دفتر 1 حکایت 14: بادشاہ کے وزیر کا ذکر اور اس کا چالاکی سے عیسائیوں کو متفرق کرنا

دفتر اول: حکایت: 14

حکایتِ وزیرِ بادشاہ و مکرِ اُو در تفریقِ ترسایاں

بادشاہ کے وزیر کا ذکر اور اس کا چالاکی سے عیسائیوں کو متفرق کرنا

1

او وزیرے داشت رہزن عِشوہ دہ

کو بر آب از مکر بر بستے گِرہ

ترجمہ: اس بادشاہ کا ایک ٹھگ اور دھوکے باز وزیر تھا۔ جو مکر سے پانی میں بھی گرہ لگاتا تھا۔

2

گفت ترسایاں پناہِ جاں کنند

دینِ خود را از مَلِک پنہاں کنند

ترجمہ: وہ (وزیر) بولا۔ عیسائی لوگ (اپنی) جان بچائیں گے (اور) اپنا مذہب بادشاہ سے چھپائیں گے۔

مطلب: وزیر نے سوچا نصارٰی کو نابود کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ اخفائے مذہب سے بچ جائیں گے۔

3

با مَلِک گُفت اے شہِ اسرار جُو

کم کُش ایشانرا دست از خوں بشُو

ترجمہ: (نیز) بادشاہ سے کہا اے طالبِ اسرار بادشاہ ان کو قتل نہ کر اور ان کی خونریزی چھوڑ دے۔

الخلاف: یہ شعر بعض نسخوں میں نہیں ہے۔

4

کم کش ایشانرا کہ کشتن سُود نیست

دیں ندارد بُوے مشک و عُود نیست

ترجمہ: ان کو قتل نہ کیجئے کیونکہ قتل کرنا مفید نہیں۔ دین کوئی بو نہیں رکھتا وہ کوئی مشک اور عود نہیں ہے۔

5

سِرِّ پنہاں ست اندر صد غلاف

ظاہِرش با تُست و باطن برخلاف

ترجمہ: (بلکہ دین تو) سو پردوں کے اندر ایک پوشیدہ بھید ہے۔ جس کا ظاہر تیرے موافق ہے اور باطن بر خلاف۔

6

شاہ گفتش پس بگو تدبیر چیست

چارۂ ایں مکر و ایں تزوِیر چیست

ترجمہ: بادشاہ نے اس کو کہا (اگر ان کو قتل کرنا مفید نہیں) تو پھر بتاؤ کیا تدبیر (مناسب) ہے (عیسائیوں کے) اس مکر و فریب کا چارہ کیا ہے؟

7

تا نماند در جہاں نصرانیے

نے ہویدا دِین و نے پنہانئے

ترجمہ: تاکہ دنیا میں نہ کوئی ظاہر دین والا عیسائی باقی رہے نہ پوشیدہ (مذہب) والا۔

8

گفت اے شہ گوش و دستم را بُبر

بینیم بشگاف و لب از حُکمِ مُر

ترجمہ: وزیر بولا۔ اے بادشاہ (اپنے) تند حکم سے میرے کان اور ہاتھ کاٹ ڈال (ساتھ ہی) ناک اور لب چیر دے۔

9

بعد ازاں در زیرِ دار آور مَرا

تا بخواہد یک شِفاعت گر مَرا

ترجمہ: اس کے بعد مجھے دار کے نیچے لائیے یہاں تک کہ ایک سفارش کنندہ مجھ کو (حضور سے) مانگ لے۔

10

بر منادی گاہ کُن ایں کار تُو

برسرِ راہے کہ باشد چار سُو

ترجمہ: آپ یہ کام اعلانِ عام کی جگہ میں (اور) ایسے راستہ پر جو چاروں طرف چلتا ہو، کریں۔

11

آنگہم از خود براں تا شہرِ دُور

تا دراندازم در ایشاں صد فتور

ترجمہ: اس وقت مجھ کو اپنے پاس سے کسی دوسرے شہر میں نکال دیجئے۔ تاکہ میں ان لوگوں میں سینکڑوں فتور ڈال دوں۔

12

چُوں شوند آں قوم از من دیں پذیر

کارِ ایشاں سَر بَسر شوریدہ گیر

ترجمہ: جب وہ لوگ مجھ سے دین (کے امور میں حکم) ماننے لگیں تو ان کا کام بالکل ابتر ہوا سمجھیں۔

13

درمیاں شاں فتنہ و شور افگنم

کاہرمن حیراں شود اندر فنم

ترجمہ: میں ان کے درمیان ایسا فتنہ و شور ڈال دوں گا کہ شیطان بھی میری کاروائی دیکھ کر دنگ رہ جائے گا۔

14

آنِچہ خواہم کرد با نصرانیاں

آں نمے آید کنوں اندر بیاں

ترجمہ: میں جو سلوک نصارٰی کے ساتھ کروں گا وہ اس وقت بیان نہیں کر سکتا۔

مطلب: "آں نمے آید کنوں اندر بیاں" سے یا تو یہ مقصود ہے کہ میں نصارٰی کو ایسی ہولناک تباہی و بربادی میں مبتلا کروں گا جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ زبان و قلم سے اس کا فوٹو کھینچنا مشکل ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ میں جو تدبیر بروئے کار لانی چاہتا ہوں اس کو اس وقت بیان کرنا خلافِ احتیاط ہے۔ مبادا افشائے راز سے کام بگڑ جائے اور آخر میں حسرت و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

