دفتر 1 حکایت 19: ولی رہنما کے اتباع کی ترغیب

دفتر اول: حکایت: 19

در تحرِیصِ متابعتِ ولیِ مرشد

ولی رہنما کے اتباع کی ترغیب

1

سایۂ یزداں بود بندۂ خُدا

مُردۂ ایں عالم و زِندۂ خُدا

ترجمہ: خدا کا (خاص) بندہ (یعنی مرشدِ کامل) خدا کا سایہ ہوتا ہے جو اس جہان (کے تعلقات) سے مردہ اور خدا (کے تعلقات) سے زندہ ہوتا ہے۔

مطلب: دنیوی زندگی فانی اور ناقابلِ التفات ہے اس لیے اہلِ فقر اس زندگی میں "مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا" کے مصداق ہوتے ہیں۔ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

موت کیا آ کے فقیروں سے تجھے لینا ہے

مرنے سے پہلے ہی یہ لوگ تو مر جاتے ہیں

اور ان کی زندگی روحانی ہوتی ہے اس لیے ابدی و غیر فانی ہوتی ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

بروح زی نہ بہ تن تا ہمیشہ مانی زانکہ

بنائے عمر نہ زاب و گِل استوار بود

2

دامنِ او گِیر زُوتر بیگُماں

تا رہی از آفتِ آخِر زماں

ترجمہ: جلدی اور بلا تامّل اس (مرشد) کا دامن پکڑ لے۔ تا کہ آخری زمانے کی آفت سے نجات پائے۔

مطلب: آخری زمان سے اگر عمر کی آخری ساعت مراد ہے تو اس کی آفت سکراتِ موت اور فتنۂ ابلیس ہے۔ اگر قربِ قیامت مراد ہے تو اس کی آفت دجال و یاجوج و ماجوج ہیں، اور اگر محشر مراد ہے تو اس کی آفت میزان اور حساب کتاب ہے۔ تینوں جگہ مرشدِ کامل کا فیض مومن و مخلص مرید کی دستگیری کرے گا۔ موت کے وقت کلمۂ توحید زبان پر جاری ہو جائے گا، قربِ قیامت میں دجال وغیرہ کے سامنے وہ توحید پر قائم رہے گا۔ محشر میں مرشد کی شفاعت سے نجات ہو جائے گی۔ غرض ؎

حافظِ از دست مدہ صحبتِ آں کشتیِ نوحؑ

ورنہ طوفانِ حوادث ببرد بنیادت

"بیگماں" کے لفظ میں آدابِ مرید میں سے اس بات کی طرف یہ لطیف اشارہ ہے کہ اپنے پیر کے ساتھ اعتقادِ تام اور اتباعِ کامل ہونا چاہیے۔ ورنہ احتمال ہے کہ وساوسِ شیطانی میں مبتلا ہو کر تباہ ہو جائے گا۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

مرد کہ گردن کشد از حکمِ پیر

سیلیش از دیو ستم گار بہ

در حقِ میشے کہ رمید از شباں

تربیتِ گرگ کم آزار بہ

3

کَیْفَ مَدَّ الظِّلْ نقشِ اولیاست

کو دلیلِ نُورِ خورشیدِ خُداست

ترجمہ: "کَیْفَ مَدَّ الظِّلْ" (میں جو سایہ کا اشارہ ہے اس سے مراد) اولیائے کرام کا وجودِ مبارک ہے جو خورشیدِ حق کے نور کی طرف رہنما ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًاۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًا (الفرقان: 45) ”یعنی اے پیغمبر (ﷺ) کیا تم اپنے رب کی طرف نہیں دیکھتے کہ اس نے کس طرح سایہ کو دراز کیا اور اگر چاہے تو اس کو ساکن کر دے پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا“۔ مولانا فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو سایۂ ظاہری کا حکم آیا ہے۔ یہی مثال اولیاء اللہ کی ہے کہ جس طرح سایۂ ظاہری سے سورج اور اس کی رفتار کا پتا لگتا ہے۔ اسی طرح اولیاء اللہ کی ذات با برکات سے، جو ظلّ اللہ ہیں، آفتابِ حق یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

