دفتر اول: حکایت: 25
بیانِ خسارتِ وزیر دریں خدعہ و مکر
اس مکر و فریب میں وزیر کے خسارہ اٹھانے کا بیان
1
ہمچو شہ نادان و غافل بُد وزیر
پنجہ میزد با قدیم و ناگزیر
ترجمہ: بادشاہ کی طرح وزیر (بھی) نادان و غافل تھا۔ وہ خدا سے پنجہ لڑاتا تھا جو ہمیشہ سے ہے اور جس کے بغیر چارہ نہیں۔
2
ناگزیر جملگاں حَیِّ قدیر
لَا یَزَال و لَمْ یَزَل فرد و بصیر
ترجمہ: جو سب کا محتاج الیہ ہے۔ زندہ ہے بڑی قدرت والا ہے، ہمیشہ رہے گا۔ ہمیشہ سے ہے۔ ایک اکیلا ہے اور بڑا بینا ہے، (اس سے پنجہ لڑاتا تھا)۔
3
با چناں قادر خدائے کز عدم
صد چو عالم ہست گرداند بدم
ترجمہ: (اور پنجہ کشی بھی) ایسے خدائے قادر سے جو ایسے ایسے سینکڑوں جہان دم بھر میں عدم سے موجود کر دے۔
4
صد چو عالم در نظر پیدا کند
چونکہ چشمت را بخود بینا کند
ترجمہ: جب تجھے اپنی معرفت عطا کرے تو ایسے سینکڑوں عالم تیری نظر میں پیدا کر دکھائے۔
مطلب: اہلِ معرفت کے دل پر جب عالمِ غیب سے، جس کو عالمِ امر کہتے ہیں، علوم و اسرار وارد ہوتے ہیں تو ان کے مکشوفاتِ باطنیہ کا سلسلہ اس قدر وسیع ہوتا جاتا ہے کہ اس کے اندر سینکڑوں عالم سما جائیں اور اس کے سامنے یہ عالم ظاہر ہے جس کا دوسرا نام عالمِ خلق ہے، نہایت تنگ و محدود نظر آتا ہے۔ سب مخلوقات دو قسم کی ہے ایک وہ جو مادہ اور مقدار کے ساتھ ہے اور تمام اجسام اور اجرامِ فلک اس میں داخل ہیں اس کو عالمِ خلق کہتے ہیں دوسرے وہ جو مادہ اور مقدار سے پاک ہے اور وہ ارواح مجردہ پر مشتمل ہے۔ اس کا نام عالمِ امر ہے اور روح کے علاوہ دیگر لطائف یعنی قلب و سر و خفی و اخفی بھی اس میں داخل ہیں۔ اس لیے صوفیہ کہتے ہیں کہ لطائفِ فوق العرش اور عالمِ مثال کا درجہ ان دونوں عالموں یعنی عالمِ خلق اور عالمِ امر کے درمیان ہے کیونکہ وہ عالم مقداری و غیر مادی ہے۔ غیر مادی ہونے میں عالمِ خلق سے ملتا جلتا ہے عالمِ امر چونکہ غیر مادی و غیر مقداری ہے اور محدود ہونا مادہ و مقدار کے خواص سے ہے۔ اس لیے عالمِ امر غیر محدود ہے اور اس کے سامنے عالمِ خلق محدود ہے۔
5
گر جہاں پیشت بزرگ و بے تنے ست
پیشِ قدرت ذرّۂ میداں کہ نیست
ترجمہ: اگر جہان تیرے آگے بڑا اور غیر واحد ہے تو یاد رکھ کہ (اس کی) قدرت کے آگے ایک ذرّہ بھی نہیں۔
مطلب: غلط بین دنیا کو بڑی سمجھتا ہے۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
دنیا بزرگ باشد در دیدۂ غلط ہیں
اندک بچشمِ احول بسیار مے نماید
6
ایں جہاں خود حبسِ جانہائے شماست
ہیں دوید آنسو کہ صحرائے شماست
ترجمہ: یہ جہاں تو تمہاری جانوں کا قید خانہ ہے اٹھو اس طرف دوڑو جدھر تمہارا جنگل ہے۔
مطلب: اس شعر میں اس حدیث کی طرف تلمیح ہے جو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم: اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنُ وَ سَنَتُہٗ وَ اِذَا فَارَقَ الدُّنْیَا فَارَقَ السِّجْنَ وَ السَّنَۃَ" یعنی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور قحط ہے اور جب وہ دنیا سے رخصت ہو گیا تو گویا قید اور قحط سے نجات پا گیا۔“ (مشکوٰۃ) اس جہان کی تنگی کے مقابلہ میں دوسرے جہان کو بلحاظ فراخی کے صحرا کہا ہے یا اس لحاظ سے کہ جس طرح ایک صحرائی جانور کے لیے پنجرا قید خانہ ہے اور صحرا اس کی راحت و آزادی کی جگہ ہے، اسی طرح روح کے لیے یہ جہان گویا پنجرا ہے اور وہ جہان صحرا۔ جس میں وہ بالفعل قیودِ جسمانی کی وجہ سے جا نہیں سکتی۔
غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ندارد رہ بگردوں روح تا باشد نفس در تن
رسائی نیست در پرواز مرغِ رشتہ بر پا را
؎ ہیں دوید آنسو الخ سے مراد یہ ہے کہ اس عالم کی طرف متوجہ ہو اور اس سے تعلق رکھو۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
گر اہلِ معرفتی دل در آخرت بندی
نہ در خرابۂ دنیا کہ حسرت آباد است
7
ایں جہاں محدود و آں خود بیحدست
نقش و صورت پیشِ آں معنی سدست
ترجمہ: یہ جہاں محدود ہے اور وہ (جہاں) غیر محدود ہے (مگر اس جہاں کے) نقش و نگار اس (عالمِ) معنٰی کے آگے دیوار (کی طرح حائل) ہیں (جو اس کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتے)۔
مطلب: عالمِ معنٰی کی طرف متوجہ رہنے کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ عالم فراخ و غیر محدود اور ہر حیثیت سے افضل ہے۔
؎ تنگنائے شہر صورت نیست جامؔی جائے تو
سوئے معنی رو کہ ہست آں ملک را میداں فراخ
8
صد ہزاراں نیزۂ فرعون را
در شکست آں موسیٰؑ با یک عصا
ترجمہ: (1) (وہ وزیر تو کیا چیز تھا) فرعون کے لاکھوں نیزے اس کی ایک لاٹھی والے (پیغمبر) موسیٰ علیہ السلام نے توڑ ڈالے (یعنی اس کی طاقت تباہ کر دی)۔
