دفتر اول: حکایت: 28
مکرّر کردنِ مریداں کہ خلوت را بشکن
مریدوں کا پھر عرض کرنا کہ خلوت سے نکلئے
1
جملہ گفتند اے حکیمِ رخنہ جُو
ایں فریب و ایں جفا با ما مگو
ترجمہ: سب نے عرض کیا اے دانا! (بوجہِ استغناء ہماری حالت کا) خلل گوارا کرنے والے یہ ٹال مٹول اور یہ جفا (کی باتیں) ہم سے نہ کہیے۔
2
ما اسیرانیم تا کے ایں فریب
بیدل و جانیم تا کے ایں عتیب
ترجمہ: ہم اسیر (شوق) ہیں کب تک ہم کو ٹالنے کے لیے یہ دھوکا (دوگے)؟ ہم بے دل و بے جان ہیں۔ کب تک یہ عتاب کرو گے؟
رفعِ اشتباہ: مریدوں کا وزیر کو "رخنہ جُو" کہنا اور فریب و جفا کا الزام دینا تحقیر و توبیخ نہیں ہے، بلکہ ایک شکوٰی عتاب آمیز ہے جو غلبۂ عشق کے خاص لوازم سے ہے۔ ؎
بے محبت نہیں اے ذوق شکایت کے مزے
بے شکایت نہیں اے ذوق محبت کے مزے
وَ لَنِعْمَ مَا قِیْلَ ؎
عَلَامَۃُ مَا بَیْنَ الْمُحِبَّیْنِ فِی الْھَوٰی
عِتَابُھُمَا فِیْ کُلِّ حَقٍّ وَ بَاطِلٍ
یعنی "دو شخصوں میں عاشقانہ محبت ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ ہر سچی جھوٹی بات پر باہم گلہ و شکوہ کرتے رہتے ہیں"۔
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
زجرے کز کمالِ عشق خیزد
کجا معشوق با عاشق ستیزد
3
چوں پذیرفتی تو ما را از ابتدا
مرحمت کن ہمچنیں تا انتہا
ترجمہ: جب آپ نے ابتدا سے ہم کو (اپنی خدمت کے لیے) قبول کیا ہے تو آخر تک اسی طرح (نظرِ) عنایت رکھیے۔
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
ز در بیروں مراں دیوانہ دارم
کہ ایں بیگانہ وقتے آشنا بود
4
ضعف و عجز و فقرِ ما دانستۂ
دردِ ما را ہم دوا دانستۂ
ترجمہ: ہمارے ضعف و عجز اور ناداری آپ جان چکے ہیں۔ ہمارے درد کی دوا بھی آپ کو معلوم ہو چکی ہے (یعنی آپ کا دیدار۔)
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
شکستہ وار بدرگاہست آمدم کہ طبیب
بمومیائی لطفِ توام نشانے دارد
5
چار پا را قدرِ طاقت باز نہ
بر ضعیفاں قدرِ قوت کار نہ
ترجمہ: چوپائے پر (اس کی) طاقت کے موافق بوجھ لادو۔ کمزور لوگوں پر (ان کی) قوت کے موافق کام ڈالو۔
مطلب: مرید عرض کرتے ہیں کہ آپ گوشہ نشین رہے تو ترویجِ دین اور تنسیقِ مہماتِ مذہب کا بار ہم پر پڑ جائے گا۔ جس کے برداشت کرنے کی اہلیت ہم نہیں رکھتے۔ نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
منہ بیش از کسے تیمار بر من
بقدرِ قوتم نہ بار بر من
اس کے ضمن میں سلوک و طریقت کی یہ تعلیم بھی آ گئی کہ طالبوں پر ان کی استعداد سے زیادہ بار نہ ڈالنا چاہیے۔ یعنی تکمیل سے پہلے منصبِ ارشاد بخش دینا اور صلاحیت کے بغیر مسندِ خلافت عطا کرنا مناسب نہیں۔
6
دانۂ ہر مرغ اندازہ ویست
طُعمۂ ہر مرغ انجیرے کے است
ترجمہ: ہر پرندے کا کھانا اس کے اندازے کے موافق (ہوتا) ہے۔ ہر پرندے کی خوراک انجیر کب ہو سکتی ہے۔
؎ ذرّہ را تا نبود ہمتِ عالی حافظ
طالبِ چشمۂ خورشید درخشاں نشود
7
طفل را گر نان دہی بر جاے شِیر
طفلِ مسکین را ازاں ناں مردہ گیر
ترجمہ: اگر بچے کو دودھ کے بجائے روٹی کھلاؤ تو سمجھو کہ بیچارہ بچہ اس روٹی سے مر جائے گا۔
8
چونکہ دندانہا برارد بعد ازاں
ہم بخود گردد دلش جویائے ناں
ترجمہ: (ہاں) اس کے بعد جب وہ دانت نکال لے گا تو اس کا دل خود بخود روٹی کو چاہے گا۔
9
مرغِ پر نا رستہ چوں پراں شود
لقمۂ ہر گربۂ درّاں شود
