دفتر 1 حکایت 52: شیر کا بارِ دیگر توکّل پر سعی کی ترجیح بیان کرنا

دفتر اول: حکایت: 52

دیگر بار بیان کردنِ شیر ترجیحِ جہد بر توکّل

شیر کا بارِ دیگر توکّل پر سعی کی ترجیح بیان کرنا

1

گفث شیر آرے ولے ربّ العباد

نردبانے پیش پائے ما نہاد

ترجمہ: شیر نے جواب دیا ہاں (بے شک آپ کا کہنا بجا ہے کہ کارساز اللہ تعالیٰ ہے) مگر پروردگارِ عالم نے (مقاصد و مطالب تک پہنچنے کے لیے) ہمارے پاؤں کے سامنے (اسباب و ذرائع کا) ایک زینہ رکھ دیا ہے۔

2

پایہ پایہ رفت باید سُوئے بام

ہست جبری بودن اینجا طمعِ خام

ترجمہ: (خود اپنے پاؤں سے) بتدریج بالاخانے پر چڑھنا چاہیے یہاں مجبورِ محض بن بیٹھنا (کہ اللہ میاں چڑھائے تو چڑھیں گے) خام خیالی ہے۔

مطلب: ”پایہ پایہ رفتن“ کنایہ ہے اختیارِ اسباب سے، اور ”بام“ سے مراد مقصد و طلب ہے۔ یعنی تم کو اپنے نصب العین اور مطمحِ نظر پر فائز ہونے کے لیے اسباب کو اختیار کرنا اور وسائل سے کام لینا چاہیے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

چوں دامنِ وصال بکوشش گرفتہ اند

چند آنکہ ممکن ست نکوشد کسے چرا

3

پائے داری چوں کنی خود را تو لنگ

دست داری چوں کنی پنہاں تو چنگ

ترکیب: دوسرے مصرعہ میں ”کنی“ کا مفعول بہ اول ”چنگ“ ہے۔ جس کی علامت مفعولی ”را“ محذوف ہے اور ”پنہاں“ مفعول بہ ثانی۔

ترجمہ: (جب) تیرے پاؤں موجود ہیں تو (راہِ سعی میں) اپنے آپ کو لنگڑا کیوں بناتا ہے؟ (جب) تیرے ہاتھ میں تو (محنت و مشقت سے) اپنا پنجہ کیوں چھپاتا ہے؟

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

برو شیرِ درندہ باش اے دغل

مپندار خود را چو روباہ شل

4

خواجہ چوں بیلے بدستِ بندہ داد

بے زباں معلوم شد او را مُراد

ترجمہ: مالک نے جب نوکر کے ہاتھ میں ایک بیلچہ دے دیا تو کچھ کہے بدوں ہی اس کا دلی مطلب معلوم ہو گیا۔

مطلب: مالک جب نوکر کو بیلچہ دیتا ہے تو اس کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جاؤ اس کے ساتھ فلاں کام کرو بلکہ نوکر خود ہی سمجھ جاتا ہے اور فوراً باغ یا کھیت کے کام میں جا مصروف ہوتا ہے۔ یہی مثال انسان کی ہے کہ اس کے اعضاء خود ایک قدرتی اشارہ ہیں اس امر کا کہ آدمی ہاتھ پاؤں سے محنت و مشقّت کرے۔ آگے خود اس مثال کو ممثّل لہٗ پر منطبق کیا ہے:

5

دست ہمچوں بیل اشارت ہائے اوست

آخِر اندیشی عبارت ہائے اوست

ترکیب: پہلے مصرعہ میں ”اوست“ کی ضمیر کا مرجع ”اللہ تعالٰی“ اور دوسرے مصرعہ کے ”اوست“ کی ضمیر کا مرجع ”دست“ ہے۔

ترجمہ: ہاتھ (بھی) بیلچہ کی طرح اس کی طرف سے (محنت اور کام کرنے کے) اشارے ہیں، اور اپنے انجام کی فکر کرنا اور سعی و کوشش میں مصروف ہونا اس سے مراد ہے۔

