھو اپنے دل سے پوچھو“ (پھر فرمایا) "اَلْبِرُّ مَا اَطْمَاَنَّتَ اِلَیْہِ النَّفْسُ وَاطْمَئَنَّ اِلَیْہِ الْقَلْبُ وَ الْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ النَّفْسِ وَ تَرَدَّدَ فِی الصَّدْرِ وَ اِنْ اَفْتَاکَ النَّاسُُ:"۔ ”نیک کام وہ ہے جس پر تیرے نفس کو اطمینان ہو اور تیرے دل کو تسلی ہو اور وہ برا کام ہے جو تیرے نفس میں کھٹکے اور تیرے سینے میں تردّد ڈالے۔ اگرچہ لوگ اس کے کرنے کا تجھے فتوٰی دیں۔“ خیر و شر کی تمیز کا یہ ایک نہایت زبردست معیار ہے مگر چونکہ اس کا مدارِ اعلیٰ درجہ کی نزہتِ نفس اور پاکیزگیِ ضمیر پر ہے۔ اس لیے یہ معیار نازک تر اور پر خطر بھی ہے۔ ہرکس و ناکس کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ بات بات پر اپنے قلب سے فتوٰی طلب کرنے لگے اور جو کچھ دل کہے اس کا اتباع لازم سمجھے ورنہ اس کا نتیجہ تعطیلِ شرائع اور تکثیرِ مذاہب ہوگا۔ اس لیے مولانا فرماتے ہیں "اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ" پر عمل کرنے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ شخص ایمان و اسلام اور عمل بالاحکام و ترکِ منہیات وغیرہ کے متعلق معاہداتِ الٰہیہ کو بجا لانے والا ہو ورنہ جو شخص بے دین ہے بدعمل ہے اور ہوس کا تابع ہے اس کا اپنے دل سے فیصلہ کرنا ہرگز جائز نہیں اور نہ اس کے دل کا فیصلہ قابلِ اعتماد ہے۔ قَالَ لِسَانُ الْعَصْرِ الْمَرْحُوْمُ ؎
انسان چاہے جو بات اچھی چاہے
بدیوں سے محترز ہو نیکی چاہے
شیطان سے وہ فلاسفی ہے منسوب
جس کا مطلب ہے کر وہ جو جی چاہے
لسانُ العصر کا کلام مذکورہ حدیث سے معارض نہیں ہے، بلکہ موافق ہے۔ کیونکہ حدیث میں "اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ" کا ارشاد خاص ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ مولانا نے اپنے شعر "آنچہ گفت الخ" میں اس تخصیص پر روشنی ڈال دی ہے۔ اور لسان العصر کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے لیے یہ اجازت، کہ جو جی چاہے کریں خواہ وہ بے علم و کم فہم بلکہ فاسق و ملحد ہوں تاکہ اتباعِ احکام سے بے پروا اور پابندیِ شریعت سے آزاد ہو جائیں، ایک شیطانی خیال و وسوسہ ہے۔ فلا خلاف۔
64
در دہانِ زندہ خاشاک ار جہد
آنکہ آرامد کہ بیرونش نہد
ترجمہ: (چنانچہ) اگر زندہ آدمی کے منہ میں تنکا پڑ جائے تو اسے تب چین آئے کہ اس سے نکال ڈالے۔
مطلب: جو شخص اپنی حسِّ باطن اور بصیرتِ قلب سے کھٹکنے والی بات کو محسوس کر کے اسے چھوڑ دیتا ہے اس کی مثال اس زندہ شخص سے دی ہے جو حلق میں داخل ہونے والے ایک تنکے کو محسوس کر لیتا ہے۔ بخلاف اس کے جس طرح ایک مردہ کو منہ میں داخل ہونے والے خس و خاشاک کا احساس نہیں ہے اسی طرح جس شخص میں یہ حسِّ باطنی نہیں وہ محذورات و مکروہات کی برائی محسوس نہیں کرتا۔
