دفتر 1 حکایت 24: اس امر کا بیان کہ چلنے کی صورت میں اختلاف ہے نہ کہ راہ کی حقیقت میں

دفتر اول: حکایت: 24

در بیان آنکہ اختلاف در صورتِ روش ست نہ در حقیقتِ راہ

اس امر کا بیان کہ چلنے کی صورت میں اختلاف ہے، نہ کہ راہ کی حقیقت میں

(مطلب اس عنوان کا یہ ہے کہ اہلِ حق کے طرزِ عمل اور طریقِ روش میں اختلاف ہوتا ہے۔ مقصد سب کا ایک ہے اس میں اختلاف نہیں۔)

1

زیں نمط زیں نوع دہ طومار و دو

بر نوشت آں دینِ عیسٰےؑ را عدو

ترجمہ: اس طرز پر اسی قسم کے بارہ دفتر اس دینِ عیسٰی علیہ السلام کے دشمن نے تیار کیے۔

2

او ز یکرنگیِ عیسٰیؑ بُو نداشت

وز مزاجِ خمِّ عیسیٰؑ خو نداشت

ترجمہ: اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یکرنگی کی خبر نہ تھی اور نہ خمِ عیسیٰ علیہ السلام کے مزاج کی خو رکھتا تھا۔

مطلب: وزیر محض حضرت موسیٰ علیہ السلام کا متبع ہونے کے باعث حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مخالف ہو رہا تھا اور یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخالف نہیں بلکہ ان کے ہم رنگ ہیں، اور نہ صرف خود ہمرنگ ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اسی ایک رنگ میں رنگ دیتے ہیں مگر وہ اس اتحادِ رنگ سے خُو گر نہ تھا۔

3

جامۂ صد رنگ ازاں خمِّ صفا

سادہ و یک رنگ گشتے چوں ضِیا

ترجمہ: سینکڑوں مختلف رنگوں کے کپڑے (یعنی مختلف العقائد لوگ) اس صاف مٹکے (یعنی تعلیماتِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام) سے خالص اور یک رنگ (یعنی متحد المذاہب) ہو جاتے تھے جس طرح روشنی (خالص اور یک رنگ ہوتی ہے)۔

مولانا اسمٰعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ؎

پرتوِ حال خوشت چوں کوہسار

ہست در عرضاتِ جاں بر یک قرار

نکتۂ لطیف: یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ روشنی جو ہم کو بظاہر خالص سفید رنگ کی اور یک رنگ معلوم ہوتی ہے وہ ان سات رنگوں سے مرکب ہے سُرخ، نارنجی، زرد، سبز، آسمانی، نیلا اور بنفشی۔ چنانچہ جب شعاع کسی ایسے شیشے میں گزرتی ہے جو منشور مثلثی ہو تو یہ ساتوں رنگ الگ الگ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایک ایسے دین کے لیے ضیاء کی مثال پیش کرنا جو مختلف العقائد لوگوں کے اجتماع و اتحاد سے بنا ہو کس قدر نورانی تمثیل ہے، اور اگر مذکورہ تحقیق عہدِ جدید کی ہے تو اس تمثیل کو مولانا کی کرامات میں سے سمجھنا چاہیے۔

سوال: مدّعا تو یہ تھا کہ مختلف عقائد کے لوگ دین عیسیٰ علیہ السلام میں آ کر یک رنگ ہو گئے۔ بخلاف اس کے دین کی تمثیل اس مٹکے سے دی گئی جس میں ایک رنگ کے کپڑے داخل ہو کر مختلف الالوان ہو جاتے تھے۔ "فَاَیْنَ الْمُمَثَّلُ مِنَ الْمُمَثَّّلِ لَہٗ"۔

جواب: بعض شراح نے تسلیم کیا ہے کہ اس مضمون میں تعقید ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ "ازاں خمِّ صفا" سے وہ رنگ کا مٹکا مراد نہیں۔ بلکہ خمِ معنوی مراد ہے جس کا اثر اس معجزے کے مٹکے سے خلاف ہے۔ مجازًا اور تشبیہًا اس کو خم کہہ دیا۔ بطور "تَسْمِیَۃُ الشَّیْءِ بِاسْمِ ضِدِّہٖ"۔

4

نیست یک رنگی کزو خیزد ملال

بل مثال ماہی و آبِ زلال

ترجمہ: وہ یک رنگی (ایسی) نہیں جس سے جی بھر جائے بلکہ (اس کی) مثال مچھلی اور آبِ زلال کی سی ہے۔

