دفتر اول: حکایت: 23
تخلیطِ وزیر در احکامِ اِنجیل و مکرِ آں
وزیر کا انجیل کے احکام کو خلط ملط کرنا اور اس (وزیر)کا مکر
1
ساخت طُومارے بنامِ ہر یکے
نقشِ ہر طُومار دیگر مسلکے
ترجمہ: (وزیر نے) ہر ایک (امیر) کے نام پر ایک ایک صحیفہ (تحریر) تیار کیا (اور) ہر صحیفے (تحریر) کی عبارت دوسرے طریقے کی تھی (ہر صحیفے کے احکامات جدا طریقے سےدرج کئے)۔
2
حکمہائے ہر یکے نوعِ دگر
ایں خلافِ آں ز پایاں تا بسر
ترجمہ: ہر ایک کا حکم اور طرح کا تھا۔ یہ (حکم) اول سے آخر تک اس (اصل حکم کے) خلاف تھا۔
مطلب: وزیر کا مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں میں تفرقہ پڑ جائے جس سے وہ مبتلائے خانہ جنگی ہو کر خود برباد ہو جائیں گے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے مذہبی میدان کو زیادہ مناسب سمجھا۔ جیسا کہ آج کل بعض ہوشیار و زیرک اقوام کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو مغلوب اور ہمیشہ کے لیے اپنے پنجۂ اقتدار میں مقید رکھنا چاہتی ہیں تو اس کے افراد میں مذہبی معاملات کے متعلق اختلاف ڈال دیتی ہیں۔ یا ان کے پیدا شدہ اختلاف کو بڑھنے کا موقع دیتی ہیں۔ نکتہ اس میں یہ ہے کہ مذہبی معاملات میں خصوصیت سے ہر شخص جلدی جوش میں آ جاتا ہے اور یہ اشتعال گھروں، محلوں، برادریوں میں اور شہروں سے گزر کر آنًا فانًا اطرافِ ملک میں پھیل جاتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی مرحوم ؎
دیکھا مناظروں کا بہت اس نے رنگ ڈھنگ
اکبر کے دل میں اب نہ رہی بحث کی اُمنگ
کہتے بہت صحیح تھے یہ حضرتِ مذاق
ایماں برائے طاعت و مذہب برائے جنگ
لہٰذا اس وزیر نے بھی مذکورہ غرض کو ملحوظ رکھا اور تخمِ فسادِ مذہبی زمین میں بویا اور نصارٰی کی بارہ جماعتوں کے لیے مسائلِ مذہبی کے ایسے بارہ الگ الگ دفتر تیار کئے جن کے مسائل بظاہر ایک دوسرے سے معارض تھے یہودیوں کا اس قسم کا ابلیسانہ سلوک نصارٰی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اہلِ اسلام کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ یہودِ عرب جو اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے جانی دشمن تھے اور ہمیشہ انتقام کی تاک میں رہتے تھے ان میں سے ایک یہودی المذہب چالاک شخص نے ہجرت کی پہلی صدی میں عبد اللہ بن سبا کے نام سے اسلامی لباس میں نمودار ہو کر اسلام میں ایک ایسا تفرقۂ عظیم برپا کر دیا جو تا قیامت قائم رہے گا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
شیخ خود بیں کہ با سلام برآمد نامش
نیست جز زرق و ریا قاعدۂ اسلامش
یعنی اس نے صدہا موضوع احادیث کا دفتر تیار کیا اور مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کو اپنا معتقد بنا کر ان کے دل میں دوسرے مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ کے لیے تخمِ عداوت بو دیا۔ وہ جماعت اثنا عشری یعنی شیعہ لوگ ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ مذہب شیعہ کا وجود دراصل یہود کی اس نظرِ عنایت کا نتیجہ ہے جو ایامِ قدیم میں ایک مرتبہ وہ نصارٰی پر کر چکے تھے اور پھر اسلام پر مبذول کی۔ القصہ وزیر نے ہر جماعت کے لیے متعارض مسائل کی تبلیغ کا سامان مہیا کر دیا۔ تاکہ ان میں اختلافِ مسائل سے اختلافِ آراء، اور اختلافِ آراء سے مخالفت و خصومت پیدا ہو جائے، اور آپس میں کٹتے مرتے رہیں۔ ذیل میں مولانا نے ان مسائل کے چند نظائر بطور نمونہ درج کئے ہیں۔ ان میں وزیر کی یہ عیاری دکھائی ہے کہ جو مسئلہ مختلف صورتیں رکھتا ہے، یعنی ایک صورت میں کسی خاص شرط کے ساتھ اس کے جواز کا حکم صحیح ہے دوسری صورت میں کسی دوسری قید کے ساتھ حرمت کا حکم درست ہے۔ تو وزیر نے ایسے مسئلوں میں ایک ہی چیز کے متعلق بلا تفصیل ایک دفتر میں مطلق جواز کا حکم لکھ دیا اور اسی چیز کے متعلق دوسرے دفتر میں مطلق حرمت کا۔ اور کسی جگہ حلّت و حرمت کی شرائط و قیود کا ذکر نہیں کیا۔ مثلًا زکوٰۃ کے مسئلے کو لو۔ زکوٰۃ اگر کسی محتاج کو دی جائے تو اس کے لیے اس کا لینا جائز ہے اور اگر کسی غنی کو دی جائے تو اس کے لیے حرام ہے۔ لیکن اگر محتاج و غنی کی تفصیل کے بغیر ایک جماعت کو یہ بتایا جاوے کہ زکوٰۃ لینی جائز ہے اور دوسری جماعت کو یہ تعلیم دی جائے کہ زکوٰۃ لینی حرام ہے، تو ظاہر ہے کہ ان دونوں مسئلوں میں کس قدر اختلاف ہے اور ان جماعتوں میں کہاں تک دینی مخالفت پیدا ہونے کا احتمال ہے۔
3
در یکے راہِ ریاضت را و جوع
رُکنِ توبہ کردہ و شرطِ رُجُوع
ترجمہ: ایک دفتر میں ریاضت کے طریقے اور روزے کو توبہ کا رکن اور رجوع (الٰی اللہ) کی شرط قرار دیا۔
تنقیح: ریاضات اور اشغالِ شاقہ مثلِ گرسنگی و بیداری وغیرہ بے شک اصلاحِ نفس کے لیے مفید ہیں، مگر سب کے لیے نہیں بلکہ صرف مبتدیانِ سلوک کے لیے۔ کاملین کے لیے اس کی ضرورت اور مبتدیوں کے لیے بھی اس کثرت دوام کے ساتھ نہیں چاہیے کہ وہ داخلِ عادت ہو کر غیر مفید ہو جائے اور منعمِ حقیقی کے انعامات کی بے قدرتی لازم آئے۔ "قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یَا رَسُوْلَ اللہِ! کَیْفَ مَنْ یَّصُوْمُ الدَّھْرَ کُلَّہٗ؟ قَالَ لَا صَامَ وَ لَا اَفْطَرَ" (مشکوٰۃ) "حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کوئی شخص ہمیشہ روزہ رکھے تو کیسا ہے؟ فرمایا نہ اس کا روزہ ہے نہ افطار ہے۔" اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک عبادت بھی اگر دوام کی وجہ سے داخلِ عادت ہو جائے تو وہ عبادت نہیں رہتی۔ پھر ریاضت معتاد ہو کر کیا مفید ہو سکتی ہے۔ احادیث میں افطار کے وقت یہ دعا پڑھنی ماثور ہے: "اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ" (مشکوٰۃ) ”الٰہی میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق پر افطار کیا“۔ اس میں جہاں یہ پایا جاتا ہے کہ صوم ایک عبادتِ الٰہیہ ہے۔ ساتھ ہی یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ افطار ایک طرح سے رزق کے انعامِ خداوندی ہونے کا احساس ہے۔ اور دوامِ ریاضات میں یہ نکتہ مفقود ہے۔ "نَھٰی رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ عَنِ الْوِصَالِ فِی الصَّوْمِ، فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ اِنَّکَ تُوَاصِلُ یَا رَسُوْلَ اللہِ، قَالَ وَ اَیُّکُمْ مِثْلِیْ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَ یَسْقِیْنِیْ" (مشکوٰۃ) یعنی ”رسول اللہ صلّی اللہ عللیہ وسلّم نے ایک روزے کو دوسرے روزے کے ساتھ بلا افطار ملانے سے منع فرمایا۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ بھی تو ایسا کرتے ہیں۔ فرمایا تم میں سے کون میرے برابر ہو سکتا ہے؟ میں تو ایسی حالت میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا پلاتا ہے“ اس حدیث سے بھی نعمائے الٰہیہ کی اہمیت اور ان کے ترکِ کلی کی ممانعت ثابت ہے۔ لہٰذا اس حکم میں وزیرِ مکار کی سب کے لیے اور سب حالتوں میں تعمیم ایک مغالطہ تھی۔
4
در یکے گفتہ ریاضت سُود نیست
اندریں رہ مخلصی جز جُود نیست
ترجمہ: (برعکس اس کے) ایک دفتر میں لکھا۔ ریاضت سے کچھ فائدہ نہیں۔ اس راہِ (حق) میں تو صرف خیرات و صدقات سے نجات ملتی ہے۔
