دفتر 1 حکایت 51: شکاروں کا پھر سعی و کسب پر توکل کو ترجیح دینا

دفتر اول: حکایت: 51

باز ترجیح نخچیراں توکّل را بر جہد و کسب

شکاروں کا پھر سعی و کسب پر توکل کو ترجیح دینا

1

قوم گفتندش کہ کسب از ضعفِ خلق

لقمۂ تزویر داں بر قدرِ حلق

ترکیب: ”ضعف“ کا مضاف الیہ یعنی ”ایمان یا اعتقاد“ مقدر ہے۔

ترجمہ: جماعت نے کہا کہ (سعی و) کسب (کا راج) جو مخلوق کے ضعیف (اعتقاد) کے سبب سے ہے۔ اسے فریب کا لقمہ سمجھو جو بقدرِ حلق (یعنی حسبِ استعداد) ہوتا ہے۔

مطلب: یہ کسب و سعی کی تردید ہے، یعنی کسب کوئی فطری و ضروری امر نہیں بلکہ اس کا رواج یوں پڑا ہے کہ لوگ روحانی کمزوری کے سبب سے توکّل کے معتقد نہیں ہوتے تھے تو قدرت نے ان کی سدِّ رمق کے لیے روزی کے اکتساب کا حیلہ نکالا ہے جو ان کی استعداد کے موافق ہو، چنانچہ علف خوار کے لیے علف، گوشت خوار کے لیے گوشت حاصل کرنے کے سامان مہیا کر دیتے ہیں۔ جس طرح ایک مریض تلخ دوا نہیں پیتا تو دوا کو اس کے کام و دہاں کے لیے خوشگوار بنانے کے لیے اس میں قند ملا دی جاتی ہے اور یہ اس کو دوا پلانے کے لیے ایک تزویر ہے اگر ”بر قدرِ حلق“ میں ”بر“ بمعنی فوق درست ہو تو پھر معنٰی صاف اور بلا تکلّف ہیں، یعنی کسب و سعی تو محض مکر و فریب ہے جو سدِّ رمق سے زیادہ اور قدرِ حاجت سے فضول روزی کمانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ حالانکہ توکّل کی بدولت بقدرِ حاجت ضرور مل رہتا ہے۔ نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بدریا ہر آں کس کہ جاں میکند

ہم آنکس کہ در کوہ کاں میکند

کس از روزیِ خویش در نگذرد

باندازۂ خویش روزی خورد

2

پس بدانکہ کسب ہا از ضُعف خاست

در توکّل تکیہ بر غیرے خطاست

ترجمہ: پس یاد رکھو کہ کمانے (کھانے) کے ڈھنگ ضعفِ اعتقاد سے پیدا ہوئے ہیں (ورنہ) توکّل میں غیر (خدا) پر بھروسہ کرنا غلطی ہے۔ غنی کاشمیریؒ ؎

چشم مدد ز کس نبود چوں صدف مرا

فیضے مگر ز عالمِ بالا رسد بمن

3

نیست کسے از توکّل خوب تر

چیست از تسلیمِ خود محبوب تر

ترجمہ: توکّل سے بہتر رزق کا ذریعہ کوئی نہیں۔ بھلا خدا کے حکم کے آگے گردن جھکانے سے پسندیدہ بات اور کونسی ہے۔

مطلب: توکّل تمام ذرائعِ رزق سے افضل ہے۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎

در بیانِ توکل توشہ در کار نیست

زادِ ایں را دانۂ دل بس بود ہمچوں جرس

اور تسلیم شیریں و خوشگوار ہے صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

مے تواں کرد بہ تسلیم شکر حنظل را

نتواں تلخ نشتن کہ شکر نیست مرا

4

بس گریزند از بلا سُوئے بلا

بس جہند از مار سوئے اژدہا

ترجمہ: بہتیرے (غیر متوکل) لوگ (ایک) بلا سے بھاگتے ہیں (تو دوسری اس سے بڑی) بلا کی طرف جا نکلتے ہیں۔ اسی (طرح) بہتیرے لوگ سانپ سے بھڑکتے ہیں (تو) اژدھے کی طرف جا پہنچتے ہیں۔