بصدق دامنِ ابرار گیرکاں بادے

کہ بادِ رحمتش آورد بادِ ابرارست

اس مقام پر مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک لطیف نکتہ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دراصل تمام ممکنات عدم کے اندھیرے میں ہیں، نفسِ وجود خدا کی ذات ہے اور وجود نور ہے، جب وہ ذاتِ پاک اعیان و متعینات میں ظاہر ہوئی تو ممکنات اس نور و ظلمت کے درمیان ظاہر ہو گئیں۔ پس یہ موجودات خدا کا سایہ ہیں اور سایہ اسی نور کو کہتے ہیں جو ظلمت کی آمیزش رکھتا ہو۔ یہی حال ان موجوداتِ ممکنہ کا ہے جن میں وجود کے ساتھ عدم کی آمیزش ہے۔ پس آیت کے یہ معنٰی ہوئے کہ تیرے رب نے وجود کو کیسا دراز کیا ہے، یہاں تک کہ اس سے ممکنات کے سائے ظاہر ہو گئے۔ اگر وہ چاہتا تو اس کو دراز نہ کرتا۔ اس کے بعد سورج کو اس پر دلیل بنایا۔ یعنی اس نکتہ کے سمجھنے کے لیے اس کو ایک مثال بنا دیا۔ چنانچہ جب سورج کے آگے کسی جسمِ کثیف کی آڑ آ جاتی ہے تو اس کے نور کے ساتھ اندھیرے کے مل جانے سے سایہ پیدا ہوتا ہے۔ انتہٰی۔ و ہٰذا کما قال العارف الجامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

حق آفتاب و جہاں ہمچوں سایہ ست ایدل

اَمَا رَأَیْتَ اِلٰی الرَّبِّ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ

وجودِ سایہ و خورشید فی الحقیقت یک

اگرچہ پیشِ خرد باشد ایں سخن مشکل

لقب نہند بلے آفتاب را سایہ

چو از صرافتِ اشراقِ خود شود نازل

فروغِ مہر بروئے زمین بود سایہ

میانِ شاں چو کسے فی المثل شود حائل

4

اندریں وادِی مرو بے ایں دلیل

لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ گو چُوں خلیلؑ

ترجمہ: اس وادیِ (سلوک) میں اس رہنما کے بغیر نہ چل۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ﴿لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ کا قائل ہو (اور غیر خدا کا گرویدہ نہ بن)۔

مطلب: مذکورہ اقتباس قرآن مجید کی اس آیت شریفہ میں ہے: ﴿فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاۚ قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ (سورہ انعام: 76) یعنی ”پس جب ابراہیم (علیہ السلام) پر رات چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ کہا یہ میرا پروردگار ہے پھر جب وہ چھپ گیا تو کہا میں چھپ جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا“۔ دیکھو اس حصہ شرح کا صفحہ 85۔

مولانا کہتے ہیں سلوک میں رہنما کے بغیر نہ چل۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

بکوئے عشق منِہ بے دلیلِ راہ قدم

کہ گم شد آنکہ دریں رہ برہبرے نرسید

پھر فرماتے ہیں کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے جب ایک ستارہ دیکھا جو انوارِ رب کا مظہر تھا تو کہا "ہٰذَا رَبِّیْ" اور مراد ہٰذا کے اشارے سے ظاہر تھا، مگر جب وہ ستارہ چھپ گیا تو انہوں نے کہا میں ربِّ ظاہر کے مشاہدۂ جمال کے ایسے فانی مظاہر کا پابند ہونا پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح تو بھی وادیِ سلوک میں فانی مظاہر دل کی بستگی سے گزر کر ذاتِ مطلق میں فنا ہو جا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