مطلب: ”عبارت“ کا کلمہ مصدر ہے جس کے معنٰی ہیں بیان کردن و تعبیر کردنِ سخن اور عمومًا اس سے ”مَا یُعَبَّرُ بِہٖ“ مراد لیا جاتا ہے، یعنی وہ الفاظ جس سے خاص معنٰی مراد ہوں۔ مگر یہاں اس سے ”مَا یُعَبَّرُ“ مراد ہے، یعنی وہ معنٰی جس کے ادا کرنے کے لیے الفاظ بولے جائیں۔ اس لحاظ سے شعر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہاتھ عطا فرمائے ہیں تو ان سے یہ مقصد ہے کہ انسان اپنے انجام کو سوچ کر، جو مفلسی و فاقہ کی صورت میں ہو گا، کاروبار میں لگ جائے۔ گویا دست و قوت لفظ ہے تو مآل اندیشی و عاقبت بینی اس کے معنٰی ہیں۔ ایک شارح نے یہاں عبارت سے ”مَا یُعَبَّرُ بِہٖ“ کے متعارف معنٰی لے کر دوسرے مصرعہ کا یوں ترجمہ کیا ہے: (اللہ تعالیٰ نے جو انسان میں) مآل اندیشی کی قوت (رکھی ہے، جو قوائے باطنی سے ہے، یہ) ایسی ہے جیسے اس نے صریح عبارت سے فرما دیا ہو (کہ نفع و نقصان کو سوچو، یہی سب کسب و تدبیر ہے)۔ مگر اس پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کے توکّلِ عزم کا معنٰی ہی یہی ہے کہ مآل کا فکر نہ کیا جائے، جب ان میں مآل اندیشی ہی مسلوب ہے وہ کسب و سعی کی طرف رہنمائی کیونکر کرے گی؟

6

چوں اشارت ہاش را بر جاں نہی

در وفائے آں اشارت جاں دہی

ترکیب: یہ شعر شرط ہے اگلا شعر اس کی جزا۔

ترجمہ: جب تم اس کے (ان) اشارات کو (کہ دست و پا کے عطیے سے کسب و عمل کرنا مراد ہے) دل پر نقش کر لو گے (اور) مرتے دم تک (کسب و عمل سے) ان اشاروں کو پورا کرتے رہو گے، تو ۔۔۔

7

پس اشارتہاش اسرارت دہد

بار بردارد ز تو کارت دہد

ترجمہ: تو وہ اشارے تم کو اسرار و علوم بخشیں گے۔ تم سے بار (مشقت) رفع کر دیں گے (اور) تم کو (بڑا) کام دیں گے۔

مطلب: اعمال و اشغال اور ریاضت و مجاہدہ سے کشف و شہود حاصل ہوتا ہے۔ یہی مراد ہے اس سے کہ اشارات پر عمل کرنے سے علوم و اسرار حاصل ہوں گے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

از ریاضت دل اگر آئینہ پرداز شود

چوں صدف مخزنِ چندیں گہرِ راز شود

8

حاملی محمول گرداند ترا

قابلی مقبول گرداند ترا

ترکیب: ”حاملی“ اور ”قابلی“ میں یائے خطاب بمعنٰی ہستی ہے۔ یعنی ”تو حاملِ ہستی“۔

ترجمہ: (اب تو) تم (ان اعمال کا بار) اٹھانے والے ہو پھر وہ (قادرِ مطلق) تم کو (ان اعمال پر) سوار کرے گا۔ اب تو تم (احکام کو) قبول کرنے والے ہو پھر وہ تم کو (اپنا) مقبول بنا لے گا۔