(2) (وہ وزیر تو کیا چیز تھا) فرعون (کے جمع کئے ہوئے جادوگروں) کے لاکھوں نیزوں کو (جن سے بزور سحر سانپ سپولئے بنائے گئے تھے) اس ایک لاٹھی والے (پیغمبر) موسیٰ علیہ السلام نے (اپنی لاٹھی کا اژدہا بنا کر) شکست دے دی۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
سحر با معجزہ پہلو نزند دل خوش دار
سامری کیست کہ دست از یدِ بیضا ببرد
9
صد ہزاراں طبّ جالینوس بود
پیشِ عیسیٰؑ و دمش افسوس بود
ترجمہ: (اور) جالینوس (جیسوں) کی لاکھوں طبابتیں تھیں (جو) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی پھونک کے آگے ایک کھیل ثابت ہوئیں۔
10
صد ہزاراں دفترِ اشعار بود
پیش حرفِ اُمیّےؐ اش عار بود
ترجمہ: (اور عربی) شاعری کے لاکھوں دفتر تھے (جن پر فخر کیا جاتا تھا مگر) اس کے ایک اُمّی (پیغمبر ﷺ) کے (سنائے ہوئے) کلام اللہ کے آگے موجبِ عار تھے۔
مطلب: سنت اللہ یہ ہے کہ جب کوئی پیغمبر لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا تو اس کے سامنے لوگوں کا سر خم کرانے کے لیے قدرتِ الٰہیہ نے اس کو معجزے کا نشان عطا کیا ہے۔ معجزہ سے مراد کوئی ایسا کام ہے جس کے مقابلے سے یا جس کی نظیر پیش کرنے سے بشری طاقت عاجز آ جائے اور انسانی هنرمندی اس کے آگے ناچیز ثابت ہو، اور ہر پیغمبر کو اس قسم کی انسانی هنرمندی کو شکست دینے کے لیے وہ معجزہ عطا کیا گیا ہے جس کا اس پیغمبر کے عہد میں عام چرچا تھا اور لوگوں کو اس سے دلچسپی تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس وقت پیغمبر بن کر آئے جب مصر میں سحر کے کرشمے عالم کو حیرت زدہ بنا رہے تھے اور اس زمانے کے فنونِ سحر کی یادگاریں آج تک مصر کے آثارِ قدیمہ میں ملتی ہیں۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام کو عصا اور یدِ بیضا کے ایسے معجزے عطا ہوئے جن کے مقابلہ سے جادوگر عاجز آ گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت مبعوث ہوئے جب یونانی طب اوجِ ترقی پر تھی۔ اس لیے ان کو دم کے ذریعے سے مرتے مرتے بیماروں میں جان ڈال دینے اور جسم پر ہاتھ پھیر کر اندھوں اور جذاموں کو تندرست کر دینے کا معجزہ بخشا گیا۔ جس کے آگے طبیب سرنگوں ہو گئے۔ پیغمبرِ آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانے میں عرب کی فصاحت و بلاغت کے چرچے انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ اس لیے آپ کو قرآن مجید کا معجزہ ملا جس نے لبید اور کعب جیسے نامی زباں آورانِ عرب کو گرویدہ بنا لیا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
لبت بہ لطف عبارت ز عالمے دل برد
نہ در عرب چونتو شیریں زبان نہ در عجم است
مولانا اوپر کے تینوں شعروں میں تین پیغمبروں کے معجزات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے معجزات کے ذریعے بڑے بڑے مدعیانِ کمال کا سر کچلا ہے۔ وہ وزیر کیا چیز تھا جو خدا سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔
11
باچناں غالب خداوندے کسے
چوں نمیرد گر نباشد او خسے
ترجمہ: اگر کوئی شخص کمینہ (و کوتہ اندیش) نہ ہو تو ایسے غالب خداوند کے آگے کیوں نہ اپنے آپ کو فنا سمجھے۔
12
بس دلے چوں کوہ را انگیخت اُو
مرغِ زیرک با دو پا آویخت او
ترجمہ: اس نے بہتیرے پہاڑ کے سے (مضبوط و قوی) دلوں کو اکھیڑ دیا ہے۔ چالاک پرندے کو دو پاؤں سے (الٹا) لٹکا دیا ہے۔
مطلب: قدرتِ خداوندی سے ڈرنا چاہیے۔ بڑے بڑے راسخ الاعتقاد لوگ جن کو اپنے دل کی مضبوطی اور یقین کی پختگی کا دعوٰی ہو بدقسمتی سے اپنے اعتقاد کے مرکز سے ہٹ جاتے ہیں۔ جیسے بلعم بن باعور اور برصیصا کا حال ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ "قُلُوْبُ بَنِیْۤ اٰدَمَ کُلَّھَا بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَّاحِدٍ یُّصَرِّفُہٗ کَیْفَ یَشَآءُ" (مشکوٰۃ) ”یعنی بنی آدم کے تمام دل اس طرح اللہ تعالیٰ کے قبضۂ اقتدار میں ہیں جس طرح ایک دل ہو وہ جدھر چاہتا ہے اس کو پھیر دیتا ہے۔“ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
مباش غرہ بعلم و عملِ فقیہِ زماں
کہ ہیچ کس ز قضائے خدائے جاں نبرد
جن لوگوں کو اپنے حسن اعمال اور قوت عملیہ پر بھروسہ ہے قدرتِ خداوندی کے آگے ان کا جو حشر ہوتا ہے پہلے مصرعہ میں اس کا بیان ہے۔ دوسرے مصرعہ میں ان فلسفیوں کی ناکامی کی طرف اشارہ ہے جو اپنی قوت کے بل پر اسرارِ الٰہیہ میں بحث کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ جس طرح طوطا نلکی کو پکڑ کر الٹا لٹک جاتا ہے یہ بے باک و بے ادب لوگ بھی اپنے قیاسِ باطل سے تمسک کر کے ضلالت میں لٹکتے رہ جاتے ہیں۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