65
در ہزاراں لقمہ یک خاشاکِ خُورد
چُوں درآمد حسِّ زندے پَے ببرد
ترجمہ: ہزاروں لقموں میں ایک چھوٹا سا تنکا جب آیا (تو) زندے کی حسّ نے اس کا پتا لگا لیا۔
مطلب: جو لوگ حیاتِ معنویہ کے ساتھ زندہ ہیں وہ اپنی حسِّ معنوی سے مشتبہ امور میں امتیاز کر سکتے ہیں۔
66
حسِّ دنیا نردبانِ ایں جہاں
حسِّ عقبٰی نردبانِ آسماں
ترجمہ: دنیا کی حسّ اس جہان کی (ترقی کی) سیڑھی ہے آخرت کی حسّ آسمان کی معراج ہے۔
مطلب: دنیوی حس امورِ دنیا کی ساخت و پرداخت میں رہنمائی کرتی ہے یہ اہلِ دنیا کا حصہ ہے۔ جیسے آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم نے جب لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کا پیوند مادہ کھجور میں لگاتے ہیں تو پھل زیادہ آتا ہے تو فرمایا: "اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ" یعنی "تم اپنے دنیوی کاموں کی تدبیر بہتر جانتے ہو"۔ اور آخرت کی حسّ جو بصیرتِ معنویہ اور نورِ معرفت ہے، عالمِ علوی کے اسرار کے ادراک کا ذریعہ ہے، وہ انبیاء و اولیاء کا حصہ ہے۔
67
صحتِ ایں حِسّ بجوئید از طبیب
صِحتِ آں حِسّ بجوئید از حبیب
ترجمہ: اس (جسمانی) حسّ کی صحت طبیب سے پوچھو (جو معالجِ جسم ہے) اس (روحانی) حسّ کی صحت محبوب (خدا) سے پوچھو (جو معالجِ روح ہے)۔
مطلب: نورِ معرفت کے حصول کے لیے شیخ کی صحبت شرط ہے۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
سالک نرسد بے مددِ پیر بجائے
بے زور کماں رہ نبرد تیر بجائے
شیخ مرشد روحانی طبیب ہوتا ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
شکستہ وار بدرگاہت آمدم کہ طبیب
بمومیائیِ لطفِ تو ام نشانے داد
وَ لَہٗ ؎
حافظا تا روزِ آخر شکرِ ایں نعمت گزار
کاں صنم از روزِ اول داروئے درمانِ ماہست
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
عیسےِ جانی و یکروز دمم میدادی
زندگانیم کہ بود ہست ماندم بودست
68
صِحت ایں حِسّ زِ معموریِ تن
صحّتِ آں حِسّ زِ تخریبِ بدن
ترجمہ: اس حسّ کی صحت بدن کی تندرستی سے ہے اور (بخلاف اس کے) اُس حسّ کی صحت بدن کو (ریاضت کے ساتھ) لاغر کرنے سے ہے۔
مطلب: نورِ معرفت کے حصول کے لیے ریاضت بھی شرط ہے جو مرشد کی ہدایت کے موافق ہو۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بے ریاضت نشود نشۂ عرفاں حاصل
تا کدو خشک نہ گردید مَے خاب نیافت
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
اندروں از طعام خالی دار
تا درو نورِ معرفت بینی
69
شاہِ جاں مر جسمِ را ویراں کُند
بعدِ ویرانیش آباداں کند
ترجمہ: جان کا بادشاہ (یعنی اللہ تعالیٰ) جسم کو (بذریعہ ریاضت) ویراں کرتا ہے۔ (اور) ویرانی کے بعد اس کو (نورِ معرفت سے) آباد کرتا ہے۔
