دفتر 1 حکایت 13: شاہِ یہوداں کا قصّہ جو تعصبِ مذہبی سے عیسائیوں کو قتل کرتا تھا

دفتر اول: حکایت: 13

داستانِ آں بادشاہِ جہود کہ نصرانیاں را میکُشت از تعصُّب

شاہِ یہوداں کا قصّہ جو تعصبِ مذہبی سے عیسائیوں کو قتل کرتا تھا

1

بود شاہے در جہوداں ظُلم ساز

دُشمنِ عِیسیٰؑ و نصرانی گداز

ترجمہ: یہودیوں میں ایک بادشاہ تھا جو ظلم کا موجد، عیسٰی علیہ السّلام کا دشمن اور نصرانیوں کا برباد کن تھا۔

2

عہدِ عیسٰیؑ بود و نوبت آنِ اُو

جانِ موسٰیؑ اُو مُوسٰیؑ جانِ اُو

ترجمہ: (اس بادشاہ کا عہد) عیسٰی علیہ السّلام کا عہد اور ان کے وقت کا دور تھا (اور) وہ (یعنی عیسٰی علیہ السّلام) موسٰی علیہ السّلام کی جان اور موسٰی علیہ السّلام ان کی جان تھے۔

مطلب: یعنی ہر چند کہ اس عہد میں شریعتِ عیسویہ پر لوگ مکلّف تھے اور موسٰی علیہ السّلام کی شریعت من جانب اللہ منسوخ ہو چکی تھی۔ مگر یہ شریعت سابقہ شریعت سے متضاد نہ تھی اور یہ پیغمبر پہلے پیغمبر کے خلاف نہ تھے بلکہ دونوں شریعتیں اصولًا متحد اور دونوں پیغمبر ایک دوسرے کی جان تھے۔ بقول مولانا محمود الحسن مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎

ایک صورت ہے نظر آتے ہیں جس کے دو عکس

ایک حقیقت ہے کہ ہیں جس کے یہ عنواں دونوں

3

شاہِ احول کرد دَر راہِ خُدا

آں دو دمسازِ خُدائی را جُدا

ترجمہ: (مگر) بادشاہ نے جو (چشمِ بصیرت سے) بھینگا تھا۔ ان دونوں خدائی رفیقوں کو خدا کے راستے میں جدا (تصور) کر لیا۔

مطلب: یہ بادشاہ ظاہر آنکھ کا احوال نہیں تھا بلکہ چشمِ بصیرت سے احُول تھا۔ کیونکہ اس نے دو متحد المشرب اور متفق الاصول پیغمبروں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھ لیا۔ اس لیے وہ موسٰی علیہ السّلام کی حمایت میں حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے معتقدین کو ایذا دینے لگا۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

اگر تو دیدہ وری جملہ رازِ حق بینی

دو بینی از قبل چشمِ احول افتادست

4

گفت استاد اَحْولے را کاندرا

رَو بُروں آر از وثاق آں شیشہ را

ترجمہ: (وہی مثال ہوئی) کہ ایک استاد نے (اپنے) بھینگے (شاگرد) کو کہا۔ اندر آ۔ مکان میں جا کر وہ بوتل لا۔

5

چوں درُونِ خانہ احْول رفت زُود

شیشہ پیشِ چشمِ اُو دو مینمود

ترجمہ: بھینگا جب فورًا مکان کے اندر گیا تو اس کو ایک بوتل کی (جگہ) دو نظر آئیں۔

6

گفت احول زاں دو شیشہ تا کدام

پیشِ تو آرم بکن شرحے تمام

ترجمہ: بھینگا بولا اچھی طرح کھول کر بتاؤ کہ ان دونوں میں سے کون سی تمہارے پاس لاؤں۔

7

گفت اُستاد آں دو شیشہ نیست رَو

احولی بگذار و افزُوں بیں مشو

ترجمہ: استاد نے کہا وہ دو بوتلیں نہیں ہیں۔ چل بھینگا پن چھوڑ اور (اصلیت سے) زیادہ دیکھنے والا نہ بن۔

8

گفت اے اُستا مرا طعنہ مَزَن

گفت اُستا زاں دو یک را برشِکن

ترجمہ: وہ بولا اے استاد مجھے طعنہ نہ دو (میں سچ کہتا ہوں) استاد نے کہا (اگر سچ کہتے ہو تو) ان دونوں میں ایک کو توڑ ڈالو۔

9

چُوں یکے بشکست ہر دو شُد ز چشم

مردِ احْول گردد از مَیلان و خشم

ترجمہ: جب اس نے ایک (بوتل) کو توڑا۔ تو دونوں (بوتلیں) نظر سے غائب ہو گئیں (اسی طرح) آدمی (کبھی) طرفداری اور غصے سے بھی کج بیں بن جاتا ہے (کہ حقیقتِ واحدہ کو کچھ کا کچھ دیکھتا ہے۔)

