دفتر 1 حکایت 16: نصارٰی کا وزیر کے پاس جمع ہونا اور اس کا ان لوگوں سے راز بیان کرنا

دفتر اول: حکایت: 16

جمع آمدنِ نصارٰی با وزیر و راز گفتن ایشاں

نصارٰی کا وزیر کے پاس جمع ہونا اور اس کا ان لوگوں سے راز بیان کرنا

1

صد ہزاراں مردِ ترسا سُوئے اُو

اندک اندک جمع شد در کُوئے اُو

ترجمہ: لاکھوں عیسائی لوگ اس کی طرف (جانے کے لیے) تھوڑے تھوڑے کر کے اس کے کوچے میں جمع ہوئے۔

2

او بیاں میکرد با ایشاں براز

سرِّ اَنْگَلْیُوْں و زنّار و نماز

ترجمہ: وہ ان سے رازداری کے ساتھ انجیل، زنّار اور نماز کے اسرار بیان کرتا تھا۔

3

اُو بیاں میکرد با ایشاں فصیح

دائماً اقوال و افعالِ مسیحؑ

ترجمہ: وہ ان سے ہمیشہ فصاحت کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال و افعال بیان کیا کرتا۔

4

او بظاہِر واعظِ احکام بود

لیک در باطِن صِفیر و دام بود

ترجمہ: وہ بظاہر تو احکام (دین) کا واعظ تھا۔ مگر باطن میں (یہ ساری کاروائی) سیٹی اور جال تھی (جو ایک شیطانی فریب تھا۔)

5

بہر اِیں معنٰی صحابہ از رسُول

مُلتمِس بودند مکرِ نفسِ غُول

ترجمہ: اسی (قسم کے شیطانی مکر کا سراغ لگانے کے) لیے صحابہ رسول صلّی اللہ علیہ و سلّم سے نفسانی چھلاوے کے فریب کی حقیقت پوچھتے رہتے تھے۔

مطلب: جس طرح وزیر نے نصاریٰ کو مکاری و عیاری سے تباہ کرنا چاہا اور وہ اس کے ہتھکنڈے سے آگاہ نہ ہوئے۔ اسی طرح نفس شیطان بھی جو انسان کے اندر ایک دشمن موجود ہے انسان کی بربادی کے لیے طرح طرح کے دامِ فریب بچھاتا ہے ؎

آنہا کہ زخم از سگِ خاموش خوردہ اند

از نفسِ آرمیده حذر بیشتر کنند

اسی لیے صحابہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم سے بغرضِ احتیاط نفسِ شیطان کی مکاریوں کی کیفیت پوچھتے رہتے تھے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے: "کَانَ النَّاسُ یَسْئَلُوْنَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ عَنِ الْخَیْرِ وَ کُنْتُ أَسْأَلُهٗ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَۃَ اَنْ یُّدْرِکَنِیْ" (صحیح مسلم) یعنی "لوگ تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم سے بھلائی کے بارہ میں سوال کرتے مگر میں برائی کے متعلق پوچھتا رہتا اس خوف سے کہ مبادا وہ مجھے پیش آ جائے"۔ صحابہ سے مراد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے امثال ہیں۔

6

کو چِہ آمیزد ز اغراضِ نِہاں

در عِبادتہا و در اخلاصِ جاں

ترجمہ: کہ وہ (نفسِ شیطانی) عبادات اور قلبی اخلاص میں کیا کیا پوشیدہ خود غرضیاں ملا دیتا ہے۔

مطلب: نفس کے مکر و فریب نہایت گہرے اور بندے کے اخلاص و عبادت کے لیے تباہ کن ہیں۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

؎ سوئے مسجد ندہد نفس بدم راہ ہنوز

گرچہ از بارِ گنہ ساخت چو محراب مرا

7

فضلِ طاعت نجستندے ازو

عیبِ باطن را بجستندے کہ گو

ترجمہ: (یہ صحابہ) آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم سے (اعمال کی) ظاہری فضیلت کے متعلق (چنداں سوال نہیں کرتے تھے) (بلکہ) باطنی عیب کی تلاش کرتے (ہوئے کہتے) کہ (یا حضرت!) فرمائیے۔