دل باستدلال بستم ماندم از مقصود دور
نردباں کردم تصور راہِ ناہموار را
وَ لَنِعْمَ مَا قَالَ لِسَانُ الْعَصْرِ الْمَرْْحُوْمُ ؎
جلوۂ ارض و سما دکھلا کے ہے نیچر بھی چپ
لَا اِلٰہ اور قُلْ ہُوَ اللہ کہہ کے پیغمبر بھی چپ
بحث اس کی ذات میں کیوں کر رہا ہے فلسفی
ایسے ایسے چپ ہیں یہ ہوتا نہیں اس پر بھی چپ
13
فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ
جز شکستہ مے نگیرد فضلِ شاہ
ترجمہ: (پس) فہم و عقل (کے گھوڑے) دوڑانا (یا قوتِ استدلال کو ترقی دینا) حق تک پہنچنے کی راہ نہیں ہے۔ (بلکہ یہاں عجز و شکستگی کی ضرورت ہے (کیونکہ) خدا کا فضل عاجزوں کے سوا کسی کی دستگیری نہیں کرتا۔
مطلب: اس شعر میں اس حدیثِ قدسی کی طرف تلمیح ہے: "اَنَا عِنْدَ الْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ" (حلية الأولياء (4: 31) بسند موقوف) یعنی ”میں شکستہ دل لوگوں کا رفیق ہوں“۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
در کوئے ما شکستہ دلی مے خرند و بس
بازارِ خود فروشی ازاں سوئے دیگر است
مقصودِ حدیث یہ ہے کہ علم و عمل ہر چند کہ فرض ہے مگر اس پر اعتماد و غرور نہیں ہونا چاہیے بلکہ محض فضلِ الٰہی پر نظر رکھے اور اپنے عجز و قصور کا اعتراف لازم سمجھے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
تکیہ بر تقویٰ و دانش در طریقت کافری ست
راہرو گر صد ہنر دارد توکل بایدش
14
اے بسا گنج آگنانِ گنج گاؤ
کاں خیال اندیش را شد ریشِ گاؤ
ترجمہ: اے (مخاطب!) بہتیرے (لوگ) گنج گاؤ (کا سا) خزانہ بھرنے والے (یا کنج خانہ کھود کر خزانہ بھرنے والے) اس عقل دوڑانے والے (فلسفی) کے الّو بن جاتے ہیں۔
مطلب: اوپر فلسفیوں کی مذمت کی ہے اب ان کے معتقدوں کی برائی بیان کرتے ہیں کہ فلسفی لوگ چونکہ دنیوی حرص کی ترغیب دیتے ہیں اور صلحاء و انبیاء آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ اس لیے دنیا کے طالب فلسفیوں کی اتباع اختیار کرتے ہیں۔ اور ریش گاؤ یعنی احمق بن کر ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
جماعتے کہ بگریند بہرِ عیش و منال
یقیں بداں تو کہ ریشِ خویش میخندند
اس بیان میں تعریض ہے وزیرِ مکار اور نصاریٰ کے مالدار لوگوں کی طرف جو اس کے دام میں آ گئے تھے۔ نیچے کے شعروں میں مالِ دنیا کی مذمت ہے:
15
گاؤ کہ بود تا تو ریشِ او شوی
خاک کہ بود تا حشیشِ او شوی
ترجمہ: بھلا بیل بھی کوئی چیز ہے؟ کہ تو اس کی ڈاڑھی بنے۔ مٹی بھی کچھ حقیقت رکھتی ہے؟ کہ تو اس کی گھاس بنے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہمائے چونتو عالی قدر و مہر استخواں تا کے
دریع ایں سایۂ دولت کہ بر نا اہل افگندی
16
زرّ و نقرہ چیست تا مفتوں شوی
چیست صورت تا چنیں مجنوں شوی
ترجمہ: سونا چاندی کیا مال ہے؟ کہ تو اس کا دلدادہ ہو (اور عالمِ) صورت (یعنی دنیا) کی کیا حقیقت ہے؟ کہ تو اس پر اس قدر فریفتہ ہو۔
غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
روزیِ ما نیست غیر از خاک
خاک بر فرق مالداری ہا
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
بازیچہ ایست طفل فریب ایں متاع دہر
بے عقل مردماں کہ بدیں مبتلا شدند
17
ایں سرا و باغِ تو زندانِ تست
ملک و مالِ تو بلائے جانِ تست
ترجمہ: یہ تیرے محل اور باغ تیرا قید خانہ ہیں۔ تیرا ملک و مال تیرے لیے بلائے جان ہیں۔
مطلب: دوسرے مصرعہ میں اس آیت کا مضمون شامل ہے۔ ﴿اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕ وَ اللهُ عِنْدَهٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ﴾ (التغابن: 15) یعنی ”تمہارے مال اور تمہاری اولاد نرا جنجال ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا اجر ہے“۔
جوان و پیر کہ در بند مال و فرزند اند
نہ عاقلند کہ طفلان نا خردمند اند
18
آں جماعت را کہ ایزد مسخ کرد
آیتِ تصویرِ شاں را نسخ کرد
ترجمہ: اس جماعت کو (یاد کرو) جسے خدا نے (اس کی بد اعمالی کی وجہ سے) مسخ کر دیا تھا اور ان کی (اصلی) صورت کی آیت مٹا دی۔