تنقیح: وزیر کی یہ بات پہلی بات کے بالکل بر خلاف ہے۔ یہاں ریاضت کو مطلقًا بے سود قرار دیا اور داد و دہش کو بالعموم مایۂ نجات کہا۔ حالانکہ ریاضت بخصوصِ حال مفید ہے جیسے کہ اوپر گذر چکا ہے، اور جود و کرم مشروط بشرطِ اعتدال مستحسن ہے، نہ کہ اسراف کے درجہ تک۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ﴾ (الاسرا: 27) ”بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔“ نیز سلوکِ خیر ہر نیک و بد کے ساتھ بالعموم ٹھیک نہیں۔ بلکہ بُرے لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا بمنزلۂ بدی ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نکوئی با بداں کردں چناں ست
کہ بد کردن بجائے نیک مرداں
کسے راکہ با خواجۂ تست جنگ
بدستش چرا میدہی چوب و سنگ
بخشور مردم آزار را خون و مال
کہ از مرغِ بد کندہ بہ پرّ و بال
نبخشائے بر ہر کہ آں ظالمے ست
کہ رحمت برو جور بر عالمے ست
5
در یکے گفتا کہ جوع و جودِ تُو
شرک باشد از تو تا معبودِ تو
ترجمہ: ایک (دفتر) میں کہا تیرا فاقہ اور سخاوت تیرے اور تیرے معبود کے درمیان شرک ہے۔
6
جُز توکّل جُز کہ تسلیمِ تمام
در غم و راحت ہمہ مکر ست و دام
ترجمہ: توکل کے بغیر اور غم و راحت میں کمالِ تسلیم کے بغیر (ریاضت و خیرات) سب مکر اور دام (فریب) ہیں۔
مطلب: وزیر کا مطلب یہ ہے کہ ریاضت و خیرات یعنی عباداتِ بدنی و مالی کو وسیلہ سمجھنا شرک ہے۔ نجات دینے والا خدا ہے۔ اسی پر توکل و تسلیم رکھنا ہے۔ عبادات و طاعات محض مکر و فریب ہیں۔
تنقیح: توکل و تسلیم بے شک اعلیٰ فضائل اور وصول الٰی اللہ کے وسائل ہیں۔ مگر ان کے لیے یہ کہاں لازم ہے کہ عبادات و طاعات سے پرہیز کیا جائے۔ یہ محض وزیر کی عیاری تھی جس نے توکل و طاعات کو باہم منافی بتایا۔ بلکہ دونوں ضروری ہیں۔ "اَلسَّعْیُ مِنِّیْ وَ الْاِتْمَامُ مِنَ اللہِ" (میں کوشش کرتا ہوں۔ اللہ سر انجام دے گا) طاعت سعی ہے اور اِتمام مِن اللہ پر نظر رکھنا توکل ہے۔ سعی بلا توکل عُجب و غرور ہے اور توکل بلا سعی بطالت و جہالت ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
رشتۂ سعی قوی کن کہ رسیدن نتواں
بسرِ کنگرہ مقصود جو بگست کمند
لسان العصر ؎
کاہلی اور توکل میں بڑا فرق ہے یار
اٹھو کوشش کرو بیٹھے ہوئے کس دھیان میں ہو
7
در یکے گفتہ کہ واجب خدمت ست
ورنہ اندیشۂ توکل تہمت ست
ترجمہ: (برخلاف اس کے) ایک دفتر میں کہا کہ خدمت (و طاعت) واجب ہے۔ ورنہ توکل کا خیال (پیغمبر پر) تہمت (کا مترادف) ہے۔
مطلب: یہ مضمون سابق مضمون سے معارض ہے۔ وزیر نے وہاں یہ کہا تھا توکل کے لیے عبادت کی کیا ضرورت ہے، یہاں کہتا ہے توکل کے ساتھ عبادت بھی ضروری ہے، اگر عبادت کے بغیر اکیلا توکل کافی ہوتا تو گویا معاذ اللہ شریعت میں عبادات و طاعات کے احکام سب فضول تھے اور ایسا خیال پیغمبر پر تہمت لگانے کے ہم معنٰی ہے جنہوں نے یہ احکام ہم تک پہنچائے ہیں۔ اس شعر کا مطلب عقائدِ اسلام کے مخالف نہیں۔ بعض شارحین نے اس قول کو خلافِ عقائد ثابت کرنے کے لیے تکلّف کیا ہے۔ حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ وزیر کی ہر بات غلط ثابت ہو۔ بلکہ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مضامین باہم متعارض ہوں اور یہ مقصد اب بھی حاصل ہے۔
8
در یکے گفتہ کہ امر و نہی ہاست
بہرِ کردن نیست شرحِ عجزِ ماست
ترجمہ: ایک دفتر میں کہا (شرع میں جو) امر و نہی ہے وہ (عمل) کرنے کے لیے نہیں بلکہ (وہ صرف) ہمارے عجز کی تفصیل ہے۔
9
تاکہ عجزِ خود بہ بینیم اندراں
قدرتِ حق را بدانیم آں زماں
ترجمہ: تاکہ ہم اس میں اپنا عجز معلوم کریں (اور) اس وقت ہم خدا کی قدرت کو سمجھیں۔
مطلب: وزیرِ مکار نے لکھا کہ تمام اوامر و نواہی جو شریعت میں آئے ہیں، ان پر عمل نہ ہونا چاہیے اور نہ ہو سکتا ہے اور نہ ان کو عمل کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ بلکہ ان سے مقصود صرف یہ ہے کہ بندہ جب اپنے آپ کو ان پر عمل کرنے کے قابل نہیں پائے گا تو اس پر اپنا عجز منکشف ہو جائے گا، اور بمضمون "تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِھَا" ”اپنے عجز کے احساس سے خدا کا قادر ہونا اس پر عیاں ہو جائے گا۔“
