دفتر 1 حکایت 55: شیر کا پھر توکّل پر کوشش کو ترجیح دینا، اور کوشش کے فوائد بیان کرنا

دفتر اول: حکایت: 55

باز ترجیحِ شیر جہد را بر توکّل، و فوائدِ جہد بیان کردن

شیر کا پھر توکّل پر کوشش کو ترجیح دینا، اور کوشش کے فوائد بیان کرنا

1

شیر گفت آرے و لیکن ہم ببیں

جہدہائے انبیاءؑ و مرسلیں

ترجمہ: شیر نے کہا ہاں (یہ صحیح ہے کہ قضا سے گریز نا ممکن ہے) مگر انبیاء علیہم السّلام و مرسلین کی سعی و کوشش کو بھی تو دیکھو۔

مطلب: انبیاء علیہم السّلام و مرسلین نے اشاعتِ دین، ردِّ منکرین، اعلاءِ کلمۃ اللہ، ہدایتِ خلقِ اللہ، دفعِ اَعداء، قتلِ اشقیاء میں ہمیشہ اپنی زبان، قلم، تلوار اور زورِ بازو سے کام لیا ہے۔ اور فرائضِ نبوّت کی بجا آوری میں پوری سعی و کوشش کا حق ادا کیا ہے۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو حکم ہے: ﴿یٰۤاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ (التوبۃ: 73) ”اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو، اور ان پر سختی کرو۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔“

2

سعیِ اَبرار و جہادِ مومناں

تا بدیں ساعت ز آغازِ جہاں

ترجمہ: (نیز) پاک لوگوں کی کوشش، اور مومنوں کے جہاد (کو دیکھو جو) ابتدائے عالم سے اس وقت تک (وقوع میں آ رہے ہیں۔)

مطلب: ﴿لٰکِنِ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡخَیۡرٰتُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ(التوبۃ: 88) ”لیکن رسول اور جو لوگ انکے ساتھ ایمان والے ہیں، وہ اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، اور انہیں لوگوں کے لیے بھلائیاں ہیں، اور وہی نجات پانے والے ہیں۔“

3

حق تعالٰی جہد شاں را راست کرد

آنچہ دیدند از جفا و گرم و سرد

ترجمہ: اللہ تعالٰی نے (بھی) ان کی کوشش کو بارآور کردیا، جس کو انہوں نے مشقت اور گرم و سرد (مشکلات کا موجب) پایا تھا۔

مطلب: ﴿فَاَنْزَلَ اللہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا السُّفْلٰی ط وَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَ اللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(التوبۃ: 40) پھر اللہ تعالٰی نے اپنی طرف سے اس پر تسکین اتاری، اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں جنہیں تم نے نہیں دیکھا، اور کافروں کی بات کو پست کردیا، اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے، اور اللہ تعالٰی زبردست (اور) حکمت والا ہے۔

4

حیلہ ہاشاں جملہ حال آمد لطیف

کُلُّ شَیْئٍ مِّنْ ظَرِیْفٍ ھُوَ ظَرِیْف

ترجمہ: انکی تدبیریں ہر حال میں پُر لطف ثابت ہوئیں۔ (کیوں نہ ہوں) معقول آدمی کی ہر بات معقول ہوتی ہے۔

مطلب: ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(الانفال: 74) ”اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، وہ اور جنہوں نے انہیں آباد کیا اور انکی مدد کی وہ سب صحیح معنوں میں مومن ہیں۔ ایسے لوگ مغفرت اور باعزت رزق کے مستحق ہیں۔“

5

دامہا شاں مرغِ گردونی گرفت

نقصہا شاں جملہ افزونی گرفت

ترجمہ: ان کے پھندوں نے (مراتبِ عالیہ کے) آسمانی مرغ پکڑے۔ انکی (اشاعتِ دین میں جو) کمی (تھی وہ) ترقی کی صورت میں بدل گئی۔

