دفتر1 حکایت 12: اہلِ تحقیق اور باتونی میں اور حق گو اور جھوٹے باتونی میں فرق کا بیان

دفتر اول: حکایت: 12

در فرق میانِ مُحقِّق و مُُدّعی و مُحِقّ و مُبْطِل

اہلِ تحقیق اور باتونی میں اور حق گو اور جھوٹے باتونی میں فرق کا بیان

1

چوں بسے اِبلیس آدم رُوئے ہست

پَس بہر دستے نشاید داد دست

ترجمہ: چونکہ بہت سے ابلیس آدمی کی صورت (رکھتے ہیں) پس (بیعت کے لیے) ہر ہاتھ میں ہاتھ نہ دینا چاہیے۔ (مبادا کوئی ابلیس ہو)۔

مطلب: اوپر مرشد سے بیعت کرنے کی ترغیب دی تھی۔ اب اس میں احتیاط کی تاکید کرتے ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

دور است سرِ آب دریں بادیہ ہشدار

تا غولِ بیاباں نفریبد بسرابت

2

زانکہ صیّاد آورد بانگِ صفیر

تا فریبد مرغ را آں مُرغ گیر

ترجمہ: اس لیے کہ کبھی شکاری (بھی) پرندے کی سی آواز نکالا کرتا ہے تاکہ وہ مرغ گیر کسی پرندے کو دھوکا دے (کر جال میں پھنسائے)۔

مطلب: صوفی نما شکاریوں سے بچنا چاہیے۔ جن کا بھولے بھالے لوگوں کو اپنے دامِ مکر میں پھانسنا شیوہ ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ؎

رشتۂ تسبیحِ تو دامِ ریاست

مہرۂ آں دانۂ مرغِ ہوا است

دانہ دوام از پئے آں گستری

تا غذے از سینۂ مرغے خوری

3

بشنود آں مرغ بانگِ جنسِ خویش

از ہَوا آید بیابد دام و نیش

ترجمہ: (چنانچہ) وہ پرندہ جب اپنے ہم جنس کی آواز سنتا ہے تو ہوا سے اتر آتا ہے (آخر) جال (کا پھندا) اور (چھری کا) زخم برداشت کرتا ہے۔

مطلب: سادہ لوح ان مکارانِ صوفی نما کے دھوکے میں آ جاتا ہے اور زیان اٹھاتا ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

ز مکرِ سبحہ شماراں خدا نگہ دارد

کہ صد سراست بیک حلقہ کمند اینجا

4

حرفِ درویشاں بدزدد مردِ دُوں

تا بخواند بر سلیمے زاں فُسوں

ترجمہ: (اسی طرح کبھی) فرومایہ آدمی درویشوں کے اقوال چرا لیتا ہے تا کہ کسی سیدھے سادھے آدمی پر ان کا منتر پھونکے۔

؎شکل زُہاد کی بنائی ہوئی

اک اداسی سی منہ پہ چھائی ہوئی

شعر ہر بات میں وہ لاتے ہیں

اور دل کش قصص سناتے ہیں

ہر ادا میں کمال کے دعوے

قال کے دم میں حال کے دعوے

وعظ و تلقین اور حال و قال

اپنے مطلب کے ہیں یہ سارے سوال

5

کارِ مرداں روشنی و گرمی ست

کارِ دُوناں حیلہ و بیشرمی ست

ترجمہ: (مگر) مردانِ حق (آفتاب ہوتے ہیں جن) کا کام روشنی (ہدایت) اور گرمی (عشق) ہے (اور مکار لوگ کمینے ہیں) کمینوں کا کام فریب و بے حیائی ہے۔

مطلب: مکار لوگ جو مشیخت و پیری کا دام پھیلانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے کام میں لاتے ہیں ان کو نہ خدا سے شرم آتی ہے نہ مخلوق سے نہ اپنے آپ سے اور سچ ہے۔

ع بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن

مولانا سچے مرشد اور جھوٹے پیر کی شناخت کے لیے طریقہ بیان فرماتے ہیں کہ مقدّم الذکر ایک آفتاب ہے۔ جس میں عشقِ الٰہی کی گرمی پائی جاتی ہے اس لیے صاحبِ بصیرت اور اہلِ علم لوگ اس کی طرف مائل ہو جاتے اور اس کی روشنی سے لوگ ہدایت پاتے ہیں۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