الخلاف: ایک شرح میں دوسرے مصرعہ کا ترجمہ یوں لکھا ہے کہ ”ان کے مسخ ہونے کی صورتِ حال قرآن مجید میں لکھ دی ہے“۔ گویا اس ترجمہ میں نسخ کو بمعنی کتابت لیا ہے جو درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ لفظِ آیت کا قرینہ نسخ بمعنی ازالہ پر دال ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں آیا ہے: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ﴾ (البقرۃ: 106) منتہی الارب میں لکھا ہے: "نَسَخَ الْکِتَابَ اِذَا کَتَبَہٗ وَ نَسْخُ الْاٰیَۃَ بِالْاٰیَۃِ اِزَالَۃُ حُکْمِھَا، فَالثَّانِیَةُ نَاسِخَۃٌ وَ الْاُوْلٰی مَنْسُوْخَۃٌ"۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گو نسخ کے معنٰی کتابت کے اور ازالۂ حکم کے دونوں صحیح ہیں۔ مگر شعر میں لفظِ آیت معنٰیِ ثانی کا مرجّح موجود ہے۔ علاوہ ازیں یہ ترجمہ ایک اور لحاظ سے بھی غلط ہے، یعنی جب یہ مان لیا جائے کہ مولانا یہ فرماتے ہیں کہ مسخ کے قصے قرآن مجید میں درج ہیں اور اگلے شعر میں ان قصص میں سے ایک مثال زہرہ کے قصے کی پیش کی ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ زہرہ کا قصہ بھی قرآن مجید میں درج ہو، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ صریحاً بیان ہونا تو درکنار قرآن شریف میں اس کا اشارہ تک نہیں۔ زہرہ کے قصہ مشہورہ کے متعلق تفسیرِ مظہری میں لکھا ہے۔ "لَا دَلَالَۃَ عَلَیْھَا فِی الْقُرْاٰنِ بِشَیْءٍ" ” قرآن مجید میں اس کے متعلق کچھ بھی وارد نہیں ہوا“۔
19
چوں زنے از کارِ بد شد روئے زرد
مسخ کرد او را خدا و زہرہ کرد
ترجمہ: جیسے ایک عورت بدکاری کی وجہ سے زرد ہو گئی تو خدا نے اس کو مسخ کر دیا اور زہرہ (ستارہ) بنا دیا۔
سوال: ہر چند کہ ہاروت و ماروت اور زہرہ کا یہ قصہ بعض احادیث میں مروی ہے مگر باتفاقِ محدثین وہ احادیث شاذ و ضعیف ہیں۔ تفسیر مظہری میں لکھا ہے: "ھٰذِہِ الْاَخْبَارُ لَمْ یُرْوَ مِنْھَا شَيءٌ صَحِیْحٌ وَ لَا سَقِیْمٌ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ"۔ یعنی زہرہ کے قصہ میں کوئی بات درست و نا درست آنحضرت ﷺ سے مروی نہیں ہے۔ اس کے بعد لکھا ہے۔ "وَ ھٰذِهِ الْاَخْبَارُ مِنْ کُتُبِ الْیَھُوْدِ وَ افْتِرَائِھِمْ" یعنی یہ قصے یہود کی کتابوں میں سے ہیں اور ان کے بہتانات ہیں۔ پھر کیا وجہ کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی فرضی و جعلی روایت کو داخلِ کتاب فرمایا ہے؟
جواب: شرح بحر العلوم میں لکھا ہے کہ بے شک محققین کے نزدیک یہ قصہ غلط ہے اور اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ زہرہ ستارہ قصۂ ہاروت و ماروت کے وقوع سے پہلے موجود تھا اور امرِ واقع صرف اس قدر ہے کہ ہاروت و ماروت تعلیمِ سحر کے لیے دنیا میں آئے تھے جس سے مقصود یہ تھا کہ نیک و بد لوگوں کی آزمائش کی جاوے، اور اس قدر ذکر قرآن مجید میں ہے۔ باقی قصہ جو کتبِ تواریخ میں مذکور ہے وہ سراسر باطل و افتراء ہے۔ لیکن چونکہ وہ عوام شعراء میں مشہور اور عام لٹریچر میں داخل تھا اس کے لیے مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک غرضِ صحیح کے لیے اس قصے کو بطورِ تمثیل نہ کہ بغرضِ دلیل ذکر کیا ہے۔ جیسے کہ خطابیات میں مشہور، عام باتوں سے کام لیا جاتا ہے۔ اور اس کتاب کی عام روش ہے کہ اثباتِ مدّعا کے لیے اس میں حیوانات تک کے قصے بیان کئے گئے ہیں جو صریحًا باطل ہیں مگر ان کی غرض و غایت صحیح ہے یعنی بیانِ حقائق۔
20
عورتے را زہرہ کردن مسخ بود
خاک و گِل کشتن چہ باشد اے عنود
ترجمہ: اے سرکش (جب) ایک عورت کو زہرہ (کی شکل میں کوکبِ درخشاں) بنا دینا مسخ ٹھہرا تو (تیری طرح) مٹی گارا بن جانا (اس سے بھی بد تر نہ ہوگا تو اور) کیا ہوگا؟
مطلب: انسان کو شرم دلاتے ہیں کہ زہرہ کو بطور سزا ستارہ بنایا گیا تم اپنے ہاتھوں خود مٹی بنے جاتے ہو۔ گویا تم ایک سزا یاب مجرم کی حالت سے بدتر حالت اختیار کر رہے ہو۔ بے شک ستارہ کی حقیقت انسان کی آفرینش سے افضل نہیں ہے۔ مگر انسان کی جسمانی کدورت کے مقابلہ میں اس کی نورانیت کو وجہِ فوقیت قرار دیا گیا۔
21
روح مے پرّد سوئے عرشِ بریں
سوئے آب و گل شدی در اسفلیں
ترجمہ: (تیری) روح عرشِ بریں (قربِ حق) کی طرف پرواز کرنا چاہتی ہے (اور) تو آب و گِل کی طرف (تنزل اور بُعد عن الحق کے) گڑھے میں گرا پڑتا ہے۔
مطلب: روح اگرچہ قیدِ جسم میں مقیّد اور علائقِ جسمانیہ میں محصور نظر آتی ہے۔ مگر اس کا اصلی مقام اعلیٰ و ارفع ہے۔ بقول مولانا اسماعیل مرحوم ؎
ہے قیدِ آب و خاک سے باہر مقامِ دل
مانا خمیرِ مایۂ مرا ماء و طین ہے
اس لیے وہ ان علائق سے آزاد ہونے اور اپنی اصل کی طرف واصل ہونے کی متقاضی ہے، مگر انسان اس کو بارِ علائق کے نیچے دبائے رکھتا ہے۔ جو اس کے لیے مانعِ ترقی ہے۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
تن ساختہ پابند دریں مرحلہ جاں را
ساکن کند آمیزشِ خاک آبِ رواں را
