دفتر 1 حکایت 20: یہودی وزیر کے حسد کا بیان

دفتر اول: حکایت: 20

دربیان حسد کردن وزیر یہود

یہودی وزیر کے حسد کا بیان

آں وزیرک از حسد بودش نژاد

تا بباطِل گوش و بینی باد داد

ترجمہ: وہ کمینہ وزیر (گویا) حسد سے بنا تھا۔ جبھی اس نے ناحق اپنے کان اور ناک برباد کر لیے۔

برامیدِ آنکه از نیشِ حسد

زہرِ اُو در جانِ مسکینان رسد

ترجمہ: اس امید پر (کان ناک کٹوا لیے) کہ حسد کے ڈنگ سے اس کا زہر بے چارے (عیسائی) لوگوں کی جان میں سرایت کر جائے۔

ہر کسے کو از حسد بینی کَنَد

خویشی را بے گوش و بے بینی کُند

ترجمہ: جو شخص حسد میں آ کر (حق و انصاف سے) انکار کرے۔ وہ اپنے آپ کو (حق سننے والے) کان اور (حق کو محسوس کرنے والی) ناک سے محروم کر لیتا ہے۔

مطلب: وزیر بینی بریدہ کے ذکر کے اثنا میں عام حاسدوں کا ذکر فرماتے ہیں کہ ہر چند ان کے کان ناک سلامت ہیں اور ان کے پاس آلاتِ حواس موجود ہیں مگر جب وہ ان سے احساسِ حق نہیں کرتے تو ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ: ﴿وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا﴾ (الأعراف: 179) "اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں" یعنی حق بات نہیں سنتے یا سنتے ہیں مگر اس کان سے سنا اور اس کان سےاڑا دیا، دل تک بات نہیں جاتی۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ

؎گوشت حدیث مے شنود ہوش بیخبر

درحلقۂ بصورت وچوں حلقه برداری

بِینی آں باشد کہ او بُوے برد

بُوئے او را جانبِ کُوئے برد

ترجمہ: (حق کو محسوس کرنے والی) ناک وہ ہوتی ہے جو بوئے حق حاصل کرے اور (یہ) بو اس کو کسی کوچے کی طرف لے جائے۔

مطلب: اوپر کہا تھا کہ حق کا احسان نہ کرنے والے لوگوں کے بھی کیا ناک کان ہیں، ہوئے نہ ہوئے برابر ہیں۔ اب اس نفی کی توجیہ فرماتے ہیں کہ ہم تو اس ناک کو قائم سمجھتے ہیں۔ جو بوئے حق کو محسوس کرے اور یہ احساس اس کے لیے وصول الی اللہ کا موجب ہو۔ ایک اور طرح بھی مطلب بن سکتا ہے کہ خویش را بے گوش و بینی کند سے خویش را ذلیل کند مراد ہو یعنی جو شخص حق سے انکار کرتا ہے وہ عند اللہ اور عند الناس نکٹا یعنی ذلیل ہو جاتا ہے اب کہتے ہیں ناک یعنی فخر و عزت تو اس شخص کی ہے جو حق کا پیرو ہو۔ ﴿وَ لِلہِ الْعِزَّۃُ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾(منافقون: 8) ”عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کا حق ہے“۔ جب اس شخص میں یہ بات نہیں تو نکٹا نہ ہوا تو اور کیا ہوا۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

؎ بترز سنگ و کلوخ ست ہر کہ زو خالی ست

کلوخ و سنگ چو از ذکرِ او بگفتارست

ہر بُویش نیست بے بینی بود

بُوئے آں بُوئیست کاں دِینی بود

ترجمہ: جس میں بو (سونگھنے کی قوت) نہیں وہ بے ناک ہوتا ہے (اس) بو (سے) وہ بو (مراد) ہے جو کہ دینی ہو۔

مطلب: اس شعر میں مسلماتِ مخاطب کے ذریعہ سے اثباتِ دعوٰی ہے یعنی اتنا تو تم بھی مانتے ہو کہ جو شخص بو سونگھنے کا آلہ نہیں رکھتا وہ بے بینی ہے۔ پس ہم بو سے مراد بوئے دینی لیتے ہیں اور اس کے سونگھنے کا اس کے پاس سامان نہیں تو لا محالہ وہ بے بینی ہوا۔

چُونکہ بُوئے بُرد و شکرِ آں نہ کرد

کفرِ نعمت آمد و بینیش خورد

ترجمہ: جب کوئی (شخص عارف کو اس کے آثار سے) شناخت کر لے اور اس کی قدر نہ کرے تو وہ (اللہ کے) احسان کو فراموش کرتا ہے جو اس کی قوتِ شناخت کو سلب کر دے گا۔

مطلب: جب کسی مردِ خدا کا با کمال ہونا معلوم ہو جائے تو اس کی قدر کرنی واجب ہے جب اللہ تعالیٰ ایک دولتِ لا زوال پر دسترس بخشے تو اس سے دستکش ہونے والا کافرِ نعمت ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ

؎مگسل یک نفس از صحبتِ عیسیٰ نفساں

نقد انفاس عزیز است غنیمت دارش

شکر کُن مر شاکِراں را بنده باش

پیشِ ایشاں مُردہ شَو پاینده باش

ترجمہ: شکر کرو اور شکر گزاروں (یعنی عارفوں کے) غلام بن جاؤ اور ان کی خدمت میں انانیت کو مٹا کر عمرِ دوام حاصل کرو۔

مطلب: اہل اللہ کے آگے اپنی خودی کو مٹا دینا بقائے دوام بخشتا ہے۔

عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

حیاتِ جاوداں خواہی بروے او بر افشاں جاں

بقائے سرمدی یابی به پیشش جانفشاں میری

لیکن اگر کسی با کمال کے آگے کمرِ اطاعت خم کرنا، اپنی خودی کو مٹانا اور فنا و محو ہونا منظور نہیں تو اس منزل پر فائز ہونا نا ممکن ہے۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

از جان بروں نیا مدۂ جانت آرزوست

زنار نابریده و ایمانت آرزوست

چُوں وزیر از رهزنی مایه مساز

خلق را تو بر میاد از نماز

ترجمہ: وزیر کی طرح تم رہزنی کا سامان نہ کرو۔ مخلوق کو نماز (یعنی طلب حق) سے نہ روکو۔

مطلب: عارفانِ حق کو شناخت کرنے اور ان کی خدمت بجا لانے کے بجائے خود جھوٹے شیخ نہ بن بیٹھنا اور وزیر یہودی کی طرح لوگوں کو راہِ حق سے روکنے کے لیے ڈاکو نہ بن جانا۔

حافظ بحقِ قرآن کز زرق و شید بازآ

باشد که گوئے عیسٰیؑ درایں تواں زد