مطلب: اللہ تعالیٰ طالبِ معرفت کو اس کے مرشد کے ذریعہ سے ریاضات و مجاہدات کا حکم کرتا ہے جس سے اس کا جسم نحیف ہو جاتا ہے مگر اس جسمانی فنا کا ثمر روحانی حیات ہے جو اس کو حاصل ہو جاتی ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
در بحرِ کبریائے تو آنکس کہ شد فنا
چوں خضر بردہ راہ بسر چشمۂ حیات
70
اے خنک جانیکہ بہرِ عشقِ حال
بذل کرد او خانماں و ملک و مال
ترجمہ: اے (مخاطب!) کیا مزے میں ہے وہ جان جس نے (معرفت کی) ذوقی کیفیت کی چاہت میں اپنا گھر بار اور ملک و مال لٹا دیا۔
مطلب: اس شعر میں اور مابعد کے اشعار میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ اہلِ ریاضت کی دل افزائی کرتے ہیں کہ جو شخص سامانِ ظاہر کو برباد کر کے اپنے وطن کو آباد کرے وہ کس قدر فوائد سے متمتع ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
گرچہ بے ساماں نماید کارِ ما سہلش مبیں
کاندریں کشور گدائے رشکِ سلطانے بود
ذوؔق رحمۃ اللہ علیہ ؎
دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے
دنیا کے زر و مال پہ میں تف نہیں کرتا
71
کرد ویراں خانہ بہرِ گنجِ زر
وز ہماں گنجش کند معمُور تر
ترجمہ: (گویا) اس نے گنج زر (نکالنے) کے لیے (پہلے تو) گھر کو ڈھایا۔ پھر اس خزانہ کے ساتھ اس کو (پہلے سے) بڑھ کر تعمیر کر لیا۔
میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
گر دیکھئے تو مظہرِ آثارِ بقا ہوں
اور سمجھئے جو عکس مجھے محوِ فنا ہوں
72
آب را ببرِید و جُو را پاک کرد
بعد ازاں در جُو رَواں کرد آبخورد
ترجمہ: (گویا) اس نے پانی کو بند کر کے نہر کو صاف کیا۔ اس کے بعد نہر میں پانی چلا دیا۔
مطلب: اپنے ظرفِ وجود کو رذائل کے میل سے صاف کر کے آبِ معرفت سے بھر لیا۔
73
پوست را بشگافت پیکانرا کشید
پوست تازہ بعد ازانش بردمید
ترجمہ: (گویا) اس نے چمڑے کو چیر کر بھال نکالی اس کے بعد تازہ چمڑا پیدا ہو گیا۔
مطلب: رذائل کے خار و پیکاں نکالنے کے لیے نشترِ ریاضت سے اپنے جسم کو چیرا جو حصولِ صحت کی تدبیر ہے۔
74
قلعہ ویراں کرد و از کافر ستد
بعد ازاں برساختش صد بُرج و سد
ترجمہ: (گویا) اس نے قلعہ مسمار کر کے کافر سے چھینا ہے پھر سینکڑوں برج اور فصیل تعمیر کئے ہیں۔
مطلب: قلعۂ وجود کو منجنیقِ ریاضت کے ساتھ تباہ کر کے نفسِ کافر سے چھینا اور پھر از سرِ نو تعمیر کر لیا۔
75
کارِ بیچوں را کِہ کیفیّت نہد
اینکہ گفتم ہم ضرورت میدهد
ترجمہ: (خدائے) بیچوں کے کام (یعنی بندے کو اپنے ساتھ واصل کرنے) کی کیفیت کون بیان کرے یہ جو میں نے (ریاضت کا) ذکر کیا ہے یہ بھی بتقاضائے ضرورت تھا۔
مطلب: اوپر بیان کیا تھا کہ معرفت کے حصول کے لیے ریاضت لازم ہے۔ اب فرماتے ہیں۔ معرفت یا وصول الٰی اللہ کی دولت صرف ریاضت ہی سے نہیں بلکہ اس کے اور بھی بہت سے وسائل ہیں اور خدا کے فضل و کرم کے کیا کہنے۔ وہ اگر چاہے تو بلا ریاضت و بلا طلب ہی اپنی عنایات و الطاف سے مالا مال کر دے۔