8

مُوبمُو و ذرّہ ذرّہ مکرِ نفس

میشناسیدند چوں گُل از کرفس

ترجمہ: (چنانچہ صحابہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم کے فیضِ تعلیمات سے) نفس کے باریک سے باریک اور ذرہ ذرہ فریب کو اس طرح پہچان لیتے جس طرح پھول (کی خوشبو) کو کرفس (کی بد بو) سے (پہچان لیتے ہیں)۔

9

گُفت زاں فصلے حذیفہؓ با حَسَن

تا بَداں شد وَعْظ و تذکِیرش حَسَن

ترجمہ: اس (قسم کے عیوبِ نفس کی تحقیق) کا کچھ حصہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تھا جس سے ان کا وعظ و بیان خوب (مؤثر) ہو گیا تھا۔

مطلب: خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ کا وعظ تاثیر کے لحاظ سے حیرت انگیز مانا جاتا تھا، مولانا فرماتے ہیں اس وعظ کی تہہ میں وہی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے اسراری نکات کام کر رہے تھے جو انہوں نے اغترارِ نفس و اغوائے شیطان کے متعلق ان کو بتائے تھے۔

10

موشگافانِ صحابہؓ جُملہ شاں

خِیرہ گشتندے دراں وعظ و بیاں

ترجمہ: صحابہ میں سے جو نکتہ فہم حضرات تھے وہ سب کے سب اس وعظ بیان سے دنگ رہ جاتے۔

11

دل بدو دادند ترسایاں تمام

خود چہ باشد قوّتِ تقلیدِ عام

ترجمہ: غرض تمام عیسائی اس کے گرویدہ ہو گئے۔ واقعہ میں بھیڑ چال میں بھی کیا طاقت ہوتی ہے۔

12

در درونِ سینہ مہرش کاشتند

نائبِ عیسٰش می پنداشتند

ترجمہ: ان لوگوں نے (اپنے) سینے میں اس کی محبت (کے بیج) کو بو لیا، اور وہ اس کو عیسیٰ علیہ السلام کا جانشین سمجھتے تھے۔

13

او بسرِ دجال یک چشمِ لعین

اے خُدا فریاد رس نِعْمَ الْمُعِیْنُ

ترجمہ: (مگر) وہ اندر سے کانا دجال تھا۔ یا الٰہی! اے اچھے مددگار! ہماری فریاد سن۔

مطلب: دجال کا فتنہ چونکہ ایک نہایت خطرناک فتنہ ہے۔ جو قربِ قیامت میں پیش آنے والا ہے اس لیے اس کا نام آنے سے بے اختیار مولانا کی زبان سے خدا کے حضور میں فریاد کے کلمات نکل پڑے۔

14

صد ہزاراں دام و دانہ ست اے خدا

ما چُو مرغانِ حریصِ بے نوا

ترجمہ: الٰہی! دنیا میں، لاکھوں جال اور دانے (ہمارے ارد گرد پھیلائے گئے) ہیں۔ ہم بے کس، حریص اور بھوکے پرندوں کی طرح (ان میں گرفتار ہونے کو) ہیں۔

؎ یا رب قدم قدم پہ ہے غارِ بلا یہاں

آتا نظر نہیں مجھے رستہ نجات کا

15

دمبدم پا بستۂ دامِ نو ایم

ہر یکے گر باز و سِمیرُغے شویم

ترجمہ: ہم (دنیا دار) دم بدم نئے جال میں گرفتار ہیں اگرچہ ہم سب باز اور سمیرغ بن جائیں۔

مطلب: عالم بھر میں ہوا و ہوس کے جال پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم بچنا چاہیں تو کدھر جائیں۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

چوں بال کشایم دریں صید گہِ دہر

از دام ہمہ روئے زمیں سِینہ بازست

16

می رہانی ہر دمے ما را و باز

سوئے دامے میرویم اے بے نیاز

ترجمہ: اے بے نیاز! تو (اپنے فضل سے) ہر دم ہم کو (ان پھندوں سے) چھڑاتا ہے مگر ہم پھر کسی نہ کسی جال کی طرف جا نکلتے ہیں۔

مطلب: بعثتِ انبیاء علیھم السلام اور نزولِ احکام میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ ہم کو ہدایت ہو اور ہم عذابِ آخرت سے محفوظ رہیں۔ اس کے علاوہ ہم کو عقل بھی عطا فرمائی ہے تاکہ ہم اچھے اور برے اعمال میں تمیز کر سکیں۔ پھر ان سب باتوں کے باوجود ہم مناہی کے گڑھے میں گرنے اور معاصی کے دام میں پھنسنے سے باز نہیں آتے تو یہ ہمارا قصور ہے، قدرت کا نہیں۔ ؎