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چو عیسیٰؑ قصدِ بالا کن بروں بر لاشہ زیں پستی
میا ایں جا کہ خر گیرند دجّالانِ یونانی
حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی جلد اول کے صفحہ 16 پر فرماتے ہیں ”کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے انسان میں دو قوتیں ودیعت کی ہیں۔ ایک قوتِ ملکیہ یعنی فرشتوں کے ساتھ مناسبت رکھنے والی طاقت اور اس کے پیدا ہونے کی صورت یہ ہے کہ روحِ حیوانی جو بدنِ انسان میں سرایت کئے ہوئے ہے، روحِ انسانی سے فیض یاب ہو، اور وہ اس کے فیض کو قبول کر لے اور اس سے مغلوب ہو جائے۔ دوسری قوتِ بہیمیہ یعنی چوپایوں سے مناسبت رکھنے والی قوت اور یہ اس نفسِ حیوانی سے پیدا ہوتی ہے جو تمام حیوانات میں مشترک ہے اور یہ قوت روحِ طبعی کے قویٰ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ ان دونوں قوتوں میں کھینچا تانی اور مزاحمت ہوتی رہتی ہے۔ قوتِ ملکی عروج چاہتی ہے اور بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔ مگر قوت بہیمی تنزل کی متقاضی ہوتی ہے اور پستی کی طرف کھینچتی ہے۔ اگر قوتِ بہیمی غالب آ جائے تو قوتِ ملکی دب جاتی ہے اور اگر قوتِ ملکی کا غلبہ ہو جائے تو بہیمی ہار کر رہ جاتی ہے“۔ انتھٰی۔
22
خویشتن را مسخ کردی زیں سُفُول
زاں وجودیکہ بُد آں رشکِ عُقُول
ترجمہ: تو نے اپنے آپ کو اس پستی کے ساتھ اس فطرتِ (انسانیہ) سے (متغیر کر کے) جو رشکِ ملائکہ تھی، مسخ کر لیا۔
مطلب: قدرت نے انسان کو اعلیٰ فطرت بخشی تھی۔ مگر اس نے اس کو تنزل کے اسفل درجے پر پہنچا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ﴾ (التین: 4-5) یعنی ”ہم نے انسان کو بہتر سے بہتر ساخت کا پیدا کیا۔ پھر ہم اس کو کمتر سے کمتر مخلوق کے درجے میں لوٹا لائے“۔ فطرتِ انسانیہ میں یہ عجیب بات ہے کہ وہ علو و سفول دونوں قسم کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔ بخلاف اس کے دوسری مخلوقات اپنی فطرت کے خاص محدود و معین درجے پر قائم رہتی ہیں۔ ترقی و تنزل ان کے اختیار میں نہیں۔ کما قیل ؎
آدمی زادہ طرفہ معجون است
از فرشتہ سرشتۂ وز حیواں
گر کند میل ایں شود کم ازیں
ور کند قصد آں شود بہ ازاں
مولانا اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ ؎
کیا کہنے آدمی کے عجب چیز ہیں جناب
برتر ملائکہ سے فرو تر دواب سے
مولانا تنبیہًا فرماتے ہیں کہ تم بلحاظِ صلاحیت کمال و حسن تقویمِ رشکِ ملائکہ تھے مگر تنزل میں پڑ کر اپنے آپ کو مسخ کر لیا۔
23
پس بتر زیں مسخ کردن چوں بود
پیشِ آں مسخ ایں بغایت دُوں بود
ترجمہ: پس اس سے بدتر مسخ کیونکر ہو سکتا ہے۔ اس مسخ (صورت) کے آگے یہ مسخِ (سیرت) نہایت گرا ہوا ہے۔
24
اسپ ہمت سوے آخر تاختی
آدمِ مسجود را نشناختی
ترجمہ: تو نے اپنی ہمت کا گھوڑا چراگاہ (لذات) کی طرف دوڑایا (یا یوں کہو کہ تو نے اپنی ہمت کا گھوڑا پیش قدمی کے بجائے پیچھے کی طرف دوڑایا) اور (اپنے باپ) آدم علیہ السلام (کی منزلت) کو نہ پہچانا جن کے آگے فرشتے سر بسجود ہو چکے ہیں۔
مطلب: تو نے اپنی منزلت کو نہ پہچانا جو ابنِ آدم ہونے کی وجہ سے تجھ کو حاصل ہے اور جس کی بدولت تو فرشتوں سے سبقت لے جا سکتا ہے۔ بقول بزرگے ؎
گر آدمی صفتی از ملک گرد ببری
کہ سجدہ گاہِ ملک خاکِ آدمی زادست
بلکہ تو نے آخورِ دنیا کی طرف جھکنا اور تنزل میں گرنا منظور کر لیا جو گری ہوئی فطرت والوں کا حصہ ہے امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
جائے خرانست آخور رنگینِ روزگار
عیسیٰؑ و شاں بر آخورِ او خر نہ بستہ اند
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مقام تو ورائے عرش از دوں ہمتی خواہی
کہ چوں دوناں دریں عالم ز بہر یکدوناں میری
25
آخر آدم زادۂ اے نا خلف
چند پنداری تو پستی را شرف
ترجمہ: اے کپوت! آخر تو آدم علیہ السلام کی اولاد ہے۔ کہاں تک (تحصیلِ دنیا) کی پستی کو بزرگی سمجھتا رہے گا۔
26
چند گوئی من بگیرم عالمے
ایں جہاں را پُر کنم از خود ہمے
ترجمہ: تو کب تک یہ دعوٰی کرے گا کہ میں سارا عالم فتح کروں گا اور اس جہان کو اپنے (خدم و حشم) سے پُر کر دوں گا۔
27
گر جہاں پُر برف گردد سر بسر
تابِ خور بگدازدش از یک نظر
ترجمہ: اگر جہان سراسر برف سے بھر جائے تو سورج کی تپش ایک ہی نظر سے اس کو پانی پانی کر دے۔