کما قیل ؎
خدا کے دین کا احوال پوچھو موسٰیؑ سے
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
یہاں جو ریاضت کا ذکر کیا ہے تو محض ضرورتًا کیا ہے اور وہ ضرورت یہ تھی کہ وصول الٰی اللہ کا ایک متعارف طریقہ بیان کیا جائے اور وہ ریاضت ہی ہے جو اکثر موصل الی الحق ہوتی ہے۔
76
گہ چنیں بنماید و گہ ضدِّ ایں
جُز کہ حَیرانی نباشد کارِ دیں
ترجمہ: وہ (بے چوں) کبھی یوں جلوہ گر ہوتا ہے اور کبھی اس کے بر خلاف (چونکہ ذاتِ پاک ایک ہے اور جلوے مختلف اس لیے عارف کو حیرت ہوتی ہے) اور دین (یعنی معرفت) کا کام حیرت کے بغیر نہیں۔
مطلب: توالیِ تجلیات اور تواردِ کیفیات موجبِ حیرت ہوتے ہیں، اور حیرت سلوک و معرفت کے لوازم سے ہے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
از ہر طرف کہ رفتم جزو حشتم نیفزود
زنہار ازیں بیاباں ویں راہ بے نہایت
وَ لَہٗ ؎
کس ندانست کہ منزل گہِ مقصود کجاست
ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے مے آید
میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
کبھی رونا کبھی ہنسنا کبھی حیران ہو رہنا
محبت کیا بھلے چنگے کو دیوانہ بناتی ہے
کارِ دیں سے سیر سلوک مراد ہے جس میں حیرت و وحشت لازمی ہے اور یہ حیرت محمودہ ہے اس لفظ سے عقائد و احکامِ دین مراد نہیں جیسے کہ دین کے لفظ سے متبادر ہوتا ہے ورنہ حیرت کے معنٰی شک و تذبذب کے ہو جائیں گے، اور اس قسم کی حیرتِ مذموم ہے۔ بعض شارحین نے "گہ چنیں و گہ ضد ایں" سے ابیاتِ ما سبق کی مناسبت سے ریاضت و عدمِ ریاضت کی طرف اشارہ سمجھا ہے یعنی کبھی وصول الٰی اللہ ریاضت سے ہوتا ہے جس کو سلوک کہتے ہیں اور کبھی بلا سلوک میسر ہوتا ہے اور اس کا نام جذب ہے۔ مگر اس معنٰی میں مصرعہ ثانیہ کا مطلب ٹھیک نہیں بنتا اور شارحینِ مذکور نے اس مصرعہ کے معنٰی کو ربط دینے میں محض تکلّف کیا ہے۔
77
کامِلاں کز سِرِّ تحقیق آگہند
بیخُود و حیران و مست و والہ اند
ترجمہ: اہلِ کمال جو حقیقت کے راز سے واقف ہیں وہ بھی بے خود و حیران اور مست و سرگرداں ہیں۔
مطلب: اوپر کہا تھا کہ کارِ دیں یعنی سیرِ سلوک موجبِ حیرت ہے۔ اب تعمیمًا ارشاد ہے کہ خاص سیرِ سلوک کی کیا تخصیص ہے۔ بلکہ کاملین جو کہ رازِ حقیقت سے آگاہ اور منزلِ سلوک میں سُبک سیر ہیں۔ وہ ہر معاملۂ قدرت و حکمت کو دیکھ کر ہر وقت حیران و مست رہتے ہیں۔
الخلاف: ہمارے نسخے میں یہ شعر نہیں ہے۔
78
نے چنِیں حیراں کہ پُشتش سوے اوست
بل چِنیں حیراں کہ غرق و مست زوست
ترجمہ: (مگر) نہ ایسا حیران کہ اس کی پیٹھ اس کی طرف ہو۔ بلکہ ایسا حیران کہ اس (کے خیال) میں مستغرق اور اس سے مست ہو۔