الزامِ جورِ تیغِ سکندر پہ جور ہے

لے آئے شوقِ مرگ تو دارا کا کیا علاج

17

ما دریں انبان گندم می کنیم

گندم جمع آمدہ گم می کنیم

ترجمہ: ہم اس تھیلے میں گیہوں بھرتے ہیں (پھر) جمع ہوئے ہوائے گیہوں کھو بیٹھتے ہیں۔

مطلب: ہم اعمالِ صالح کماتے ہیں اور وہ کسی سبب سے برباد ہونے لگتے ہیں تو ہم تدارک نہیں کرتے۔

18

مے بیندیشیم آخر ما بہوش

کایں خلل در گندمست از مکرِ موش

ترجمہ: آخر ہم ذرا ہوش کے ساتھ غور کرتے ہیں (تو معلوم ہو جاتا ہے) کہ گیہوں میں نقصان چوہے کی شرارت سے (ہوا) ہے۔

مطلب: رات دن اعمال صالحہ کرتے رہنے کے با وجود جب ان کی کچھ برکات نمایاں نہیں ہوتیں تو غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ شیطان نے غرور یا ریا وغیرہ خرابیاں پیدا کر کے ان کو ضائع کر دیا ہے۔ یا اس نے آدابِ عبادت کی بجا آوری سے قاصر رکھا جس سے وہ عبادت ناقص رہ گئی۔ جس طرح چوہا تھیلے کو کاٹ کر غلے کا نقصان کر جاتا ہے۔ سنن ابو داؤد کی روایت ہے۔ "عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ عَنِ الْتِفَاتِ الرَّجُلِ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ إِنَّما هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهٗ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ"۔ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم سے کسی آدمی کے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے ارشاد فرمایا: یہ ایک جھپٹا ہے جو شیطان بندے کی نماز سے جھپٹ لیتا ہے۔

19

مُوش تا انبانِ ما حُفرہ زدہ است

و از فنش انبارِ ما ویراں شد است

ترجمہ: (شیطانی وسوسہ کے) چوہے نے ہمارے (باطن کے) تھیلے میں رخنہ کر لیا ہے اور اس کے فریب سے ہمارا ذخیرۂ (اعمال) برباد ہو گیا۔

20

اوّل اے جاں دفعِ شرِ مُوش کن

وانگہ اندر جمعِ گندم جوش کن

ترجمہ: اے جاں! پہلے (وساوس کے) چوہے کی خرابی دفع کر۔ پھر گیہوں جمع کرنے میں سرگرمی کر۔

مطلب: پہلے شیطانی وسوسوں کو دفع کرو اور اخلاقی کدورتوں سے شیشۂ دل کو صاف کرو پھر اعمالِ صالحہ کی برکت دیکھو گے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

بردیکے بدو گر با صفا کنی عملے

کہ پیشِ آینہ گر دو نہی چہار بود

21

بشنو از اخبارِ آں صدر الصّدور

لَا صَلٰوۃَ (تَمَّ) اِلَّا بِالْحُضُوْرِ

ترجمہ: اس سبب سے بڑے مسند نشین (صلّی اللہ علیہ و سلّم) کی حدیثوں میں سے (یہ حدیث) سن لو، کہ نماز حضورِ قلب کے بغیر درست نہیں ہوتی۔

مطلب: اوپر بیان کیا تھا کہ پہلے وساوسِ شیطانی سے دل کو صاف کرو۔ پھر اعمال بجا لاؤ۔ اب اعمال میں سے ایک نماز کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ حدیث شریف میں آیا ہے: "لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ"۔ یعنی "حضورِ دل کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی"۔ (اس حدیث کے مشہور الفاظ یہی ہیں شعر میں "تَمَّ" اور الف لام کا اضافہ ضرورتِ شعری کے لیے ہوا ہے)۔ آدمی جب خدا کے حضور میں نماز کے لیے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے تو وہ خاص خدا کی طرف دل لگانے کا وقت ہے جس کو حضورِ دل کہتے ہیں اور جس کے لیے لازم ہے کہ کوئی دوسرا خیال اور کوئی وسوسہ دل میں نہ آئے۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