مطلب: انسان عمومًا بمضمونِ "کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیْذٌ" تنوعِ احوال اور تجددِ اطوار کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے ایک حالت سے اس کا دل سیر ہو جاتا ہے۔ جیسے بنی اسرائیل من و سلوٰی کھاتے کھاتے تنگ آ گئے تھے اور ایک مفت ہاتھ آنے والی آسمانی نعمت پر پیاز اور ککڑی وغیرہ ادنیٰ چیزوں کو ترجیح دینے لگے۔ مولانا فرماتے ہیں یہ یک رنگی ایسی چیز نہ تھی جس سے دل بھر جائیں۔ بلکہ اس کی مثال پانی کی سی ہے جس سے مچھلی کبھی سیر نہیں ہوتی۔

5

گرچہ در خشکی ہزاراں رنگہا ست

ماہیاں را با یبوست جنگہا ست

ترجمہ: اگرچہ خشکی میں (کہیں مٹی کہیں ریت کہیں میدان کہیں پہاڑ اور ان کے) ہزاروں دل کش رنگ ہیں (بخلاف اس کے پانی یک رنگ و یک ذات چیز ہے مگر) مچھلیوں کو خشکی کے ساتھ بڑی مخالفت ہے (اور ان کو پانی مرغوب ہے)۔

مطلب: مچھلی پانی کی عاشق ہے اور عاشق اپنے عشق سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ یہ مثال عاشقانِ الٰہی پر چسپاں ہوتی ہے جن کو دیباچۂ مثنوی میں بھی ماہی سے تشبیہ دی گئی تھی۔ ع۔ ہر کہ جز ماہی ز آبش سیر شد۔ اور ذاتِ حق سمندر ہے جو سب پر محیط ہے۔ جس طرح مچھلی پانی سے سیر نہیں ہوتی اسی طرح عاشقانِ الٰہی عشق سے بس نہیں کرتے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

تازید بندہ غمِ عشق بجاں خواہد داشت

سر بخاکِ رہ آں سردِ رواں خواہد داشت

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدؔی را سخن پایاں

بمیرد تشنہ مستسقٰی و دریا ہم چناں باقی

6

کیست ماہی؟ چیست دریا؟ در مثل

تا بداں ماند خُدا عزوّجل

ترجمہ: کون ہوتی ہے مچھلی اور کیا چیز ہے دریا؟ جس کے ساتھ (وحدت کی) مثال میں خدائے عزّوجل کو مشابہت ہو۔

جوابِ اعتراض: اہلِ تصوّف خداوندِ جلّ و علا کی ذات کو کبھی آفتاب سے اور کبھی سمندر سے تشبیہ دیتے ہیں، اور بعض لوگ جو اس کوچہ سے نا آشنا ہیں اس قسم کی تشبیہات کو خلافِ عقائدِ اسلامیہ سمجھتے ہیں، اس کی تحقیق یہ ہے کہ یہ تشبیہ من کل الوجوہ نہیں ہوتی بلکہ خاص امور میں ہوتی ہے۔ چنانچہ اس مقام میں ذاتِ حق کو دریا کے ساتھ بلحاظِ وحدت کے تشبیہ دی اور گو ذاتِ خداوندی کی وحدت حقیقی ہے اور دریا کی وحدت اضافی۔ تاہم تمثیل کے لیے صرف مناسبت کافی ہے اور تمثیل کا جواز قرآن مجید سے ثابت ہے۔ ﴿وَ لِلہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی﴾ (النحل: 60) یعنی ”اور اللہ کی بہت بڑی مثال ہے“ اور ﴿مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ﴾(النور: 35) یعنی ”ان کے نور کی مثال چراغ دان کی سی ہے۔ جس میں چراغ ہے۔“ مَثَل (بفتح میم و ثا) کے معنٰی وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے ساتھ کسی وصف میں مشارک ہو اگرچہ دونوں چیزوں کے مابین اس وصف کی شدت یا کثرت کے لحاظ سے بہت تفاوت ہو جیسے بیضہ دودھ کی مَثَل ہے سفیدی کے وصف میں۔ اور مِثْل (بکسر میم و سکون ثاء) کے معنٰی وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے ساتھ نوع میں شرکت رکھتی ہو، جیسے زید، عمرو کی مثل ہے انسان کی نوع میں۔ پس خدا کی مَثَل (بفتحِ میم) تو ہو سکتی ہے اور اس کی مِثْْل (بکسر میم) نہیں ہو سکتی۔ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾(الشوری: 11) کوئی اس کی مثل نہیں۔ (کذا یستفاد من تحریر بعض محققی القصہ و کلید)