آفتابے ست درخشندہ کہ از طلعتِ او

رفت بر چرخِ بریں کوکبۂ دولتِ ما

لہذا وہ متقی و صالح اور متّبعِ سنت اور عالمِ دین ہو گا، کاملین کے ساتھ اس کو نسبت ہو گی، اس کے معتقدین اور اہلِ محبت کی حالت روز بروز رُُو بہ اصلاح ہوتی جائے گی۔ ایسے شیخ کی شناخت چنداں مشکل نہیں۔ ع آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ اور مؤخّر الذکر میں نہ نورِ ہدایت درخشاں ہوتا ہے اور نہ جوشِ حقانیت نمایاں۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

نہ بر بردنِ وے از لمعۂ ہدایتِ نور

نہ در دروںِ وے از شعلۂ محبت جوش

بلکہ اس کی خواہشِ توقیر، شوقِ بزرگی، اور طلبِ زر کے جذبات بے حیائی تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ باتیں اس کی گفتگو سے ٹپکا کرتی ہیں۔

؎ گفتگو یک رنگ نبود مخلص و مکار را

در نفس باشد تفاوت سالم و بیمار را

6

شیرِ پشمِیں از برائے گد کنند

بو مُسَیْلَمْ را لقب احمدؐ کنند

ترجمہ: (وہ مکار لوگ) بھیک مانگنے کے لیے پشم کا شیر بنا لیتے ہیں (اور عوام) مسیلمہ کذاب کا لقب احمد مشہور کر دیتے ہیں۔

مطلب: جس طرح گداگر لوگ بھیک مانگنے کے لیے اون کا شیر بنا کر لکڑی پر آویزاں کر لیتے ہیں۔ جو اصلی اور واقعی شیر نہیں ہو سکتا۔ بلکہ محض ایک سامانِ دریوزہ گری ہوتا ہے اسی طرح مکار لوگ محض کمانے کھانے کے لیے لباسِ مشیخت زیب تن کر لیتے ہیں اور ان کو سلوک و عرفان سے کوئی نسبت نہیں ہوتی۔

؎ ریش و تسبیح و جبہ و دستار

شکل عبّاد و صورتِ ابرار

دیدۂ نیم باز او را رُخِ زرد

لمحہ لمحہ پہ نعرۂ پُر درد

حیلے ہیں سب کمانے کھانے کے

دامِ تزویر کے بچھانے کے

ادھر عوام کالانعام کا بھی حال عجیب ہے۔ ان کو ایک پیر ملنا چاہیے۔ پھر اس کو غوثیت و قطبیت کے درجہ پر پہنچا دینا کوئی مشکل نہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

آہ آہ از دستِ صرافانِ گوہر ناشناس

ہر زماں خرمہرہ را با دُر برابر میکنند

جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

فغاں ز ابلہی ایں خرانِ بے دُم و گوش

کہ جملہ شیخ تراش آمدند و شیخ فروش

7

بو مُسیلم را لقب کذّاب ماند

مر مُحمّدؐ را اُولُو الالباب ماند

ترجمہ: (مگر) مسیلمہ کا لقب کذّاب رہا (اور) حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و سلّم کا (لقب) اہلِ عقل رہا۔

مطلب: نبی، نبی ہے اور کذّاب، کذّاب ہے۔ ع چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

سحر با معجزہ پہلو نزند دل خوش دار

سامری کیست کہ دست از یدِ بیضا ببرد

میؔر درد ؎

گر کھینچ کھینچ چلّے جان اپنی شیخ کھودے

کوئی زندہ دل کرے ہے اس مردہ شو سے بیعت

8

آں شرابِ حق خِتامش مُشکناب

بادہ را ختمش بود گند و عذاب

ترجمہ: آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم تو شرابِ حق ہیں جس کی مہر مشکِ خالص کی ہے (کہ باہر سے سامانِ خوشبو اور اندر سے مایۂ مستی عشق ہے) اور اس (کذّاب) کی شراب کی مہر بدبو اور عذاب ہے (اس لیے وہ باہر سے دل و دماغ کو پریشان کرنے والی اور اندر سے موجبِ عذابِ آخرت ہے)

مطلب: جناب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم جب مہرِ سکوت توڑ کر تکلّم فرماتے ہیں تو خوشبوئے برکات پھیلتی ہے اور آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم کی باتیں اپنے باطنی اثر سے قلوبِ سامعین میں عشق و محبت کی مستی پیدا کرتی ہیں۔ اور کذّاب کی باتوں کا اثر اس کے برعکس ہوتا ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

برسنگِ امتحاں نشود ہمعیارِ زر

ہر مس کہ سر ز تربیت کیمیا کشد