دفع شد وسواسِ خاطر از نمازِ با حضُور

ما بدست بستہ وا کردیم قفلِ بستہ را

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

خرد ضمیر و ہوش و دل و جان و چشمِ من شُد

ز ہمہ خیال خالی بجز از خیالِ رویت

لیکن جب نماز میں صفائیِ قلب اور محویتِ تام نہیں ہے تو وہ نماز نہیں، اور اس وقت جو ادھر ادھر کے خیالات اور وسوسے دل میں اٹھتے ہیں وہ نماز کو برباد کرتے ہیں۔ اور ان کی مثال وہ چوہے ہیں، جو تھیلوں کو کتر کتر کر انبارِ غلہ کو نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ وساوس کی وجہ سے نماز کا باطل ہو جانا صوفیہ کا مشرب ہے۔ فتوائے شرع کی رُو سے وسوسے اور غیر متعلق خیالات مفسدِ نماز نہیں، ہاں مانعِ کمال ہیں۔ "لَاصَلٰوۃَ اِلَّابِحُضُوْرِ الْقَلْبِ" کی روایت حدیث کی کسی صحیح و متداول کتاب میں نہیں ملتی، مگر چونکہ اس قول کا مضمون دیگر احادیث کے مضمون سے ملتا ہے اس لیے احتمال ہے کہ اس کو بطورِ روایت بالمعنٰی قولِ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم قرار دیا ہو۔ سنن ابو داؤد کی روایت ہے: "قَالَ اَبُوْذَرٍّ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: لَا یَزَالُ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ مُقْبِلًا عَلٰی الْعَبْدِ وَ ھُوَ فِیْ صَلٰوتِہٖ مَا لَمْ یَلْتَفِتْ، فَاِذَا الْتَفَتَ انْصَرَفَ عَنْہُ"۔ یعنی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ برابر اپنے بندے کی طرف متوجہ رہتا ہے، بحالیکہ وہ اپنی نماز میں ہوتا ہے، جب تک کہ ادھر ادھر نہیں دیکھتا۔ پھر جب ادھر ادھر دیکھتا ہے تو وہ بھی اپنا رخ پھیر لیتا ہے۔ (کلید)

شعر میں "تَمَّ" کی بجائے "تَمَّتْ" چاہیے تھا تاکہ ضمیرِ مؤنث اپنے مرجع یعنی "صلوٰۃ" کے مطابق ہوتی۔ ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہاں صلوٰۃ کی مطلق حیثیت بلا قیدِ تذکیر و تانیث ملحوظ ہے۔

22

گر نہ موشے دُزد در انبانِ ماست

گندمِ اعمالِ چِل سالہ کجاست

ترجمہ: اگر ہمارے تھیلے میں کوئی چوہا چور نہیں ہے تو چالیس برس کے عملوں کے گیہوں کیا ہوئے۔

مطلب: چالیس برس سے درازیِ مدت مراد ہے نہ کہ برسوں کا عددِ مخصوص۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی چالیس سال تک شباب کی عمر ہوتی ہے جس میں غفلت و بے پروائی کا احتمال ہے۔ پھر چالیس سال کے بعد جب تنبّہ اور استبصار پیدا ہوتا ہے تو گذشتہ عمر کے متعلق نفس سے محاسبہ کرتا ہے کہ اے نفس! تیرے اندر ضرور کوئی چور موجود ہے جو تیرے سرمایۂ اعمال کو غارت کر رہا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ اس عمر تک اتنی نمازیں پڑھیں، اتنی عبادتیں کیں قلب میں کوئی روحانی کرشمہ پیدا نہ ہوا۔

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

بلب رسید مرا جان و برنیامد کام

بسر رسید امید و طلب بسر نہ رسید

غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

ز پیری ریخت و ندانم ندادم تن بیادِ حق

ببازیِ آخر ایں تسبیح چوں اطفال گم کردم

23

ریزہ ریزہ صِدق ہر روزہ چرا

جمع مے ناید دِریں انبارِ ما

ترجمہ: (زیادہ انبار نہ سہی) ریزہ ریزہ صدق (و اخلاص) کا ہر روز ہمارے اس ذخیرے میں جمع کیوں نہیں ہوتا۔