عناں تا کے بدستِ شک سپاری

بہر یک روئے ہٰذَا ربِّیْ آر ی

خلیلؑ آسا در ملکِ یقین زن

نوائے لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْن زن

گم ہر وہم و ترک ہر شکے کن

رخ و جہت وجہے در یکے کن

یکے بین و یکے دان و یکے گوے

یکے خواہ و یکے خواں و یکے جوئے

5

رو زِ سایہ آفتابے را بیاب

دامنِ شہِ شمسِ تبریزی بتاب

ترجمہ: جاؤ! ظل اللہ (یعنی مرشدِ کامل) کے توسّل سے آفتابِ (حق) کو جا ملو۔ شاہِ شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کا دامن پکڑو۔

مطلب: اتباعِ مرشد کا بیان ہو رہا تھا اب مولانا کا ذہن اپنے مرشد حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ان کا دامن پکڑ لو۔ حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کا حال معلوم کرنے کے لیے دیکھو۔ دیباچہ صفحہ 20

6

رہ ندانی جانبِ ایں سو رو عُرس

از ضِیاء الحق حُسّام الدِّین بپرس

ترجمہ: (اگر تم صحبتِ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کی) اس مجلسِ نشاط اور بزمِ عروسی کی طرف (جانے کا) راستہ نہیں جانتے تو ضیاء الحق حسام الدین سے پوچھ لو (جو ممدوح کے خاص صاحبِ اسرار ہیں)۔

مطلب: صحبتِ شیخ کی بزمِ عروسی سے تشبیہ اور شیخ کے آستانہ پر باریاب ہونے کے لیے ان کے کسی مقرّب ترین خلیفہ کے توسل کی ضرورت اس مشہور مقولہ کی بنا پر ہے کہ "اَلْاَوْلِیَاءُ عَرَائِسُ اللہِ وَلَا یَرَیٰ الْعَرَائِسَ اِلَّا الْمَحَارِمُ" ہر چند کہ شمس تبریزی کے دربار کے لیے خود مولانا کی ذات سب سے افضل تھی مگر انہوں نے کسرِ نفسی کی وجہ سے اپنا ذکر نہیں کیا اور اپنے خلیفہ ضیاء الحق کا تقرّب جتلا دیا۔

7

ور حَسَد گیرد ترا در رہ گلو

در حَسَد ابلیس را باشد غُلو

ترجمہ: (1) اور اگر راستے میں حسد تیرا گلا گھونٹنے لگے (تو حسد کو کارِ شیطان سمجھ کیونکہ) شیطان حسد میں سب سے بڑھ چکا ہے۔

(2) اور اگر راستے میں حسد تیرا گلا گھونٹنے لگے (تو یاد رکھ) حسد میں ابلیس کو زیادتی حاصل ہے (یعنی حسد شیوۂ ابلیس ہے تجھ کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

مطلب: چونکہ دربارِ شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی باریابی کے لیے کوشش کرنے کی ترغیب عام تھی، جس میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے معتقدین و مریدین بھی شامل ہیں، اور پھر فرمایا تھا کہ اس دربار میں جانے کا وسیلۂ عظمٰی ضیاء الحق حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ ہیں، تو احتمال ہوتا تھا کہ شاید معتقدین میں سے کسی کو یہ بات نا گوارا ہو کہ جیسے ہم مولانا کے مرید ہیں ویسے ضیاء الحق، پھر ان کو ایسی کیا فوقیت حاصل ہے کہ ہم ان کا توسّل چاہیں۔ یہاں مولانا اس خیال کو حسد سے تعبیر کر کے نصیحت فرماتے ہیں کہ حسد نہ کرو حسد شیطانی کام ہے نہ کہ عارفانِ با صفا کا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

گریختن ز حسد تا یکے ز اہلِ صفا

اگر صفائیِ دل داری از حسد بگریز

8

کو ز آدم ننگ دارد از حَسَد

با سعادت جنگ دارد از حَسَد

ترجمہ: (وہ شیطان) جو حسد ہی کی وجہ سے آدم سے آنکھ چراتا ہے (اور) حسد ہی کے باعث نیکی کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔

مطلب: شیطان نے آدم علیہ السلام کی قدر و منزلت دیکھ کر ان پر حسد کیا اور ﴿خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الاعراف: 12) کہہ کر اظہارِ حسد بھی کر دیا اور اب بھی وہ اسی دیرینہ حسد کی وجہ سے ہر وقت بنی آدم سے عداوت رکھتا ہے، پس یہ شیطان کا شیوہ ہے۔ مریدانِ با صفا کو نہیں چاہیے کہ ایک برادرِ طریقت کی قدر دیکھ کر حسد کریں۔

9

عقبۂ زیں صَعب تر در راہ نیست

اے خنک آں کِش حسد ہمراہ نیست

ترجمہ: (اس) (حسد) سے بڑھ کر دشوار گزار گھاٹی راہِ سلوک میں کوئی نہیں۔ اے (مخاطب) خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے ساتھ (حسد لگا ہوا) نہیں۔

مطلب: راہِ سلوک میں نفسانی رذائل کے صدہا عقبات و مشکلات ہیں مگر مولانا فرماتے ہیں کہ حسد کا عقبہ ان سب سے زیادہ خطرناک اور دشوار گزار ہے۔ وجہ یہ کہ اول تو یہ ایک ہی رذیلت بہت سی رذائل کا سرچشمہ ہے، جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس قدر جذبۂ حسد ذوقِ وحدت کے منافی ہے اس قدر اور کوئی رذیلت شاید ہی ہو۔

پروانے ایک شمع کے ہیں پر ہزار حیف

ایک دوسرے پہ جلنے کا ہر دم خیال ہو

اوروں سے اتحاد کی امید کیا ہو جب

خود وحدت الوجود کے گھر کا یہ حال ہو

10

ایں جسد خانہ حسد آمد بداں

کز حسد آلودہ گردد خانداں

ترجمہ: یہ جسم حسد کا گھر ہے (یہ بھی) یاد رہے کہ حسد میں گھرانے کا گھرانا مبتلا ہو جاتا ہے۔

مطلب: مولانا فرماتے ہیں کہ حسد خود انسان کے باطن کا مرض ہے "بدانکہ حسد بیماریِ عظیم ست دل را" (کیمیائے سعادت) اور اس کے اسباب و بواعث بھی انسان کے اندر موجود ہیں "از خشم حقد خیزد و از حقد حسد" (کیمیائے سعادت) پھر فرمایا جب حسد کا مرض دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو حواس، فکر، عقل وغیرہ تمام دماغی و قلبی خاندان اس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ طاقتیں بھی بجائے کوئی اچھا عمل کرنے کے حسد کے ماتحت کام کرنے لگتی ہے۔

11

خانمانہا از حسد گردد خراب

بازِ شاہی از حسد گردد غُراب

ترجمہ: حسد سے گھر بار اجڑ جاتے ہیں۔ بادشاہ کا باز حسد (کی نحوست) سے ایک کوّا بن جاتا ہے۔

مطلب: انسان کے باطن میں حسد گھر کر لیتا ہے تو اس سے باطن کا گھر بار اجڑ جاتا ہے یعنی سب مال و اسباب غارت ہو جاتا ہے باطن کا مال و اسباب کیا ہے؟ اخلاقِ حسنہ اور ملکاتِ فاضلہ۔ یہ چیزیں حسد سے برباد ہو جاتی ہیں اسی لیے جناب سرورِ کائنات علیہ التحیات نے فرمایا ہے: "اِیَّاکُمُ وَ الْحَسَدَ فَاِنَّ الْحَسَدَ یَاْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَاْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ" (ابوداؤد) یعنی ”حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح تباہ کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو تباہ کر دیتی ہے“۔ پھر فرماتے ہیں نفسِ انسانی کی قلبی و دماغی طاقتیں جو حقائق اور علومِ عالیہ کو اخذ کرنے کے لیے بمنزلہ شاہی باز کے تھیں حسد کی آلائش سے اغراضِ خسیسہ اور مقاصدِ رذیلہ کی طلب میں ایک نجاست خوار زاغ کے مشابہ ہو جاتی ہیں۔