مطلب: اوپر ترکِ دنیا کی ترغیب دی تھی۔ اس سے پانچ سوال پیدا ہوتے ہیں اوّل یہ کہ طلب دنیا میں سابقہ جو گناہ صادر ہو چکے وہ مانعِ نجات ہیں۔ ان کا کیا علاج؟ دوم: تعلقات جو ہر طرف سے حاوی ہیں ان کو کیونکر منقطع کیا جائے؟ سوم: تخیلاتِ فاسدہ جو دل و دماغ میں جا گزیں ہو چکے، کیونکر زائل ہوں؟ چہارم: اخلاقِ ذمیمہ جو طبیعتِ ثانیہ بن چکے ہیں وہ کس طرح علاج پذیر ہوں گے؟ پنجم: ریاضات سے جو ضعفِ جسم اور اضمحلالِ قویٰ لازم آئے گا وہ متحملِ عبادات کیونکر ہونے دے گا؟ اب ان پانچوں سوالوں کا جواب ارشاد ہوتا ہے۔ چنانچہ پہلے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں۔ ہوسِ دولت اور طلبِ دنیا میں جو معاصی و ذنوب ہو چکے ہیں ان کے خیالات سے اپنی نجات کو نا ممکن تصور نہ کرو۔ بلکہ اس غفارِ ذنوب کی ایک نگاہِ کرم گناہوں کے دفتر دھو ڈالتی ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
ز بہرِ شستنِ لوحِ ہمہ ستمگاراں
ز عینِ عفوِ تو یک قطرہ نیز بسیارست
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
سروش عالم غیبم بشارتے خوش داد
کہ بر درِ کرمش کس دژم نخواہد ماند
گناہوں کے عظیم بار کو انبارِ برف سے تشبیہ دی ہے اور ان کے معاف ہونے کی تمثیل برف کے پگھلنے سے کی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شعر کا تعلق شعرِ سابق سے ہو۔ پھر یوں مطلب ہو گا کہ تو کب تک ہفت اقلیم کو اپنے اقتدار سے پُر کرنا چاہتا ہے اگر ایسا بھی ہو جائے تو خدا کی نگاہِ جلال کے سامنے تیرا اقتدار ایک انبارِ برف سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا جو چند لمحہ میں پانی پانی ہو کر بہہ جاتا ہے۔
28
وِزرِ اُو و وِزرِ چوں اُو صد ہزار
نیست گرداند خدا از یک شرار
ترجمہ: خداوند تعالیٰ (اگر چاہے تو) اس (وزیر) کے بار (علائق) کو اور اس جیسے لاکھوں کے بارِ (علایق) کو (اپنے عشق کی) ایک چنگاری سے نیست و نابود کر دے۔
مطلب: اس شعر میں دوسرے سوال کا جواب ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ علائقِ دنیا کو بھی ترکِ دنیا سے مانع سمجھو۔ کیونکہ ان کا علاج عشق ہے۔ جو علائق کے انبار کے لیے وہ تاثیر رکھتا ہے جو خرمن کے لیے ایک شرارہ۔ آتشِ عشق کی بدولت نہ صرف دیگر علائق سے بلکہ خود اپنی ذات کے تعلق سے بھی آزادی مل سکتی ہے۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مشو در بند خود برخیز و در دفتراکِ عشق آمیز
مگر خود راز دستِ خود طفیلِ عشق برہانی
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وِزر سے مراد بارِ گناہ ہو اور شعر سابق شعر کا ہم مضمون ہو۔ یعنی خدا تعالیٰ کی بخشش سے نا امید نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب اس کی رحمت جوش میں آتی ہے تو وزیر جیسے لاکھوں شقی بھی اس کی مغفرت سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
وگر در دید یک صلائے کرم
عزازیل گوید نصیبے برم
29
عینِ آں تخییل را حکمت کند
عینِ آں زہراب را شربت کند
ترجمہ: وہ (چاہے تو) انہی خیالات (باطلہ) کو حکمت بنا دے (اور) انہی (اخلاقِ رذیلہ کے) زہر آب کو (محاسنِ اخلاق کا) شربت بنا دے۔
مطلب: اس شعر میں باقی دونوں سوالوں کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو تخیلاتِ باطلہ اور علوم ضارّہ بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ؎
پختہ دل مندر میں یا گرجا میں جائے کیا خطر
کچا مٹکا تو نہیں جس پر کرے پانی اثر
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
گرچہ ہر جا دلم آویزش و آمیزش کرد
قبلۂ عشق ہماں دست کہ بود از اول
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
ز آمیزشِ کجاں نشود طبعِ راست کج
از اتصالِ حرف الف کج نمے شود
بلکہ وہی علومِ ضارّہ کئی وجود سے مفید ہو جاتے ہیں۔ یعنی اوّل ان علوم کو پڑھنے والے شرور سے واقف ہو کر محتاط ہو سکتے ہیں۔ دوم ان کی قوتِ استدلال بڑھ جاتی ہے۔ سوم وہ علومِ باطلہ کا علومِ حقّہ سے موازنہ کر کے ان کا بطلان معلوم کر سکتے ہیں۔ چہارم ان کی تردید پر قادر ہو سکتے ہیں، وغیرہ۔ غرض اگر اعتبار و استبصار کا مادہ ہو تو مضر باتوں سے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
؎ گرویدۂ عبرت سے ہر اک بات کو دیکھو
ایذائے عدو رحمتِ استاد نظر آئے
پھر فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اخلاقِ ذمیمہ کو بھی اخلاقِ حمیدہ بنا دے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
گناہ آمرزِ زندانِ قدح خوار
بطاعت گیر پیرانِ ریاکار
