دفتر 1 حکایت 15: وزیر کا نصارٰی کو دھوکا دینے کی تجویز کرنا اور اس کا فریب

دفتر اول: حکایت: 15

تلبِیس اندیشیدنِ وزِیر با نصارٰی و مکرِ اُو

وزیر کا نصارٰی کو دھوکا دینے کی تجویز کرنا اور اس کا فریب

1

پس بگویم من پسرِ نصرانیم

اے خدائے راز داں میدانیم

ترجمہ: (وزیر نے بتایا) پس میں کہوں گا کہ میں نصرانی زادہ ہوں (یا دل سے میں نصرانی ہوں اور قسم کھا لوں گا کہ) اے خدائے رازداں تو مجھ کو جانتا ہے۔

2

شاہ واقفِ گشت از ایمانِ من

وز تعصّب کرد قصدِ جانِ من

ترجمہ: (کسی وجہ سے) بادشاہ میرے مذہبی عقیدے سے واقف ہو گیا اور تعصّب سے میری جان کا لاگو ہو گیا۔

3

خواستم تا دِیں زِ شہ پنہاں کنم

آنچہ دینِ اوست ظاہر آں کنم

ترجمہ: میں نے چاہا کہ بادشاہ سے (اپنا) مذہب مخفی رکھوں (اور) جو مذہب اس کا ہے وہ ظاہر کروں۔

4

شاہ بُوئے بُرد از اسرارِ من

متّہم شُد پیشِ شہ گفتارِ من

ترجمہ: (مگر) بادشاہ نے میرے بھیدوں کا سراغ لگا لیا (اور) میری بات بادشاہ کے سامنے جھوٹی پڑ گئی۔

5

گفت گفتِ تو چُو ناں در روغن ست

از دِل من تا دلِ تو روزن ست

ترجمہ: (بادشاہ) بولا تیری بات (بظاہر) روغنی روٹی کی طرح (چکنی چپڑی) ہے (مگر تیرے باطن کا حال مجھ سے مخفی نہیں کیونکہ) میرے دل سے تیرے دل تک ایک دریچہ ہے۔

جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بلے داند دلے کاگاہ باشد

کہ دلہا را بدلہا راہ باشد

6

من ازاں روزن بدیدم حالِ تو

حال دیدم کے نیوشم قالِ تو

ترجمہ: میں نے اس دریچے سے تیرا حال (صاف صاف) دیکھ لیا ہے (جب) حال دیکھ لیا تو قال کیوں سنوں۔

7

گر نبودے جانِ عیسٰیؑ چارہ ام

او جہُودانہ بکردے پارہ ام

ترجمہ: (پھر میں ان سے کہوں گا) اگر عیسٰی علیہ السلام کی روح میری مددگار نہ ہوتی تو وہ یہودیوں کی طرح (از راہِ عداوت) مجھے پارہ (پارہ) کر دیتا۔

8

بہرِ عیسٰیؑ جاں سپارم سَر دہم

صد ہزاراں منتّش بر جاں نہم

ترجمہ: (مگر مجھے جان کا خوف نہیں) کیونکہ میں عیسٰی علیہ السلام کی خاطر جان دینے اور سر رکھنے کو تیار ہوں اور اگر ایسا ہو تو اپنی جان پر اس کے لاکھوں احسان مانوں۔

9

جاں دریغم نیست از عیسٰیؑ و لیک

واقفِم بر علمِ دِینش نیک نیک

ترجمہ: مجھے عیسٰی علیہ السلام کے نام پر جان دینے میں مضائقہ نہیں۔ لیکن میں اس کے دین سے بہت زیادہ واقف ہوں۔ (اس لیے لوگوں کو بے دین دیکھنا مجھے جان دینے سے زیادہ ناگوار ہے)۔

10

حَیف مے آید مراکاں دینِ پاک

درمیانِ جاہلاں گردد ہلاک

ترجمہ: مجھے افسوس آتا ہے کہ یہ دینِ پاک جاہلوں میں پڑ کر برباد ہوا جاتا ہے۔

11

شکر یزداں را و عیسٰیؑ را کہ ما

گشتہ ایم ایں دینِ حق را رہنما

ترجمہ: شکر ہے خدا کا اور عیسٰی علیہ السلام کا کہ ہم اس سچے دین کے رہنما بن گئے ہیں۔

12

وز جہود و از جہوداں رستہ ایم

بزنّار ایں میاں بَر بستہ ایم

ترجمہ: (اور شکر ہے کہ) یہودی (بادشاہ) اور (اس کے نوکر) یہودیوں سے ہم چھوٹ گئے۔ یہاں تک کہ ہم نے (خدمتِ دین کے لیے) زنّار کے ساتھ کمر (ہمت) باندھ لی ہے۔