7

صد ہزاراں بحر و ماہی در وجود

سجدہ آرد پیش آں دریائے جُود

ترجمہ: موجودات میں سے لاکھوں دریا اور مچھلیاں اس دریائے کرم (یعنی خداوند تعالیٰ) کے آگے سر بسجود ہیں۔

مطلب: خداوند جل و علا کے لیے دریا کی تمثیل کیا حقیقت رکھتی ہے۔ وہ خالق اور یہ مخلوق، اور مخلوق خالق کی محتاج ہے۔ ذیل میں چند نظائر بیان فرماتے ہیں جن سے ثابت ہو گا کہ تمام مخلوق خالق کی محتاج ہے اور مخلوق کی ہر ایک خوبی خالق کی خوبیوں کا پر تو ہے۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

نورِ خود را جلوہ کردہ در لباسِ این و آں

در جہاں آوازۂ کون و مکاں انداختہ

8

چند بارانِ عطا باراں بُدہ

تا بداں آں بحر دُر افشاں شدہ

ترجمہ: اس کی بخشش کے کئی مینہ (دریا پر) برسے یہاں تک کہ ان (بارشوں) سے وہ دریا موتی بکھیرنے لگا۔

مطلب: دریا کو در افشانی کی صفت جب حاصل ہوئی کہ اس پر عطائے الٰہی کی بارش ہوئی۔ پس دریا کی صفتِ عطا اللہ تعالیٰ کی صفتِ عطا کا فیض ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

زبحرِ جودِ او ابرِ بہاری

کند خاکِ چمن را آبیاری

9

چند خورشیدِ کرم افروختہ

تاکہ ابر و بحرِ جود آموختہ

ترجمہ: اس کی بخشش کے کئی سورج طلوع ہوئے۔ تب بادل اور دریا نے فیض رسانی سیکھی۔

مطلب: آفتاب کی حرارت سے پانی بخار بن کر صعود کرتا ہے اور وہ بخارات اوپر جا کر بادل بن جاتے ہیں اور پھر بادل برستے ہیں اور بارشوں سے دریا بنتے ہیں۔ بادلوں اور دریاؤں سے زمین کو جو فیض پہنچتا ہے عیاں ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا سلسلہ فیضِ آفتاب کی تابش سے بندھا ہوا ہے۔ نہیں نہیں در حقیقت خداوند تعالیٰ کے آفتابِ کرم کی تابش کا فیض ہے۔ اسی کی بدولت آسمانی آفتاب نے اپنا عمل کیا اور اسی سے ابر نے جود اور دریا نے فیض سیکھا۔

10

چند خورشیدِ کرم تاباں بُدہ

تا بداں آں ذرّہ سرگرداں شُد

ترجمہ: اس کی بخشش کے کئی سورج درخشاں ہوئے تب ان کی بدولت وہ (آفتابِ فلک) ذرّہ (کی طرح آفاق پر چکر لگانے اور عالم کو روشنی پہنچانے) لگا ہے۔

مطلب: عالم بھر کو جگمگا دینا اسی کے خورشیدِ کرم کا فیض ہے۔ ورنہ اس فلکی خورشید کی کیا حقیقت تھی کہ خود ضیا پاشی کر سکتا۔ یہ تو اس کے سامنے ایک ذرّہ ہے۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

خود کہ باشد ذرّہ تا دعوی خورشیدی کند

ہیچ دیدی قطرہ دریا در دہاں انداختہ

یوں بھی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ اس کی بخشش کے کئی سورج (ذرّہ پر) درخشاں ہوئے تب اس کی (چمک) سے ذرّۂ خاک (ہوا میں) سر گرداں نظر آیا۔

11

پرتوِ ذاتش زدہ بر ما و طین

تا شدہ دانہ پذیرندہ زمین

ترجمہ: اس کی ذات پاک کی چمک آب و گل پر پڑی۔ تب زمین تخم کو قبول کر سکی۔

مطلب: خلقِ اشیاء تو ذاتِ خداوند کا فعل ہے۔ پھر زمین جو دانہ کو قبول کر کے پودے اور درخت اُگاتی ہے چنانچہ لوگ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ پیداوار زمین نے اُگائی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ذاتِ خدا کا اس پر پرتَو پڑ گیا ہے۔ اس لیے اُگانے کی صفت اس پر صادق آنے لگی۔ "وَ لَوْ مَجَازًا"۔