مطلب: آسمانی مرغاستعارہ ہے مراتبِ عالیہ سے، یعنی ان انبیاء علیہ السّلام نے اپنے جدوجہد سے مراتبِ عالیہ حاصل کئے۔ یا مرغِ گردونیسے مراد نمرود و فرعون جیسے بڑے بڑے کافر بادشاہ ہیں، جو اپنے غرور و تکبر سے گویا آسمان پر اڑنے کے مدّعی تھے۔ اور نمرود نے فی الواقع آسمان پر چڑھنے کا باطل ارادہ بھی کیا تھا۔ پھر یہ مطلب ہو گا کہ پیغمبروں کی الہامی تدابیر نے آخر ان بڑے بڑے مدّعی و مفرور دشمنانِ اسلام کو زیر کر لیا۔

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

سحر بر پہلو نزند دل خوشدار

سامری کیست کہ دست از یدِ بیضا ببرد

6

جہد میکن تا توانی اے کیا

در طریق انبیاءؑ و اولیاء

ترجمہ: اے دانا آدمی! انبیاء (علیہم السّلام) اور اولیاء کے طریقے پر (چلنے کی،) جس قدر بھی ہوسکے، کوشش کر۔

7

با قضا پنجہ زدن نبود جہاد

زانکہ ایں را ہم قضا بر ما نہاد

ترجمہ: جہاد کرنا قضا کا مقابلہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس (جہاد) کو بھی قضا ہی نے ہم پر مقرر کیا ہے۔

مطلب: آغازِ حکایت میں نخچیروں نے کہا تھا: با قضا پنجہ مزن اے تند و تیزاور اس سے ان کا مدعا یہ تھا کہ کوشش کرنا گویا قضا کا مقابلہ ہے۔ یہ اسکا جواب ہے کہ دیکھو انبیاء علیہم السّلام اور اولیاء عظّام نے سعی و جہد اور جنگ و جہاد کیا ہے، اور یہ کوئی قضا کا مقابلہ نہیں بلکہ قضا کا اتباع ہے، کیونکہ جو سعی و کوشش کی جاتی ہے وہ بھی تو تقدیر میں لکھی ہوتی ہے، جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: نَعَمْ اَفِرُّ مِنْ قَضَآءِ اللہِ اِلٰی قَضَآءِ اللہِ جس کا ترجمہ اور مطلب پیچھے گزر چکا ہے۔

8

کافرم من گر زیاں کردست کس

در رہِ ایمان و طاعت یک نفس

ترجمہ: (میں حلفًا کہتا ہوں کہ) اگر کسی نے ایمان و بندگی کی راہ میں (کوشش کر کے، اپنا) نقصان کیا ہو (تو) میں کافر ہو جاؤں۔

مطلب: اطاعت و عبادت میں سعی و کوشش کرنا کسی صورت میں باعثِ نقصان نہیں، پھر کیوں نہ کوشش کی جائے، اور نخلِ زندگی کا ثمرہ کیوں نہ حاصل کیا جائے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

مشو ببرگِ تسلی ز نخلِ ہستیِ خویش

بکوش و میوۂ ایں شاخسار را دریاب

9

سر شکستہ نیست ایں سر را مبند

یک دو روزے جہد کن باقی بخند

ترجمہ: تیرا سر زخمی نہیں ہے، (خواہ مخواہ) سر پر پٹی نہ باندھ (جوں توں کر کے) ایک دو دن کوشش کر، پھر مزے اڑا۔

مطلب: جو شخص ضرب و زخم سے مجروح ہو کر کام سے سست ہو جائے وہ اگر سعی و عمل نہ کرے تو معذور ہے، لیکن تم کو کوئی مرض نہیں، کوئی زخم و جراحت نہیں، اور کسی قسم کا عذر بھی نہیں، پھر کیوں خواہ مخواہ بیکاری کے بہانے بناتے پھرتے ہو اور کام سے ٹلتے ہو، کام کرو اور کام کے ثمرات سے فائدہ اٹھاؤ۔

نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

عذر میاور نہ حیل خواستند

این سخن ست از تو عمل خواستند

گر بہ سخن کار میسر شدے

کارِ نظامی بفلک بر شدے

10

بد محالے جست کو دنیا بجست

نیک حالے جست کو عقبٰی بجست

ترجمہ: (مگر سعی و کوشش سے) جس نے دنیا کی تلاش کی اس نے ایک باطل (و بے حقیقت چیز کی) تلاش کی۔ جس نے آخرت کی تلاش کی اس نے نیک حالت کی تلاش کی۔