مطلب: یہ دلیل ہے اس کی کہ نفس کے اندر ضرور روحانی چور (شیطان) موجود ہے۔ چنانچہ احادیث میں وارد ہے: "اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ" (بلوغ المرام)۔ ”بے شک شیطان انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح پھرتا ہے۔“ یہی چور ہے جو ذخیرۂ اعمال کو تباہ کر رہا ہے ورنہ آج تک اس ذخیرہ میں کچھ تو جمع ہوتا۔

فائدہ: اعمال کو شیطانی خطرات و وساوس سے بچانے کی بعض صورتیں فرض ہیں اور بعض مستحب مثلًا نماز کے وسوسے کی ایک صورت یہ ہے کہ نماز سے مقصود خاص خداوند تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ مگر شیطان کبھی نمازی کے دل میں خطرات پیدا کر کے شہرت، نیک نامی اور دیگر فوائد اس کا مقصود بنانا چاہتا ہے۔ ایسے خطرات کا دور کرنا فرض ہے کیونکہ اس سے نماز کی اصلیت ہی فوت ہو رہی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ نماز تو خاص خدا کے لیے بلا خیالِ ریا و نمائش پڑھتا ہے، مگر اثنائے نماز میں ادھر ادھر کے دنیوی خیالات دل پر ہجوم کرتے ہیں جن کی وجہ سے دل کا خضوع و خشوع قائم نہیں رہتا اور اکثر اوقات عددِ رکعات اور دیگر امورِ نماز میں اس کو سہوِ خاص ہوتا ہے۔ ایسے خیالات کے پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں یا تو ان کا مطالعہ کرتا ہے اور با اختیارِ خود مختلف تصورات اپنے دل میں لاتا ہے۔ یہ سخت منع ہے اور اس سے نماز ناقص ہوتی ہے۔ اس لیے اس سے بچنا وجوب کے قریب قریب ہوتا ہے۔ یا باوجود اخلاصِ توجّہ کے پھر خیالات دل میں پیدا ہوئے ہوں تو اس سے نماز میں نقص نہیں آتا، تاہم ان خیالات کو دفع کرتے رہنا چاہیے۔ چور خزانہ پر گھات لگایا ہی کرتا ہے، اس کی حفاظت کرنا چوکیدار کا کام ہے۔ یہ اہل اللہ ہی ہیں جو محبوبِ حقیقی کے لیے منزلِ دل کو ہر شے سے خالی کر سکتے ہیں حتٰی کہ جان سے بھی۔

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

امشب اے جانِ کہن بیروں گذر بیگانہ وار

کاشنائے دیگرم در دل دروں خواہد گزشت

24

بس ستارہ آتش از آہن جہید

ویں دلِ شوریدہ پذرفت و کشید

ترجمہ: (عبادت کے) بہتیرے آتشیں ستارے (یعنی چنگاریاں) ہمارے آہن (دل) سے نکلے اور اس دیوانے دل نے ان کو قبول اور برداشت کیا۔

25

لیک در ظلمت یکے دُزدے نہاں

مے نہد انگُشت بر استارگاں

ترجمہ: لیکن (سب محنت رائیگاں جاتی ہے جب کہ) تاریکی (جہل) میں (وساوسِ شیطانی کا) ایک چھپا ہوا چور (ان) ستاروں پر انگلی رکھ (کر انہیں بجھا) دیتا ہے۔

26

میکُشد استارگاں را یک بیک

تاکہ نفروزد چراغے بر فلک

ترجمہ: وہ ان ستاروں کو ایک ایک کر کے بجھا دیتا ہے تاکہ (نورِ معرفت کا) کوئی چراغ فلک (دل) پر روشن نہ ہونے پائے۔