تنقیح: یہ عقیدہ مذہبِ جبریہ کا ہے جس کے نزدیک بندہ مجبورِ محض ہے۔ اس کو بالکل کسی قسم کا اختیار حاصل نہیں۔ عقیدۂ اہلِ حق یہ ہے کہ بندہ مجبور تو ہے مگر مطلقًا مجبور نہیں۔ بلکہ مرتبۂ خلق میں مجبور ہے نہ کہ مرتبۂ کسب میں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ نے افعال کے اکتساب کا اختیار بخشا ہے۔ وہ جب چاہے ہر فعل کو جو اس کے لیے ممکن ہو، کر سکتا ہے اور اگر چاہے تو اس سے باز رہ سکتا ہے، لیکن وہ اس کا خالق نہیں ہو سکتا۔ خالق خدا ہے۔ پس جب وہ ایک فعل کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ کی قدرت سے وہ فعل مخلوق ہو جاتا ہے اور بندہ اس کو کسب کر لیتا ہے۔ غرض بندہ مطلقًا مجبور نہیں ہے۔ بلکہ مرتبۂ خلق میں اور مرتبۂ کسب میں مختار ہے۔ وزیرِ عیّار نے اس کو مطلقًا مجبور بتایا۔
10
در یکے گفتا کہ عجزِ خود مبیں
کفرِ نعمت کردن ست آں عجز ہیں
ترجمہ: (بر عکس اس کے) ایک (دفتر) میں کہا اپنا عجز مت دیکھ (بلکہ عمل میں مشغول رہ) خبردار! وہ عجز (کا عقیدہ) احسان فراموشی ہے۔
11
قدرتِ خود بیں کہ ایں قدرت ازُوست
قدرتِ خود نعمتِ او داں کہ ہُوست
ترجمہ: اپنی قدرت کو دیکھ (جو تجھے عمل پر حاصل ہے) یہ قدرت اسی کی طرف سے ہے۔ اپنی قدرت اسی (ذات پاک) کا عطیہ سمجھ کہ وہی وہ ہے۔
مطلب: اپنے آپ کو قادر سمجھ عاجز نہ سمجھ۔ کیونکہ قدرت رکھتے ہوئے اپنے آپ کو عاجز سمجھنا خدا کی عطا کردہ قدرت کا انکار اور اس کی نعمت کا کفران ہے۔
تنقیح: اوپر بندہ کو مجبورِ محض قرار دیا تھا۔ اب اس کو مطلقًا صاحبِ قدرت بتاتا ہے۔ یہ اعتقاد فرقۂ قدریہ کا ہے جس کے نزدیک بندہ کو قدرتِ کامل حاصل ہے۔ حتی کہ وہ خود خالق اور جاعلِ خیر و شر ہے۔ اہلِ حق کا عقیدہ یہ ہے کہ بندہ کو قدرت و اختیار تو حاصل ہے مگر مطلقًا نہیں اور نہ مستقل طور پر۔ بلکہ اس اختیار میں وہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور اسی نے یہ اختیار اس کو بخشا ہے اور اختیار بھی صرف اس قدر کہ وہ صرف کاسبِ افعال ہے نہ کہ خالقِ افعال۔ جیسے کہ اوپر مفصّل بیان ہو چکا۔ پس بندہ قادر ہے۔ مگر مرتبۂ کسب میں نہ کہ مرتبۂ خلق میں۔ وزیر نے عیاری سے اس کو مطلقًا قادر بنا دیا۔
12
در یکے گفتہ کزیں دو در گذر
بُت بود ہر چہ بگنجد در نظر
ترجمہ: ایک (دفتر) میں کہا ان (عجز و قدرت) دونوں کو چھوڑو۔ ان دونوں میں سے جو تیرے دل میں سمائے گا وہ بت (یعنی غیر خدا) ہے۔
تنقیح: یہ مضمون پہلے دونوں سے معارض ہے یعنی کہتا ہے۔ جبر و قدر کا جھگڑا ہی چھوڑ دے، ان مباحث پر غور و فکر کرنا بمنزلہ بُت ہے۔ جو بندے کو توجہ الٰی اللہ سے باز رکھتا ہے۔ یہ بات بھی وزیر نے جس عموم و اطلاق کے ساتھ کہی، غلط ہے۔ بلکہ تفصیلًا یوں کہنا صحیح ہے کہ جو باتیں داخلِ عقائد ہیں ان کو سوچنا اور دل میں محکم رکھنا تو فرض ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر بِنائے مذہب بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ مگر ہر وقت انہی باتوں کے بحث و تکرار میں پڑے رہنا البتہ خلافِ مصلحت اور مورثِ وساوس ہے۔
13
در یکے گفتہ کہ عجز و قدرتت
بگزرد و ز ہرچہ اندر فکرتت
ترجمہ: ایک (دفتر) میں کہا تیرا عجز اور قدرت اور (ان کے علاوہ) جو کچھ تمہارے خیال میں ہے سب (خود بخود) گزر جائے گا (تم کو ان کے ترک کے اہتمام کی ضرورت نہیں)۔
14
از ہوائے خویش در ہر ملتّے
گشتہ ہر قومے اسیرِ ذلتّے
ترجمہ: (کیونکہ کسی چیز کا ترک کرنا بھی خواہشِ نفس کا اتباع ہے اور) ہر مذہب میں جو لوگ اپنی خواہش کے تابع ہوتے ہیں وہ ذلت و خواری میں گرفتار ہوتے ہیں۔