مطلب: اس شعر میں تصریح ہے کہ حیرتِ محمودہ و حیرتِ مذمومہ میں سے یہاں کون مراد ہے یعنی حیرت سے مراد وہ حیرت نہیں ہے۔ جس کو شک و وسوسہ کہتے ہیں۔ جو ذاتِ حق سے غافل بلکہ منکر بنانے والی ہوتی ہے بلکہ حیرت سے کمال محویت مراد ہے۔ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
اے درد رفتہ رفتہ کیا آپ کو بھی گم
اس راہ میں چلا تھا میں کس کے سراغ کو
79
آں یکے را رُوئے او شد سوئے دوست
وِیں یکے را روئے او خود رُوے اوست
ترجمہ: ایک وہ ہے جس کا منہ دوست کی طرف ہے ایک یہ ہے کہ اس کا منہ خود اسی دوست کا منہ ہے۔
مطلب: اس شعر میں حیرتِ محمودہ کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک تو وہ حیرت جس میں استغراق کم ہوتا ہے یعنی طالب کی توجّہ ذاتِ مطلوب کی طرف اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات کو مطلوب کی ذات سے متمائز سمجھتا ہے۔ دوسری وہ حیرت جو کمالِ محویت ہے۔ حتٰی کہ اس کو طلب و طالب میں تمایز ہی نہیں رہتا۔ اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ ؎
کیسی طلب؟ کہاں کی طلب؟ کس لیے طلب
ہم ہیں تو وہ نہیں ہے جو وہ ہے تو ہم نہیں
وَ لَہٗ ؎
کیا کھلے؟ جو کبھی نہ تھا پنہاں
کیوں ملے؟ جو کبھی جدا نہ ہوا
رفعِ اشتباہ: مگر یہ خیال رہے کہ اس محویت و استغراق سے صوفیہ کی مراد عینیت نہیں۔ جس طرح شے اور ذاتِ شے میں عینیت ہوتی ہے۔ یہ عقیدہ ملاحدہ و زنادقہ کا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ سالک کو ذاتِ حق کی طرف وہ توجہِ تام ہوتی ہے کہ ما سوا کی طرف التفات ہی نہیں رہتی۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہستیِ من رفت و خیالش بماند
اینکہ تو بینی نہ منم بلکہ اوست
80
روے ہر یک مے نِگر میدار پاس
بُو کِہ گردی تو زِ خدمت بُو شناس
ترجمہ: (مذکورہ دونوں قسم کے عارفوں میں سے) ہر ایک کا دیدار کرتے رہو۔ اور پاس (ادب) رکھو۔ شاید خدمت گزاری کی بدولت ہی عرفان کی راہ نکال لو۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
کیمیائیست عجب بندگیِ پیرمغاں
خاکِ او گشتم و چندیں درجاتم دادند
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
تو خود فرشتہ شو اماز خویش نتواں شد
جز آنکہ صحبتِ خاصانِ کردگار بود
فرشتہ میشود و جبرئیلِ روحانی
کسیکہ درپنہِ غوثِ روزگار بود
81
دِیدنِ دانا عبادتِ ایں بود
فتحِ اَبوابِ سعادت ایں بود
ترجمہ: (یہ جو منقول ہے کہ) عالم کی زیارت کرنا عبادت ہے (اس سے) یہی (مراد) ہے خوش نصیبی کے دروازوں کی کشایش یہی ہے۔
مطلب: مذکورہ قول میں عالم سے صرف ظاہری علوم کے ماہر مراد نہیں۔ بلکہ اہل اللہ مراد ہیں کہ انہی کا دیدار بمنزلہ عبادت ہے۔ بفحوائے فرمانِ نبوی "اِذَا رُأُوْا ذُکِرَ اللہُ" ”جب ان کو دیکھتے ہیں تو خدا یاد آتا ہے۔“
الخلاف: ہمارے نسخے میں یہ شعر نہیں ہے۔