12

خاک امین و ہرچہ دروے کاشتی

بے خیانت جنسِ آں برداشتی

ترجمہ: زمین امانتدار (بن گئی) اور جو کچھ تو نے اس میں بویا اس کی پیداوار بے کم و کاست حاصل کی۔

مطلب: زمین اس قدر امانت دار ہے کہ اس میں جو کچھ بویا جائے۔ "گندم از گندم بروید جو ز جو"۔ اس میں ہرگز تفاوت نہیں آتا۔ یہ امانت داری اس نے کہاں سے سیکھی؟ اس کا جواب اگلا شعر ہے:

13

ایں امانت زاں عنایت یافتہ ست

کافتابِ عدل بر وے تافتہ ست

ترجمہ: (زمین نے) یہ امانت (داری کی صفت) اس عنایت کی بدولت حاصل کی ہے کہ اس پر (اس کے) عدل کے آفتاب نے طلوع کیا ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت عدل بھی ہے جس کے لیے امانت لازم ہے کیونکہ عادل کے لیے ضروری ہے کہ وہ حق دار کو اس کا حق پہنچائے اور یہی امانت کا معنٰی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے آفتابِ عدل نے زمین پر اپنا پرتو ڈالا تو وہ امانت کی صفت سے موصوف ہو گئی۔

14

تا نشانِ حق نیابد نوبہار

خاک سِرّہا را نسازد آشکار

ترجمہ: جب تک فصلِ بہار خدا کا حکم نہیں پاتی (اس وقت تک) زمین اپنی مخفی اشیاء (نباتات) کو باہر نہیں نکالتی۔

مطلب: فصل یا موسم گویا اپنے عہد کا حاکم ہوتا ہے جو خاص خاص قسم کے درختوں اور پودوں، اناجوں، پھلوں اور پھولوں پر تصرف کرتا ہے اور اس کے تصرف کے ماتحت درخت اور پودے زمین سے سر نکالتے ہیں، پھل پھول ٹہنیوں سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر اس کا حکم جب نافذ ہوتا ہے کہ موسم خود احکم الحاکمین کی درگاہ سے حکم پاتا ہے۔ پھر اس کے حکم کے مطابق عمل کرتی ہے۔ لہٰذا سبزہ زار و چمنستان کی تمام سرسبزی و رونق خداوند تعالیٰ ہی کے حکم سے ہے۔ مولانا اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ ؎

مٹی سے بیل بوٹے کیا خوشنما اُگائے

پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا

خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے

اس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا

میوے لگائے کیا کیا خوش ذائقہ رسیلے

چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا

15

آں جوادیکہ جمادے را بداد

ایں خبرہا وِیں امانت وِیں سَدَاد

ترجمہ: (اور حق تعالیٰ) وہ بڑا کریم (ہے) جس نے ٹھوس زمین کو یہ (پھول پھل اگانے کے) پیغامات (بھیجے) اور (پھر پھلوں کے بیجوں کی) امانت (سپرد کی) اور (اس کے بعد اس امانت کی ادائیگی میں) راستی عطا کی۔

مطلب: اس شعر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کو پیغام آنا۔ امانت اس کے سپرد ہونا اور پھر زمین کا اس امانت کو راستی کے ساتھ ادا کر دینا جو خاص ترتب و تعقیب کے ساتھ مذکور ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ زمین ایک جماد اور بے حس و بے شعور چیز ہونے کے باوجود احکامِ خداوندی کو سننے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ایسی صلاحیت رکھتی ہے جیسی با شعور و ذی حس مخلوق رکھتی ہے۔ نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ؎

نبارد ہوا تانگوئی بیار

زمین نا درد تا نگوئی بیار

اور یہ بات کتاب و سنت سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا﴾ (بنی اسرائیل: 44) "اور جتنی چیزیں ہیں سب اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہی ہیں، مگر تم لوگ ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے"۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بذکرش ہر چہ بینی در خروش است

ولے داند دریں معنی کہ گوش است

نہ بلبل برگلشن تسبیح خوانیست

کہ ہر خارے بہ تسبیحش زبانیست

16

آں جماد از لطف چوں جاں میشود

زمہریر از قہر پنہاں میشود

ترجمہ: وہی ٹھوس (زمین اس کے) لطف سے مثل جان (دار) بن جاتی ہے (اور) کڑکڑاتا جاڑا جو اس کے قہر سے ہے ناپید ہو جاتا ہے۔