صنائع: یہ شعر مرصّع ہے۔

مطلب: اوپر سعی و کوشش کی ترغیب سے عام کوشش مفہوم ہوتی تھی، خواہ دین کے لیے ہو یا دنیا کے لیے۔ اب اس کی تعیین و تخصیص کرتے ہیں کہ محض دنیا طلب کرنا جس کو دین سے کوئی لگاؤ نہ ہو، ایک باطل اور بری چیز کی طلب ہے۔ اور دین طلب کرنا یا دنیا بھی بتعلقِ دین طلب کرنی نیک حالت کی طلب ہے۔ کَمَا قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَ مِنْھُمْ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرۃ: 201) ”اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔“

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

تا کے غمِ دنیائے دنی اے دلِ دانا

حیف است ز خوبے کہ شود عاشق زشتی

وَ لِاَحَدِہِمْ ؎

سادہ لوحانے کہ دل بستند بر دنیائے دوں

بر سرِ ریگِ رواں بنیاد از شبنم نہند

11

مکرها در کارِ دنیا باردست

مکرہا در ترکِ دنیا واردست

ترجمہ: دنیا کے کام میں مکر و حیلہ کرنا فضول بات ہے۔ دنیا کے ترک کرنے میں تدبیر کرنا (آیات و احادیث سے) ثابت ہے۔

مطلب: دُنیا کا انہماک ایک نجس حالت ہے، اور مشاغلِ دین کے لیے مانع ہے۔

بقول بزرگے ؎

اہلِ دنیا نتواند بعقبٰی پرداخت

غیر مردار شکارے نبود کرگس را

ترکِ دنیا کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ(التکاثر: 1-2) ”ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر (دنیا کا عیش) حاصل کرنے کی ہوس نے تمہیں غلفت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ تم قبرستانوں میں پہنچ جاتے ہو۔“ اور حدیث شریف میں ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ”اَلَا اِنَّ الدُّنْیَا مَلْعُوْنَۃٌ وَ مَلْعُوْنٌ مَا فِیْھَاۤ اِلَّا ذِکْرُ اللہِ وَ مَا وَالَاہُ۔“ (الترمذی) یعنی ”یاد رکھو کہ دنیا ملعون ہے اور اس کے سب ساز و سامان ملعون ہیں، مگر اللہ تعالٰی کا ذکر اور وہ بات جو اللہ کو پسند ہو۔ اور دوسری حدیث میں فرمایا: ”مَنْ اَحَبَّ دُنْیَاہُ اَضَرَّ بِاٰخِرَتِہٖ وَ مَنْ اَحَبَّ اٰخِرَتَہٗ اَضَرَّ بِدُنْیَاہُ فَاٰثِرُوْا مَا یَبْقٰی عَلٰی مَا یَنْفٰی۔“ (المسند لامام أحمد: ۱۹۹۳۳) یعنی ”جس نے اپنی دنیا محبوب رکھی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے اپنی آخرت محبوب رکھی اس نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا پس تم باقی رہنے والے عالم (یعنی آخرت) کو فانی ہو جانے والے عالم (یعنی دنیا) پر ترجیح دو۔“

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

بازیچۂ ایست طفل فریبِ ایں متاعِ دہر

بے عقل مردماں کہ بدیں مبتلا شدند

11

مکر آں باشد کہ زنداں حفرہ کرد

آں کہ حفرہ بست ایں مکریست سرد

ترجمہ: (دنیا کو چھوڑنے کی) تدبیر یہ ہے کہ (دنیا کے) قید خانہ میں سرنگ لگا دی (اور نکل گئے۔) جس نے اس سرنگ کو بند گیا، (اس کی) یہ تدبیر بُری ہے۔

مطلب: زندانِ دنیا میں سرنگ لگا کر نکل جانے سے مراد یہ ہے کہ قیودِ دنیا سے رستگار ہو جائے اور اپنے آپ کو اس کے تعلقات سے علیحدہ کر لے۔

