دفتر اول: حکایت: 17
تمثیلِ مردِ عارف و تفسیر ﴿اَللہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا﴾ (الزمر: 42)
مرد عارف کی مثال اور اس آیت کی تفسیر کہ "اللہ تعالیٰ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے"
1
شمۂ زیں حالِ عارفِ وا نمود
خلق را ہم خوابِ حِسیّ در ربُود
ترجمہ: عارف کے حال کا کچھ نمونہ (خدا نے حسّیات کے ذریعہ سے) ظاہر کر دیا ہے۔ چنانچہ مخلوق کو بھی یہ نیند عارض ہوئی جو ظاہری ہے (سکر و بیخودی مراد نہیں)۔
مطلب: عنوانِ بالا میں اس آیت کا اقتباس درج ہے۔ ﴿اَللهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِـهَا وَالَّتِىْ لَمْ تَمُتْ فِىْ مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِىْ قَضٰى عَلَيْـهَا الْمَوْتَ وَيُـرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ﴾ (الزمر: 42) یعنی ”اللہ ہی موت کے وقت روحوں کو قبض کر لیتا ہے اور جو مرتے نہیں۔ ان کی روحوں کو خواب میں قبضے میں کر لیتا ہے۔ پھر جن پر موت کا حکم ہو چکتا ہے تو ان روک رکھتا ہے اور دوسروں کو چھوڑ دیتا ہے۔ ایک مقررہ وقت تک بے شک اس میں غور کرنے والوں کے لیے بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔“ انتہٰی۔ حدیث میں آیا ہے کہ "اَلنَّوْمُ اَخُو الْمَوْتِ" (بیہقی) یعنی ”نیند موت کی بہن ہے“ یعنی موت اور نیند دونوں صورتوں میں ذی روح کے جسم سے اس کی جان نکل جاتی ہے۔ پھر جس پر موت کا حکم صادر ہو چکتا ہے اس کی روح تو واپس جسم میں آتی نہیں اور جس پر نیند طاری کی جاتی ہے اس کی جان واپس بدن میں ڈال دی جاتی ہے۔ تفسیر مدارک میں لکھا ہے کہ ہر شخص کے دو نفس ہیں ایک نفسِ حیات جو موت کے وقت جسم سے نکل جاتا ہے دوسرا نفسِ تمیز جو خواب کے وقت بدن سے نکلتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابنِ آدم میں ایک نفس ہوتا ہے اور ایک روح۔ ان دونوں کے درمیان شعاعِ شمس کی طرح شعاع ہوتی ہے۔ نفس میں عقل و تمیز ہوتی ہے اور روح میں تنفّس اور تحرّک ہوتا ہے۔ جب بندہ سوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے نفس کو قبض کر لیتا ہے، روح کو قبض نہیں کرتا۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خواب میں زندوں اور مردوں کی ارواح باہم ملتی ہیں۔ پس جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے باہم ملاقات و تعاون کرتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس روح کو روک رکھتا ہے جس پر موت صادر ہو چکی ہے اور دوسری کو اس کے جسم میں واپس بھیج دیتا ہے۔ (انتہٰی)