مطلب: اوپر جو کہا تھا ”کزیں دو در گذر“ یعنی عجز و قدرت دونوں کو چھوڑ دے۔ ان دونوں شعروں میں بھی وہی مضمون ہے کہ جبر و قدر دونوں قابلِ التفات نہیں ہیں مگر فرق یہ ہے کہ وہاں ان کے ترک کرنے کی ترغیب تھی اور یہاں کہا ہے کہ ان کے ترک کرنے کا بھی اہتمام نہ کرو کیونکہ وہ خود زائل ہو جائیں گے۔
تنقیح: اس طومار میں جو یہ کہا ہے کہ ان امور کو ترک کرنے کا ارادہ نہ کر بلکہ یہ خود زائل ہو جائیں گے، یہ بایں معنٰی تو صحیح ہے کہ ارادہ مؤثرِ حقیقی نہیں۔ مگر یہ کہنا کہ ارادہ نہ کیا جائے، ایک مغالطہ ہے۔ کیونکہ ارادہ سببِ عادی ہے اور بندہ کاسب ہے۔ کما مرّ۔ البتہ جو ارادہ و تدبیر مذموم ہے وہ قابلِ ترک ہے اور جو تدبیر و ارادہ مرضیِ حق کے موافق بلکہ مامور بہ ہو، اس کا ترک محمود نہیں بلکہ مذموم ہو گا۔
الخلاف: یہ دونوں شعر ہمارے نسخے میں مندرج نہیں ہیں۔
15
در یکے گفتہ مکش ایں شمع را
کایں نظر چوں شمع آمد جمع را
ترجمہ: (بر خلاف اس کے) ایک (دفتر) میں کہا اس (غور و فکر کی) شمع کو گُل نہ کر۔ کیونکہ یہ (طریقہ) نظر ایسا ہے جیسے محفل کے لیے شمع۔
16
از نظر چوں بگذری و از خیال
کشتہ باشی نیم شب شمعِ وصال
ترجمہ: جب تو غور و فکر اور خیال کو چھوڑ دے گا تو گویا تو نے آدھی رات کو شمعِ وصال بجھا دی۔
تنقیح: یہ مضمون پہلے مضمون سے معارض ہے، وہاں عقائدِ مذہب پر غور و فکر کرنے سے منع کیا تھا۔ اب کہتا ہے غور و فکر جاری رکھو اگر اس کو بند کر دیا تو مقصد فوت ہو جائے گا۔ مطلقًا یہ بات بھی ٹھیک نہیں۔ کیونکہ فکر و نظر دو طریق سے ہو سکتا ہے۔ ایک تو فلسفیانہ طریق سے۔ جس کے سبب سے آدمی میں دہریت اور الحاد پیدا ہو جاتا ہے، یہ تو بے شک مذموم ہے۔ ایک یہ صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے کارخانہ کو اعتبار و استبصار کی نظر سے دیکھے۔ جس سے اس کے دل کو مزید ایقان و طمانیت حاصل ہو۔ غور و فکر کی یہ صورت محمود بلکہ قرآن میں جا بجا مامور بہا ہے۔
17
در یکے گفتہ بکش باکے مدار
تا عوض بینی یکے را صد ہزار
ترجمہ: ایک (دفتر) میں (پھر) اس کے (بر خلاف) کہا (اس شمع کو) بجھا دے، گھبرا مت۔ تاکہ تو ایک (عقل) کے عوض میں لاکھ (عقلیں) پائے۔
18
کہ ز کشتنِ شمع جاں افزوں شود
لَیلَیَت از صبر چوں مجنوں شود
ترجمہ: تاکہ شمع (عقل) کے بجھانے سے روح ترقی کرے (اور) تیرا محبوبِ (حقیقی جادۂ عشق پر تیری) ثابت قدمی دیکھ کر مجنوں کی طرح (خود تیرا مشتاق) ہو جائے (اور تو محبّ سے محبوب بن جائے)۔
19
ترکِ دنیا ہر کہ کرد از زہدِ خویش
پیش آمد پیشِ او دنیا و بیش
ترجمہ: (چنانچہ) جس شخص نے اپنے زہد سے دنیا ترک کر دی۔ دنیا (خود) اس کے آگے حاضر ہوتی ہے اور (پہلے سے) زیادہ۔
تنقیح: اس میں وہی مغالطہ ہے کہ مطلق عقل کی مذمت کی ہے۔ حالانکہ عقلِ دنیوی مذموم ہے نہ کہ عقلِ دینی، جو محمود ہے اور دل کی نورانیت اور اضافاتِ غیب کی موجب ہے۔
20
در یکے گفتہ کہ آنچت داد حق
بر تو شیریں کرد در ایجادِ حق
21
بر تو آساں کرد و خوش آں را بگیر
خویشتن را در میفگن در زَحِیر
ترجمہ: (1) ایک (دفتر) میں کہا جو کچھ تجھے خدا نے دیا ہے (اور) اس کو (آفرینشِ عالم سے لے کر) تیرے لیے خوشگوار بنایا ہے (اور) تیرے لیے اس کو سہل الحصول اور پسندیدہ ٹھہرایا ہے اس کو حاصل کر لے (نا حق) اپنے آپ کو (رنجِ ناداری سے) پیچش میں مبتلا نہ کر۔
(2) ایک (دفتر) میں یوں کہا کہ جو کچھ تجھے خدا نے دیا ہے۔ اس کو آفرینشِ عالم سے تیرے لیے مزے دار بنایا ہے (پس) اس کو تجھ پر سہل اور خوش گوار کر دیا ہے اس کو حاصل کر۔ الخ۔
تنقیح: اس میں یہ تعلیم دی ہے کہ تم کو جو کچھ ملے اور جس طریقے سے ملے وہ تمہارے لیے جائز و خوشگوار ہے اور کوئی تخصیص استحقاق اور حلّت و حرمت کی نہیں۔ "وَ ہٰذَا بَاطِلٌ" ورنہ نزولِ شریعت اور نظامِ حکومت کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