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

سر بآزادگی از خلق برارم چوں سرو

گر دہد دست کہ دامن ز جہاں بر چینم

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

بکوش گردنِ خود را ز بند کن آزاد

چہ سود ازیں کہ شوی مالک الرقاب اینجا

پھر فرماتے ہیں کہ جس شخص کو ایسا قدرتی حفرہ یا سرنگ حاصل ہے، پھر وہ اس کو بند کرنے کی تدبیر کرتا ہے، یعنی اس کو ترکِ دنیا سہل ہے مگر پھر وہ تعلقاتِ دنیا کو بڑھاتا جاتا ہے۔ اسکی یہ تدبیر لغو و ناقابلِ پسند ہے۔

بقول بزرگے ؎

گویند زمین بر سرِ گاؤ ست بلے

گاؤست کسیکہ بارِ دنیا برداشت

12

ایں جہاں زنداں و ما زندانیاں

حفرہ کن زندان و خود را وارہاں

ترجمہ: یہ جہان قید خانہ ہے، اور ہم قیدی ہیں۔ قید خانے میں سرنگ لگاؤ اور اپنے آپ کو نجات دو۔

مطلب: حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَ جَنَّۃُ الْکَافِرِ (صحیح مسلم: 7417) یعنی ”دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی بہشت ہے۔“ اس لیے مومن کے لیے اس جہان سے اور اس کے گمراہ کن تعلقات سے علیحدگی اچھی ہے۔

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

خوش آں کساں کہ گزشتند پاک چوں خورشید

کہ سایہ نیز بسوئے جہاں نیفگندند

13

چیست دنیا؟ از خدا غافل بدن

نے قماش و نقرہ و فرزند و زن

ترجمہ: (مگر یہ بھی خیال رہے کہ) دنیا ہے کیا چیز؟ (دنیا سے مراد ہے) خدا سے غافل ہو جانا۔ (ورنہ) سازوسامان اور دولت اور اولاد اور بیوی (کا نام دنیا) نہیں۔

مطلب: اوپر کے اشعار میں ترکِ دنیا کی ترغیب تھی۔ اب دنیا کی حقیقت بیان فرماتے ہیں: جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا دراصل اس حالت کا نام ہے جو موت سے پہلے تک انسان پر گزر رہی ہے، مگر اس حالت کی دو صورتیں ہیں اگر وہ آخرت سے مانع ہے تو دنیائے مذموم ہے، اگر اس سے مانع نہیں تو دنیائے محمود ہے۔ اور عرف میں عمومًا دنیا کے کلمے سے مذموم ہی مراد ہوا کرتی ہے، چنانچہ اوپر جو دنیا کے ترک کرنے کی ترغیب آئی ہے، اس سے یہی دنیا مراد تھی، ورنہ دنیائے محمود کے ترک کرنے کا حکم نہیں آیا، بلکہ قرآن و حدیث میں اس کا ذکر اچھے کلمات میں وارد ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً(البقرۃ: 201) اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطافرما پس ایسی دنیا اختیار کرنے والا جو آخرت سے اور حق تعالٰی سے دور نہ ہو، دنیا دار نہیں بلکہ دیندار ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

گرت مال و جاہ ست و زرع و تجارت

چو دل با خدایست خلوت نشینی

14

مال راکز بہرِ دیں باشی حمول

نِعْمَ مَالٌ صَالِحٌ خواندش رسول

ترجمہ: جس مال کو تم دین کے لیے اپنے پاس رکھو، تو اس کے حق میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے: نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ“ (البيهقي في شعب الإيمان: 1248) یعنی ”نیک آدمی کے لیے نیک مال اچھی چیز ہے۔“

مطلب: اوپر جو کہا تھا کہ نے قماش و نقرہ“ یعنی مال و دولت و لذّات دنیا وغیرہ مذموم نہیں ہیں، بلکہ جب وہ دین سے مانع نہ ہوں تو اچھے ہیں۔ اس دعویٰ کا ثبوت مذکورہ حدیث سے دیتے ہیں۔ اور اسکی تائید یہ حدیث بھی کرتی ہے کہ جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِیَّ الْغَنِیَّ الْخَفِیَّ“ (البيهقي) یعنی ”اللہ تعالٰی پرہیز گار، مال دار اور گمنام بندے کو دوست رکھتا ہے۔“