مطلب: محمول ہونے سے یا تو مجازًا دنیا کا عروج مراد ہے۔ جو عروجِ روحانی کا باعث ہو جائے یا حقیقتًا آخرت میں اعمال پر سوار ہونا مقصود ہے جیسے کہ اس مطلب کی حدیثیں مروی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ جب مومن کی روح جسم سے نکل جاتی ہے تو اس کے اعمالِ نیک اچھی صورت میں نمودار ہو کر اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اے خوش نصیب آدمی! آج تک تو دنیا میں تھا تو ہم تجھ پر سوار تھے۔ آج تیری باری ہے تو ہم پر سوار ہو، پھر وہ پری پیکر اس کو کندھوں پر اٹھا کر بہشت کی طرف لے اڑتا ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

بر شکستِ قفسِ جسم ازاں مے لرزی

کہ سزاوارِ چمن بال و پرے نیست ترا

9

قابل امرویی قابِل شوی

وصل جوئی بعد ازاں واصل شوی

ترکیب: ”قابلِ امرویی“ اصل میں ”قابلِ امرِ وے ہستی“ ہے۔ ضمیر خطاب مبتدا، ”قابل امر وے“ مرکب اضافی خبر۔

ترجمہ: (اب) تم اس کے حکم کو قبول کرتے ہو پھر (اس کی درگاہ کے) قابل ہو جاؤ گے (آج) وصل کے طالب ہو پھر واصل ہو جاؤ گے۔

مطلب: کسب و عمل اور سعی و محنت سے جو درجہ جاہتے ہو حاصل کر سکتے ہو اور جوارح و قویٰ کے تعطل میں یہ دولت کہاں نصیب ہو سکتی ہے۔ ؎

گروہے فراواں طمع ظن برند

کہ گندم نیفشاندہ خرم برند

بر آن خورد سعدیؔ کہ بیخے نشاند

کسے برد خرمن کہ تخمے نشاند

10

سعیِ شکرِ نعمت قدرت بود

جبرِ تو انکارِ آں نعمت بود

ترجمہ: (حصولِ مقاصد کے لیے) کوشش کرنا، قدرت (و اختیار) کی (خداداد) نعمت کا شکر ہے۔ تیرا اپنے آپ کو مجبور (محض اور مسلوب الاختیار) سمجھ لینا اس نعمت کا انکار (اور ناشکری) ہے۔

مطلب: اپنی خداداد قوت سے کام لینے والا شاکرِ نعمت اور قابلِ عزت ہے، اور اپنی قوتوں کو معطل رکھنے والا کافرِ نعمت اور مستوجبِ ملامت ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

مرد کہ شبے نبود گاہ صید

زو سگِ بازار بمقدار بہ

11

شکرِ نعمت نعمتت افزوں کند

کفرِ نعمت از کفت بیروُں کند

صنائع: یہ شعر مرصّع ہے اور ایک آیت کے مضمون کی طرف تلمیح بھی ہے۔

ترجمہ: نعمت کا شکر تیری نعمت کو زیادہ کرے گا۔ ناشکری تجھ سے (تیری پہلی نعمت بھی) چھین لے گی۔

مطلب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾ (ابراہیم: 7) ”یاد کرو وہ وقت جب تمہارے پروردگار نے جتا دیا تھا کہ اگر ہمارا شکر کرو گے تو ہم تم کو اور زیادہ نعمتیں دیں گے اور اگر تم نے نا شکری کی تو میرا عذاب سخت ہے۔“ یہ شعر اسی آیت کے مضمون پر مشتمل ہے۔

12

جبرِ تو خفتن بود در رہ مخسپ

تا نہ بینی آں در و درگہ مخسپ

ترجمہ: تیرا جبر (کا قائل ہونا گویا دنیا کے راستے میں بے دست و پا ہو کر) سو رہنا ہے۔ (پس) راہ میں نہ سو جب تک کہ اس (محبوبِ حقیقی کی) در و درگاہ کو نہ دیکھ لے، نہ سو۔