5

حیلہ کرد انسان و حیلہ اش دام بود

آنکہ جاں پنداشت خون آشام بود

ترجمہ: انسان نے اپنی سمجھ کے موافق ایک تدبیر کی اور اس کی تدبیر (فی الحقیقت) جال تھی جس چیز کو وہ (اپنی) جان سمجھتا تھا اس کو ہلاک کرنے والی تھی۔

مطلب: انسان سعی و تدبیر کرتا ہے اور تقدیر اس کے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

گفتم کہ خطا کردم و تدبیر نہ ایں بود

گفتا چہ تواں کرد کہ تقدیر چنیں بود

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

رستم از سیلیِ تقدیر بخاک افتادہ است

تا بکے تکیہ بسر پنجۂ تدبیر کنی

غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎

درِ دلدار وا کردم رقیم شد دو چار آنجا

ز دمِ نعتے بروں آمد بجائے گنج بار آنجا

نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بس گل کہ توکّل کنی شمارش

بینی بگزنِد خویش خارش

برونق چنیں خلاف کاری

تسلیم بہ از ستیزہ گاری

ان دونوں شعروں میں اس بات کی تعلیم ہے کہ تدبیر سے تقدیر نہیں ٹل سکتی اور قضا سے بچنے کے لیے کوئی تدبیر کرنا خود قضا کی طرف چلنا ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

نیک چوں در نگری رو بقضا مے سازند

سادہ لوحاں کہ گریزان ز قضا مے باشند

مگر اس تعلیم کا یہ منشا نہ ہونا چاہیے کہ انسان اسباب و ذرائع سے بالکل دست کش ہو جائے، بلا سر پر آ جائے مگر توکّل و تسلیم کے زعم میں اس کے دفع کی کوشش نہ کرے اور جان دے دے۔ حالانکہ مہالک سے پرہیز، خطرات سے بچاؤ، دشمن کی مدافعت اور بلا سے گریز تقاضائے عقل ہے اور یہ کوئی قضا سے گریز نہیں۔ نہ توکّل و تسلیم کے خلاف ہے۔ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک غزل میں اس مسئلے پر نہایت پر لطف لفظوں میں روشنی ڈالی ہے۔ فرماتے ہیں اگر کوئی محتاط آدمی جو قضا پر ایمان رکھتا ہے کسی بلا سے بچنا چاہتا ہے تو جاہل لوگ اس کو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ قضا سے بھاگتا ہے، حالانکہ قضا سے نہ کوئی بھاگتا ہے نہ بھاگ سکتا ہے۔ اور اچھے اچھے بزرگانِ دین نے دشمن کے ضرر سے بچنے کے لیے اپنے دوستِ حقیقی خداوند تعالیٰ کی پناہ میں آنا اختیار کیا ہے۔ کیوں جی! اگر ایک سبب سے دوسرے سبب کی طرف ملتجی ہونا روا نہیں تو خود حضور علیہ الصلوۃ و السّلام مکہ شریف سے مدینہ طیبہ کی طرف کیوں تشریف لے گئے؟ ؎