سزائے تست چوں گل گریۂ تلخ پشیمانی

کہ گفت اے غنچۂ غافل دہن پیشِ صبا بکشا

15

چوں شمارندم امین و راز داں

دامِ دیگر گُوں نہم در پیشِ شاں

ترجمہ: جب وہ لوگ مجھ کو امانت دار اور رازداں سمجھنے لگیں گے تو ان کے آگے ایک اور قسم کا دام (مکر) پھیلاؤں گا۔

16

وز حِیَل بفریبم ایشاں را ہمہ

و اندر ایشاں افگنم صد دمدمہ

ترجمہ: اور مکر و فریب سے ان سب کو دھوکا دوں گا اور ان میں سینکڑوں کھلبلیاں ڈال دوں گا۔

17

تا بدستِ خویش خُونِ خویشتن

بر زمین ریزند کوتہ شُد سخن

ترجمہ: تاکہ وہ اپنے ہاتھوں اپنا خون زمین پر بہا دیں۔ چلو فیصلہ ہوا۔

مطلب: حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے آیت: ﴿وَ قَالَتِ النَّصٰری الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہِ﴾ (التوبۃ: 30) کی تفسیر کے ذیل میں علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قصہ نقل کیا ہے جو مثنوی کی اس داستان کا ماخذ معلوم ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ رفَعِ عیسٰی علیہ السّلام کے بعد نصارٰی اکاسی سال تک دینِ اسلام کے متبع رہے رو بقبلہ ہو کر نماز پڑھتے اور رمضان کے روزے رکھتے تھے۔ یہودیوں نے اپنی قدیمی عداوت کے تقاضے سے ان کو ستانا شروع کیا۔ مدت تک ہنگامۂ جدال و قتال گرم رہا۔ آخر یہودیوں کے ایک جنگجو اور چالاک سردار نے جس کا نام ”بولس“ تھا۔ نصارٰی کی تباہی کا یہ منصوبہ سوچا کہ ان میں دینی اختلاف ڈال دیا جائے۔ اس نے اپنے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں جس کا نام عقاب تھا اور جس پر سوار ہو کر نصارٰی سے نبرد آزما ہوتا تھا۔ اپنے کپڑے پھاڑ سر پر خاک ڈال، شرمسار و ندامت خیز صورت بنا لی۔ نصارٰی کو یہ قصہ معلوم ہوا تو پوچھا کیا بات ہے؟ بولس نے کہا مجھے آسمان سے ندا آئی ہے کہ تا وقتیکہ کہ تم نصرانی نہ بن جاؤ تمہاری توبہ قبول نہ ہوگی۔ چنانچہ اب میں یہودی مذہب سے تائب ہو گیا ہوں۔ نصارٰی خوشی خوشی اس کو اپنے کنیسہ میں لائے۔ اس نے ایک کوٹھڑی میں رہنا اختیار کر لیا۔ جس سے دن رات کبھی نہیں نکلتا تھا اور ہر وقت تلاوتِ انجیل میں مصروف رہتا۔ سال کے بعد اس نے باہر نکل کر اعلان کیا کہ مجھے آسمان سے پیغام آیا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول فرمائی۔ نصارٰی یہ سن کر حسنِ اعتقاد سے اس کی طرف ٹوٹ پڑے اور اس کو اپنا پیشوا بنا لیا۔ اس عیار نے نصارٰی کے ایک با اثر سردار کو جس کا نام نسطورا تھا بلا کر در پردہ کہا کہ تم میری طرف سے قوم نصارٰی پر خلیفہ ہو اور اس کو یہ تعلیم دی کہ عیسٰیؑ، مریمؑ اور اللہ تعالیٰ تینوں یکساں قابلِ پرستش ہیں۔ پھر اہلِ روم میں سے ایک شخص کو جس کا نام یعقوب تھا۔ لاہوت و ناسوت کے اسرار بتائے اور کہا عیسٰیؑ نہ جسم تھے نہ انسان تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرزند تھے پھر ایک اور شخص مسمی ملک کو بلا کر کہا کہ عیسٰیؑ ازلی و ابدی خدا ہے اور ان تینوں میں سے ہر ایک کو الگ الگ خلوت میں یہ کہہ دیا۔ صرف تم ہی میرے جانشین ہو۔ دوسرا کوئی نہیں۔ اب میں صبح کو اپنی جان حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے لیے قربان کردوں گا تاکہ وہ مجھ سے راضی ہوں اس کے بعد اگلے روز اس نے خلوت میں خود کشی کر لی۔ نصارٰی کے سردار اس کے کفن و دفن کے بعد خلافت کے بارے میں جھگڑنے لگے اور اپنی اپنی جماعت لے کر آمادۂ جنگ ہو گئے اور آپس میں لڑنے اور مرنے اور کٹنے لگے۔