دفتر اول: حکایت: 18
سوال کردنِ خلیفہ از لیلٰے و جوابِ او
خلیفۂ وقت کا لیلٰی سے سوال کرنا اور اس کا جواب
1
گفت لیلٰی را خلیفہ کاں توئی
کز تو مجنُوں شد پریشان و غوی
ترجمہ: خلیفۂ وقت نے لیلٰی کو کہا (کیا) وہ (مشہور معشوقہ) تو ہی ہے؟ جس (کے عشق) سے مجنون پریشان اور کج فہم بن رہا ہے۔
مطلب: خلیفہ کو حیرت ہوئی کہ لیلٰی میں کون سی بات ہے جس پر مجنون مرتا ہے۔ اس لیے اس نے یہ سوال کیا۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
گلے را کہ نے رنگ باشد نہ بو
غریب ست سودائے بلبل برو
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
صد گل چو بیک دانگ ببازار فروشند
خوباں بدل و جاں ز چہ رخسار فروشند
2
از دِگر خُوباں تو افزوں نیستی
گُفت خامش چُوں تو مجنوں نیستی
ترجمہ: تو دوسرے حسینوں سے (کچھ) بڑھ کر نہیں ہے۔ وہ بولی خاموش رہ جب تو خود مجنوں نہیں ہے (تو تیری رائے زنی فضول ہے)۔
مطلب: بقول سعدی رحمۃ اللہ علیہ
ع لیلٰی را از دریچۂ چشمِ مجنوں بایستے نگریست
لیلٰی نے جواب دیا میرے مشاہدۂ جمال کے لیے مجنوں کی آنکھ چاہیے اور حضور مجنوں نہیں ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
ز چشمِ عشق تواں دید روئے شاہدِ ما
کہ نورِ چہرۂ خوباں ز قاف تا قاف است
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
کسے بدیدہ انکار گر نگاہ کند
نشانِ صورت یوسف دہد بنا خوبی
3
دیدۂ مجنون اگر بُودے ترا
ہر دو عالم بے خطر بُودے ترا
ترجمہ: اگر حضور کی آنکھ مجنوں کی سی (جمال شناس) آنکھ ہوتی تو آپ کے نزدیک (میرے مقابلہ میں) دونوں عالم ناچیز ہوتے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نہ بیند سرِّ حسنت را کسے نیسان کہ من بینم
مگر چوں مردم چشمِ من از چشمِ منت بیند
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
بردوختہ ام دیدہ چو باز از ہمہ عالم
تادیدۂ من رُخِ زیبائے تو باز است
4
با خودی تو لیک مجنوں بیخودست
در طریقِ عِشق بیداری بد ست
ترجمہ: حضور تو با خود (یعنی اپنی ہستی کا احساس رکھنے والے ہیں) لیکن مجنوں بے خود (یعنی اپنی ہستی سے بیخبر) ہے اور راہِ عشق میں اس قسم کی بیداری معیوب ہے۔
مطلب: لیلٰی کا مقولہ ختم ہوا۔ خلیفہ و لیلیٰ کی تمثیل سے مولانا نے ظاہر فرما دیا کہ وہ حجاب جو اہل اللہ کی شناخت سے مانع ہے، کیا ہے؟ وہ حجاب بیداری اور اپنی ہستی کا احساس ہے۔ جس طرح یہ احساس خلیفہ کو لیلیٰ کے جمال کا مشاہدہ کرنے سے مانع ہے اسی طرح لوگوں کو اہل اللہ کی شناخت سے باز رکھتا ہے۔ اس لیے اگر اہلِ کمال کی دید کا شوق ہے تو اپنی خودی کا احساس نہ رکھو۔
میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
حجابِ رُخِ یار تھے آپ ہی ہم
کھلی آنکھ جب کوئی پردہ نہ دیکھا
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
آں را کہ نبردست بروں بیخودی از خود
از دامنِ صحرا چہ خیر یافتہ باشد
5
ہر کہ بیدارست او در خواب تر
ہست بیدارِ یش از خوابش بتر
ترجمہ: جو شخص (کاروبارِ دنیا میں زیادہ) بیدار ہے وہ (خدا کی طرف سے گویا غفلت کی) گہری نیند سو رہا ہے اس کی یہ بیداری اس کے خواب سے بھی بدتر ہے۔ ( ؎