مطلب: یہ مضمون قصہ طلب ہے کہ ایک چور رات کو کسی شخص کے گھر میں داخل ہوا گھر کے مالک نے آہٹ پا کر روشنی کرنی چاہی چنانچہ چقماق اٹھایا (جو ایک پتھر ہوتا ہے اور زمانہ قدیم میں اس سے آگ نکالا کرتے تھے) اور حسبِ قاعدہ اس کے نیچے روئی رکھ چقماق سے شرارے جھاڑنے لگا چور چپکے سے اندھیرے میں اس شخص کے پاس آن بیٹھا جو شرارہ روئی پر گرتا سلگنے سے پہلے انگلی کے ساتھ اس کو بجھا دیتا، تاکہ روشنی نہ ہو اور میں پکڑا نہ جاؤں۔ مولانا نے اس قصہ کو بطور استعارہ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی انسان جب عبادت کرتا ہے تو گویا اس کا دل آتشِ الٰہی کی بھٹی میں لوہے کی طرح لال ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے: "تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَ الْعُمْرَۃِ فَاِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَ الذّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ"۔ (مشکوٰۃ) ”حج و عمرہ اکٹھے بجا لاؤ۔ کیونکہ یہ دونوں فقر و معاصی کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی کی دھونکنی لوہے کی میل دور کر دیتی ہے“۔ مولانا فرماتے ہیں کہ آہنِ دل جب عبادتِ الٰہی سے لالوں لال ہو جاتا ہے اور اس سے انوارِ غیب کے شرارے جھڑنے لگتے ہیں جن سے عرفان و ایقان کے روشنی متصوّر ہے تو دزدِ شیطان جو انسان کے پہلو میں چھپا بیٹھا ہے چپکے سے ان انوارکو بجھاتا ہے اور اس عبادت گزار کے حالات و اوقات کو منوّر نہیں ہونے دیتا۔ اللہ اس دزدِ لئیم سے پناہ دے۔ نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ؎

چو کردی چراغِ مرا نور دار

ز من بادِ مشعل کشاں دور دار

27

چُوں عنایاتت شود ہُما مقیم

کَے بود بیمے ازاں دُزدِ لئیم

ترجمہ: (الٰہی) جب تیری عنایات ہمارے ساتھ ہیں تو (ہم کو) اس منحوس چور کا کب خوف ہے۔ نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ز تو آیتے در من آموختن

ز من دیو را دیدہ بردوختن

چو نامِ تو ام جاں نوازی کند

بمن دیو کے دست بازی کند

28

گر ہزاراں دام باشد ہر قدم

چوں تو با مائی نباشد ہیچ غم

ترجمہ: اگر ہر قدم پر ہزاروں جال بھی (پھیلے ہوئے) ہوں تو جب تو ہمارے ساتھ ہے تو کچھ غم نہیں۔

نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ؎

؎ در عصمت ایں چنیں حصارے

شیطانِ رجیم کیست بارے

29

ہر شبے از دامِ تن ارواح را

مے رَہانی میکنی الواح را

ترجمہ: (الٰہی) تو ہر شب روحوں کو بدن کے (سے مضبوط) جال سے آزاد کر دیتا ہے (اور قفسِ بدن کی) تختیاں (اور کواڑ) کھول دیتا ہے (تاکہ روحیں آزاد ہو جائیں)۔

مطلب: جس طرح ارواح کو ایک وقتِ خاص میں قیدِ جسم سے آزادی بخش کر بارِ تکالیف سے سبکدوش کر دیا جاتا ہے اسی طرح ہم کو بھی اگر باطنی خطرات کے پھندے سے آزادی دلائی جائے تو کیا بات ہے۔ خواب میں روح جسم سے نکلتی نہیں۔ صرف اتنا ہوتا ہے کہ روح حواس و قوٰی کے واسطہ سے جو تصرف جسم میں کرتی ہے، وہ تصرف موقوف ہو جاتا ہے۔ اس کو روح کی آزادی سے تعبیر کیا ہے۔ بقول مولوی اسماعیل مرحوم: ؎

خوابِ راحت بھی ہے عجب چیز

کیا عالمِ بے خودی ہے چھایا

غم دور ہوا ٹکڑ گدا کا

جھولی ہے نہ جھونپڑی نہ سایا

بیڑی سے رکا نہ ہتھکڑی سے

محبوس کو قید سے چھڑایا

30

میرہند ارواح ہر شب زِیں قفس

فارِغاں بے حاکم و محکومِ کس

ترجمہ: روحیں ہر شب اس (عنصری) پنجرے سے چھوٹ جاتی ہیں۔ فارغ البال بغیر کسی کی افسری و ماتحتی کے (پڑی پھرتی ہیں)۔

31

شب زِ زنداں بیخبر زندانیاں

شب زِ دولت بیخبر سلطانیاں

ترجمہ: قیدی رات کو (نیند میں) قید خانہ سے بے خبر (ہوتے ہیں) شاہی لوگ رات کو نیند میں (کاروبارِ) سلطنت سے غافل ہوتے ہیں۔

