دفتر1 حکایت 53: شکاروں کا پھر توکّل کو کوشش پر ترجیح دینا

دفتر اول: حکایت: 53

باز ترجیح نہادنِ نخچیراں توکّل را بر جہد

شکاروں کا پھر توکّل کو کوشش پر ترجیح دینا

1

جملے با وے بانگ ہا برداشتند

کاں حریصاں کیں سببہا کاشتند

2

صد ہزار اندر ہزاراں مرد و زن

پس چرا محروم ماند اندر زمن

ترکیب: ”کاں حریفاں۔۔۔ الخ“ یہ مصرعہ اور اگلا شعر سب بیان ہے۔ ”بانگہا“ مبیّن کا جس میں ”آں حریصاں“ مبدّل منہ اور ”صد ہزار“ بدل مل کر مبیّن۔ ”ایں سببہا کاشتند“ اس کا بیان، یہ مبیّن و بیان مل کر اسم ہوا ”ماند“ فعلِ ناقص کا۔ ”محروم“ اس کی خبر۔ ”پس“ حرفِ تفریع کا مقام آں حریصاں سے پہلے ہے، کہ ”پس آں حریصاں“ ضرورتِ شعری کے لیے مؤخر لایا گیا ہے۔

ترجمہ: (یہ سن کر) سب شکار اس کے سامنے چلّانے لگے کہ پھر وہ حریص لوگ جنہوں نے ان اسباب (سعی و محنت) کا بیج بویا ہے (اور جو) کروڑوں مرد و زن (پر مشتمل ہیں) خود کیوں ہمیشہ سے (حصولِ مقاصد میں) ناکام رہے؟

3

صد ہزاراں قرن ز آغازِ جہاں

ہمچو اژدہا کشادہ صد زباں

ترکیب: ”کشادہ“ کا فاعل ضمیر ہے راجع بہ ”حریصاں“ اوپر کے شعر میں۔

ترجمہ: ابتدائے عالم سے لاکھوں صدیاں گزریں (کہ یہ حریص بھوکے) اژدہوں کی طرح (ناکامی سے) سینکڑوں زبانیں لٹکائے (کھڑے) رہے۔

4

مکرہا کردند آں دانا گروہ

کہ ز بُن برکندہ شد زاں مکر کوہ

ترجمہ: ان (بھوکے) فیلسوفوں نے (اپنی بساط بھر) چالاکیاں کیں۔ چالاکیاں بھی ایسی کہ جن سے پہاڑ جڑوں سے اکھڑ گئے۔

مطلب: ان لوگوں کی صنعت اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ پہاڑوں تک کو بیخ و بن سے اکھیڑ ڈالتے تھے، پھر بھی وہ اپنے مقسوم سے زیادہ کچھ حاصل نہ کر سکے۔ پہاڑوں کو کاٹنے تراشنے کی صنعت قدیم سے چلی آ رہی ہے چنانچہ قومِ ثمود کے متعلق قرآن میں ارشاد ہے: ﴿وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا﴾(الاعراف: 74) ”اور تم پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے“۔

5

کرد مکر و حیلہ آں قومِ خبیث

ور زِما باور نداری ایں حدیث

ترجمہ: ان پلید (و بد اعتقاد) لوگوں نے مقدور بھر مکر و حیلہ کیا اگر تجھے ہماری اس بات کا یقین نہیں آتا تو۔۔۔

6

کرد وصفِ مکرِ شاں را ذوالجلال

لِتَزُوْلَ مِنْہُ اَقْلَالُ الْجِبَالِ

ترجمہ: (دیکھ لو خود) خدائے ذو الجلال نے ان کے مکر کی تعریف (ان معنوں میں) فرمائی ہے کہ بے شک اس (مکر) سے پہاڑوں کی چوٹیاں اپنی جگہ سے ہل جاتی ہیں۔

مطلب: اس مکار گروہ کی فتنہ پردازیوں کا پہاڑوں تک کو ہلا ڈالنا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اور وہ آیت یہ ہے: ﴿وَ اِنْ کَانَ مَکْرُھُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ﴾ (ابراہیم: 46) ”اگر چہ ان کے مکر سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں“۔

7

جز کہ آں قسمت کہ رفت اندر ازل

روئے ننمود از سگال و از عمل

ترجمہ: (پھر بھی) اس مقسوم کے سوا جو ازل میں (مقدر) ہو چکا تھا، ان کے غور و فکر اور کاروبار کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

در ازل کرد آنچہ باید بود

جہدِ امروزِ ما ندارد سود

جامی بعیش کوش کہ کس را ز جامِ دہر

کَم زانچہ قسمت ست نیاید زیادہ ہم

8

جملہ افتادند از تدبیر و کار

ماند کار و حکمہائے کردگار

ترجمہ: (آخر) وہ سب لوگ کاروبار اور تدبیر (و فکر) سے عاجز آ گئے (اور) خداوند تعالیٰ کے کام اور حکم بدستور (باقی و دائم) رہے۔

مطلب: ان لوگوں کی سعی و تدبیر خدا کی تقدیر کے آگے نقش بر آب ثابت ہوئی۔ بقول کسے؎

کسے کہ رشتہ کارش بدستِ تدبیر است

خیالِ فاسد او چوں بر آب تصویر است

9

کسب جز نامے مداں اے نامدار

جہد جز وہمے مِپندار اے عیار

ترجمہ: اے نامدار! تم کسب (و کار) کو محض ایک نام سے زیادہ (با وقعت) نہ سمجھو (اور) اے ہوشیار تم سعی (و کوشش) کو محض ایک وہم سے زیادہ گمان نہ کرو۔

مطلب: یہ شعر نتیجہ ہے اوپر کی ساری تقریر کا اور اس تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ کسب و سعی میں سر کھپانے والے اگرچہ پہاڑوں کو ہلا دیں اور سمندر کو کھنگال ڈالیں مگر نتیجہ آخر وہی ڈھاک کے تین پات یعنی ان کو اپنی کوشش کا ثمرہ صرف اسی قدر ملتا ہے جو قسمت میں مقدّر ہے اور جو کوشش کے بغیر بھی مل سکتا تھا، لہٰذا کوشش کا اثر برائے نام اور اس کی اصلیت فضول وہم ہے۔ اس تقریر اور نتیجہ میں جو مغالطہ ہے اس پر بارہا اوپر بحث ہو چکی ہے۔ اتنا یہاں بھی بتا دینا مناسبِ مقام ہے کہ بے شک تقدیر تدبیر پر فائق اور اس سے سابق ہے اور بے شک تدبیر کو مؤثرِ مستقل ماننے والوں کا عقیدہ فاسد اور ان کو لقبِ خبیث کا مستوجب بنانے والا ہے، اور بے شک جد و جہد قسمت سے ایک ذرہ زیادہ ثمرہ نہیں دے سکتے۔ یہ باتیں تو درست ہیں، مگر ان باتوں سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ سعی نہ کی جائے اور اس کو محض ایک وہمی بات سمجھ کر چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ مسبّب نے جو کچھ ثمرہ ہماری قسمت میں لکھ دیا ہے وہ اس نے اپنی تقدیر میں ہماری سعی پر موقوف رکھا ہو، لہٰذا تدبیر و سعی کرنا شرطِ عقل ہے۔ اس کا ثمرہ ملنا یا نہ ملنا حوالۂ تقدیر۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

ہر چند وصل گنج بکوشش نہ بستہ است

تا ممکن ست پا مکش از جستجوئے گنج