در ماندۂ بحکمِ قضا از بلا گریخت

زد طعنہ جاہلے کہ فلاں از قضا گریخت

چوں از قضا گریز تواند کسے کہ بود

دستِ قضا عناں کشِ او ہر کجا گریخت

بس اہلِ معرفت کہ ز بیگانہ آفتے

احساس کرد و در کنفِ آشنا گریخت

گر نیست از سبب بہ سبب التجا روا

خیر البشرؐ ز مکہ بہ یثرب چرا گریخت

اسباب چوں مظاہرِ فعل مسبّب اند

ہر کس گریخت ہم ز خدا در خدا گریخت

آخری شعر کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بلا و مصیبت خدا کی بنائی ہوئی ہے۔ اسی طرح اس سے بچنے کے اسباب بھی خدا ہی کے قائم کردہ ہیں۔ پس ایک بلا سے بچنے کے لیے اسبابِ نجات سے کام لینا اگر خدا سے گریز فرض کر لیا جائے تو وہ خدا ہی کی طرف گریز ہے۔ اس کی تائید یہ روایت کرتی ہے کہ ایک موقع پر امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوج کو ایک طاعون زدہ مقام سے کوچ کرنے کا حکم دیا تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سختی سے اعتراض کیا: ”اَ فِرَارٌ مِّنْ قَضَاءِ اللہِ؟“ (کیا یہ خدا کی تقدیر سے گریز ہے؟) تو آپ نے جوابًا فرمایا: ”نَعَمْ! نَفِرُّ مِنْ قَضَاءِ اللہِ اِلٰی قَضَاءِ اللہِ“ یعنی ”ہاں ہم قضاءِ الٰہی سے قضائے الٰہی ہی کی طرف گریز کرتے ہیں“۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے یہاں سے کوچ کرنا بھی قضائے الٰہی پر موقوف ہے، ہم اللہ پر متوکّل ہو کر کوچ کر رہے ہیں، اور یہ روانگی ایک طرح سے اللہ ہی کے حکم کی تعمیل ہے۔ قضا سے گریز نہیں بلکہ قضا کی طرف قصد ہے۔

6

در بہ بست و دشمن اندر خانہ بود

حیلۂ فرعون زیں افسانہ بود

ترجمہ: (قضا سے گریز کرنے والے نے دشمن سے بچنے کے لیے) دروازہ بند کر لیا اور (تماشا یہ کہ) دشمن گھر ہی میں (موجود) تھا۔ فرعون کا حیلہ (بھی) اسی بات (کی قبیل) سے تھا۔

7

صد ہزاراں طفل کشت آں کینہ کش

وانکہ او مے جست اندر خانہ اش

ترجمہ: اس کینہ ور نے (بنی اسرائیل کے) لاکھوں بچے مروا ڈالے، اور جس کو قتل کرنے کے لیے) تلاش کرتا تھا وہ (خود) اس کے گھر میں (موجود تھا)۔

مطلب: ان دو شعروں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے کی طرف اشارہ ہے جس کا مختصرًا ذکر شرح ہذا کے پہلے حصے میں گزر چکا ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ ممملکتِ مصر میں ایک ظالم بادشاہ حکمران تھا۔ جس کا نام ولید بن مصعب اور لقب فرعون تھا۔ وہ خدائی کا مدّعی تھا اور لوگوں کو اپنی پرستش پر مجبور کرتا تھا۔ ایک رات نے اس نے خواب دیکھا کہ ملک شام سے ایک آگ پیدا ہوئی اور اس نے اہلِ مصر کی تمام عمارتوں اور قلعوں کو گھیر لیا، چونکہ بنی اسرائیل کی قوم کا اصلی وطن ملکِ شام تھا اور وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے سے مصر میں آباد تھی۔ اس قیاس سے کاہنوں نے یہ تعبیر کی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص ایسا پیدا ہو گا جو تم کو اور تمہارے مذہب کو تباہ کر دے گا۔ چونکہ بنی اسرائیل نے فرعون کی پرستش اور اس کے مذہب کا اتباع منظور نہیں کیا تھا۔ اس لیے یہ قوم پہلے ہی مدّت سے موردِ عتاب تھی۔ ادنیٰ ادنیٰ خدمات اور بیگار کے کام اس کے سپرد تھے اور قلمروئے مصر میں نہایت ذلت و حقارت کی زندگی بسر کرتی تھی۔ اس خواب اور اس کی تعبیر سے اس قوم پر اور نئی مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کا جو لڑکا پیدا ہو فورًا قتل کیا جائے تاکہ وہ انقلاب انگیز شخص بھی، جو آئندہ پیدا ہونے والا ہے، پیدا ہوتے ہی قتل ہو جائے۔ اہلِ تواریخ لکھتے ہیں کہ اس حکم سے تھوڑی ہی مدت میں بنی اسرائیل کے بارہ ہزار لڑکے قتل ہو گئے، مگر چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زندہ رہ کر اصلاحِ خلق پر مامور ہونا مقدّر ہو چکا تھا، اس لیے جب وہ پیدا ہوئے تو اُن کی ماں کے دل میں خداوند تعالیٰ کی طرف سے ایک تدبیر اِلقا ہوئی، جس کے مطابق اس نے اپنے بچے کو ایک صندوق میں بند کر کے نہر میں بہا دیا۔ یہ نہر فرعون کے محل کے پاس سے گزرتی تھی۔ کنیزوں نے صندوق کو دیکھ کر نکال لیا اور فرعون کی بیوی آسیہ کے پاس جا کر کھولا تو بچہ نکلا۔ آسیہ کے کوئی اولاد نہ تھی اس بچے پر ان کے دل میں اس قدر شفقت اور محبت پیدا ہوئی کہ اس کو اپنا بیٹا بنا کر پرورش کرنا شروع کیا۔ فرعون بھی اس پر رضامند ہو گیا اور جس ستمگار نے دشمن سے بچنے کے لیے بارہ ہزار معصوم و بے گناہ بچے قتل کرا دیئے اس کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ دشمن میرے ہی گھر پر پرورش پا رہا ہے، اور میری ہی گود میں کھیل رہا ہے۔ غرض یہ کہ تقدیرِ الٰہی کا مقابلہ فضول ہے۔ دراصل مقابلہ کرنے والا خود اپنے ہاتھوں مقتضائے تقدیر کو پورا کرتا ہے۔ نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

