دفتر 1 حکایت 26: وزیر کا (ایک) اور مکر کرنا اور خلوت میں بیٹھنا اور قوم (نصارٰی) میں شور ڈال دینا

دفتر اول: حکایت: 26

مکر کردنِ وزیر، و در خلوت نشستن،و شور افگندن در قوم

وزیر کا (ایک) اور مکر کرنا اور خلوت میں بیٹھنا اور قوم (نصارٰی) میں شور ڈال دینا

1

چوں وزیر ماکرِ بد اعتقاد

دینِ عیسیٰؑ را بدل کرد از فساد

ترجمہ: جب مکار و بد اعتقاد وزیر نے فساد (ڈالنے) کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کی کایا پلٹ کر دی۔ (تو:)

2

مکرِ دیگر آں وزیر از خود بہ بست

وعظ را بگذاشت در خلوت نشست

ترجمہ: تو ایک اور فریب اس نے اپنے دل سے گھڑا (یعنی) وعظ کو چھوڑ کر خلوت نشین ہو گیا۔

3

در مریداں درفگند از شوقِ سوز

بُود در خلوت چہل پنجاہ روز

ترجمہ: مریدوں میں (اپنے) شوق (دیدار) کی آگ لگا دی۔ چالیس پچاس روز تک خلوت میں رہا۔

4

خلق دیوانہ شدند از شوقِ اُو

از فراقِ حال و قال و ذوقِ اُو

ترجمہ: اس کے شوق (دیدار) سے اور اس کے حال و قال و ذوق کی جدائی سے مخلوق دیوانی ہو گئی۔

5

لابہ و زاری ہمے کردند و او

از ریاضت گشتہ در خلوت دوتَو

ترجمہ: لوگ خوشامد و زاری کرتے تھے اور وہ خلوت میں ریاضت سے کبڑا ہو گیا تھا۔

6

گفتا ایشاں بے تو مارا نیست نور

بے عصا کش چوں بود احوالِ کور

ترجمہ: انہوں نے کہا آپ کے بغیر ہم کو نورِ (ہدایت) نہیں (ملتا)، لاٹھی کھینچنے والے کے بغیر اندھے کا کیا حال ہو۔

7

از سرِ اکرام و از بہرِ خدا

بیش ازیں از خود مکن ما را جدا

ترجمہ: مہربانی فرما کر اور خدا کے لیے آئندہ ہم کو اپنی خدمت سے جدا نہ کیجئے۔

8

ما چو طفلانیم و ما را دایہ تُو

بر سرِ ما گستراں آں سایہ تُو

ترجمہ: ہم گویا بچے ہیں اور آپ ہماری دایہ ہیں۔ (پس دایہ مشفقہ کا سا) وہ (اپنا) سایہ ہم پر ڈال۔

نکتہ: اس میں یہ اشارہ ہے کہ مرید کو حتّٰی المقدور تکمیلِ باطن کے لیے مرشد کی خدمت سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح بچے کا ایامِ رضاعت تک دایہ کے زیرِ پرورش رہنا ضروری ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بہ تنہا نداند شدن طفلِ خرد

کہ مشکل بود راہ نادیدہ برد

تو ہم طفلِ راہی بسعی اے فقیر

برو دامنِ نیک مرداں بگیر

9

گفت جانم از محباں دور نیست

لیک بیروں آمدن دستور نیست

ترجمہ: (وزیر) بولا میری جان دوستوں سے دور نہیں۔ لیکن باہر نکلنے کی (خدا کی طرف سے) اجازت نہیں ہے۔

نکتہ: اس میں یہ اشارہ ہے کہ مرید اگر تربیت و تعلیم پا چکا ہو تو اس کو قربِ جسمانی کی ضرورت نہیں۔ معیتِ روحانی کافی ہے بشرطیکہ اس کو مرشد سے محبتِ کامل ہو اور حدیث "اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ" (صحیح بخاری) اس کی مؤیِّد ہے۔

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

بہ تن مقصرم از دولت ملازمتت

ولے خلاصۂ جان خاکِ آستانۂ تست

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

گر جمالِ دوست نبود با خیالش ہم خوشم

خانۂ درویش را شمعے بہ از مہتاب نیست

10

آں امیراں در شفاعت آمدند

واں مریداں در ضراعت آمدند

ترجمہ: (آخر) وہ (بارہ) امیر سفارش کے لیے آئے اور وہ (سارے) مرید منت سماجت کرنے لگے۔ (اور یہ عرض کیا:)

