دفتر اول: حکایت: 27
دفع کردنِ مریداں و اتباعِ خود را
وزیر کا اپنے مریدوں اور پیروکاروں کو دُور کرنا
1
گفت ہاں اے سُخرگانِ گفتگو
وعظ و گفتارِ زبان و گوش جو
ترجمہ: (وزیر نے) کہا خبردار! اے (ظاہری) گفتگو کے پابندو! (اور اس) وعظ و کلام کے متلاشیو! جو زبان (سے کہنے) اور کان (سے سننے) کا ہے۔
2
پنبہ اندر گوشِ حِسِّ دُوں کنید
بندِ حِسّ از چشم خود بیروں کنید
ترجمہ: اس ناچیز (ظاہری) حِسّ کے کان میں روئی دے لو۔ اپنی (باطنی) آنکھ سے (ظاہری) حِسّ کی رکاوٹ دُور کر دو۔
غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
حرفِ دنیا گوش کردن کارِ اہلِ ہوش نیست
مغزِ سرفرزانہ را جز پنبہ ہائے گوش نیست
اکبر الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ ؎
شیطان کے واعظ سے پنبہ در گوش رہو
غالب ہے اس کی بات خاموش رہو
3
پنبۂ آں گوش سرِ گوشِ سرست
تا نگردد ایں کر آں باطن کر ست
ترجمہ: اس باطنی کان کی روئی (یہی ظاہری) گوشِ سر ہے۔ جب تک یہ بہرہ نہ ہو باطن (کا کان) بہرہ ہے۔
مطلب: یہاں سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مقولہ شروع ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب تک محسوساتِ ظاہریہ میں انہماک رہے گا تب تک مدرکات باطنیہ کی طرف توجہ نا ممکن ہے۔ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
خلوتِ دل میں کر دیا اپنے حواس نے خلل
حسن بلائے چشم ہے نغمہ وبالِ گوش ہے
4
بے حس و بے گوش و بے فکرت شوید
تا خطابِ اِرْجِعِی را بشنوید
ترجمہ: بے حسّ اور بے گوش اور بے فکر ہو جاؤ تاکہ "اِرْجِعِی" کے خطاب کو (اپنے کانوں سے) سن لو۔
مطلب: یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف ﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ﴾ (الفجر: 27-28) ”یعنی اے جانِ مطمئن! اپنے پروردگار کی طرف خود خوش ہوتی اور اس کو خوش کرتی چلی جا) مراد یہ ہے کہ اگر حواسِ ظاہری کے شغل کو بند یا کم کر دو اور محسوساتِ ظاہریہ میں انہماک نہ رکھو تو اپنے گوشِ باطن سے پروردگار کے بلانے کی آواز سن لو۔
5
تا بگفت و گوئے بیداری دری
تو ز گفتِ خواب کے بوئے بری
ترجمہ: جب تک تم بیداری کی گفتگو میں (مشغول) ہو۔ خواب کی بات چیت سے کب آگاہی پا سکتے ہو۔
غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
جائے بینائی سوادِ دیدہ باشد نے بیاض
ہیچ کس در روز فیضِ شب نمے بیند بخواب
6
سیرِ بیرونی ست فعل و قولِ ما
سیرِ باطن ہست بالائے سما
ترجمہ: ہمارا قول و فعل ظاہری سیر ہے۔ باطنی سیر (کا قبلۂ توجہ) بالائے فلک ہے۔
مطلب: ہم ظاہری اور حسّی حالات کی منازل طے کرنے کے لیے اعضاء و جوارح سے کام لیتے ہیں، جن کا میدانِ عمل یہ دنیا ہے۔ لیکن جس سیر و سفر کا کعبہ مقصودِ ذاتِ حق ہے، وہ ماورائے دنیا ہے اور اس کا تعلق ہمارے باطن سے ہے۔ مولانا اسمٰعیل مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎
چل شاہراہِ دل میں اڑا توسنِ طلب
وحشت کا جوش چاہیے صحرا بھی گھر میں ہے
7
حسِّ خشکی دید کز خشکی بزاد
موسےِ جاں پائے در دریا نہاد
ترجمہ: (ظاہری) حسّ نے خشکی (ہی خشکی) دیکھی ہے۔ کیونکہ وہ خشکی سے پیدا ہوئی ہے (مگر) موسائے جان نے پیدا ہوتے ہی دریائے (معرفت) میں پاؤں رکھا۔