مطلب: فصلِ بہار اللہ تعالیٰ کی صفتِ لطف کی مظہر ہے جب کہ زمین میں قوتِ نامیہ کی ایک جان سی پڑ جاتی ہے اور اس کے اندر سے بے انتہا نباتی مخلوق پیدا ہو کر سطحِ ارض کو تختۂ گلزار بنا دیتی ہے۔ اور موسمِ سرما جس کا دوسرا نام خزاں ہے اس کی صفتِ قہر کا مظہر ہے، جس کے اثر سے سارے شاداب چمن اور ہرے بھرے گلزار چند روز میں خاک میں مل جاتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اس خداوندِ لطیف کا یہ فیضِ لطف ہے کہ زمین فرماں پذیری و امانت داری میں ایک ذی روح کی طرح عمل کرنے لگی اور موسمِ خزاں جو اس قہار کی صفتِ قہر کا مظہر تھی روپوش ہو گئی۔

17

آں جمادے گشت از فضلش لطیف

کُلُّ شَیْ ءٍ مِّنْ ظَرِیْفٍ ھُوَ ظَرِیْف

ترجمہ: وہ ٹھوس زمین اس کے فضل سے لطیف ہو گئی۔ جو چیز اچھی شے سے ہو وہ اچھی ہوتی ہے۔

18

ہر جمادے را کند فضلش خبیر

عاقلاں را کردہ قہرِ او ضریر

ترجمہ: اس کا (دریائے) فضل (جب جوش میں آتا ہے تو) ہر بے حس اور ٹھوس چیز کو باخبر بنا دیتا ہے اس کی برقِ قہر (جب گرتی ہے) تو اچھے اچھے عقلمندوں کی چشمِ خرد کو اندھا کر دیتی ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بہ تہدید گر برکشد تیغِ حکم

بماند کرّ و بیاں صُمٌّ وَّ بُکْم

دگر در دہد یک صلائے کرم

عزازیل گوید نصیبے برم

19

جان و دل را طاقتِ ایں جوش نیست

با کہ گویم در جہاں یک گوش نیست

ترجمہ: جان و دل کو اس جوش (کے برداشت کرنے) کی طاقت نہیں (جو اس کی قدرت کو دیکھ کر اٹھتا ہے) کس سے بیان کروں۔ دنیا بھر میں کوئی نہیں (جو اس کو سُنے)۔

مطلب: قدرت کے آثار بیان کرتے ہوئے دل میں جوش پیدا ہوا۔ جس سے تابِ ضبط نہ رہی۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

حالِ چاکِ سینہ کاندر خرقہ مے دارم نہاں

فاش خواہم ازیں پس چند پیچم در لباس

اس لیے چاہا کہ مزید اسرارِ الٰہیہ بیان کرتے چلے جائیں۔ مگر پھر یہ دیکھ کر کہ کوئی گوش شنوا اور کوئی قلب قابل نہیں ہے۔ خاموشی مناسب سمجھی۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

در خانقہ نگنجد اسرارِ عشق و مستی

جامِ مئے مغانہ ہم بامغاں تواں زد

جامؔی از نطقِ زبان بست چو نشناسد کس

نکتۂ طوطیِ شکر شکن از لاغ کلاغ

20

ہر کجا گوشے بُد از وے چشم گشت

ہر کجا سنگے بُد از وے یشم گشت

ترجمہ: اگر کہیں (سننے کے قابل) کان تھا۔ تو وہ اس کی بدولت (فرطِ قابلیت) سے آنکھ بن گیا۔ جہاں کہیں پتھر (کا سا سخت دل) تھا۔ وہ اس (کے فیضان سے سنگِ) یشم (کی طرح قیمتی اور نورانی) بن گیا۔

مطلب: جب طلب کا جوش اور قبول کی صلاحیت ہو تو سماع سے مشاہدہ حاصل ہو جاتا ہے۔ غرض حصولِ کمال کے لیے جوہرِ قابل کا ہونا ضروری ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