11

کاینچہ بدبختی ست ما را اے کریم

از دل و دیں ماندہ ما بے تو یتیم

ترجمہ: کہ اے بزرگ! یہ ہماری کیا بد نصیبی ہے (کہ) آپ کے بغیر ہم (راحتِ) دل سے اور (ہدایتِ) دین سے بے بہرہ رہ گئے۔

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

گماں مبر کہ یکے چوں فراقِ دوست بود

اگر ہزار جفا آید از سپہرِ کبود

12

تو بہانہ مے کنی و ما ز درد

میزنیم از سوزِ دل دمہائے سرد

ترجمہ: آپ تو (باہر نکلنے سے) بہانہ کرتے ہیں اور ہم درد (فراق) کے مارے دل کی جلن سے ٹھنڈی آہیں بھر رہے ہیں۔

حضرت لسان العصر مرحوم ؎

میری جو پوچھتے ہو تو دیتا ہوں ان پہ جان

ان کا یہ حال ہے کہ ادھر دیکھتے نہیں

13

ما بگفتارِ خُوشت خو کردہ ایم

ما ز شِیرِ حکمتِ تو خوردہ ایم

ترجمہ: ہم آپ کی میٹھی باتوں سے خوگر ہو چکے ہیں۔ ہم آپ کے شیرِ حکمت سے (کچھ) نوش کر چکے ہیں۔

14

اللہ اللہ ایں جفا با ما مکن

لطف کن امروز را فردا مکن

ترجمہ: لِلہ! ہم پر یہ جور و جفا نہ کیجئے۔ مہربانی فرما کر آج کو کل پر نہ ٹالیے۔

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

از وعدہ در گذر کہ شکیبائیم نماند

وز عشوہ برشکن کہ گہِ انتظار نیست

15

مے دہد دل مر ترا کیں بیدلاں

بے تو گردند آخر از بے حاصلاں

ترجمہ: کیا (یہی بات) آپ کو (اس ٹال مٹول پر) آمادہ کر رہی ہے کہ یہ بے دل آپ کی جدائی میں محروموں میں شامل ہو جائیں؟

16

جملہ در خشکی چُو ماہی مے طپند

آب را بکشا ز جُو بردار بند

ترجمہ: سب کے سب یوں تڑپ رہے ہیں جس طرح خشکی میں مچھلی۔ (خدا کے لیے) نہر سے بند اٹھا دو (اور) پانی کھول دو۔

جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

سمومِ ہجر عالم سوز و ابرِ لطفِ او بے نم

دریغا کشتِ ماشد خشک و باراں دیر مے آید

17

ایکہ چوں تو در زمانہ نیست کس

اللہ اللہ خلق را فریاد رس

ترجمہ: اے وہ کہ آپ کے برابر زمانے بھر میں کوئی نہیں۔ خدا کے لیے خلقت کی فریاد سن لیجئے۔

مطلب: پہلے مصرعہ میں بتقاضائے کمالِ محبت و محویت اپنے مرشد کو سب سے برتر تسلیم کیا ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

چابک تر از تو در ہمہ گیتی سوار نیست

زیبا تر از تو در ہمہ عالم نگار نیست

نکتہ: اس میں یہ اشارہ ہے کہ اپنے شیخ کو سب سے افضل سمجھنا چاہیے جو آدابِ ارادت میں داخل ہے اور قلب کی طمانیت اور توجہِ تام کے لیے لازم ہے۔ مگر اس کے معنٰی یہ ہونے چاہییں کہ موجودہ زمانہ کے جس قدر بزرگوں سے میرے لیے استفاضہ ممکن ہے ان میں سے سب سے زیادہ فیض میں اپنے مرشد ہی سے پا سکتا ہوں۔ اس تفسیر سے وہ اعتراضات وارد نہیں ہوتے جو اپنے مرشد کی مطلق تفصیل سے وارد ہوتے ہیں۔ یعنی ایک تو جمہور اولیاء اللہ کی تخصیص جن میں اوّلین و سابقین بھی شامل ہیں۔ دوسرے موجودہ زمانہ کے بزرگوں میں سے کیا معلوم اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون افضل ہے۔