مطلب: جبر بمعنٰی عام یعنی مطلب سلبِ اختیار کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ خیال کہ بندہ کو بالکل کسی قسم کا کم و بیش اختیار دیا ہی نہیں گیا۔ یہ فرقہ جبریہ کا اعتقادِ فاسد ہے۔ اس کا بطلان کتاب و سنت سے ثابت ہے اور نقصِ اعمال، ترکِ فرائض، فواحش و معاصی پر بے باکی اور اپنی بے گناہی و عدم مؤاخذہ کا اعتقاد اس کے نتائج ہیں۔ یہ جبر مذموم ہے۔ دوسرا جبر وہ ہے جو اختیارِ خداوند کے مشاہدہ میں مغلوب و محو ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے اختیاراتِ کاملہ اور تصرّفاتِ عامہ کو دیکھ کر انسان اپنے آپ کو بے بس پائے اگرچہ اس کے ساتھ اپنے اختیار کا بھی اس کو علم ہے جو قدرت نے اس کو دیا ہے مگر اس مختارِ مطلق کے آگے اپنے اختیارات کو بالکل معدوم نہیں تو کالعدم سمجھے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

دیگرے دارد عنانت را چہ طفلِ نو سوار

گرچہ در ظاہر عنانِ اختیارت دادہ اند

یہ جبرِ محمود کہلاتا ہے جو عارفوں کا مذاق ہے اور کتاب و سنت اس کے خلاف نہیں ہیں۔ گویا جبرِ مذموم وہ ہے جس کا قائل واصل الٰی الحق نہیں ہے اور جبرِ محمود کا قائل واصل الٰی الحق اور عارف باللہ ہے۔ اس شعر سے مراد یہ ہے کہ تم یہ بھی گمان نہ کرنا کہ تمہارا جبر محمود ہے کیونکہ تم ابھی تک واصل الٰی الحق نہیں ہوئے۔ تمہارا جبر تو منزلِ وصل تک پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں سو رہنے کا مصداق ہے، جو جبرِ مذموم ہے، اور نفس نے حصولِ راحت اور استمتاعِ لذائذ کے لیے اختیار کر لیا ہے۔ جب تک اس محبوبِ حقیقی کی در و درگاہ تک نہ پہنچ جاؤ، یعنی مقامِ مشاہدہ و عرفان پر فائز نہ ہو لو، اپنے آپ کو مجبور نہ سمجھو اور آرام و راحت کے لیے جبر کو بہانہ نہ بناؤ۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

در خواب نہ بیند رُخِ آرام دگر بار

ہر دل کہ طمع دل طلبِ وصلِ شما کرد

13

ہاں مخسپ اے جبری بے اعتبار

جز بزیرِ آں درختِ میوہ دار

ترجمہ: خبردار اے قائلِ جبر (اور) بے اعتبار آدمی! اس میوہ دار درخت (یعنی مقامِ معرفت و وصول الٰی الحق) کے نیچے کے سوا (اور کہیں) نہ سونا۔

مطلب: جبری کا بے اعتبار ہونا دو معنٰی رکھتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں۔ ادائے عبادات اور پابندیِ احکام میں تو اپنے آپ کو جبری بنا لیتا ہے اور حصولِ لذّات اور جرِ منافع کے لیے بھاگا بھاگا پھرتا ہے تو اپنے آپ کو عملًا مختار ظاہر کرتا ہے، ترجمہ میں یہی معنٰی ملحوظ ہیں۔ دوسرے معنٰی یہ ہیں کہ وہ مقتضائے قدرت اور منشائے حکمت کو بہ نظرِ عبرت و بصیرت نہیں دیکھتا اور اعتبار و استبصار کی آنکھ بند کر کے تعطیلِ جوارح و اِبطالِ قویٰ کا مرتکب ہو کر منزل سے دور راستے ہی میں محوِ خواب ہے۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تو کز خوابِ نوشیں ببانگِ رحیل