12

گر جَسَد خانۂ حَسَد باشد و لیک

آں جَسَد را پاک کرد اللہ نیک

ترجمہ: (1) اگرچہ جسم حسد کا گھر ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس جسم کو (بتوسلِ مرشد) بالکل پاک کر دیا ہے۔

(2) (چھٹے شعر سمیت) اور اگر اثنائے راہ میں حسد تیرا گلوگیر ہونے لگے (چنانچہ) خود ابلیس کا حسد حد سے بڑھا ہوا ہے (جو تجھ کو حسد کی پٹی پڑھانی چاہتا ہے) وغیرہ وغیرہ (تو) گو جسم حسد کا گھر ہے لیکن (جب تو نے مرشد کا دامن پکڑا تو یقین ہے کہ) اس جسم کو خدا نے بخوبی پاک کر دیا (پھر تو اس پر حسد کو قابو کیوں پانے دیتا ہے کہ وہ گلوگیر ہو)۔

13

یافت پاکی از جنابِ کبریا

جسمِ پُر از کبر و پُر حقد و ریا

ترجمہ: جنابِ کبریا (کے فضل) سے جسم نے پاکی حاصل کی جو (پہلے) تکبر اور دشمنی اور ریا سے پُر تھا۔

مطلب: خاصانِ خدا کے وجود بفضلہٖ تمام اخلاقی امراض سے محفوظ رہتے ہیں اور اگر پہلے سے کوئی مرض عارض ہو تو وہ ربانی ارشاد کے موافق ریاضات و مجاہدات کے روحانی علاج سے اس کا ازالہ کر لیتے ہیں اور ان کے معالجات کے طریقے احیاء العلوم، کیمیائے سعادت وغیرہ کتبِ تصوف و اخلاق میں مفصّل لکھے ہوئے ہیں۔

14

طَھِّرَا بَیْتِیَ بیانِ پاکی ست

گنجِ نُورست از طلسمِش خاکی ست

ترجمہ: ﴿طَھِّرَا بَیْتِیَ﴾ (میں اسی) پاکی کا بیان ہے اور (یہ گھر جس کی پاکی کا حکم ہے) نور کا خزانہ ہے اگرچہ اس کا طلسم خاک سے (بنایا گیا) ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے باب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم دیا: ﴿طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ﴾ (البقرۃ: 125) یعنی ”تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے خوب پاک و صاف کر دو“ مقصودِ آیت ظاہر ہے، مگر مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس سے ایک اور تمثیلی مطلب لیتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر سے مراد مومن کا دل ہے اور اس کو پاک کرنا بمعنی تصفیۂ دل، جس کا اس آیت میں حکم ہے۔ کیونکہ مومن کا دل بھی ایک لحاظ سے بیت اللہ اور کعبہ ہے۔ ؎