مطلب: رات کو سب پر غفلت و بے خبری کا عالم طاری ہوتا ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

زباں بستہ جرس جنباں جرس را

ربودہ دزدِ شب ہوشِ عسس را

سگاں را طوق گشتہ حلقہ دم

دراں حلقہ رہِ فریادِ شاں گم

32

نے غم و اندیشۂ سود و زیاں

نے خیالِ ایں فلان و آں فلاں

ترجمہ: نہ (کسی کو) فائدے کا غم اور نقصان کا خوف (ہوتا ہے) نہ (کسی کو) اس فلاں اور اس فلاں کا خیال (ہوتا ہے)۔

مطلب: وہی نیند میں بے خودی کا عالم۔ بقول مولانا اسماعیل مرحوم ؎

اے نیند! نمونۂ قیامت

تو نے ہمیں آنکھ سے دکھایا

تو آئی ہوئے حواس بیکار

کیا جانئے تو نے کیا سنگھایا

33

حالِ عارف ایں بود بیخواب ہم

گفت یزداں ہُمْ رُقُودُ، زِیں مَرَم

ترجمہ: (یہ تو عام لوگوں کا حال تھا) عارف کا حال خواب کے بغیر بھی اسی طرح ہوتا ہے (یعنی وہ قیودِ جسمانی سے آزاد ہوتا ہے۔ جیسے کہ اصحابِ کہف کے قصے میں) خدا فرماتا ہے ﴿ھُمْ رُقُوْدٌ﴾ پس (اے مخاطب!) اس (عقیدہ) سے گریز نہ کر۔

مطلب: اہلِ دنیا تو ایک وقتِ معین میں اسباب و علائق سے بے خبر ہوتے ہیں جس کا نام خواب ہے، مگر عارف کا دل ہر وقت دنیا کے تعلقات سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ اس استغراق کے ساتھ مشغول بحق ہوتا ہے کہ گویا ہر وقت دنیا کی طرف سے چشم بستہ ہو کر سو رہا ہے۔ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

آواز نہیں قید میں زنجیر کے ہرگز

ہر چند کہ عالم میں ہوں عالم سے جدا ہوں

یعنی نہ ہوش ہے نہ حواس ہیں نہ دل ہے نہ عقل۔

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

ما را وداع کردی و عقل ہرچہ بود

اِلّا سرِ نیاز برآں آستاں بماند

مولانا فرماتے ہیں جس طرح اصحابِ کہف بقول خداوند تعالیٰ بظاہر بیدار اور در حقیقت مصروفِ خواب ہیں اسی طرح عارف دیکھنے میں بیدار نظر آتے ہیں مگر واقع میں بے خود اور جسمانی تعلقات سے آزاد ہیں۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

مرا جمع ست اسبابِ تعلق لیک آزادم

سراپا پنجہ ام چوں سر و سامانے نمیگیرم

34

خُفتہ از احوالِ دُنیا روز و شب

چُوں قلم در پنجۂ تقلِیبِ رب

ترجمہ: (یہ عارف) دنیا کے حالات سے خفتہ (و چشم فرو بستہ) ہوتا ہے اور (کاتب کے) قلم کی طرح خدا کے دستِ تحریک میں (الٹ پلٹ ہوتا رہتا) ہے۔

مطلب: تقلیب سے اس آیت کی طرف تلمیح ہے جو اصحابِ کہف کے قصے میں آئی ہے: ﴿وَ نُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ﴾ (الکھف: 107) یعنی "ہم ان کو دائیں اور بائیں پہلو پر کروٹ دیتے رہتے ہیں"۔ اور اس کے ساتھ عارف کی حالت کو تشبیہ دی گئی ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

