دفتر اول: حکایت: 54
نگریستنِ عزرائیل علیہ السّلام بر مردے، گریختنِ او در سرائے سلیمان علیہ السّلام، و تقریرِ ترجیحِ توکّل بر جہد و کوشش
عزرائیل علیہ السّلام کا ایک آدمی پر نظر ڈالنا اور اس کا حضرت سلیمان علیہ السّلام کے محل میں بھاگ جانا، اور جدّ و جہد و کوشش پر توکّل کی ترجیح کا ثبوت
1
سادہ مردے چاشتگاہے در رسید
در سرا عدلِ سلیمانی دوید
ترجمہ: ایک سیدھا سادہ آدمی کچھ دن چڑھے بھاگا بھاگا، حضرت سلیمان علیہ السّلام کے ایوانِ عدالت میں پہنچا۔
2
رویش از غم زرد و ہر دو لب کبود
پس سلیمانؑ گفت اے خواجہ چہ بود؟
ترجمہ: (حالت یہ تھی کہ) اس کا منہ غم سے زرد، اور دونوں ہونٹ (خوف سے) نیلے ہو رہے تھے۔ تو حضرت سلیمان علیہ السّلام نے دریافت فرمایا: بڑے میاں کیا ہوا؟
3
گفت عزرائیلؑ در من ایں چنیں
یک نظر انداخت پُر از خشم و کیں
ترجمہ: وہ بولا ملکُ الموت نے کچھ ایسی ہی ایک پُر غضب، اور کینہ بھری نگاہ مجھ پر ڈالی ہے۔
4
گفت ہیں! اکنوں چہ مے خواہی؟ بخواہ
گفت فرما باد را اے جاں پناہ
ترجمہ: (حضرت سلیمان علیہ السّلام نے) فرمایا ارے ارے! اب کیا چاہتے ہو؟ بولو وہ بولا حضور! ہوا کو حکم دیجئے:
5
تا مرا زیں جا بہندستاں برد!
بوکہ بندہ کاں طرف شد جاں برد
ترجمہ: کہ مجھے اس جگہ سے (اڑا کر) ہندوستان میں لے جائے۔ شاید بندہ وہاں چلا جائے، تو سلامت رہے۔
ترکیب: دوسرے شعر میں کلمہ ”تا“ بیانیہ ہے۔ اور”ایں فرما“ میں ”ایں“ مقدر اس کا ”مبین“ ہے۔ ”کاں طرف شد“ میں ”کاف“ حالیہ ہے۔
6
پس سلیماںؑ کرد بر باد ایں برات
برد باد او را بسوئے سومنات
ترجمہ: تو حضرت سلیمان علیہ السّلام نے ہوا کو حکم دیا۔ (اور) ہوا، (حکم پاتے ہی) اس کو سومنات کی طرف لے گئی۔
الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخے میں نہیں ہے اور زائد معلوم ہوتا ہے۔
7
باد را فرمود تا او را شتاب
برد سوئے خاکِ ہندوستان بر آب
ترجمہ: حضرت سلیمان علیہ السّلام نے ہوا کو حکم دیا، وہ فوراً اسکو سمندر کی راہ سے ملک ہندوستان میں لے گئی۔
صنائع: ”خاک“ و ”باد“ میں مناسبت ملحوظ ہے۔
8
نک ز درویشی گریزانند خلق
لقمۂ حِرص و امل زانند خلق
ترجمہ: دیکھو (اسی طرح) لوگ مفلسی سے بھاگتے ہیں۔ (اور) اس لیے وہ حرص اور امیدِ خام کا لقمہ بنتے ہیں۔
9
ترسِ درویشی مثالِ آں ہراس
حرص و کوشش را ز تو ہندوستان شناس
ترجمہ: مفلسی کا خوف، اس (سادہ مرد) کے خوفِ (جان) کی مثال ہے۔ اور حرص و کوشش کو ہندوستان سمجھ لو۔