اخلاقِ ذمیمہ کے اخلاقِ حمیدہ میں تبدیل ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ نفسِ انسانی میں تین طاقتیں موجود ہیں۔ ایک قوتِ ناطقہ، دوسری قوتِ غضبیہ، تیسری قوتِ شہویہ، اور ان تینوں طاقتوں میں صدورِ فعل کے خاص خاص ملکات موجود ہیں۔ اگر یہ طاقتیں اعتدال پر ہوں تو ان کے ملکات بھی معتدل اور محمود ہوتے ہیں اور ان کا نام اخلاقِ فاضلہ یا اخلاقِ حمیدہ ہے، اور اگر یہ قوتیں معتدل نہ ہوں بلکہ ان کا میلان افراط یا تفریط کی طرف ہو تو ان کے ملکات بھی درجۂ اعتدال سے بعید اور افراط یا تفریط کی طرف مائل ہوتے ہیں، اس لیے اخلاقِ رذیلہ یا ذمیمہ کہلاتے ہیں۔ مثلًا قوتِ غضبیہ اعتدال پر ہو تو اس کے بہت سے ملکات میں سے ایک ملکۂ حمیت ہے۔ جو اخلاقِ فاضلہ میں سے ہے۔ لیکن اگر وہ قوت اعتدال پر نہ ہو تو افراط کی صورت میں وہی ملکہ غضب کی صورت رکھتا ہے اور تفریط کی حالت میں وہ بے غیرتی ہے اور یہ دونوں اخلاقِ ذمیمہ میں داخل ہیں۔ اخلاقِ ذمیمہ کا علاج یہ ہے کہ مجاہدات و ریاضات کے ذریعہ سے مذکورہ قوتوں کو اعتدال پر لایا جائے تاکہ ان کے ملکات بھی معتدل ہو جائیں پھر وہی ملکہ جو زیادتی کی صورت میں درندے کی سی خونخواری اور کمی کی حالت میں بے غیرتی اور بے حمیتی سے موسوم تھا معتدل ہو کر حمیت و غیرت بن جاتا ہے۔ گویا تبدیلِ ملکات یا اصلاحِ اخلاق کا خاص ذریعہ ریاضات و مجاہدات ہیں۔ جو شیخِ کامل کی ہدایت کے ما تحت یا کتبِ اخلاق و تصوف کی تعلیم کے موافق کئے جاتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ وہ قادرِ مطلق جل شانہ اگر چاہے تو ریاضت و مجاہدہ کے بغیر اخلاقِ رذیلہ کو اخلاقِ حمیدہ بنا دے۔
30
در خرابی گنج ہا پنہاں کند
خار را گل جسمہا را جاں کند
ترجمہ: وہ (قادرِ مطلق) ویرانہ میں خزانے محفوظ رکھتا ہے، کانٹے کو پھول اور جسم (کثیف) کو (بمنزلہ) روح لطیف بنا دیتا ہے۔
مطلب: یہ شعر جواب ہے پانچویں سوال کا۔ یعنی یہ خوف نہ کرو کہ ریاضت سے جسم میں ضعف اور قوتوں میں اضمحلال پیدا ہو جائے گا جو مانعِ اعمال ہو گا۔ فرماتے ہیں کہ جس طرح وہ قادرِ مطلق گراں بہا خزانے ویرانوں میں مدفون رکھتا ہے۔ اسی طرح دولتِ کمال کو بھی ویران جسم اور تباہ حال بدن میں محفوظ بلکہ ترقی پذیر رکھتا ہے۔ مولانا اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ ؎
کرو دل کے ویرانے کی گنج کاوی
دبے اس کھنڈر میں خزانے بہت ہیں
نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مرا در غبار چنیں تیرہ خاک
تو دادیِ دلِ روشن و جانِ پاک
گر آلودہ گردیم اندیشہ نیست
کہ جز گردِ رہ خاک را پیشہ نیست
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
خانہ آباداں دروں باید نہ بیروں پُر نگار
مردِ عارف اندروں را گو بروں ویرانہ باش
پھر فرماتے ہیں کہ ریاضات بے شک جسم کے لیے تباہ کن ہیں۔ مگر اس کی قدرت سے یہی خار مرتاض کے لیے پھول بن جاتے ہیں۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
یا رب ایں کعبہ مقصودِ تماشا گہِ کیست
کہ مغیلانِ طریقش گل و نسرینِ من ست
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نہ تلخ ست صبرے کہ در یادِ اوست
کہ تلخی شکر باشد از دستِ دوست
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مبین بچشمِ ترحم بحالم اے خواجہ
کہ رنج و محنتِ عشاق راحت آمیزست
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ریاضت کی تکالیف برداشت کر لو گے تو بفضلِ خدا تمہارا جسمِ مضمحل و بدنِ منکسر باوجود اپنی ظاہری بد نمائی کے باطنی نزاہت و نفاست کی بدولت بمنزلۂ روح ہو جائے گا۔
خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہے مظہر انوارِ صفا میری کدورت
ہر چند کہ آہن ہوں پر آئینہ زدا ہوں
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چہ غمِ ز منقصتِ صورت اہلِ معنی را
چو جاں زردم بود گو تن از حبش مے باش
31
آں گماں انگیز را سازد یقیں
مہرہا رویاند از اسبابِ کیں
ترجمہ: (وہ) اس گمان پیدا کرنے والی (بات) کو یقین بنا دیتا ہے (اور) کینے کے بواعث سے محبتیں پیدا کر دیتا ہے۔
مطلب: اس شعر میں "خار را گل و جسم ہارا جان کردن" کی تاکید میں عجائباتِ قدرت کے دیگر نظائر بیان کیے ہیں کہ وہ قادرِ مطلق قوتِ قیاسیہ کو، جو شبہات ضلالت خیز اور وساوسِ جہالت آمیز کی سر چشمہ ہے، علومِ یقینیہ و حقیقیہ کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اور جن امور سے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے بغض و عداوت پیدا ہوتی ہے، مثلًا اموالِ دنیا جب کہ ظلمًا و غصبًا ان کے حصول کی کوشش کی جائے، وہ ان کو وسیلۂ محبت بنا دیتا ہے۔ جیسے کہ احسان و مروت کے طور پر بذل مال کرنے سے ہوتا ہے۔
32
پَرْوَرَد در آتش ابراہیمؑ را
ایمنِّی روح سازد بیم را