23
در یکے گفتہ کہ بگزار آنِ خود
کاں قبولِ طبعِ تو ردّ ست و بد
ترجمہ: (برخلاف اس کے) ایک (دفتر) میں کہا تو اپنی حاصل کردہ چیزوں کو چھوڑ دے، کیونکہ تیری دل پسند (چیز) ناقابلِ قبول اور بری ہے۔
24
راہہائے مختلف آساں شدہ ست
ہر یکے را ملَّتے چُوں جاں شدہ ست
ترجمہ: (اور صرف قبولِ طبع کسی چیز کے جواز کی دلیل نہیں، بلکہ یہ فرقہ بندیوں کی باعث ہے کہ جس کو جو رستہ پسند آیا اختیار کر لیا۔ چنانچہ) یوں (مذہبی) طریقے (نکالنے سب کے لیے) آسان ہو گئے۔ ہر شخص کو ایک خاص مذہب جان کی طرح (عزیز) ہو گیا۔ (حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ کثرتِ مذاہب کی آسانی کوئی امرِ صواب نہیں ہے)۔
25
گر میسر کردنِ حق رہ بدے
ہر جہود و گبر ازو آ گہ شدے
ترجمہ: اگر اللہ تعالیٰ کا (کسی امر کو) آسان کر دینا ہی (شناختِ حق کا صحیح) طریقہ ہوتا تو ہر یہودی اور آتش پرست خدا کا شناسا ہوتا (یا اس طریقہ سے واقف ہوتا۔)
تنقیح: مذکورہ دونوں مسئلوں میں بھی خلطِ حیثیات کا فریب ہے، اسی لیے وہ دونوں معارض ہیں۔ پہلے دفتر کا مضمون یہ ہے کہ حلال و حرام جائز و ناجائز جو کچھ ہاتھ لگ جائے اُڑا لو، تمہارا حق ہے۔ دوسرے دفتر میں کہا جو کچھ تمہارے پاس ہے اگرچہ حلال و طیب اور بقدرِ ضرورت ہی ہے سب سے دستبردار ہو جاؤ۔ اور دوسری بات کی دلیل یہ پیش کی کہ دیکھو تم نے جو کچھ کمایا ہے وہ اپنی خواہش اور پسند سے حاصل کیا اور پسندیدگی تو کسی چیز کے اچھا ہونے کا صحیح معیار نہیں۔ چنانچہ ہر شخص نے ایک الگ مذہب پسند کر رکھا ہے۔ اور سب اپنے اپنے مذہب کو اچھا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ سب مذاہب حق نہیں ہو سکتے۔ معلوم ہوا پسندیدگی کوئی قابلِ اعتبار نہیں۔ پہلے مضمون کی تہہ میں سرقہ و غضب و تعدّی کی تعلیم ہے۔ دوسرے میں حق النفس کی پائمالی اور نعمائے الٰہیہ سے محرومی کی ترغیب ہے۔ وَ کِلَاہُمَا بَاطِلَانِ۔
26
در یکے گفتہ میسر آں بود
کہ حیاتِ دل غذائے جاں بود
ترجمہ: ایک (دفتر) میں کہہ دیا کہ وہ آسان امر (مطابقِ حق) ہے جو دل کی زندگی اور جان کی غذا ہو۔
27
ہر کہ ذوقِ طبع باشد چوں گذشت
بر نیارد ہمچو شورہ رَیع و کشت
ترجمہ: (بخلاف اس کے) جو چیز (محض) طبیعت کو مزہ دینے والی ہو جب وہ زائل ہو جاتی ہے تو شور زمین کی طرح کوئی نتیجہ اور ثمرہ نہیں دیتی۔
مطلب: اوپر جس مضمون میں اپنے تمام مال سے دست بردار ہونے کی ترغیب دی تھی۔ اس میں یہ بات بطور استدلال کہی تھی۔ ع کاں قبولِ طبعِ تو ردّست و بد۔ یعنی تم نے اس کو پسندِ خاطر سے جمع کیا ہے اور من مانی بات اچھی نہیں ہوتی۔ اور اس کی نظیر میں کثرتِ مذاہب کو پیش کیا کہ دیکھو جس کو جو راستہ پسند آیا اختیار کر لیا۔ اس طرح فرقہ بندیاں آسان ہوتی گئیں پس نفس کا کسی چیز کو پسند کرنا اور اس چیز کا نفس کے لیے آسان و میسر ہونا اس کے اچھا ہونے کا صحیح معیار نہیں۔ اب ایک اور دفتر میں اس استدلال کی بھی کانٹ چھانٹ کرتا ہے کہ نہیں نہیں جو چیزیں روح اور قلب کے نزدیک گوارا اور سہل الحصول ہیں۔ وہ اچھی ہیں ان کو تقاضائے فطرت کہتے ہیں۔ طبیعت اور نفس کے نزدیک کسی چیز کا پسندیدہ یا خوشگوار ہونا معتبر نہیں۔ کیونکہ روح کا استلذاذ دائمی اور پائیدار ہے اور طبیعت کا استلذاذ عارضی اور ناپائیدار۔ روح نیکی کو اختیار کرتی ہے اور نیکی کا لطف و ذوق دائمی ہے مگر طبیعت گناہ کرتی ہے گناہ کا لطف تھوڑی دیر کا ہے اور اس کی تلخی دائمی ہے۔ اس مضمون کا بقیہ ابھی رہتا ہے پھر بتایا جائے گا کہ اس خیال میں بھی اس وزیر کی کیا عیاری پنہاں تھی۔
28
جز پشیمانی نباشد رَیعِ اُو
جز خسارت پیش نادر بیعِ اُو