13

دَور دَورِ عیسٰیؑ ست ایمردماں

بشنوید اسرارِ کیشِ او بجاں

ترجمہ: اے لوگو! یہ زمانہ (شریعتِ) عیسٰی علیہ السلام کا عہد ہے۔ اس کے مذہب کے اسرار دل و جان سے سنو۔

14

کایں شہِ بیدین و ظالم بس عدوست

مے نداند ہیچ دشمن را زِ دوست

ترجمہ: کیونکہ یہ بے دین و ظالم بادشاہ (نصرانیت کا) بڑا دشمن ہے (اور یہاں تک بے تمیز ہے کہ) دوست و دشمن میں بھی فرق محسوس نہیں کرتا (پھر اس سے حقیقت شناسی اور انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے۔)

مطلب: لوگو! دینِ عیسوی کے حصول اور اس کے احکام کے استماع میں تغافل نہ کرو تاکہ اس کی تبلیغ و اشاعت عام ہو جائے، ورنہ موجودہ عہد کا حکمران تو اس قدر ظالم و جابر اور دشمنِ دین ہے کہ وہ ہمارے دین کا رہا سہا نشان بھی حرفِ غلط کی طرح مٹا دے گا۔

15

ایں نسق میگفت با نصرانیاں

لیک بُودش دل بسوے شہ کشاں

ترجمہ: اس طرح وہ (مکار وزیر اپنی تقریر جو) نصرانیوں کے سامنے (کرنے والا تھا بادشاہ کو) سناتا تھا، لیکن (فی الحقیقت وہ اس کو بے دین و ظالم وغیرہ نہیں سمجھتا تھا، بلکہ) دل سے بادشاہ کا گرویدہ تھا۔ (چنانچہ:)

16

گفت شہ را کاے شہنشہ صبر کن

تا من ایشاں را کَنم از بیخ و بُن

ترجمہ: (پھر) اس نے کہا حضور دیکھتے جائیں کہ میں ان لوگوں کی جڑیں اکھیڑ کر چھوڑ دوں گا۔

الخلاف: اوپر کے تین شعر یعنی "کایں شہ الخ"، "ایں نسق الخ"، "گفت شہ را الخ" ہمارے نسخے میں نہ تھے۔

17

چُوں شمارندم امین و مقتدا

سر نہندم جُملہ جویند اِہتِدا

ترجمہ: (غرض اے بادشاہ) جب وہ (نصارٰی) مجھ کو اپنا امین اور پیشوا شمار کریں گے تو میرے آگے سرِ (تسلیم) خم کریں گے اور ہدایت کے طالب ہوں گے۔

الخلاف: یہ شعر بعض نسخوں میں نہیں ہے۔

18

چُوں وزیر آں مکر را بر شہ شمرد

از دلش اندیشہ را کُلّی ببُرد

ترجمہ: جب وزیر نے بادشاہ کے سامنے وہ مکر بیان کیا تو اس کے دل سے فکر بالکل دور کر دیا۔

19

کرد با وَے شاہ آں کاریکہ گُفت

خلق حَیراں ماند زاں رازِ نہفت

ترجمہ: اس کے ساتھ بادشاہ نے وہی کام کیا جو اس نے کہا تھا۔ اس پوشیدہ راز (کے وقوع) سے خلقت حیران رہ گئی۔

20

کرد رُسوایش میانِ انجمن

تا کہ واقِف شد ز حالش مرد و زن

ترجمہ: اس کو سرِ بازار ذلیل کیا۔ یہاں تک کہ اس کے حال سے مرد و زن واقف ہو گئے۔

21

راند او را جانبِ نصرانیاں

کرد در دعوت شروع او بعد ازاں

ترجمہ: اس کو نصرانیوں کی طرف بھگا دیا۔ اس کے بعد اس نے (مذہبی) منادی شروع کر دی۔

22

چُوں چناں دِیدند ترسایانش زار

مے شدند اندر غمِ او اشکبار

ترجمہ: عیسائیوں نے جب اس کو ایسا بدحال دیکھا تو اس کے غم میں آنسو بہانے لگے۔

23

حالِ عالم اینچنیں ست اے پسر

از حسد می خیزد اینہا سربسر

ترجمہ: بچہ! دنیا کا حال ہی ایسا ہے (جیسا کہ وزیر نے نصارٰی کو تباہ کرنے کے لیے اپنا حال بنایا) یہ ساری باتیں حسد سے اٹھتی ہیں۔