دفتر اول: حکایت: 22
پیغامِ شاہ پنہانی بسُوئے وزیرِ پُر تزویر
بادشاہ کا خفیہ پیغام مکار وزیر کے نام
1۔
درمیانِ شاہ و او پیغامہا
شاہ را پِنہاں بدو آرامہا
ترجمہ: (اس اثنا میں) بادشاہ کے اور اس (وزیر) کے درمیان نامہ و پیغام (جاری تھا) جس سے بادشاہ کو اندر ہی اندر آرام (اور اطمینان) ملتا تھا۔
2۔
آخِر اُلاَمر از برائے آں مراد
تا دہد چُوں خاک ایشاں را بباد
ترجمہ: بالآخر اس مقصد کے لئے کہ ان کومٹی کی طرح برباد کرے۔ ( یعنی بادشاہ نے آخر کار اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے وزیر کو خط لکھا)۔
3۔
پیشِ او بنوشت شہ کاے مُقبلم
وقت آمد زُود فارِغ کُن دِلم
ترجمہ: (آخر اس غرض سے کہ وزیر ان نصاریٰ کو خاک کی طرح برباد کرے۔ بادشاہ نے) اس کی طرف لکھا کہ اے میرے اقبال مند! اب وقت آ گیا ہے کہ جلدی میرے دل کو (تشویش سے) فارغ کر۔
4۔
زِ انتظارم دیدہ و دِل بر رہ ست
زیں غمم آزاد کُن گر وقت ہست
ترجمہ: میرے آنکھ اور دل انتظار سے راہ پر لگے ہوئے ہیں (اور) اگر موقع ہے تو مجھے اس غم سے نجات دے۔
5۔
گفت اینک اندراں کارم شہا
کافگنم در دِینِ عیسٰیؑ فتنہا
ترجمہ: اس نے (جواب میں) لکھا۔ حضور میں ابھی اس کام میں (مصروف) ہوں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں فتنے برپا کروں (پھر ان کی تباہی کا وقت بھی آیا سمجھو۔)
6۔
قومِ عیسیٰؑ را بُد اندر دار و گیر
حاکماں شاں دہ امیر و دو امیر
ترجمہ: (اس) مسیحی قوم کے ضبط اور انتظام کے لیے ان کے دس اور دو (کل بارہ) امیر حاکم مقرر تھے۔
7۔
ہر فریقے مر امِیرے را تَبَع
بندہ گشتہ میرِ خود را از طمع
ترجمہ: ہر گروہ ایک ایک امیر کے ماتحت تھا جوطمع (لالچ) سے اپنے حاکم کا غلام بنا ہوا تھا۔
8۔
ایں دہ و آں دو امیرو قومِ شاں
گشتہ بندہ آں وزیرِ بد نشاں
ترجمہ: یہ بارہ امیر اور ان کی رعایا (سب کے سب) اس بد نشان وزیر کے غلام بن گئے تھے۔
9۔
اعتمادِ جملہ بر گفتارِ اُو
اقتدائے جملہ بر رفتارِ او
ترجمہ: اس کی باتوں پر سب کو اعتبار تھا۔ سب اس کی روش کے تابع تھے۔
10۔
پیشِ او در وقت و ساعت ہر امیر
جاں بدادے گر بدو گفتے کہ میر
ترجمہ: ہر امیر اس کے سامنے فورًا جان دے دیتا۔ اگر وہ اسے کہتا (کہ) جان دے دے۔
11۔
چُوں زبوں کرد آں جہودک جملہ را
فتنۂ انگیخت از مکر و دہا
ترجمہ: جب اس کمینے یہودی نے سب کو مطیع کر لیا تو فریب اور چالاکی سے ایک فتنہ برپا کر دیا۔