چو با گور گیراں ندارند زور

بپائے خود آیند گوراں بگور

گہ تیر خوردن عقابِ دلیر

بہ پرِّ خود آید ز بالا بزیر

8

دیدۂ ما چوں بسے علت در دست

رو فنا کن دیدِ خود در دیدِ دوست

ترکیب: ”دیدۂ ما“ مرکبِ اضافی مبتدا، اور ”بسے علت در دست“ خبر مل کر شرط ہوئی۔ دوسرا مصرعہ جزا۔

ترجمہ: چونکہ ہماری چشمِ بصیرت میں (کوتاہ بینی و ظاہر پرستی وغیرہ کی) بہت سی خرابیاں ہیں (پس) جاؤ۔ اپنے غور و فکر کو محبوب (حقیقی) کے صوابدید کے تابع بنا دو۔

مطلب: ہماری صوابدید ناقص اور محتملِ خطا ہے چنانچہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ بسا اوقات ہم حصولِ نفع کے لیے تدبیر کرتے ہیں مگر الٹا ہم کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے ہم کو اس قادرِ مطلق کی صوابدید پر بھروسہ کرنا لازم ہے اور اپنے سب کام اس کے سپرد کر دینے چاہئیں، اور یہی توکّل و تسلیم ہے ؎

کارِ خود گر بخدا باز گزاری حافظ

اے بسا عیش کہ ما بخت خداداد کنی

9

دیدِ ما را دیدِ او نعم العوض

ہست اندر دیدِ او کُلّی غرض

ترجمہ: (کیونکہ) اس کی صوابدید ہماری صوابدید کا بہترین عوض ہے۔ اس کی صوابدید میں (ہمارے) تمام مقاصد (تکمیل پا سکتے) ہیں۔

مطلب: یعنی اگر اپنے اغراض و مقاصد کے لیے سعی ترک کر دیں گے تو خود خداوند تعالیٰ ہماری کارسازی کرے گا۔

کما قیلؒ ؎

ما کارِ خویش را بخداوندِ کارساز

بسپردہ ایم تا کرمِ اُو چہا کند

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

از فراموشی بفکرِ کارِ خود افتادۂ

ورنہ در روزِ ازل سامان کارت دادہ اند

10

طِفل تا گِیرا و تا پویا نبود

مَرکبش جز گردنِ بابا نبود

ترجمہ: (اس کی مثال یہ کہ) بچہ جب تک (اپنے ہاتھ سے کسی چیز کا سہارا) پکڑنے والا اور (اپنے پاؤں سے) دوڑنے والا نہیں ہوا۔ وہ اپنے باوا ہی کی گردن پر چڑھا چڑھا پھرتا رہا۔