ترجمہ: جب وہ پرندہ جس کے پر نہ نکلے ہوں، اُڑنے لگے تو (ضرور) کسی خونخوار بلی کا لقمہ بن جائے گا۔
10
چوں برارد پر بپرَّد او بخود
بے تکلف بے صفیرِ نیک و بد
ترجمہ: (لیکن) جب وہ پر نکال لے گا تو بلا تکلّف اور کسی کی بھلی بُری سیٹی دیے بغیر خود بخود اُرنے لگے کا۔
مطلب: ان اشعار کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ طریقت کے مبتدی کی مثال اس بچۂ مرغ کی سی ہے جس کے ابھی پر نہیں نکلے۔ جس طرح بے پر بچہ اڑنے لگے تو بلی کا نوالہ بنتا ہے۔ اسی طرح مبتدی اگر پیر کی صحبت ترک کر کے خود پیری کا دعوٰی کرنے لگے تو اغوائے شیطانی سے روحانی ہلاکت کا شکار ہوتا ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
مرد کہ گردن کشد از حکمِ پیر
سیلیش از دیوِ ستمگار بہ
در حقِ میشے کہ رمید از شبان
تربیتِ گرگِ کم آزار بہ
لیکن جب استفاضہ تام کے بعد مقامِ تمکین حاصل ہو جائے تو اس کی مثال اس پرندے کی سی ہے جو پَر دار ہو گیا ہے اور اُڑنے پر قادر ہے۔ ایسی حالت میں اس کو ترکِ صحبت مضر نہیں۔
11
دیو را نطقِ تو خامش مے کند
گوشِ ما را گفتِ تو ہُش مے کند
ترجمہ: (مرید کہتے ہیں۔ حضرت!) آپ کے ملفوظات (نفس) شیطان کو خاموش کر دیتے ہیں۔ آپ کا کلام ہمارے کان کو (سراپائے) ہوش بنا دیتا ہے۔
مطلب: وزیرِ گوشہ نشین نے باہر نکلنے اور مریدوں سے ہمکلام ہونے کے عذر میں جو باتیں پیش کی تھیں ان میں چار باتیں تھیں:
(1) خاموش رہنا اچھا ہے۔
ع مدتے خاموش کن ہیں ہوشدار
(2) باطنی کان کو آمادۂ سماع رکھنا چاہیے۔
ع پنبہ اندر گوش حِسّ دُوں کنید
(3) حسِّ خشکی بری اور دریائے معرفت اچھا ہے۔
ع حسّ خشکی دید کز خشکی بزاد
(4) سیرِ باطن ہست بالائے سما۔
اب مرید ان چاروں عذروں کو صحیح مانتے ہوئے، دوسرے پیرایہ میں خواہشِ دیدار پر اصرار کرتے ہیں۔ چنانچہ اس شعر میں پہلی دو باتوں کے متعلق گزارش کرتے ہیں کہ بے شک نفس کو خاموش کرنا اور سمعِ باطن سے کام لینا ضروری ہے مگر یہ مقصد بھی آپ کے کلام ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ یعنی آپ کا کلام ہی نفس و شیطان کو خاموش اور ہمارے سمع اور باطن کو تیز کر سکتا ہے۔
12
گوشِ ما ہوش ست چوں گویا توئی
خشکِ ما بحرست چوں دریا توئی
ترجمہ: جب آپ بولتے ہیں تو ہمارے کان (ہمہ تن) ہوش ہوتے ہیں۔ جب آپ دریائے (افاضہ بن کر بہتے) ہیں تو ہماری (صفاتِ جسمانیہ) کی خشکی (صفاتِ روحانیہ کا) دریا (بن جاتی) ہے۔
مطلب: پہلے مصرعہ میں دوسرے عذر کے متعلق عرضِ مکرر ہے اور دوسرے مصرعہ میں تیسرے عذر کے متعلق گذارش ہے کہ بے شک ہم بھی دریائے باطن کے آگے حیات کی خشکی کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ دولت بھی آپ ہی کی صحبت سے میسر ہو سکتی ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
لب چوں آبِ حیاتِ تو ہست قوتِ روح
وجودِ خاکی ما را از دستِ قوتِ روح
13
با تُو ما را خاک بہتر از فلک
اے سِماک از تو منور تا سَمَک
ترجمہ: اے وہ کہ آپ (کی برکات) سے بالائے فلک (سے لے کر) زیرِ زمین تک (سارا عالم) منور ہے۔ آپ کی بدولت ہم کو زمین (بھی) آسمان سے اچھی (لگتی) ہے۔
مطلب: وزیر کے چوتھے عذر کے متعلق گزارش ہے کہ بے شک سیرِ باطن کا قبلۂ توجہ بالائے فلک ہے مگر ہمارے لیے تو آپ کا آستانہ فلک سے بڑھ کر ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