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تو نگراں براں نذرست و وقف و مہمانی

زکوٰۃ و فطرہ و اعتاق و ہدی و قربانی

تو کے بدولتِ ایشاں رسی کہ نتوانی

جز ایں دو رکعت و آنہم بصد پریشانی

15

آب در کشتی ہلاکِ کشتی ست

آب اندر زیرِ کشتی پشتی ست

ترجمہ: (مگر شرط یہ ہے کہ مال کی جگہ دل میں نہ ہو، دیکھو) پانی کشتی کے اندر (آجائے تو) کشتی کی تباہی ہے، ( اور اگر) پانی کشتی کے نیچے (ہے، تو اس کے لیے تیرنے میں) مدد ہے۔

مطلب: دنیا کی مثال پانی کی سی، اور دل کی مثال کشتی کی سی ہے۔ اگر دنیا دل میں جاگزین ہو جائے، تو وہ دل کی تباہی کا موجب ہے، اور وہی دنیائے مذموم بن جاتی ہے۔ اور اگر وہ دل سے باہر ہے، تو وہ موجبِ خیر و برکت ہے اور اس کا نام دنیائے محمود ہے۔ دل جو منبعِ توجّہات ہے، جب حبِّ دنیا اور طلبِ مال کے جذبات سے لبریز ہو جائے، تو آدمی دین کا اہتمام نہیں کر سکتا۔ ایسی دنیا اور ایسا مال بدبختی و خسران کا باعث ہے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اَلْاٰفَۃُ الثَّالِثَۃُ اَنَّہٗ یُلْھِیْہِ صَلَاحُ مَالِہٖ عَنْ ذِکْرِ اللہِ تَعَالٰی وَ کُلُّ مَا شَغَلَ الْعَبْدَ عَنِ اللہِ فَھُوَ خُسْرَانٌ“ (احیاء العلوم) یعنی ”مال کی تیسری آفت یہ ہے کہ اس کا اہتمام اللہ تعالٰی کی یاد سے غافل کر دے، اور جو چیز بندے کو اللہ سے غافل کر دے وہ موجبِ خسران ہے۔“ غرض مال کو دل میں جگہ نہ دی جائے، ورنہ یادِ خدا کی گنجائش اس میں نہ رہے گی۔

بقول بزرگے ؎

ز یادِ غیر میگردد بدل یادِ خدا کمتر

چوں پر شد خانہ مے باشد بصاحب خانہ جا کمتر

لیکن اگر دنیا کی جگہ دل میں نہ ہو، تو خواہ کتنا ہی تنعّم اور تموّل حاصل ہو، وہ ممنوع و معیوب نہیں، بلکہ وہ دنیائے محمود کی قسم سے ہے۔ جیسے کہ کُتبِ مناقب میں لکھا ہے کہ کوئی شائق کسی مشہور اہل اللہ بزرگ کی بارگاہ کی طرف حصولِ فیض کے لیے روانہ ہوا۔ جب منزلِ مقصود کے قریب پہنچا، تو شہر سے باہر جو باغ سامنے آتا تھا، اور جو سرسبز کھیتی دکھائی دیتی تھی، اس کی نسبت وہ دریافت کرتا تو اس کو بتایا جاتا تھا کہ وہ انہی بزرگ کی املاک ہیں۔ اسکے دل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ وہ اہل اللہ کیا ہوں گے؟ اچھے خاصے دنیا دار رئیس ہوں گے۔ غرض خدمت میں حاضر ہوا تو بالہامِ ربّانی، ان بزرگ پر اس کی حالتِ دل منکشف ہو گئی۔ معمولی خاطر و مدارات و مہمانداری کے بعد اس شخص سے انہوں نے کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ حج کو چلیں۔ اگر تم بھی ہمراہ چلتے ہو تو بہتر ہے۔ اس نے کہا میں بھی معیّت کے لیے حاضر ہوں۔ غرض یہ بزرگ اسی حالت میں اس شخص کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ نہ املاک و جائیداد کے متعلق اپنے نوکروں کو کوئی فہمائش کی، نہ کوئی زادِ راہ ساتھ لیا۔ چار پانچ کوس تک شہر سے دور گئے ہوں گے کہ اس شخص نے سراسیمگی کے ساتھ کہا، حضرت! میں اپنی گٹھری بھول آیا ہوں، جس میں زادِ سفر اور سامانِ ضرورت بندھا تھا۔ ان بزرگ نے فرمایا بس! اسی حوصلے پر تمہارے دل میں ہماری دولت مندی کے متعلق وسوسہ پیدا ہوا تھا؟ تمہارے دل پر ایک گٹھڑی کا خیال اس قدر متصرّف ہے کہ تم آگے چلنے سے معذور ہو، لیکن ہماری زندگی با ہمہ و بے ہمہ ہے۔ اس لیے اس قدر املاک و اراضی اور مال و ثروت کا ہم کو ایک ذرہ بھی خیال نہیں، اور تنِ تنہا راہِ خدا میں چل کھڑے ہوئے۔

جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

دارم دلکے کہ با ہر اندیشہ کہ داشت

جز یادِ تو بر صفحۂ خاطر ننِگاشت

یادِ تو چناں فرو گرفتش کہ در او

گنجائیِ ہیچ چیز دیگر نگذاشت

16

چوں کہ مال و ملک را از دل براند

زاں سلیمانؑ خويش جز مسکیں نخواند

ترکیب: شعر میں ”اِضمار قبلَ الذِّکر“ ہے۔

ترجمہ: چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک و مال (کی محبت) کو دل سے نکال دیا تھا۔ اس لیے انہوں نے اپنے آپ کو (باوجود اس قدر دولت و حشمت کے) بجز مسکین کے (اور کسی لقب سے) ملقّب نہیں کیا۔

مطلب: عام دنیاوی بادشاہوں کی عادت ہے کہ فرامین و مراسلات میں، اپنے نام کے ساتھ بڑے بڑے متکبّرانہ القاب و خطابات درج کرتے ہیں، مگر حضرت سلیمان علیہ السلام جن و انس کے بادشاہ، اور بحر و بر کے فرمانروا ہونے کے با وجود، اپنے آپ کو مسکین و خاکسار کے لقب سے ملقّب کرتے تھے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ انکے دل میں غرورِ مال و جاہ اور حُبِّ شوکت و حشمت کی جگہ نہ تھی، لیکن دوسرے دنیاوی بادشاہوں کے دلوں پر یہ جذبات قابض ہوتے ہیں، جس کا ثبوت یہ کہ آپ اپنے آپ کو مسکین فرمایا کرتے تھے۔ اور یہ بات تو صریحًا تواریخ سے ثابت ہو گی یا اشارۃً قرآن مجید کے ان کلمات سے کہ: ﴿اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ﴾ (نمل: 27) یعنی از جانب سلیمان اور یہ مکتوب کا وه عنوان ہے، جو آپ نے بلقیس ملکۂ سبا کے نام بھیجا تھا۔ اس میں کوئی شاہانہ لقب استعمال نہیں کیا، بلکہ ایک منکسر المزاج اور نفس کش درویش کی طرح، صرف اپنا نام لکھنے پر کفایت کی، اور یہ امر ایک با عظمت بادشاہ سے ظہور پانا، اسکے اپنے لیے لقب مسکین و خاکسار استعمال کرنے سے کم نہیں۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بزرگے کہ خود را بخردی شمرد

بدنیا و عقبٰی بزرگی بہ برد

ازیں خاکداں بندۂ پاک شد

کہ در پائے کمتر کسے خاک شد

17

کوزۂ سر بستہ اندر آبِ زفت

از دلِ پر باد فوقِ آبِ رفت

ترجمہ: منہ بندھا کوزہ، گہرے پانی میں اپنے اندر ہوا کے پُر ہونے سے، پانی پر تیرنے لگا (آگے اس مثال کی تطبیق خود فرماتے ہیں:)