گِرد خود گرد غنی چند کنی طوفِ حرم

رہبرے نیست دریں راہ بہ از قبلہ نما

صوفیہ کرام جب آیاتِ قرآن سے اس قسم کے مفہومات بیان فرماتے ہیں تو بعض لوگ ان مفہوماتِ اعتباریہ کو معانیِ قرآن اور آیات کی وجوہِ محتملہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہ حدیث پیش کیا کرتے ہیں کہ "اِنَّ لِلْقُرْاٰنِ ظَھْرًا وَ بَطْنًا" یعنی قرآن کے ایک ایک ظاہری معنٰی ہیں اور ایک باطنی معنٰی“۔ ان اصحاب کی دانست میں مفسرین کے بیان کردہ معافی ظہرِ قرآن ہیں اور صوفیہ کے بیان کئے ہوئے اعتباری مفہومات بطنِ قرآن۔ بلکہ بعض بے باک تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کے معنٰی مفسّرین نے سمجھے ہی نہیں، یہ حصّہ صوفیائے کرام ہی کا حصہ ہے۔ سو واضح ہو کہ یہ حدیث حق ہے اور قرآن مجید کا ظہر و بطن ہونا بھی صحیح، مگر یہ خیال بالکل غلط ہے کہ صوفیہ کے بیان کئے ہوئے معنٰی بطنِ قرآن ہیں۔ در حقیقت قرآن مجید کے معانیِ مقصود صرف وہی ہیں جو محدثین و فقہاء کی تفاسیر میں لکھے ہیں۔ مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آیتِ قرآن کے اصلی معنٰیِ مقصود کے ساتھ ملتا جلتا کوئی اور مضمون ہوتا ہے جس کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے، اس کو اگر تمثیلًا اصلی معنٰی کے مقابل رکھ کر وہی حکم اس کے لیے بھی ثابت کرنے لگیں تو کر سکتے ہیں، ایسے مضامین مفید، پُر حکمت اور عبرت بخش ہوتے ہیں، مگر کیا اس قسم کا کوئی تشبیہی و تمثیلی مضمون قرآن کا معنٰیِ مقصود ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اور ایک قرآن مجید پر کیا منحصر ہے گلستان و بوستان وغیرہ کسی کتاب کی حکایات و واقعات کو لے کر ان سے تمثیلی مفہوم بنائیں تو بنا سکتے ہیں۔ مثلًا گلستان کی ایک تاریخی حکایت ہے ”طائفہ دزدانِ عرب بر سرِ گوہے نشستہ بود۔ و منفذِ کارواں بستہ۔ رعیّت بلداں از مکائدِ ایشاں مرعوب و لشکرِ سلطان مغلوب الخ۔" یعنی "عرب کے ڈاکوؤں کی ایک جماعت ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ گیر تھی اور اس نے قافلوں کا راستہ بند کر رکھا تھا اہلِ شہر ان ڈاکوؤں کے فتنوں سے ڈرتے تھے اور شاہی فوج بھی بے بس تھی"۔انتہٰی۔ مطلب ظاہر ہے۔ اور الفاظ اپنی حقیقت پر محمول ہیں مگر اس سے ہم یہ اعتباری مفہوم بھی نکال سکتے ہیں کہ کاروانِ کوہ سے مراد قلبِ انسان ہے۔ طائفۂ دزدانِ عرب سے اخلاقِ رذیلہ جو قلبِ انسان پر مسلّط ہو جاتے ہیں، کارواں سے وہ واردات و فیوضِ غیب مراد ہیں جن کا قلبِ انسانی پر گزر ممکن ہے۔ مگر اب اخلاقِ رذیلہ نے ان کو قلب پر وارد ہونے سے بند کر رکھا ہے اور رعیت وہ اخلاقِ حسنہ ہیں جو محاسنِ وجود میں جہاں تہاں دبے دبائے پڑے ہیں اور اخلاق رذیلہ کے غلبہ سے سر نہیں اٹھا سکتے۔ ہر چند کہ یہ تاویل دلچسپ بھی ہے اور مفید و نکتہ خیز بھی مگر کیا گلستان کی عبارت کا یہی ٹھیک مطلب ہو گا یا مطلبِ سعدی دیگرست؟

غرض قرآن مجید کی ہی نہیں بلکہ ہر کتاب کی عبارت سے اسی طرح تجوّزی مدلول اخذ کر سکتے ہیں، اسی طرح مولانا نے بطورِ بیانِ معنٰیِ مقصود نہیں بلکہ بطورِ تمثیل یا بطورِ اعتبارِ تجوّزی اس آیت سے دل کو خانۂ کعبہ قرار دے لیا بایں مناسبت کہ جس طرح کعبہ پر انوارِ الٰہی نازل ہوتے ہیں اسی طرح قلب بھی مہبطِ فیوض ہے اور جس طرح کعبہ کی صفائی کا حکم ہوا تھا اسی طرح اس سے مولانا نے تصفیۂ قلب پر استدلال کر لیا اور اس قسم کے اعتبارات اخذ کرنے کو علمِ اعتبار کہتے ہیں جو ﴿بحکم فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارِ﴾ (الحشر: 2) جائز ہے۔