مطلب: دو چیزیں ہیں جو انسان کی استقامتِ رائے کو باطل کر دیتی ہیں ایک طرفداری یا عشق دوسری غصہ۔ عشق و محبت کے متعلق تو "حُبَّکَ الشَّیْءَ یُعْمِیْ وَ یُصِمُّ" (ابوداؤد) آیا ہے یعنی کسی چیز کی محبت تم کو حق شناسی سے اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔ جیسے کہ حُبِّ مُفرط اور عشق کے حالات میں مشاہدہ ہے۔ غصے کی وجہ سے حق بینی سے پھر جانے کی مثال یہی یہود کا قصہ ہے۔ جو محض نصارٰی پر ناراض ہونے کی وجہ سے انکارِ عیسٰی علیہ السّلام اور ایذائے نصارٰی کو امرِ حق اور دینِ موسٰی علیہ السّلام کی نصرت سمجھنے لگا، حالانکہ دونوں دین ایک اور دونوں پیغمبر اصولًا متفق تھے اور عیسٰی علیہ السّلام کا انکار عین موسٰی علیہ السّلام کا انکار تھا۔ اس لیے اس کی مثال اس شاگردِ احول کی سی تھی جو ایک بوتل کو دو سمجھا اور ایک کو توڑنے کے زعم میں دونوں بوتلوں کو نابود کر بیٹھا۔ اسی طرح شاہِ یہود نے ایک دین کو دو سمجھا۔ ایک کا انکار کیا تو دونوں کی برکات سے محروم رہا۔

10

شیشہ یک بود و بچشمش دو نمود

چوں شِکسْت آں شیشہ را دیگر نبود

ترجمہ: (چنانچہ) بوتل (حقیقت میں) ایک تھی اور اس کی نظر میں دو بوتلیں دکھائی دیں۔ جب اس بوتل کو توڑا تو دوسری بھی نہ تھی۔

11

خشم و شہوت مَرد را احْول کُند

زِ اِستقامت رُوح را مُبْدَل کند

ترجمہ: غصہ اور خواہش آدمی کو دو بیں بنا دیتے ہیں (اور) روح کو راست روی سے پھیر دیتے ہیں۔

12

چُوں غرض آمد ہُنر پوشِیدہ شد

صد حجاب از دل بسُوئے دیدہ شد

ترجمہ: جب شائبۂ غرض (درمیان) آ گیا تو (عمل کی) خُوبی دب گئی اور دل (غرضمند) سے سینکڑوں پردے آنکھوں پر پڑ گئے۔

مطلب: جب دل پر غرضِ نفسانی کا غلبہ ہو جاتا ہے تو اس کے ادراکات بھی غلط ہو جاتے ہیں، کیونکہ حواس اکثر امور میں دل کے تابع ہیں۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

نور کم میدہد از روغنِ ناصاف چراغ

کلفت از دل نبرد مے چو نباشد بے غش

13

چُوں دہد قاضی بدل رشوت قرار

کے شناسد ظالم از مظلوم زار

ترجمہ: جب قاضی (یعنی جج) رشوت (کا لینا) دل میں ٹھان لے تو وہ ظالم اور بدحال مظلوم میں کیا فرق کرے گا۔

مطلب: جذباتِ نفسانیہ کی دو قسمیں ہیں ایک جرِّ ملائم کا جذبہ جس کو شہوت کہتے۔ دوسرا دفعِ غیر ملائم کا جذبہ جس کا نام غضب ہے۔ ایک منصف دو فریقوں میں انصاف اسی صورت میں کر سکتا ہے کہ اپنے ان دونوں جذبات سے متاثر نہ ہو۔ لیکن جب منصف کے دل پر شہوت یا غضب چھا رہا ہو تو وہ انصاف نہیں کر سکتا۔ شہوت کے چھا جانے کی مثال یہ ہے کہ مثلًا ایک قاضی کا مقصد یہ ہے کہ ایک فریق سے رشوت حاصل کرے تو وہ رشوت کے مطابق فیصلہ دے گا نہ کہ انصاف کے مطابق اور غضب کی مثال ظاہر ہے۔

14

شاہ از حِقدِ جہُودانہ چُناں

گشت اَحول کَالْاَماں یا رب اماں

ترجمہ: (الغرض) بادشاہ یہودیوں کے سے کینے کی وجہ سے ایسا احمق ہو گیا کہ اَلْاَمَاںْ یا رب اَلْاَمَاںْ۔

15

صد ہزاراں مومِنِ مظلوم کُشت

کہ پناہم دینِ مُوسٰیؑ را و پُشت

ترجمہ: لاکھوں عیسائی، ایماندار ظلم سے قتل کر ڈالے (بایں خیال) کہ میں موسٰی علیہ السّلام کے دین کا پشت پناہ ہوں۔

مطلب: اس کج بیں بادشاہ نے قتلِ نصارٰی کو دینِ موسوی کی نصرت سمجھا۔ حالانکہ اس فعل سے دینِ موسٰی علیہ السّلام کی تخریب اور خود حضرت موسٰی علیہ السّلام کی تکذیب لازم آتی تھی۔ کیونکہ ایک پیغمبر کی تکذیب سب کی تکذیب ہے۔