مطلب: حواسِ ظاہر چونکہ اعضائے جسمانی کی قوتیں ہیں جو عناصر سے بنے ہیں۔ اس لیے وہ دنیا ہی کی سیر کر سکتے ہیں اور روح چونکہ عالمِ امر سے ہے۔ اس لیے وہ باطن کی سیر کرتی ہے۔ عالمِ دنیا کو خشکی سے اور باطن کو دریا سے تشبیہ دی ہے اور جانِ موسیٰ علیہ السلام کے استعارہ میں یہ مناسبت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہی دریا میں بہا دیے گئے تھے۔ فرماتے ہیں کہ حواس کی حسّی سیر محدود اور موجبِ غفلت ہے اور روح کی باطنی سیر جس کا مقام عالمِ امر ہے۔ مایۂ بصیرت اور غیر محدود ہے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
راہِ تو چہ راہے ست کہ از غایتِ تعظیم
دریائے محیط فلکش ہمچو حباب ست
8
سیرِ جسم خشک بر خشکی فتاد
سیرِ جاں پا در دلِ دریا نہاد
ترجمہ: جسمِ خشک (عنصری) کی سیر (عالمِ ظاہری کی) خشکی پر واقع ہوئی ہے (اور) روح کی سیر نے دریائے (باطن) کے وسط میں پاؤں رکھا ہے۔
مطلب: یعنی اس میں یہ صلاحیت ہے کہ دریائے باطن میں پاؤں رکھے۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چوں غرق شد عراقؔی یابد حیاتِ باقی
اسرارِ غیب بیند در عالمِ شہادت
مگر پھر بھی جو روح دریائے باطن سے غیر مانوس ہے تو اس کے حرمان کی وجہ نیچے بیان فرماتے ہیں:
9
چونکہ عمر اندر رہِ خشکی گذشت
گاہ کوہ و گاہ صحرا گاہ دشت
ترجمہ: چونکہ عمر (لذّاتِ دنیا کی) خشکی سے راستے میں کٹی۔ کبھی پہاڑ کبھی جنگل اور کبھی بیابان میں (بھٹکتے پھرتے رہے۔)
10
آبِ حیواں را کجا خواہی تو یافت
موجِ دریا را کجا خواہی شگافت
ترجمہ: (پھر) تو (سیرِ باطن کا) آبِ حیات کہاں پائے (اور) دریائے (باطن) کی موج کو کہاں چیرے۔
11
موجِ خاکی فہم و وہم و فکرِ ماست
موجِ آبی محو و سُکرست و فناست
ترجمہ: خاکی موج ہمارا فہم و وہم اور فکر ہے (جو دنیوی امور کے آلاتِ احساس ہیں) آبی موج، محو اور (معرفت) کا نشہ اور فنا ہے۔
12
تا دریں فکری ازاں سُکری تو دُور
تا دریں مستی ازاں جامی نفور
ترجمہ: جب تک تو اس فکر (حسّی) میں (غرق) ہے۔ اس نشہ (باطن) سے دور ہے۔ جب تک تو اس (حالت) سے مست ہے۔ اس جام (معرفت) سے گریزاں ہے۔
13
گفتگوئے ظاہر آمد چوں غبار
مدّتے خاموش کن ہیں ہوشدار
ترجمہ: ظاہری گفتگو غبار کی طرح حجابِ قلب ہوتی ہے۔ خبردار! کچھ مدّت خاموش رہو اور ہوش رکھو۔
مطلب: یہ شعر اس حدیث کے مضمون پر مشتمل ہے۔ "عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تُکْثِرِ الْکَلَامَ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللہِ، فَاِنَّ کَثْرَۃَ الْکَلَامِ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللہِ قَسْوَۃٌ لِلْقَلْبِ، وَ اِنَّ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللہِ تَعَالٰی الْقَلْبُ الْقَاسِیُّ" (ترمذی) ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ "اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر زیادہ گفتگو نہ کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر زیادہ بولنا دل کی سختی کا موجب ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہے"۔انتہٰی۔
غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مے پذیرد ز خموشی دل بے نورِ صفا
نفس سوختہ خاکسترِ ایں آئینہ است
اکبر الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ ؎
خموشی میں جمالِ شاہدِ معنٰی نظر آیا
عبث اُلجھے رہے لفظوں میں ہم محوِ بیاں ہو کر
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
دہانِ بیہدہ گویاں بداں جرس ماند
کہ در گلوے ستوراں بنالۂ زار است