نخیری دگر کے رسی در سبیل

فرد کوفت طبلِ شتر سارواں

بمنزل رسید اوّلِ کارواں

خنک ہوشیارانِ فرخندہ بخت

کہ پیش از دہل زن بسازند رخت

برہ خفتگان تا برآرند سر

نہ بینند رہِ رفتگاں را اثر

14

تاکہ شاخ افشاں کند ہر لحظہ باد

بر سرت دائم بریز و نقل زاد

ترجمہ: تاکہ (اس میوہ دار درخت کی) شاخ کو ہوا ہر لحظہ حرکت دے (اور) ہمیشہ تیرے سر پر نُقل و زاد (یعنی قربِ حق اور فیوضِ الٰہیہ کا ثمرہ) گرائے۔

مطلب: چونکہ منزلِ قرب میں پہنچ کر سو جانا جبرِ محمود ہے۔ اس لیے اس مقام میں حرمان و خسران کا احتمال نہیں اور برابر ثمراتِ فیوض حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

در کوئے خرابات کسے را کہ نیاز است

ہشیاری و مستیش ہمہ عَین نماز است

15

جبر خفتن درمیان رہزناں

مرغِ بے ہنگام کے یابد اماں

ترجمہ: جبر (مذموم کا قائل و عامل ہونا گویا منزل سے دور) ڈاکوؤں کے درمیان سونا ہے (بے موقع و بے محل سونے والا گویا مرغ بے ہنگام ہے، اور) مرغِ بے ہنگام کب (ہلاکت سے) امن پا سکتا ہے۔

مطلب: واصل الٰی الحق ہونے سے پہلے مجبور بجبرِ مذموم بننا نفس و شیطان کے ہتھے چڑھنا ہے، جو راہِ سلوک کے راہزن ہیں۔ اور اس راہ میں منزل سے دور سو جانا اپنے آپ کو روحانی موت کے حوالہ کرنا ہے۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

خوش ست زیرِ مغیلاں براہ بادیہ خفت

شب رحیل ولے ترک جاں بیاید گفت

16

ور اشارتہاش را بینی زنی

مرد پنداری و چوں بینی زنی

صنائع: دونوں مصرعوں میں ”بینی زنی“ کے لفظوں میں تجینسِ تام مستوفی ہے۔

ترجمہ: اگر تم اس اشاروں پر ناک چڑھاؤ گے تو (نا حق اپنے آپ کو) مرد گمان کرو گے، اور جب (بنظرِ غائر) دیکھو گے تو (معلوم کرو گے کہ) تم عورت ہو۔

مطلب: اس شعر سے اوپر گیارہواں شعر یہ تھا۔ ”دست ہمچوں بیل اشارتہائے اوست“۔ یعنی بیلچہ کی طرح ہمارے جوارح بھی خداوند تعالیٰ کی طرف سے اس امر کا اشارہ ہیں کہ ہم کو محنت و سعی کرنی چاہیے۔ اب کہا ہے کہ اگر تم اس کے اشارے کو نہ سمجھو گے یعنی اپنے آپ کو معطل و بے کار رکھو گے تو گویا تم عورتوں کی طرح ناقص العقل اور غیر دور اندیش بننا اختیار کر رہے ہو۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

عقلِ زن ناقص ست و دینش نیز

ہرگزش کامل اعتقاد مکن

گر بدست از وے اعتبار مگیر

در نکو بر وے اعتماد مکن

17

آں قدر عقلے کہ داری گم شود

سر کہ عقل از وے بپرّد دُم شود

ترجمہ: (پھر) وہ تھوڑی بہت عقل بھی جو تم رکھتے ہو جاتی رہے گی، اور جس سر سے عقل اڑ جائے گی وہ بمنزلہ دُم کے جسم کا ایک حقیر حصہ بن جائے گا۔

نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

خرد ست آں کزو رسد یاری

ہمہ داری اگر خرد داری

ہر کہ دادِ خرد نداند داد

آدمی صورت ست گاؤ نہاد

اب فرماتے ہیں کہ عورتوں کی طرح ناقص العقل بننے والے کی رہی سہی عقل کس طرح ماری جاتی ہے:

18

زانکہ بے شکری بود شوم و شُنار

میبرد ناشکر را در قعرِ نار

ترجمہ: اس لیے کہ نا شکری منحوس و نامبارک ہے جو ناشکر کو دوزخ کی گہرائی میں لے جاتی ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾ (ابراھیم: 7) (ترجمہ پیچھے گزر چکا ہے۔) چونکہ مرد ہو کر عورتوں کی طرح ناقص العقل بننا اور جوہرِ عقل کو بے کار رکھنا اس عطیۂ الہیّہ کی ناشکری ہے اور ناشکر مستوجبِ عذاب ہے اور عذاب کے ساتھ زوالِ نعمت لازم ہے۔ اس لیے عقل سے کام نہ لینے والا اپنی تھوڑی بہت عقل سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

19

گَر توکل میکنی در کار کن

کسب کن پس تکیہ بر جبّار کن

ترجمہ: اگر تم توکّل کرتے ہو تو کاروبار کے اندر کرو (یعنی) کسب (و سعی) کرو پھر (اس کام کا ثمرہ حاصل ہونے میں) خدائے جبّار پر بھروسہ کرو۔

مطلب: مولانا شیر کی زبان سے فرماتے ہیں اگر تم متوکّل بننا چاہتے ہو تو اِبطالِ قوٰی اور تعطیلِ جوارح نہ کرو۔ بلکہ سعی و کسب کرو اور اس کے ثمرات کی توقع خدا سے رکھو۔ جبّار کے لفظ میں یہ لطیف رعایت ہے کہ ہر چند سعی و عمل کے ہم مختار ہیں مگر ان کے نتائج حاصل کرنے میں قدرتِ حق کے آگے مجبور ہیں اس میں وہی مالکِ جبّار مختار ہے۔

یہ شعر سلاستِ الفاظ، صفائیِ بیان اور خوبیِ بندش کے لحاظ سے تو شاعری کا بہترین نمونہ ہے ہی، مگر اس کی معنوی حیثیات بھی بے مثال و بے نظیر واقع ہوئی ہیں۔ توکّل کے بیان کا ضخیم باب۔ اس کی کج دار و مریز تعریف اور اس کی نازک و باریک قیود و شرائط کی بحث ایک دریا ہے جو آئمہ متقدمین اور علمائے متاخرین کی تصانیف میں موجزن ہے، مگر وہ سب کا سب مولانا نے اس شعر کے ایک کوزے میں بند کر دیا ہے۔

؎ حرفِ بیکاری مگرداں روزگارے خویش را

پردۂ روئے توکّل سازگارِ خویش را

20

تکیہ بر جبّار کن تا وا رہی

ورنہ افتی در بلا و گمرہی

ترجمہ: (نتائجِ سعی اور ثمرات عمل حاصل کرنے میں) خدائے جبّار پر بھروسہ رکھو تاکہ (سوءِ اعتقاد سے) محفوظ و مصون رہو، ورنہ بلائے (معصیت) اور گمراہی میں پڑ جاؤ گے۔

مطلب: جو شخص سعی و کوشش اور اختیارِ اسباب میں ثمرات و نتائج کے لیے اللہ پر متوکل نہ ہو اور ان کو منجانب اللہ نہ سمجھے تو احتمال ہے کہ وہ اپنی سعی و عمل کو مؤثّر بذات سمجھنے لگے اور یہ سخت گمراہی ہے، لہٰذا دوبارہ تاکید کی ہے کہ کاروبار کے ساتھ توکّل ضرور ہونا چاہیے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

بسعیِ خود نتواں برو پے بمنزلِ مقصود

خیال باشد کین کار بے حوالہ براید

صائب رحمۃ اللہ علیہ؎

رستم از سیلی تقدیر بخاک افتادہ است

تا بکے تکیہ بسرِ پنجۂ پر زور کنی؟