18

بادِ درویشی چو در باطن بود

بر سرِ آبِ جہاں ساکن بود

ترجمہ: (چنانچہ) جب دل میں درویشی کی ہوا سمائی ہوئی ہو۔ تو درویش آدمی دریائے جہاں کی سطح پر ساکن رہتا ہے۔

صنائع: بادِ درویشیاور آبِ جہاںتشبیہات ہیں۔

مطلب: آب در کشتیمثال تھی اسکی کہ دنیا داری اس حُبِّ مال کا نام ہے جو دل پر مسلّط ہو، اور وہی دل کے ہلاک کا باعث ہوتی ہے۔ اب اس دل کی مثال دیتے ہیں جس پر حبِّ مال نہیں بلکہ حبِّ حق مسلّط ہو، اور اس تمثیل میں نہیں ڈوبتا۔

کَماَ قَال بعضہم ؎

پاک ساز از غیر دل را، شو تہی ہمچوں حباب

کز سبک روحی توانی خیمہ زد روئے آب

حافظ آں روز طرب نامۂ عشقِ تو نوشت

کہ قلم بر سرِ اسباب و دلِ خرّم زد

19

آب نتواند مرد را غوطہ داد

کِش دل از نفخہ الٰہی گشت شاد

ترجمہ: جس کا دل خدائی پھونک سے خوشحال ہو گیا۔ اس کو (یہ) پانی کبھی غوطہ نہیں دے سکتا۔

مطلب: جس شخص کے دل میں اللہ کی محبت و معرفت نے گھر کر لیا، اور وہ اس مسرّتِ حقیقی سے مسرور ہے، اس پر حبِّ دنیا کا کبھی تسلّط نہیں ہو سکتا۔

عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ما مستِ الستیم ز میخانۂ محبوب

پروا بہ سر و جبه و دستار نداریم

20

گرچہ جملہ ایں جہاں ملکِ وے است

مُلک در چشمِ دلِ او لاشے ست

ترجمہ: اگرچہ یہ سارا جہان اس (عارف) کی ملک ہو۔ (مگر) بادشاہی اسکے دل کی نظر میں ہیچ ہے۔

صنائع: مِلک اور مُلک میں تجنیسِ محرّف ہے۔

مطلب: چونکہ دولتِ معرفت، دنیوی جاہ و حشمت سے بمدارج اعلٰی و ارفع ہے، اس لیے یہ لوگ اس دولت سے متمتع ہو کر تاج و تخت کی پرواہ نہیں کرتے۔

امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

محنتِ تاج و سریر گر بقضایت دود

تو بگدایاں گریز دولت ازیشاں طلب

21

پس دہانِ دل ببند و مُہر کن

پُر کنش از باد گیر مِنْ لَّدُنْ

ترجمہ: پس (اے مخاطب!) دل کا منہ بند کردو، اور مہر لگا دو (پھر) اس کو مِنْ لَّدُنْ کے دریچے سے (علم لدنی کی ہوا سے) بھر لو۔

مطلب: اپنے دل کی کھڑکی کھول دو۔ یعنی اپنے اندر صلاحیتِ قبول، اور استعدادِ اخذ پیدا کرو، تاکہ اللہ تعالٰی کے پاس سے فیوضِ غیب کی ہوا آ کر اس میں داخل ہو۔

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

ہیچ روزن بے فروغِ آفتابِ فیض نیست

دیدۂ سوزن بکارِ خویشتن بینا بود

وَ قَالَ بَعْضُہُمْ ؎

ہست بر ذرّات یکساں پرتوِ خورشیدِ فیض

لیک باید جوہرِ قابل کہ گردد لعلِ ناب

22

جہد حق ست و دوا حق ست و درد

منکر اندر نفیِ جہدش جہد کرد

ترجمہ: کوشش برحق ہے، اور دوا برحق ہے، اور درد بھی (برحق ہے، خود) منکر (کو دیکھ لو کہ) اپنے جہد سے کام لے رہا ہے۔