کلیدِ مثنوی میں لکھا ہے کہ اہلِ کشف کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو جسم عطا فرمائے ہیں۔ ایک جسمِ عنصری کہ دنیا میں رہتا ہے اور آخرت میں محشور ہو گا۔ اور اسی پر ثواب و عذاب کا اثر ہو گا۔ دوسرا جسمِ مثالی کہ عالمِ مثال میں موجود ہے اور خواب میں نظر آتا ہے۔ اور روحِ حقیقی جو ایک امرِ ربی ہے، دونوں جسموں سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس سے روحِ طبی مراد نہیں، اس کا تعلق صرف جسمِ عنصری سے ہے۔ پس روح کے بدن سے نکلنے اور عالمِ مثال میں جانے سے مراد یہ ہے کہ جسمِ عنصری سے اس کا تعلق ضعیف ہو کر جسمِ مثالی سے تعلق بڑھ جاتا ہے۔ اور عالمِ مثال سے بدن میں آنے سے مراد یہ ہے کہ جسمِ مثالی سے تعلق کم ہو کر جسمِ عنصری کے ساتھ زیادہ ہو جاتا ہے۔ انتہٰی۔
غرض خواب کے اندر جسم سے روح نکلتی ہو یا نفس اور اس کی سیر و حرکت مجردًا ہو یا بہ تعلقِ جسمِ مثالی، بہر کیف یہ حالت موت کے ساتھ ملتی جلتی ہے۔ اسی لیے فرمایا ہے۔ ﴿اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ﴾ (الزمر: 42) یعنی کیفیتِ خواب میں غور کرنے سے والوں کے لیے بہت کچھ عبرت و استبصار کا سامان ہے تاکہ وہ اس پر قیاس کر کے موت کو یاد کر کے رکھیں اور فکرِ عاقبت کریں۔ مولانا یہاں سے خواب کی کیفیت بیان فرماتے ہیں اور چونکہ یہ بیان آیت کے مضمون کے مطابق ہے اس لیے اس بیان کو آیت کی تفسیر کہہ دیا اور یہ تمام بیان عارف کے حال کی تمثیل ہے یعنی جو حالتِ خواب والے کی ہوتی ہے وہی عارف کی کہ اپنے آپے میں نہیں ہوتا۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
عارفانے کہ ازیں رشتہ سرے یافتہ اند
بیخبر گشتہ ز خود تا خبرے یافتہ اند
2
رفتہ در صَحرائے بیچوں جانِ شاں
روحِ شاں آسُودہ و ابدانِ شاں
ترجمہ: (اس حسی خواب کی کیفیت یہ ہے کہ) ایک بے نظیر یا بے کیف بیابان میں ان کی روح جا نکلتی ہے ان کی روح اور ان کے بدن (دونوں) آرام میں ہوتے ہیں۔
مطلب: خواب کے گزشتہ بیان "ہر شے از دامِ تن الخ" کا دوسرے پیرایہ میں اعادہ فرماتے ہیں۔
3
فارغاں از حِرص و اکباب و حِصص
مُرغ وار از دام جستہ و ز قفس
ترجمہ: (اس وقت) وہ حرص اور حریصانہ میلان اور حصوں (کی طلب) سے فارغ ہوتے ہیں جس طرح ایک پرندہ جال یا پنجرے سے چھوٹ جائے۔
الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخے میں نہیں۔
4
تُرکِ روز آخِر چو با زَرّیں سِپَر
ہِندوے شب را بہ تیغ افگندہ سر
ترجمہ: آخر جب دن کے سپاہی نے (سورج کی) سنہری ڈھال لگا کر رات کے ہندو کا سر تلوار سے کاٹ گرایا (یعنی دن چڑھا) تو:
5
مَیلِ ہر جانے بُسوئے تن بود
ہر تنے از رُوح آبستن بُود
ترجمہ: تو ہر جان کا میلان بدن کی طرف ہو جاتا ہے (اور) ہر بدن روح سے بار دار ہو جاتا ہے۔
6
از صفیرے باز دام اندر کشی
جُملہ را در دام درد آور کشی
ترجمہ: (اے حیُّ و قیوم) تو پھر (شکاری کی طرح) سیٹی دے کر جال بچھاتا ہے (اور) تمام (مرغانِ ارواح) کو (بدن کے) تکلیف دہ جال میں ڈال دیتا ہے۔