ترجمہ: اس کا یعنی (استلذاذِ طبع کا) پھل پشیمانی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے سودے سے نقصان کے سوا کچھ پیش نہیں آتا۔
29
آں میسر نبوَد اندر عاقبت
نامِ اُو باشد مُعَسّر عاقبت
ترجمہ: آخر وہ سہل الحصول (ثابت) نہیں ہوتی (بلکہ) انجام کار اس کا نام دشوار یاب ٹھہرتا ہے۔
30
تو مَعَسَّر از مُیَسَّر باز داں
عاقبت بنگر جمالِ این و آں
ترجمہ: تجھ کو دشوار و سہل میں فرق سمجھنا چاہیے (اور بلحاظِ) انجام اس کی اور اس کی صورت (نتیجہ) پر نظر کرنی چاہیے۔
تنقیح: اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ روح اور قلب جس امر کو بآسانی اختیار کر لیں اس کو کارِ ثواب سمجھیں، وہ عین دین ہے اور طبع اور نفس کا پسند و اختیار قابلِ التفات نہیں۔ کیونکہ ان سے گناہ کے سوا کوئی کام سرزد نہیں ہوتا۔ وہ جس چیز کو پسند کریں ضرور اس میں خرابی ہوگی۔ اس مضمون کا زیادہ حصہ تو قابلِ گرفت نہیں ہے۔ مگر یہ ایک خیالِ باطل اس میں شامل ہے کہ روح و قلب جس بات کو پسند اور جس کو نا پسند کریں ان کو حلال و حرام سمجھ لینا چاہیے۔ گویا احلال و تحریم اشیا کا معیار اپنا دل ہوا۔ یہ ایک ملحدانہ تعلیم ہے۔ صحیح امر یہ ہے کہ تمام امور کی فرضیت، وجوب و استحباب اور حلت و حرمت کا حکم دینا شرع کا حق ہے۔ قلب و روح کا کوئی حق نہیں کہ اپنی خواہش سے کسی چیز کو اختیار اور کسی کو ترک کرے۔ ہاں جو روحِ سلیم اور جو قلبِ مستقیم ہو اس کو خود تشریعی امور پر عمل کرنا سہل اور موجبِ لذت ہوتا ہے اور طبعِ خسیس اور نفسِ خبیث کو اس پر عمل پیرا ہونا دشوار نظر آتا ہے۔
31
در یکے گفتہ کہ اُستادے طلب
عاقبت بینی نیابی در حَسَب
ترجمہ: ایک (دفتر) میں کہا کہ مرشد تلاش کر (محض) ذاتی فضائل کی بدولت عاقبت بینی حاصل نہ ہوگی۔
32
عاقبت دیدند ہر گوں اُمّتے
لا جَرَم گشتند اسیرِ زَلتّے
ترجمہ: ہر (گمراہ) قوم نے (بلا اتباعِ انبیاء و مرسلین) کسی نہ کسی طریق سے امورِ معاد کو معلوم کرنا چاہا۔ جبھی تو وہ خطا و لغزش میں مبتلا ہوئی۔
33۔
عاقبت دیدن نباشد دست باف
ورنہ کے بودے ز دینہا اختلاف
ترجمہ: مآل و معاد کو معلوم کرنا کوئی بائیں ہاتھ کا کرتب نہیں ہے۔ ورنہ اختلافِ مذاہب ہی کیوں ہوتا۔
34
در یکے گفتہ کہ استا ہم توئی
زانکہ اُستا را شناسا ہم توئی
ترجمہ: (اس کے بر خلاف) ایک اور (دفتر) میں یوں لکھ دیا تو آپ ہی استاد ہے کیونکہ تو (شاگرد بننے کے لیے) استاد کو شناخت کرنے والا ہے۔ (گویا تو شناخت کا مادہ رکھتا ہے۔ اس لیے عاقبت کی شناخت بھی خود کر سکتا ہے۔)
35
مرد باش و سخرۂ مرداں مشو
رَو سر خود گیر و سرگرداں مَشو
ترجمہ: مرد بن اور لوگوں کا بیگاری نہ بن۔ جا (اپنی ذاتی تحقیق سے) خود اپنی فکر کر اور (طلبِ پیر کے پیچھے حیران نہ ہو)۔
36
چشم بر سرّت بدار و از خلاف
دُور شو تا یابی از حق ایتلاف
ترجمہ: اپنی ذاتی رائے پر نظر رکھو اور اس کے خلاف (عمل کرنے) سے پرہیز کرو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ سے (قرب) وصال حاصل ہو جائے۔
الخلاف: ہمارے نسخے میں یہ شعر نہیں ہے۔
تنقیح: اوپر کے دونوں مضمون بھی آپس میں لڑ گئے۔ پہلے کہا مرشد کا اتباع کر۔ پھر کہتا ہے تو خود ہی مرشد ہے۔ کسی کا اتباع مت کر۔ بلکہ اپنی ذاتی رائے پر عمل کر کہ یہی راستہ مُوصِل الٰی الحق ہے۔ یہاں بھی اجمال و تعمیم کا فریب ہے کیونکہ نہ تو من کل الوجوہ اتباعِ مرشد فرض ہے اور نہ مطلقًا عدمِ اتباع جائز ہے۔ اسی طرح نہ عمومًا اپنے ذاتی اجتہاد سے کام لینا درست ہے اور نہ کلیتًا تعطیلِ نظر و ترکِ فکر جائز ہے۔ بلکہ جو باتیں وحی کے ذریعے ثابت ہیں ان کا اتباع واجب ہے اور جن باتوں میں اجتہاد کی گنجائش ہے ان میں ایک مجتہدانہ قابلیت کا آدمی خود نظر و فکر کے بعد حکم لگا سکتا ہے۔ ہاں جو شخص قوۃِ اجتہاد نہیں رکھتا اس کو ان امور میں بھی کسی دوسرے مجتہد کی تقلید کرنی چاہیے۔ لسان العصر رحمۃ اللہ علیہ ؎