باقی رہی یہ بات کہ قرآن مجید کا ظہر و بطن کیا ہے۔ سو واضح ہو کہ قرآنِ مجید و نیز حدیث شریف جو مآخذِ احکام ہیں ان سے احکام اخذ کرنے کا کام نازک تر، پر خطر اور مُزّلِ اقدام سمجھا گیا ہے۔ اس لیے یہ کام ان خاص اصولِ موضوعہ کے ماتحت کیا جاتا ہے جو آئمہ مجتہدین نے قائم کئے ہیں۔ بعض آیات ایسی ہیں جو سرسری نظر میں ایک خاص مفہوم رکھتی ہیں ان کو ظہرِ قرآن کہتے ہیں۔ جب اس قسم کی آیت کو مذکورہ اصل کے ما تحت لا کر نظر کرتے ہیں تو اصلی مطلب کچھ اور نکل آتا ہے۔ وہ بطنِ قرآن ہے۔ غرض قرآن و حدیث میں سے تمام احکامِ دین کا گراں بار دفتر اسی اصول کے تحت ظہر القرآن و بطن القرآن میں تمیز کر کے تیار کیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدّس سرہٗ حدیث "لِکُلِّ آیَۃٍ مِّنْھَا ظَہْرٌ وَ بَطْنٌ" کی شرح میں فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں زیادہ تر اللہ تعالیٰ کی صفات اور نشانیوں کا ذکر اور احکام کا بیان اور قصص کا ایراد اور کفار پر اتمامِ حجت اور بہشت و دوزخ کے احوال سے وعظ و نصیحت درج ہے، پس ظہر القرآن سے وہ اصل مدّعا مراد ہے جس کا سیاق متقاضی ہے اور بطنِ قرآن آیاتِ صفات میں تفکر، تفکّر فی آلاء اللہ اور مراقبہ ہے اور احکام کی آیات کا بطن یہ ہے کہ اشارہ و ایما سے کسی حکم کا استنباط کیا جا سکے، جیسے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا (سورہ احقاف: 15) سے یہ مسئلہ استنباط کیا کہ مدّتِ حمل چھ ماہ بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ رضاع کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حولینِ کاملین فرمایا ہے اور قصص کا بطن یہ ہے کہ ثواب و عذاب اور مدح و ذم کا مدار دل نشین ہو جائے اور وعظ و نصیحت کا بطن یہ ہے کہ رقّتِ قلب اور خوف و رجا پیدا ہو جائے۔ و امثال ذلک (حجۃ اللہ البالغہ جلد اول صفحہ 145)

15

چُوں کنی با بے حسد مکر و حَسَد

زاں حسد دِل را سِیاہیہا رسد

ترجمہ: جب تو (کسی) بے حسد (بزرگ) کے ساتھ مکر و حسد کرے گا (تو اس کا کچھ نہیں بگڑے گا) اس حسد سے تیرے ہی دل پر تاریکیاں چھا جائیں گی۔ (صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

با صاف دل مجادلہ با خویش دشمنی ست

ہر کس کنند بر آئنہ خنجر بخود کشید

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

بس تجربہ کردیم دریں دیرِ مکافات

با درد کشاں ہر کہ درافتاد برافتاد

16

خاک شو مردانِ حق را زیرِ پا

خاک بر سَر کُن حَسَد را ہمچو ما

ترجمہ: مردانِ خدا کے قدموں کی خاک ہو جاؤ (اور) ہماری طرح حسد پر مٹی ڈالو۔

عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تا نہند بر سرت عزیزے پاے

خویش چوں خاک خوار باید کرد

جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

سرِ پا باد کم از خاک بزیر قدمے

کہ براہِ تو ز ما یک دو قدم افزوں زد