مطلب: روح کا تصرّف تمام قوائے و حواسِ بدنیہ میں بحالتِ بیداری ہوتا ہے۔ پھر جب نیند آ جاتی ہے تو یہ تصرّف جاتا رہتا ہے اور تمام قوٰی معطل و بے کار ہو کر آرام کرتے رہتے ہیں۔ پس بیداری کی حالت ان قوٰی کے لیے ایک طوفانِ مشقت یا تکلیف دہ جال ہے یا تو اس لحاظ سے کہ ان کو اس حالت میں روح کی خدمت گزاری کرنی پڑتی ہے یا اس جہت سے کہ اس وقت وہ طبعًا امورِ رذیلہ و سفلیہ میں تصرفات کرنے یا بالفاظ دیگر اکتسابِ گناہ پر مجبور ہوتے ہیں۔ غرض خواب اور سکر و بے خودی ایک امن و راحت کی حالت ہے بمقابلہ بیداری و صحو کے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
ز فیضِ بخودی از ہر دو کون آزادم
خط پیالہ زعمہا خط امانِ من ست
7
چُونکہ نورِ صبحدم سر برزند
کرگسِ زِرّینِ گردُوں پر زند
ترجمہ: جونہی صبح کی روشنی پھیلنے لگتی ہے (اور) سنہری گدھ اڑنے لگتی ہے (یعنی سورج طلوع ہوتا ہے)۔
8
فَالِقُ الْاِصْبَاح اسرافیل وار
جملہ را در صُورت آرد زاں دیار
ترجمہ: (تو خداوند تعالیٰ جو) صبح کو پیدا کرنے والا ہے، اسرافیل کی طرح سب کو اس (عالمِ مثال کی بیچوں) ولایت سے (عالمِ) صورت میں لاتا ہے۔ (یعنی عالمِ اجسام میں)۔
مطلب: یہاں اسرافیل علیہ السلام کے دوبارہ صور پھونکنے کی تشبیہ مقصود ہے، یعنی صبح کو سب کے سب لوگ جو پہلے نیند میں مردہ اور بے حرکت تھے اس طرح بیدار ہو جاتے ہیں جس طرح اسرافیل علیہ السلام کے دوبارہ صور پھونکنے سے مردے زندہ ہو جائیں گے۔ سونے والوں کو عالمِ صورت میں لانے سے جگانا مراد ہے۔
9
رُوحہائے منبِسط را تن کند
ہر تنے را باز آبستن کند
ترجمہ: (اور کھلی پھرنے والی روحوں کو بدن میں مقید) کر دیتا ہے ہر بدن کو پھر (روح سے) بار بردار کر دیتا ہے۔
10
اسپِ جانہا را کند عاری زِ زیں
سِرِّ اَلنَّوْمُ اَخُ الْمَوْت است ایں
ترجمہ: روحوں کے گھوڑے پر سے (علائقِ دنیا کے) زین کو اتار ڈالتا ہے۔ (یعنی خواب میں ان کو جسمانی قیود سے آزاد کر کے کھلا چھوڑ دیتا ہے اور) یہی (بات) مطلب ہے (اس حدیث کا) ”کہ نیند موت کی بہن ہے“۔
مطلب: یہ ترجمہ بایں اعتبار سے کہ مصرعہ اولیٰ ماہیتِ خواب کے متعلق تمام تقریرِ بالا کا خلاصہ ہو اور "ایں" کا مشارٌ الیہ یہی مصرعہ ہو جو خلاصۂ تقریر ہے۔ لیکن اگر یہ خیال کریں کہ ارواح کا بحالتِ خواب سیر و گردش کرتے پھرنا گھوڑے کی اس حالت کے مشابہ ہے جب کہ اس پر زین کسا ہوتا ہے اور بخلاف اس کے اس کا زین سے عاری ہونا طویلۂ جسم میں مقید ہونے کا ہم معنٰٰی ہے، تو پھر مصرعۂ اولیٰ "ایں" کا مشارٌ الیہ نہ ہوگا، کیونکہ اسپِ جاں کا زین سے عاری ہونا خواب کا مترادف نہیں۔ بلکہ بیداری کا ہم معنٰی ہے۔ اس صورت میں یہ مصرعہ سلسلۂ کلام کی ایک کڑی بن جاتا ہے۔ یعنی شروع مقالہ سے پہلے دو شعروں میں خواب کی کیفیت کا ذکر تھا۔ پھر اس مصرعہ تک سات شعروں میں کیفیت بیداری کا نقشہ کھینچا ہے۔ پس ایں کا مشارٌ الیہ سارا سلسلۂ تقریر ہے اور ترجمہ یوں ہوگا۔ جو اگرچہ مفہومًا کسی قدر پیچیدگی رکھتا ہے مگر بلحاظِ محاورہ و سیاقِ کلام زیادہ اوفق معلوم ہوتا ہے:
"روحوں کے گھوڑوں کو (جو کسے کسائے دوڑتے پھرتے تھے) زمین سے خالی کر دیتا ہے۔ (یعنی ان کو سیر و گردش سے بند کر دیتا ہے) بس یہی (ساری تقریر) "اَلنَّوْمُ اَخُ الْمَوْتِ" کا راز ہے۔
مطلب: حدیثِ مذکور بیہقی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم سے پوچھا یا رسول اللہ! کیا اہلِ جنت سوئیں گے۔ تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا۔ "اَلنَّوْمُ اَخُ الْمَوْتِ وَلَا یَمُوْتُ اَھْلُ الْجَنَّۃِ" یعنی ”نیند موت کی بہن ہے اور اہل جنت کو موت نہیں آئے گی۔“ (کذا فی بحر العلوم)
11
لیک بہرِ آنکہ روز آیند باز
بر نہد بر پائے شاں بندِ دراز
ترجمہ: (پہلے معنٰی کی صورت میں) لیکن ان کے پاؤں سے ایک لمبی رسی باندھ رکھتا ہے تاکہ وہ پھر دن میں واپس آ جائیں۔
(دوسرے معنی کی صورت میں) لیکن (جب وہ رات بھر زین بستہ ہوتے ہیں تو) اس غرض سے کہ وہ دن کو واپس آ جائیں ان کے پاؤں میں (قیدِ حیات) کی ایک لمبی رسی باندھ رکھتا ہے۔
12
تاکہ روزش وا کشد زاں مَرغزار
وز چراگاہ آردش در زیرِ بار
ترجمہ: (یہ رسی) اس لیے (اس کے پاؤں میں باندھ رکھتا ہے) کہ دن میں اس کو اس سبزہ زار (عالمِ مثال) سے کھینچ لائے۔ اور چراگاہ (خوب) سے اس کو (واپس لا کر کاروبارِ دنیا کا) بوجھ اس پر لاد دے۔
مطلب: جس طرح گھوڑا کچھ دیر کے لیے چراگاہ میں چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن ایک رسی اس کے پاؤں میں باندھ رکھتے ہیں تاکہ جب چاہیں اس کو چراگاہ سے واپس لے آئیں، اسی طرح سونے والے کی روح چراگاہِ عالمِ مثال میں آزاد پھرتی ہے لیکن جسمِ عنصری کے تعلق کی رسی جس کو قیدِ حیات کہنا چاہیے اس کے پاؤں میں پڑی ہے۔ اذانِ مسجد یا ناقوسِ کلیسا یا کوئی اور بیدار کن تحریک اس رسی کو جھٹکا دیتی ہے تو روح فورًا اسی ٹھکانے پر آن موجود ہوتی ہے۔ خاصانِ خدا و عارفانِ حق کی مثال بھی یہی ہے ان کی روح کا تعلق بھی دو عالموں سے ہے، ایک عالمِ دنیا سے دوسرا عالمِ معرفت سے، جس میں وہ جمالِ حقیقی کے مشاہدہ میں مستغرق ہوتے ہیں۔ طنابِ حیات ان کے پاؤں میں پڑی ہے جو اس عالم میں ان کو کھینچ لاتی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ سونے والے کے لیے عالمِ دنیا کا تعلق بیداری کہلاتا ہے۔ بخلاف اس کے عارفوں کے لیے دنیا کا تعلق خواب اور عالمِ مشاہدات ان کی عین بیداری و ہوشیاری ہے۔ ؎
نسبتِ عاشق بغفلت میکنند
وانکہ معشوقے ندارد غافل است
سعدیاؔ نزدیکِ رائے عاشقاں
خلق مجنوں اند مجنوں عاقل است
ہرکہ مجنوں نشد دریں سودا
اے عراقؔی بگو کہ عاقل نیست
13
کاش چوں اصحابِ کہف آں روح را
حفظ کر دے یا چُو کشتی نُوح را
ترجمہ: کاش کہ اصحابِ کہف کی طرح (صدیوں تک) روح کو (عالمِ مثال ہی میں) محفوظ رکھتا (اور یہاں نہ آنے دیتا) یا اس کشتی کی طرح (کم از کم چند ماہ کے لیے محفوظ رکھتا) جس نے حضرت نوح علیہ السلام کو (محفوظ رکھا)۔