ترجمہ: وہ آگ میں ابراہیم علیہ السلام کی پرورش کرتا ہے (اور موجب) خوف (یعنی آگ) کو روح کے لیے (باعث) امن بنا دیتا ہے۔
33
از سبب سازیش من سودائیم
وز سبب سوزین سُوفسطائیم
ترجمہ: اس کی علت آفرینی سے میں دیوانہ ہوں اور اس کے ابطالِ سبب سے میں (ایک) سُوفسطائی (کی طرح حیران) ہوں۔
مطلب: فرماتے ہیں کہ ایک طرف تو میں عالمِ کائنات کو علل و اسباب کے سلسلے سے مربوط و مسلسل دیکھ کر حیران ہوں۔ دوسری طرف جب اس کی قدرت سے ایسے امور وقوع پاتے ہیں جن میں سلسلۂ علل و اسباب کی کوئی پابندی نظر نہیں آتی۔ جیسے خلقِ حضرت آدم علیہ السلام، آگ میں سلامتیِ حضرت ابراہیم علیہ السلام، آفرینشِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، ناقۂ حضرت صالح علیہ السلام، عصائے حضرت موسیٰ علیہ السلام، وغیرہ۔ تو میں سوفسطائیہ کی طرح یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ سلسلۂ علل محض وہم و خیال ہے۔ درحقیقت خدا کے حکم اور قدرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چو بزم افروزِ صنع خویش گردد قدرت بیچوں
چراغِ برق را در باد و براں مے کند روشن
34
در سبب سازیش سرگرداں شدم
در سبب سوزیش ہم حیران شدم
ترجمہ: (جس طرح) اس کی سبب سازی سے میں سرگرداں ہوں (اسی طرح) اس کی سبب سوزی سے بھی حیران ہوں۔
مطلب: یہ شعر تاکید ہے شعر سابق کے مضمون کی۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علت و معلول میں جو حیرتناک ترتّب قائم کیا ہے اس کے گہرے اسرار کے متعلق تو مجھے حیرانی تھی ہی، دوسری طرف جب وہ کوئی کام بلا علت کر دکھاتا ہے تو اس سے ایک اور ہی حیرت ہوتی ہے۔
سوال: سوفسطائیہ فلاسفہ کا ایک گمراہ فرقہ ہے۔ جو حقائقِ اشیاء کا منکر ہے اور حقیقتِ اشیاء کا انکار ضلالت و جہالت ہے۔ پھر مولانا نے سوفسطائیم کیوں کہا؟ یعنی اپنے لیے یہ لقب کیوں استعمال کیا؟
جواب: سوفسطائیہ تمام حقائقِ اشیاء کو باطل اور محض وہم و خیال قرار دیتے ہیں اور یہی وہ خیال ہے جو دینِ حق کے نزدیک ضلالت ہے۔ قرآن مجید میں وارد ہے: ﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (المومنون: 115) ”کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو فضول و بے فائدہ پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے“۔ مگر مولانا کے قول سُوفسطائیم میں یہ عقیدہ مراد نہیں بلکہ ان کی حیرت سے تشبیہ مقصود ہے یعنی میں جب علت کو معلول پر مؤثر نہیں پاتا تو سلسلۂ علل کے متعلق مجھے بھی وہی حیرت دامن گیر ہوتی ہے جو سوفسطائیہ کو ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ سوفسطائیہ تو تمام اشیاء کی حقیقت کے متعلق حیران ہیں اور مولانا صرف تاثیرِ علت کے متعلق اظہارِ حیرت کرتے ہیں اور تشبیہِ نفس حیرت میں ہے نہ کہ عقیدے میں۔ اسی لیے بعض نسخوں میں یہ مصرعہ بحرفِ تشبیہ یوں آیا ہے۔
ع۔ وز خیالاتش چو سُوفسطائیم
سوال: بعض صوفیہ کے کلام سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عالم محض وہم و خیال ہے۔
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
در حقیقت ہستیِ عالم خیالے بیشِ نیست
ویں خیالے چند ما را در گماں انداختہ
میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
مت جا تر و تازگی پہ اس کی
عالم تو خیال کا چمن ہے
اس خیال میں اور سوفسطائیہ کے عقیدہ باطل میں کیا فرق ہے؟
جواب: صوفیہ کے کلام میں جو عالم کو وہم خیال کہا گیا ہے۔ اس میں عالم کے ثبوت و تحقق کی نفی نہیں۔ ورنہ یہ عقیدہ معاذ اللہ عین سوفسطائیہ کے عقیدے کے موافق ہو جاتا۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ عالم کا وجود بالاستقلال کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ حقیقی اور کامل جود صرف اللہ کا ہے اور غیر اللہ کا وجود ظاہری اور ناقص ہے اور اس کے وجود کے تابع ہے۔ وَ اِنَّمَا فَسَّرَ ہٰذَا الْمَعْنٰی لِسَانُ الْعَصْرِ المَرْحُوْمُ بِقَوْلِہٖ ؎
ہستیِ حق کے معانی جو مرا دل سمجھا
اپنی ہستی کو اک اندیشۂ باطل سمجھا
نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ندارم روا با تو از خویشتن
کہ گویم توئی باز گویم کہ من
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مرا با وجودِ تو ہستی نماند
بیادِ تو ام خود پرستی نماند
علاوہ ازیں اہلِ سلوک جمالِ لَمْ یَزَلْ کے مشاہدہ میں اس قدر محو و مشغول رہتے ہیں کہ ان کی نظر میں باقی تمام موجودات کالعدم ہو جاتی ہیں، اگرچہ وہ حقیقتًا معدوم نہیں ہوتیں۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بحقش کہ تا حقِ جمالم نمود
دگر ہرچہ دیدم خیالم نمود