مطلب: دنیا میں اسباب و علل باہم مرتبط ہیں اور ہر شخص ان اسباب و مسببات کے باہم ارتباط و ترتّب کے مطابق عمل کر رہا ہے، حتٰی کہ منکرِ سعی بھی خود اپنے معاملات و ضروریات میں ساعی دیکھا جاتا ہے۔ کم از کم یہ تو ظاہر ہے کہ وہ سعی و جہد کے انکار میں جو زور لگاتا ہے، بحث کرتا ہے، دلائل تراشتا ہے، یہ بھی تو سعی ہے۔ سلسلۂ اسباب میں سے ایک مثال مرض اور دوا کی ہے، چنانچہ جب کوئی مرض عارض ہوتا ہے تو وہ سبب بن جاتا ہے استعمالِ دوا کی تحریک کا، پھر یہ تحریک سبب بن جاتی ہے دوا حاصل کرنے اور اس کے استعمال میں سعی کرنے کی، اور یہ تسبیب و توفیق کسی کی خود ساختہ نہیں بلکہ خاص قدرتِ الہیہ کی طرف سے ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: مَاۤ اَنْزَلَ اللہُ دَاءً اِلَّاۤ اَنْزَلَ لَہٗ شِفَاءً۔ (البخاري: 5678) یعنی ”اللہ تعالٰی نے کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری جس کے لیے شفا نہ اتاری ھو“ اور ظاہر ہے کہ حصولِ شفا عمومًا، اختیارِ اسباب پر موقوف ہے۔ اِلَّا مَا شَاءَ اللہ۔ اور حصولِ شفا کے لیے احادیث میں سینگیاں لگوانے، اور بعض اشیاء مثلًا شہد، کالا دانہ، قسطِ بحری کے استعمال کرنے کی تعریف مروی ہے، تو یہ سب کچھ سعی نہیں تو اور کیا ہے؟

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

ازاں رو نیستند از پردۂ اسباب مستغنی

ز بوئے پیرہن یعقوبؑ پیغمبر شود بینا

دوسرے مصرعہ کا مطلب ایک اور طرح بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ جہد کے معنٰی محنت و مشقت کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے ترجمہ یوں ہوگا کہ منکر نے اپنی کوشش کے انکار میں (جو ایک بدیہی امر ہے ناحق) جھک ماری۔

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

آں را کہ تازیانہ زر گمائے گردن ست

ہر دعویٰ غلط کہ کند پیش مے برد

23

کسب کن سعی نما و جہد کن

تا بدانی سرِ علمِ مِنْ لَّدُنْ

ترجمہ: کسب کرو، محنت اور کوشش بجا لاؤ، تاکہ تم کو علمِ مِنْ لَّدُنْ کا راز معلوم ہو جائے۔

مطلب: یعنی جب تم کوشش کر کے اسکے ثمرات سے متمتع ہو گے، تو تم کو اس علم کا راز اللہ تعالٰی کی طرف سے معلوم ہو جائے گا کہ اسباب و مسببات کے ارتباط میں کیا کیا حکمتیں ہیں۔

24

گرچہ ایں جملہ جہاں پر جہد شد

جہد کے در کام جاہل شہد شد

ترجمہ: اگرچہ یہ تمام جہان سعی و کوشش سے پُر ہو رہا ہے، (مگر) جاہل کے منہ میں وہ کب خوشگوار و شیریں ہو سکتا ہے۔

مطلب: یعنی اگرچہ دنیا جہان کے تمام کاروبار سلسلۂ اسباب و علل میں مقیّد و مربوط ہیں، اور ہر شخص ادنیٰ غور و فکر سے ان کو سمجھ سکتا ہے، مگر جاہل آدمی جس کو ترکِ سعی اور توکّلِ مزعوم کا خیال باطل ہے کبھی ان کا قائل نہیں ہوتا۔ اس شعر کا مطلب باحتمالِ بعید ایک اور طرح بھی ہو سکتا ہے، یعنی اگرچہ تمام جہان میں جد و جہد جاری ہے (مگر اس کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے عقل شرط ہے) ایک جاہل (و بد تدبیر آدمی) کے منہ میں کوشش و سعی کب (کامیابی کا) شہد بن سکتی ہے (اور ایسی صورت میں سعی کا غیر مثمر ہونا مسلّم ہے، مگر یہ قصور عقل کی وجہ سے ہے نہ کہ نفسِ سعی کے غیر مفید ہونے کی وجہ سے۔)