مطلب: قیدِ حیات کی وجہ سے جو دنیا کی طرف متوجہ ہونا اور ماسِوا کی طرف التفات کرنا پڑتا ہے اس سے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کاش! اصحابِ کہف کی طرح غیر محدود مدت تک دنیا میں نہ آتے، یا حضرت نوح علیہ السلام کی طرح کچھ محدود مدت کے لیے ہی دنیا کے طوفانِ علائق سے نجات ملتی۔ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
غبارِ خاطرم از اہلِ عالم جمع شد چنداں
کہ میخواہم بہ پیش روئے خود دیوار بردارم
فردست یار و میل دلش ہست سوئے فرد
خوش آنکہ خاطر از ہمہ اغیار فرد کرد
14
تا ازیں طُوفانِ بیداری و ہوش
وا رہیدے ایں ضمیرِ و چشم و گوش
ترجمہ: تاکہ یہ دل اور آنکھیں اور کان اس بیداری و احساس کے طوفان سے چھوٹ جائیں (جس کا خواب و بیہوشی کے بعد نوبت بنوبت آنے جانے کا ایک پریشان کن سلسلہ بندھا ہوا ہے)۔
مطلب: بیداری و ہوش جس میں حوادثِ عالم کا احساس موجب الم و اندوہ ہے۔ ایک طوفانِ مصائب ہے اور حوادثِ عالم سے بے خبر رہنا مقامِ راحت و امن ہے بقول حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
اگر نہ بادۂ غم دل ز یادِ ما ببرد
نہیب حادثہ بنیادِ ما ز جا ببرد
وگرنہ عقل بمستی فروکشد لنگر
چگونہ کشتی ازیں ورطۂ بلا ببرد
15
اے بسا اصحابِ کہف اندر جہاں
پہلوے تو پیشِ تو ہست اِیں زماں
ترجمہ: اے عزیز! تو ان اصحابِ کہف کے پیچھے مر رہا ہے حالانکہ خود تیرے پاس بہتیرے اصحابِ کہف اس جہان میں اسی زمانے کے اندر تیرے ہم پہلو (موجود) ہیں۔
مطلب: اہل اللہ اور صاحبِ باطن دنیا میں موجود ہیں مگر لوگ اس سے آگاہ نہیں۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
از سلوکِ صاحبِ باطن کسے آگاہ نیست
مے رود بر آب و نقش پائے او در راہ نیست
16
غار با تو یار با تو در سرود
مُہر بر چشمست و بر گوشت چہ سُود
ترجمہ: غار و یار تیرے ساتھ گانے بجانے میں شریک ہیں (مگر) کیا فائدہ۔ تیری آنکھ اور کان پر تو غفلت کی مہر لگی ہوئی ہے۔
مطلب: دنیا میں بہت سے اہل اللہ تمہارے ساتھ ملے جلے موجود ہیں جو کمالاتِ باطنی میں اصحابِ کہف سے مشابہ ہیں اور ان کے اوقات بلحاظِ جمعیت خاطر و شغل بخدا اصحابِ کہف کے غار کے قائمقام ہیں مگر شناخت کیونکر ہو دل شناسا نہیں ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
دوست نزدیک تر از من بمن است
ویں عجب تر کہ من از وے دورم
چکنم باکہ تواں گفت کہ اُو
در کنارِ من و من مہجورم
وَ لَہٗ ؎
دلارام در بر دلارام جوئے
لب از تشنگی خشک بر طرف جوئے
نگویم کہ بر آب قادر نیند
کہ بر ساحِل نیل مستسقٰی اند
17
باز داں کز چسیت ایں رُوپوش ہا
ختمِ حق بر چشم ہا و گوش ہا
ترجمہ: (اب) یہ سوچ کہ یہ حجابات اور یہ آنکھوں کانوں پر خدا کا مہر لگا دینا کس وجہ سے ہے۔ (اس سرّ کو آئندہ مثال سے سمجھاتے ہیں:)