شیطان سے وہ فلاسفی ہے منسوب
جس کا مطلب ہے کر وہ جو جی چاہے
37
در یکے گفتہ کہ ایں جملہ یکے ست
ہر کہ او دو بیند اَحْول مرد کے ست
ترجمہ: ایک (دفتر) میں کہا یہ سارا عالم ایک ہی (ذات) ہے جو شخص (اس کو) الگ الگ سمجھے وہ کمینہ شخص بھینگا ہے۔
الخلاف: بعض نسخوں میں اس شعر کے بجائے یہ دو شعر درج ہیں ؎
در یکے گفتہ کہ ایں جملہ توئی
مے نگنجد درمیانِ ما دوئی
ایں ہمہ آغازِ ما و آخر یکے ست
ہر کہ او دو بیند احول مردکے ست
یعنی ایک (دفتر) میں کہا یہ سارا عالم تو خود ہے۔ ہمارے (تمہارے) درمیان جدائی کی گنجایش نہیں، ہمارا یہ تمام آغاز و انجام ایک ہے۔ جو نا لائق آدمی ان کو جدا سمجھے وہ احول ہے۔
38
در یکے گفتہ کہ صد یک چوں بود
اینکہ اندیشد مگر مجنوں بود
ترجمہ: (بر خلاف اس کے) ایک (دفتر) میں کہہ دیا، بھلا سو چیزیں ایک کیونکر ہوتی ہیں۔ ایسا خیال کون کر سکتا ہے مگر (وہی جو) دیوانہ ہوگا۔
تنقیح: یہاں بھی وزیر نے اسی تلبیس سے کام لیا ہے پہلے تو تمام اشیاءِ عالم کو من کل الوجوہ ایک کہہ دیا۔ حالانکہ یہ محض ایک ادّعاء ہے۔ اگر ایک صفت میں چند اشیاء متحد ہیں تو بعض دیگر صفات میں متفرق ہیں۔ مثلًا زید عمر و بکر انسان ہونے میں متحد ہیں۔ لیکن ان کے تشخّصات نے ان کو الگ الگ کر رکھا ہے۔ وہ من کل الوجوہ متحد کہاں ہیں۔ پھر اس نے تمام اشیاء کو من کل الوجوہ متفرق قرار دیا۔ یہ بھی دعوٰی ہی دعوٰی ہے، بہت سے کلی امور ایسے ہیں جو تمام اشیائے عالم میں مشترک ہیں۔ پس ان امور کلیہ میں وہ تمام چیزیں متحد ہیں۔ مثلًا وجود ایک ایسا امرِ کلی ہے جو تمام موجودات پر صادق آتا ہے۔ یعنی تمام اشیائے عالم موجود ہونے میں ایک ہیں۔ اگرچہ بعض دیگر صفات ان کو ایک دوسرے سے ممتاز کر رہی ہیں۔ دیکھو۔ بحث وحدۃ الوجود شرح ہٰذا میں۔
39
ہر یکے قولے است ضِدّ یکدگر
چوں یکے باشد بگو زہر و شکر
ترجمہ: (غرض ان اقوال میں سے) ہر قول ایک دوسرے کے بر خلاف ہے (تم ہی) بتاؤ۔ بھلا زہر و شکر کیونکر ایک ہو سکتے ہیں۔
الخلاف: بعض نسخوں میں اس شعر کی بجائے یہ دو شعر درج ہیں۔
ہر یکے قولے ست ضدِّ یک دگر
ایں بضدِ او ز پایاں تا بسر
چوں یکے باشد بگو زہر و شکر
مختلف در معنٰی و ہم در صُوَر
یعنی ہر قول (ان طوماروں میں) ایک دوسرے کے خلاف تھا (حتی کہ) یہ قول اس قول کی اوّل سے آخر تک ضد تھا۔ تم ہی بتاؤ کہ زہر اور شکر جو بلحاظ صورت اور اثر کے مختلف ہوتے ہیں دونوں ایک کیونکر ہو سکتے ہیں؟
40
در معانی اختلاف و در صُوَر
روز و شب بیں خار و گل سنگ و گہر
ترجمہ: (ان دفتروں کے) معانی و الفاظ میں (ایسا) اختلاف سمجھ لیجیے (جیسے) رات اور دن (یا) کانٹے اور پھول (یا) پتھر اور موتی (ہیں)۔
41
تا ز زہر و از شکر در نگذری
کے تو از گلزارِ وحدت بُو بَری
ترجمہ: (مگر اے مخاطب!) جب تک تو زہر و شکر (وغیرہ متخالف اعیان) سے گزر (کر ذاتِ واحد تک پہنچ) نہ جائے تو کب گلزارِ وحدت کی خوشبو سونگھ سکتا ہے۔
مطلب: اوپر وزیر کے متضاد و متخالف مضامین کے ذکر میں ضمنًا امتیاز و اتحاد کا ذکر آ گیا تھا۔ اس لیے بوجہ مناسبت مولانا کا ذہن فورًا توحید کی طرف منتقل ہو گیا جیسے کہ آپ بوجہ غلبۂ مذاق اکثر اثنائے بیان میں ذکر چھیڑتے رہتے ہیں۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چوں کنم قصدِ سخن نامِ تو آید بر زباں
چوں کنم جاناں کہ جز نامِ تو ہیچیم یاد نیست
42
وحدت اندر وحدت ست ایں مثنوی
از سمک رو تا سماک اے معنوی
ترجمہ: یہ مثنوی اسرارِ وحدت سے بھرپور ہے۔ اے طالبِ معنٰی (اس کے ذریعہ سے) زیرِ زمین سے بالائے فلک تک کی سیر کر لے۔