بر آستانِ جاناں گر سر تواں نہادن
گلبانگِ سر بلندی بر آسمان تواں زد
14
بے تو ما را بر فلک تاریکی ست
با تو اے مہ ایں زمین تاری کی ست
ترجمہ: (ہم اگر) آسمان پر (بھی جا پہنچیں تو) آپ کے بغیر ہم کو اندھیرا (محسوس ہوتا) ہے۔ اے (افقِ ہدایت کے) چاند! آپ کی موجودگی میں یہ زمین کب تاریک ہے۔
مطلب: آپ کی معیّت حاصل ہے تو زمین بھی ہمارے لیے رشکِ فلک ہے اور اگر معیت نہیں تو فلک اور عجائباتِ فلک سے بھی کوئی لطف و لذت نہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
لذت از حورِ بہشت و لبِ حوضش نبود
ہر کہ او دامن معشوق خود از دست بہشت
15
با مہِ روئے تو شب تاری کے ست
روز را بے نورِ تو تاریکی ست
ترجمہ: آپ کے چہرۂ مبارک کے چاند کی موجودگی میں رات کب تاریک ہے؟ (ہاں) آپ کے نور (جمال) کے بغیر دن کو بھی تاریکی ہے۔
الخلاف: بعض نسخوں میں یہ شعر درج نہیں ہے۔
16
با تو بر خاک از فلک بُردیم دست
با سما ما بے تو چوں خاکیم پست
ترجمہ: آپ کے طفیل ہم زمین پر (مقیم ہونے کے با وجود) آسمان سے بھی سبقت لے گئے (اور) آپ کے بغیر ہم (اگر) آسمان پر بھی (جا پہنچتے تو) خاک کی طرح پست ہوتے۔
مطلب: یعنی گو ہم زمین پر مقیم ہیں۔ مگر آپ کی تعلیم و تلقین کی برکات سے ہمارا رتبہ آسمان سے بڑھ کر ہے۔
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
داغِ غلامیت کرد رتبۂ خسرؔو بلند
میرِ ولایت شود بندہ کہ سلطاں خرید
لیکن اگر ان برکات سے محروم ہو کر آسمان پر بھی جا رہتے تو یہ مکانی بلندی اس روحانی رفعت کے مقابلہ میں ہمارے لیے کچھ بھی موجبِ فضیلت نہ ہوتی۔ بلکہ ہم خاک کی طرح نا چیز ہوتے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
از سرِ کوئے تو ہر کو بملالت برود
نردد کارش و آخر بخجالت برود
17
صورتِ رفعت بود افلاک را
معنیِ رفعت روانِ پاک را
ترجمہ: ظاہری بلندی آسمان کو (حاصل) ہے۔ اصلی بلندی پاک روح کو۔
مطلب: اوپر جو کہا تھا کہ آپ کی صحبت میں ہم زمین پر بھی سر بلند ہیں اور اگر صحبت سے محروم ہوں تو آسمان پر جا کر بھی پست رہیں گے۔ اب اس فرق کی وجہ بتاتے ہیں کہ آسمان جسم ہے اور جسم کی بلندی ظاہری و صوری ہوتی ہے اور روح ایک امرِ معنوی ہے۔ اس کی رفعت بھی معنوی و باطنی ہے اور چونکہ روح مقصود ہے اور جسم غیر مقصود اس لیے روح کی بلندی بھی مقابلہ جسم کی بلندی کے مقصود ہے۔ اکبر الٰہ آبادی مرحوم ؎
جلوہ نہ ہو معنٰی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا
18
صورتِ رفعت برائے جسمہاست
جسمہا درپیشِ معنٰی اسمہاست
ترجمہ: ظاہری بلندی اجسام کے لیے ہے (اور) اجسام معنٰی کے آگے (بمنزلہ) اسماء (کے) ہیں۔
مطلب: اجسام بمقابلہ ارواح کے ایسے ہیں جیسے اسماء بمقابلہ مسمّیات کے۔ جس طرح مسمّٰی کی بلندی و برتری مقصود ہے اور اسم کی صرف لفظی و حرفی بلندی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اسی طرح ارواح کی بلندی اصل مقصود ہے نہ کہ اجسام کی بلندی۔
19
اللہ اللہ یک نظر بر ما فگن
لَا تُقَنِّطْنَا فَقَدْ طَالَ الحَزَنْ
ترجمہ: برائے خدا! برائے خدا! ایک نظر ہم پر ڈالو۔ ہم کو نا امید نہ کرو۔ کیونکہ غم حد سے بڑھ گیا۔
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
باز آئی و بنشیں ساعتے آخر چہ کم خواہد شدن
گر شاد گردانی دمے یارانِ غم فرسودہ را