سعدیا نزدیک رائے عاشقاں
خلق مجنونند و مجنوں عاقل ست
6
ہر کہ در خواب ست بیداریش بہ
مستِ غفلت عَینِ ہشیاریش بہ
ترجمہ: جو شخص (خدا کی طرف سے) غافل ہے اس کا بیدار ہونا اچھا ہے، غفلت کے مست کے لیے پوری ہوشیاری مناسب ہے۔
الخلاف: بعض نسخوں میں یہ شعر نہیں ہے۔
7
چوں بحق بیدار نبود جانِ ما
ہست بیداری چُو دربندانِ ما
ترجمہ: جب ہماری جان خدا (کے خیال) سے بیدار نہ ہو تو ہماری بیداری گویا ہمارے لیے ایک جیل خانہ ہے (جس میں ہم مقید ہیں)
مطلب: عالمِ دنیا کی بیداری جو تعلقات سے پُر ہے حقیقت میں قید خانہ ہے، اور تعلقات گویا بیڑیاں اور ہتھکڑیاں ہیں۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
زیر بارند درختاں کزہ تعلق دارند
اے خُوشا سرو کہ از بندِ غم آزاد اند
جاں ہمہ روز از لکد کوبِ خیال
وز زیان و سود و از خوفِ زوال
8
نے صفا میماندش نے لطف و فر
نے بسوئے آسماں راہِ سفر
ترجمہ: (جان دن بھر اس حالت میں ہے کہ خیال کی پائمالی سے اور نفع و نقصان اور خوفِ زوال سے) نہ اس میں صفائی رہتی ہے نہ پاکیزگی اور قوت نہ (اس کو) آسمان کی طرف کا راہِ سفر (یعنی مشغول بحق ہونے کا موقع ملتا ہے۔)
مطلب: دنیا کے مشاغل و تردُّدات عروجِ روحانی سے مانع ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
با یار کجا نشیند آں کو
اندیشۂ خاص و عام دارد
میر درد ؎
فارغ ہو بیٹھ فکر سے دونوں جہان کی
خطرہ جو ہے سو آئینۂ دل پہ زنگ ہے
وَ لَہٗ ؎
خلوتِ دل میں کر دیا اپنے حواس نے خلل
حسن بلائے چشم سے نغمہ وبالِ گوش ہے
9
خفتہ آں باشد کہ او از ہر خیال
دارد اُمید و کند با اُو مقال
ترجمہ: (مشغول بحق کو مصروف بخواب نہ سمجھو بلکہ) مصروفِ خواب (در حقیقت) وہ (خیالی پلاؤ پکانے والا طالبِ دنیا) ہے۔ جو ہر خیالی چیز سے (امرِ واقع کی سی) امید رکھے اور اس سے بات چیت کرے۔
مطلب: اوپر مسلسل ذکر آ رہا تھا کہ دنیا کے بیدار دراصل غفلت کی نیند میں سو رہے ہیں اور جن خاصانِ خدا پر یادِ حق کی مستی طاری ہے وہ بیدار ہیں۔ اب تاکید فرماتے ہیں۔ مؤخر الذکر حضرات کی سُکر و مستی کے لحاظ سے ان کو غرقِ خواب مت سمجھو بلکہ غرقِ خواب تو وہ ہے جس پر اپنی بیہودہ آرزوؤں اور لغو تمناؤں کا نشہ طاری رہتا ہے اور بفحوائے "مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ مِنْ ذِکْرِهٖ" جب بات کرتا ہے تو اپنی خیالی باتوں کی رٹ لگاتا ہے اور اپنے تخّیلاتِ باطلہ کو حقیقت سمجھ کر ان سے اپنے سود و بہبود کی امید رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ﴾ (الجاثیہ: 23) یعنی ”اے پیغمبر کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر بھی نظر کی جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔“
10
نے چنانکہ از خیال آید بحال
آں خیالش گردد او را صد وبال
ترجمہ: (اس ہوس پرست کا خیال) ایسا (عارفانہ ذوق) نہیں (ہوتا) کہ (اہلِ حال کی طرح) خیال سے وجد میں آ جائے (اور کسی عاشقانہ کیفیت کا ادراک کرے) بلکہ اس کا وہ خیال اس کے لیے سو سو طرح کا وبال بن جاتا ہے۔ (جامی رحمۃ اللہ علیہ) ؎
اے دریں کاخِ امانی بغم و شادی بند
بندۂ نفسِ خودی دعویِ آزادی چند
11
دیو را چُوں حُور بیند او بخواب
