دفتر 1 حکایت 21: بعض ہوشیار نصاریٰ کا وزیر کے مکر کو سمجھنا

دفتر اول: حکایت: 21

فہم کردن حاذِقانِ نصارٰی مکرِ وزیر رَا

بعض ہوشیار نصاریٰ کا وزیر کے مکر کو سمجھنا

ناصح دیں گشتہ آں کافِر وزیر

کردہ او از مکر در لوزینه سِیر

ترجمہ: وہ بے دین وزیر مذہبی واعظ بن گیا (اور) اس نے مکر سے حق و باطل کو خلط ملط کر دیا۔

ہر کہ صاحب ذوق بود از گفتِ اُو

لذّتے میدید و تلخی جفتِ اُو

ترجمہ: جو شخص مزہ شناس تھا وہ اس کی باتوں سے بوجہ خوش بیانی ایک لذت محسوس کرتا تھا اور اس کے ساتھ ہی (اس کی شرارت و ضلالت بھری باتوں کی) ایک تلخی (بھی پاتا)۔

مطلب: مکر و ریا آخر کب تک چھپ سکتا ہے صاحبِ ذوق پہچان گئے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

اسمِ اعظم بکند کارِ خود اے دل خوش باش

کہ بہ تلبیس وحیل دیو مسلمان نشود

نکتہ ہا میگفت او آمیختہ

در جُلاب و قند زَہرے ریختہ

ترجمہ: وہ (ادھر ادھر کی باتیں) ملا ملا کر اور شربت و قند میں زہر گھول گھول کر نکتے بیان کرتا تھا۔

ہاں مشو مغرور زاں گفتِ نکو

زانکه دارد صد بدی در زیرِ او

ترجمہ: خبردار (اگر تجھ کو بھی کسی ایسے مکار سے پالا پڑے تو اس کی) اس پسندیدہ گفتگو سے دھوکا نہ کھانا کیونکہ وہ (گفتگو) اپنی تہہ میں سینکڑوں خرابیاں رکھتی ہے۔

مطلب: مولانا بطریقِ نصیحت فرماتے ہیں کہ مکاروں سے ہشیار رہو۔

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

اے کبکِ خوش خرام که خوش میروی بناز

غرّہ مشوکہ گربۂ عاجز نماز کرد

اوچو باشد زِشت گفتش زِشت داں

ہرچہ گوید مردہ آنرا نیست جاں

ترجمہ: جب وہ خود بد (اعمال) ہے تو اس کے اقوال کو بھی بد (اثر) سمجھ (کیونکہ) جو کچھ مردہ (دل) کہے گا اس میں (نیک تاثیر کی) جان نہ ہو گی۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

چو ہست پایۂ واعظ چو ہمتِ او پست

ازاں چہ سود کہ سازد بلند منبرِ خویش

ولہ ؎

کارِ نیک از رقیب چوں آید

کُلُّ فِعْلٍ مِّنَ الْقَبِیْحِ قَبِیْح

گفتِ انسان پارۂ انساں بود

پارۂ از ناں یقیں کہ ناں بود

ترجمہ: (کیونکہ) انسان کی بات انسان کا نمونہ ہوتی ہے (چنانچہ) یہ یقینی بات ہے کہ روٹی کا ٹکڑا روٹی ہوتا ہے۔

زاں علیؓ فرمُود نقلِ جاہلاں

برمزابل ہمچو سبزہ ست اے فلاں

ترجمہ: اے مخاطب اسی لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ جاہلوں کی نعمتِ گفتار ایسی ہے جیسے کوڑے کرکٹ ڈالنے کی جگہ پر سبزہ۔

مطلب: حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ "نِعَمُ الْجَاھِلِ کَرَوْضَۃٍ فِی مَزْبَلَۃٍ" یعنی ”جاہل کی نعمتیں ایسی ہیں جیسے کسی گندی جگہ پر سبزہ زار“۔ یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو نِعَمُ الجاہل فرمایا ہے۔ مولانا اس کو قول الجاہل کے معنی میں کیوں نقل کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقولہ میں جاہل کی عام نعمتوں پر حکم ہے۔ جن میں خوش خوری، خوش پوشی، خوش باشی، خوش کلامی وغیرہ، سب چیزیں شامل ہیں۔ مولانا نے بحکمِ ضرورتِ خاص ایک نعمت یعنی خوش کلامی کے لیے وہ مقولہ نقل کر لیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقولہ میں ضمنًا اس پر حکم ہو چکا ہے۔ "﴿ہٰذا وَ لَو لَم یَخِل عَنِ التَّکَلُّفِ"۔ غرض مدعا یہ ہے کہ جاہل کا ظاہری حال و مقال بھی کوڑی کے کام کا نہیں جب کہ اس کا باطن نورِ معرفت سے خالی ہے۔

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

روندگانِ طریقت بہ نیم جو نخرند

قبائے اطلس آنکس کہ از ہنر عاری ست

برچناں سبزہ ہر آنکو بر نشست

بر نجاست بیش کے بنشستہ است

ترجمہ: جو شخص ایسے سبزہ پر بیٹھا وہ بے شک گندگی پر بیٹھ گیا۔

مطلب: جاہلوں کی صحبت و رفاقت اختیار کرنا جہالت سیکھنا ہے۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎

رفیقِ اہل غفلت ہر کہ شد ازکار مے ماند

چوپائے خفتہ پائے دیگر از رفتار مے ماند

بایدش خود رابشستن از حدث

تا نمازِ فرضِ او نبود عبث

ترجمہ: اس کو اپنا وجود نجاست سے پاک کرنا چاہیے تاکہ (اگر اس کے بعد وہ کہیں نماز پڑھنے لگے تو) اس کی فرض نماز باطل نہ ہو۔

مسائل: (1) مذکورہ تمثیل میں سبزہ پر بیٹھنے سے بدن یا کپڑے کا نجس ہونا اس صورت میں مراد ہے کہ وہ سبزہ نجاست سے آلودہ ہو اور بیٹھتے وقت بدن یا کپڑے پر اس سبزے سے یا زمین سے نجاست لگ بھی جائے ورنہ خود وہ سبزہ نجس نہیں ہوتا۔ نہ اس پر بیٹھنے سے جامہ و جسم نجس ہوتا ہے اگرچہ نجس زمین سے اُگا ہو اور نجس غذا سے اس نشو و نما ہوئی ہو۔

(2) حدث سے نجاست کا لگ جانا مراد ہے۔ وضو ٹوٹنا مراد نہیں جیسے کہ لفظ سے متبادر ہو سکتا ہے کیونکہ اگر با وضو آدمی کے بدن یا کپڑے پر خارج نجاست لگ جائے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ بلکہ صرف نجاست کا دھونا لازم آتا ہے۔

(3) یہاں نماز کے ساتھ فرض کی قید اتفاقی ہے کیونکہ یہ حکم فرض نماز سے مخصوص نہیں۔ بلکہ ہر فرض و سنت و نفل نماز جامہ کے نجس ہونے کی صورت میں باطل ہو جاتی ہے۔

10۔

ظاہرش میگفت در رہ چست شو

واز اثر میگفت جاں را سُست شو

ترجمہ: اس (وزیر کی بات) کا ظاہر (مضمون) تو کہتا تھا کہ راہ (معرفت) میں چست ہو۔ اور اثر (کے لحاظ) سے جان کو کہتا تھا سست ہو جا۔

مطلب: اس کے وعظ کا ظاہری مفہوم اچھا۔ لیکن وہ بلحاظ اثر و نتیجہ کے مضر تھا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

گرمی مجو بمجلسِ واعظ کہ مستمع

گر باشد آتش ازدم سروش بیفسرد

اب اس کی چند نظائر بیان کرتے ہیں:

11۔

ظاہرِ نُقرہ گر اسپَید ست و نَو

دَست و جامہ مے سیاہ گردد ازو

ترجمہ: چاندی اگرچہ بظاہر سفید اور نئی ہے (لیکن) اس سے ہاتھ اور کپڑے سیاہ ہو جاتے ہیں۔

12۔

آتش ارچہ سُرخروے ست از شرر

توزِ فعلِ او سِیَہ کاری نِگر

ترجمہ: آگ اگرچہ (اپنی) چنگاریوں سے سرخرو ہے (مگر) تو اس کے فعل کا تاریک نتیجہ دیکھ لے ( کہ تمام اشیا کو خاکستر بنا دیتی ہے۔)

13۔

برق اگرچہ نُور آید در نظر

لیک ہست از خاصیت دُزدِ بَصَر

ترجمہ: بجلی اگرچہ نور دکھائی دیتی ہے مگر (اپنی) خاصیت (کی رو) سے بینائی کو چرا لے جانے والی ہے۔

14۔

ہر کہ جُز آگاہ و صاحب ذوق بود

گفت اُو در گردنِ اُو طوق بود

ترجمہ: با خبر اور صاحبِ ذوق (لوگوں کے) سوا جو بھی تھا اس (وزیر) کی بات اس کے گلے کا ہار تھی۔

مطلب: وزیر کے ظاہر و باطن کے نظائر بیان کر کے اب پھر قصہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس سے پہلے خواص نصارٰی کے متعلق بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے اس کے مکر کو محسوس کر لیا۔ اب عوام الناس کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ اس کے دام فریب میں گرفتار ہو گئے۔ وزیر کی بات کا عوام کا طوقِ گلو بن جانے سے مراد یہ ہے کہ وہ اس فرطِ شوق سے اس کے مقید و مقلد ہو گئے۔ لہٰذا اس سے اختیاری تقید مراد ہے نہ کہ جبری۔

15۔

مُدّتِ شش سال درِ ہجرانِ شاہ

شد وزِیر اتباعِ عیسٰیؑ را پناہ

ترجمہ: وزیر چھ سال تک بادشاہ سے علیحدہ رہ کر معتقدانِ عیسیٰ علیہ السلام کی (دنیوی و دینی) پناہ بنا رہا۔

16۔

دینِ و دِل را کُل بدو بِسپُرد خلق

پیشِ امرو نہیِ او مے مُرد خلق

ترجمہ: لوگوں نے اپنا ایمان و جان بالکل اس کے حوالہ کر دیا۔ اس کے امر و نہی پر مخلوق جان دیتی تھی۔