مطلب: یہ دونوں شعر اثنائے قصہ میں فریقِ مناظر کی طرف سے بطور مقولہ ہیں۔ جن سے وہ جماعت اس واقعہ کو سعی و کوشش کے لاحاصل اور فضول ہونے کے دعوٰی پر چسپاں کرتی ہے، یعنی جس طرح اس سادہ لوح مرد کا موت سے بچنے کے لیے جو کہ ٹل نہیں سکتی، ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا غیر مفید تھا۔ اسی طرح اس رزق کے حصول کے لیے جو مقسوم میں نہیں ہے، حرص و امل سے کام لینا لغو بات ہے۔
وَ لَنِعْمَ مَا قِیْلَ ؎
نصیب گر بود ہمچوں صدف رزق از سما ریزد
چو قسمت نیست روزی از دہن چوں آسیا ریزد
10
روزِ دیگر وقتِ دیوان و لقا
شہ سلیمانؑ گفت عزرائیلؑ را
ترجمہ: دوسرے روز بوقتِ عدالت، اور (حضرت عزرائیل علیہ السّلام سے) ملاقات (کے دوران) حضرت سلیمان علیہ السّلام نے عزرائیل علیہ السّلام سے پوچھا:
11
کیں مسلماں را بخشم از چہ سبب
بنگریدی؟ باز گو اے پیکِ ربّ
ترجمہ: اے فرستادۂ خدا! بتاؤ اس مسلمان کو تم نے غصے کی نظر سے کیوں دیکھا؟
12
اے عجب ایں کردہ باشی بہرِ آں
تا شود آوارہ او از خانمان
ترجمہ: (یہ) بڑے تعجب کی بات ہے! کیا تم نے اس لیے ایسا کیا تھا، کہ وہ (بے چارہ) اپنے گھر بار سے آوارہ ہو جائے؟
13
گفتش اے شاہِ جہانِ بے زوال
فہم کژ کرد و نمود را خیال
ترجمہ: (حضرت عزرائیل علیہ السّلام) نے آپ کو یوں جواب دیا کہ اے لازوال جہاں کے بادشاہ! اس کو غلط فہمی ہوئی اور (میرا غصہ) اس کو محض وہم و خیال (میں) دکھائی دیا۔
14
کہ مرا فرمودِ حق کامروز ہاں!
جانِ او را تو بہندوستاں ستاں
ترجمہ: کیونکہ مجھے خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ آج ہی، تم اس کی جان کو ہندوستان میں قبض کرو۔
صنائع: ”ہندوستان، ستاں“ میں صنعتِ تجینس ناقص ہے۔
15
دیدمش اینجا و بس حیراں شدم
در تفکر رفتہ سرگرداں شدم
ترجمہ: (مگر) میں نے اس کو یہاں (موجود) پایا تو میں بہت حیران ہوا۔ اور غرقِ فکر ہو کر پریشان تھا۔
16
چوں بامرِ حق بہندوستاں شدم
دیدمش آنجا و جانش بستدم
ترجمہ: (آخر) جب میں خدا کے حکم سے ہندوستان گیا، تو میں نے پہلے ہی سے اس کو وہاں (موجود) پایا اور اس کی جان قبض کر لی۔
مطلب: جو کام خدا کی تقدیر میں ایک خاص صورت سے انجام پانا لکھا ہوتا ہے اس کے اسی طرح صورت پذیر ہونے کے قدرتی اسباب پیدا ہو جاتے ہیں۔ جنابِ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”اِذَا قَضَی اللہُ لِعَبْدٍ اَنْ یَّمُوْتَ بِاَرْضٍ جَعَلَ لَہٗ اِلَیْھَا حَاجَۃً“ (ترمذی جلد: 2) یعنی ”جب اللہ تعالٰی کسی بندے کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ وہ فلاں سر زمین میں مرے، تو اس کے لیے وہاں جانے کی کوئی حاجت پیدا کر دیتا ہے“۔ یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے سر زمینِ ہند کو اپنے لیے پناہ کی جگہ تصور کیا تھا، حالانکہ قضائے الٰہی میں وہ زمین اس کا مقتل و مرقد قرار پا چکی تھی۔