بدستِ اوست عنانِ ارادتِ ہمہ کس

کہ ہر طرف ز پئے ہر ضمیر مضمارست

رفعِ اشتباہ: یہاں یہ شبہ وارد ہو سکتا ہے کہ جب عارفانِ الٰہی کی حالت اس قلم کی سی ہے جو ایک کاتب کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جدھر چاہے اسے چلائے اور جس طرح چاہے چلائے اور قلم کے اپنے ارادہ اور قصد کو اپنی حرکت میں کچھ دخل نہیں ہوتا تو ان عارفانِ الٰہی کی فضیلت کیا ہوئی؟ وہ جو کچھ کرتے ہیں مجبورًا کرتے ہیں۔ نیز یہ خیال اہلِ سنت و الجماعت کے عقیدے کے خلاف بھی ہے جن کے نزدیک بندہ کسی نیک یا برے کام کو اضطرارًا نہیں کرتا بلکہ اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس بیان سے مقصود یہ ہے کہ باوجودیکہ ان حضرات کے تمام افعال و اعمال خود ان کے قصد و اختیار سے صادر ہوتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی رضا و ارادت کو خدا کی رضا و ارادت میں اس قدر محو کر دیا ہے کہ وہ جو نیک اعمال کرتے ہیں اور جو احکام و اوامر بجا لاتے ہیں گویا ان سے طبعًا صادر ہوتے ہیں۔ اور بالفرض اگر ان اعمال کی تکلیف ان سے رفع کر دی جائے، یا بزور و جبر ان کو اعمالِ حسنہ سے باز رکھا جائے وہ کسی صورت میں ان کے بجا لانے سے باز نہیں رہ سکتے۔ جس طرح کوئی مخلوق اپنے طبعی فعل سے باز نہیں رہ سکتی۔ جیسے کہ حدیثِ صحیح میں وارد ہے: "لَعَلَّ اللہُ اطَّلَعَ عَلٰۤی اَھْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ لَقَدْ غَفَرَتُ لَکُمْ"۔ (مشکوٰۃ باب جامع المناقب) ”شاید اللہ تعالیٰ کو اہلِ بدر کی حالتِ دل کی اطلاع ہو چکی۔ جبھی تو اس نے فرما دیا ہے۔ کہ تم جو عمل چاہو کئے جاو۔ میں تم کو بخش چکا“۔ یہ تو ظاہر ہے کہ بد اعمال کی صورت میں مغفرت ناممکن ہے، پس اللہ تعالیٰ نے جو ان کے مغفرت کی بشارت دی اور ہر قسم کے عمل کی اجازت بھی دے دی تو لامحالہ ان لوگوں سے نیک عمل کے سوا اور کوئی عمل سرزد نہیں ہو سکتا تھا۔ پس ایسے خاصانِ خدا کا فعل ہرچند کہ اختیاری ہے مگر لازمِ طبیعت بن جانے کے سبب سے قلم کے اضطراری فعل سے مشابہ ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

چوخامہ بر خط فرمانِ او سرِ طاعت

نہادہ ایم مگر او بہ تیغ بردارد

چونکہ ان کی یہ حالت خلقی نہیں ہے جو باضطرارِ محض ہوتی ہے بلکہ انہوں نے اس کو اختیاری مجاہدات و ریاضت سے پیدا کیا ہے لہٰذا ان کے لیے موجبِ فضیلت ہے۔

35

آنکہ او پنجہ نہ بیند در رقم

فِعل پِندارد بہ جُنبش از قلم

ترجمہ: جو (ظاہر بین) بوقتِ تحریر ہاتھ کو نہیں دیکھتا وہ اس فعل کو قلم کی حرکت سے (ظہور میں آتا) سمجھتا ہے۔

مطلب: تقلیبِ ربّ کے پنجے میں تو ہر شخص ہے مگر ہر شخص کو اس کا احساس نہیں۔ صرف عارف لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ تمام افعالِ اختیاریہ وغیر اختیاریہ کا سببِ حقیقی خداوند تعالیٰ ہے جو تمام اسباب و علل کا منتہٰی ہے۔ افعالِ غیر اختیاریہ کے لیے اس کا سبب ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ افعالِ اختیاریہ کا سبب وہ اس طرح ہے کہ اختیار جو خود ایک غیر اختیاری امر ہے اس نے عطا کیا ہے، اگر وہ اختیار نہ دیتا تو کس کی مجال تھی کہ کوئی فعل کر سکتا ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

چوں ماہیِ ضعیف کہ افتد بآبِ تند

در اختیارِ خویش مرا اختیار نیست

لیکن جو شخص صرف علّتِ ادنٰی اور سببِ ظاہر کو دیکھتا ہے وہ اس تحقیق سے نابلد ہے۔ اس کے نزدیک ایک تحریر کا فاعل قلم ہے کیونکہ اس کو ہاتھ نظر نہیں آتا جو محّرکِ قلم ہے۔ پس امورِ اختیاریہ میں اس کی نظر سببِ حقیقی پر نہیں بلکہ اسبابِ سفلیہ پر ہے۔