گوہرِ پاک بباید کہ شود قابلِ فیض

ورنہ ہر سنگ و گلے لُولُو و مرجاں نشود

21

کیمیا سازے ست چہ بود کیمیا

معجزہ بخشے ست چہ بود سیمیا

ترجمہ: (وہ ذاتِ حق) موجدِ کیمیا ہے کیمیا کی تو کیا حقیقت ہے۔ (وہ) معجزہ بخشنے والا ہے۔ شعبدہ و جادو کیا چیز ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کان کا آنکھ بن جانا یعنی حق الیقین سے عین الیقین حاصل ہو جانا اور پتھر کا یشم کی صورت اختیار کر لینا کیمیا کی ایک نظیر ہے جس سے قلعی کی چاندی اور تانبے کا سونا بن جاتا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کیمیا کی کیا ہستی ہے کہ خود مؤثر ہو۔ خداوند جل شانہٗ ہی نے کیمیا کو ایجاد فرمایا ہے۔ جادو کیا حقیقت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ معجزہ عطا فرماتا ہے جو جادو سے کہیں ارفع و اعلیٰ ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

سحر با معجزہ پہلو نزدِ دل خوش دار

سامری کیست کہ دست از یدِ بیضا ببرد

22

ایں ثنا گفتن ز من ترکِ ثناست

کایں دلیلِ ہستی و ہستی خطاست

ترجمہ: میرا یہ (خدا کی) حمد کرنا ترکِ حمد (کا مترادف ہے) کیونکہ یہ (اپنی) ہستی (کے احساس) کی نشانی (ہے) اور ہستی (کا احساس) خطا ہے۔

مطلب: چونکہ مادح مدح کرتے وقت اپنے آپ کو ممدوح سے الگ تصور کر کے اس کی صفات کا ذکر کرتا ہے۔ اس لیے اس سے مادح اور ممدوح کی مغایرت لازم آتی ہے۔ لہٰذا فرماتے ہیں کہ میرا مدح کرنا مُوہمِ مغایرت ہے اور ذاتِ حق سے مغایرت گناہ ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

اگر یاری از خویشتن دم مزن

کہ شرکت ست بایار و با خویشتن

عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تا تو ز خود نہ رستی و از دستِ خود نجستی

میداں کہ مے پرستی در دیر عزّٰی و لات

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تا بخود باز آئم آنگہ وصفِ دیدارش کنم

از کہ مے پرسی دریں میداں کہ سرگرداں چو گوست

23

پیش ہست او بباید نیست بود

چیست ہستی پیشِ او کور و کبود

ترجمہ: اس کی ہستی کے آگے نیست و نابود ہو جانا چاہیے۔ اس کے آگے (اپنی) ہستی کیا ہے؟ (مشاہدۂ حق سے) اندھی اور (غمِ دنیا سے) سیہ پوش ہے۔

مطلب: اپنی ہستی کا احساس ہی حجابِ مشاہدہ ہے جس نے آنکھوں کو بے بصر بنا رکھا ہے اس حجاب کو اٹھا دینا چاہیے جو عین بصیرت ہے۔ بقول میر درد ؎

حجابِ رخِ یار تھے آپ ہی ہم

کھلی آنکھ جب کوئی پردہ نہ دیکھا

عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تو آنگہ زو خبریابی کہ از خود بے خبر گردی

توانگہ روئے او بینی کہ رو از خود بگردانی

تو خود حجابِ خودی حافظ از میاں برخیز

کہ درمیانِ تو و او جز از تو حائل نیست

24

گر نبودے کور ازو بگداختے

گرمیِ خورشید را بشناختے

ترجمہ: اگر (یہ ہستی) کور نہ ہوتی تو خورشید (حق) کی تابش (جمال) کو (آنکھ سے) محسوس کر کے پگھل جاتی (جب) پگھلی نہیں تو سمجھنا چاہیے کہ اس کی آنکھیں نہیں ہیں۔

مطلب: آفتابِ حق کی تابش بشرطیکہ مشاہدہ ہو مشاہدہ کرنے والے کو فنا کر دیتی ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

جلوہ کن روئے چو خورشید کہ تا اہلِ خرد

بے سر و پا ہمہ چو ذرّۂ روزن گردند

25

ور نبودے او کبود از تعزیت

کے فسردے ہمچو یخ ایں ناحیت

ترجمہ: اگر وہ (ہستی غمِ دنیا کے) ماتم کی وجہ سے سیہ پوش نہ ہوتی تو اس جانب (دنیا میں) برف کی طرح کیوں جم جاتی۔

مطلب: طالبِ دنیا یہاں ڈھئی دیے بیٹھا ہے کائنات کے ذرّے ذرّے میں اس کا دل الجھ رہا ہے اور مالِ دنیا کے فقدان و زوال کا اندیشہ اس کے دل کو کھا رہا ہے۔ مولانا اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ ؎

بلبل کے دل میں داغِ وداعِ بہار ہے

یا رب کوئی فریفتۂ رنگ و بو نہ ہو