پس ز شہوت ریزد او با دیو آب
ترجمہ: وہ (اس) خواب میں شیطان کو حور وش پاتا ہے۔ پھر از راہِ خواہش اس کے ساتھ صحبت کرتا ہے۔
مطلب: شعر سابق میں اہلِ ہوس کے خیال کو وبال کہا تھا یہاں اس کی تفصیل کسی قدر بیان کرتے ہیں۔
12
چونکہ تخمِ نسل در شورہ بریخت
او بخویش آمد خیال از وے گریخت
ترجمہ: جونہی کہ وہ (سونے والا) تخمِ نسل (یعنی اپنا آبِ منی صحبتِ شیطان کی) شور زمین میں گراتا ہے تو وہ جاگ پڑتا ہے اور وہ خیال (کا ہم صحبت) اس کے سامنے سے غائب ہو جاتا ہے۔
13
ضعفِ سر بیند ازاں و تن پلید
آہ ازاں نقشِ پدیدِ نا پدید
ترجمہ: (اب) وہ سر کی کمزوری (محسوس کرتا ہے) اور بدن کو نجس پاتا ہے۔ افسوس ہے ایسی خیالی تصویر جو (خواب میں) ظاہر اور (فی الحقیقۃ) غیر ظاہر ہے (اور محتلم کو وبال میں ڈال جاتی ہے)
1
مُرغ بَر بالا پران و سایہ اش
میدود بر خاک پرّاں مُرغ وش
ترجمہ: اس شخص کی مثال ایسی ہے کہ ایک پرندہ اوپر اوپر اڑ رہا ہے اور اس کا سایہ پرندے کی طرح زمین پر اڑتا جاتا ہے۔
15
ابلہے صیّادِ آں سایہ شود
میدود چندانکہ بے مایہ شود
ترجمہ: ایک بے وقوف اس سایہ کو شکار کرنے لگتا ہے اور اتنا دوڑتا ہے کہ ہار جاتا ہے۔
16
بیخبرکاں عکسِ آں مرغِ ہواست
بیخبر کہ اصلِ آں سایہ کجاست
ترجمہ: (اسے) اس بات کی خبر نہیں کہ یہ ہوا (میں اڑنے) والے پرندے کا عکس ہے (اسے) یہ خبر نہیں کہ اس سایہ کا اصل کہاں ہے۔
17
تیر اندازد بسوئے سایۂ او
ترکشش خالی شود در جُستجو
ترجمہ: وہ سایہ کی طرف تیر پھینکتا ہے (اس) جستجو میں اس کا تیر دان خالی ہو جاتا ہے۔
مطلب: خواب میں خیالی تصویر کے ساتھ ملاعبت کرنے والے کی تمثیل میں اس شخص کی حالت کو پیش کیا ہے جو سایۂ مرغ کو مرغ سمجھ کر اس پر تیر آزمائی کر رہا ہے اور دونوں کا نتیجہ یکساں ہے۔ اور یہ دونوں مثالیں طالبِ دنیا کے پریشان کن خیالات کی مذمت میں لائی گئی ہیں پھر طالبِ دنیا کے متعلق فرماتے ہیں:
18
ترکشِ عمرش تہی شد عمر رفت
از دوِیدن در شکارِ سایہ تفت
ترجمہ: اور اسی طرح اس (دنیا دار) کی عمر کا تیر دان خالی ہو گیا (جو مشغول بحق نہیں ہوا اور) اس کی عمر (برباد گئی) سایہ کو شکار کرنے میں دوڑتا دوڑتا جل بھن گیا۔
مطلب: اس نے بے اصل تمناؤں اور بے حقیقت آرزوؤں کے حصول کے لیے عمر کھو دی۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
چوں مگس طے شد بدست و پا زدن اوقاتِ من
تا بشہدِ زندگی بال و پرم آلودہ شد
19
سایۂ یزداں چو باشد دایہ اش
وا رہاند از خیالِ سایہ اش
ترجمہ: (لیکن) جب ظلّ اللہ (یعنی کوئی ولی) اس کا تربیت کنندہ ہو تو وہ اس کو سایہ (طائر) کے (سے بے بود) خیال سے بچا لے گا۔
مطلب: دایہ کا کیا کام ہے؟ وہ بچے کے جسمانی نشو و نما کی نگرانی اور اس کی غذا کی منتظم ہوتی ہے اور اس کی مضر اشیاء سے حفاظت کرتی ہے۔ اسی طرح پیرِ طریقت مرید کی روحانی تربیت کا کفیل، اس کی روحانی ترقی کا ضامن اور مہلکاتِ نفس سے اس کا محافظ ہوتا ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
داروئے تربیت از پیرِ طریقت بستاں
کادمی را بتر از علتِ نادانی نیست
عالم و عابد و صوفی ہمہ طفلانِ رہ اند
مرد اگر ہست بجز عالمِ ربانی نیست