حضرت صائب نے گویا اسی سادہ مرد کے بارے میں کہا ہے۔
فَلِلہِ دَرَّہٗ ؎
نیک چوں در نگری رو بقضا مے سازند
سادہ لوحاں کہ گریزاں ز قضا مے باشند
17
تو ہمہ کارِ جہاں را ہم چنیں
کن قیاس و چشم بکشا و ببیں
ترجمہ: (اے مخاطب!) تم جہاں کے سارے کاموں کو اسی طرح قیاس کر لو، اور ذرا آنکھیں کھول کر دیکھ لو۔
مطلب: بندہ تقدیر سے بھاگتا ہے، مگر تقدیر ہی کے پھندے میں جا پھنستا ہے، اور تدبیر کچھ بھی سود مند نہیں ہوتی۔
ہاتفی رحمۃ اللہ علیہ ؎
اجل چوں در آید به دیوار و بام
بدروازہ بستن چہ سود اہتمام
چوں طوفانِ نوحؑ آورد رستخیز
نسنجد بہ آں بارہ و خاک ریز
فرود آید از آسماں چوں گزند
چہ حاصل کہ دیوار باشد بلند
18
از کہ بگریزیم؟ از خود؟ ایں محال
از کہ بر تابیم؟ از حق؟ ایں وبال
ترجمہ: ہم کس سے بھاگیں؟ کیا اپنے آپ سے؟ یہ محال ہے۔ ہم کس سے رُخ پھیریں، کیا خدا سے؟ یہ تباہی کا موجب ہے۔
مطلب: تقدیر انسان کے لیے لازمِ وجود ہے۔ اس لیے تقدیر سے بھاگنا گویا اپنے آپ سے بھاگنا ہے، اور یہ نا ممکن ہے کیونکہ: ”اِنْفِکَاکُ الشَّيْئِ عَنْ نَفْسِہٖ“ محال ہے۔ اور جس طرح اپنے آپ سے گریز محال ہے، اسی طرح امرِ حق سے بھاگنا بھی وبال ہے۔ جیسے کہ حق تعالٰی سبحانہٗ نے فرمایا ہے: ﴿یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطَانٍ﴾ (الرحمن: 33) ”اے انسانوں اور جنّات کے گروہ! اگر تم میں یہ بل بوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی حدود سے پار نکل سکو، تو پار نکل جاؤ، تم زبردست طاقت کے بغیر پار نہیں ہوسکو گے۔“
مکاشفات القلوب میں ایک حدیث قدسی لکھی ہے: ”مَنْ لَّمْ یَرْضَ بَقَضَآئِیْ وَ لَمْ یَصْبِرْ عَلٰی بَلَائِیْ فَلْیَخْرُجْ مِنْ تَحْتِ سَمَآئِیْ وَلْیَطْلُبْ رَبًّا سِوَآئِیْ“ (الديلمي) یعنی ”جو شخص میری قضا پر راضی نہ ہو، میری بلا پر صبر نہ کرے، تو اُسے چاہیے کہ میرے آسمان کے نیچے سے نکل جائے، اور چاہیے کہ میرے سوا کوئی اور پروردگار تلاش کرے“۔ غرض خدا سے بُعد چاہنا بدترین مصائب سے ہے۔
خود مولانا رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ فرماتے ہیں ؎
حورِ دوراں دہر آں رنجے کہ ہست
سہل تر از بُعد حق و غفلت است
لاشک ایں ترکِ ہوا تلخی دہ ست
لیک از تلخی بُعدِ حق بہ است