مطلب: طفلِ شیر خوار چونکہ قویٰ و جوارح سے کام نہیں لیتا اور کسب و سعی اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے اس کے رزق و روزی اور آرام و راحت کے سامان خود بخود موجود ہو جاتے ہیں۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

طفلِ را ہر سرِ انگشت بود پستا نے

روزیِ بیخبراں دست و دہاں مے باشد

11

چو فضولی کرد و دست و پا نمود

در عنا افتاد و در کور و کبود

ترجمہ: (پھر) جب اس نے فضولی کی اور ہاتھ پاؤں نکالے تو مشقت میں پڑ گیا اور اندھا دھند کاموں اور سیہ کاریوں میں مبتلا ہو گیا۔

مطلب: متوکل آدمی کی مثال شیر خوار بچہ کی سی ہے جس کے خورد و نوش اور لباس و پوشش اور دیگرِ سامان راحت کے دوسرے لوگ کفیل ہیں۔ اسی طرح متوکل کا کفیل خود اللہ تعالیٰ ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

نگارندۂ کودک اندر شکم

نویسندۃ عمر و روزی ست ہم

اور غیر متوکل کی مثال اس شخص کی سی ہے جو بالغ و عاقل ہے اور اپنی ضروریات کی کفالت کا بار خود اس کی اپنی گردن پر ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

تا لبِ نانے بدست آرم چہ خونہا میخورم

دستِ کوتہ را تنورِ رزق چاہِ بیژن ست

12

جانہائے خلق پیش از دست و پا

مے پریدند از وفا سُوئے صفا

ترجمہ: مخلوق کی روحیں تعلقِ اجسام سے پہلے کمالِ (تجرّد) کے سبب سے عالمِ غیب میں پرواز کرتی پھرتی تھیں۔

مطلب: یعنی ارواح عالمِ ناسوت میں آنے سے پہلے عالمِ غیب میں عروجِ روحانی کرتی پھرتی ہیں جس سے حق تعالیٰ کی معرفت و محبت مراد ہے۔ اس سے بیدست و پائی کی تائید مطلوب ہے، اگرچہ توکل کی بیدست و پائی جو یہاں اصل مقصود ہے ایک امرِ اختیاری ہے اور عالمِ غیب میں ارواح کی بے دست و پائی اضطراری ہے، لیکن سلبِ اختیار و ترکِ تدبیر دونوں میں مشترک ہے۔ اس لیے ایک کے قیاس سے دوسرے کی تائید ہو سکتی ہے۔ اور عالمِ غیب وہی عالم ہے جس کو آغازِ مثنوی میں نیستاں سے تعبیر کر کے روح کے اس سے جدا ہونے کا رونا بیان کیا ہے۔

13

چوں بامْرِ اِھْبطُوْا بندی شدند

حبسِ خشم و حرصِ و خور سندی شدند

ترجمہ: جب (ارواح) ”اِھْبطُوْا“ کے حکم سے (قیدِ جسم میں) مقیّد ہوئیں تو غضب و حرص و فرح (وغیرہ صفات بشریہ) میں گرفتار ہو گئیں۔

مطلب: جب حضرت آدم علیہ السلام سے گیہوں کا دانہ کھانے کی غلطی سرزد ہوئی تو حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو اور ساتھ ہی ابلیس کو حکم ہوا ﴿اِھْبِطُوْا مِنْھَا﴾ (البقرۃ: 38) ﴿بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ﴾ (البقرۃ: 36) ”اس مقام سے نیچے اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔“ ﴿وَ لَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ﴾ (البقرۃ: 36) ”اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا اور ایک وقت خاص تک سامان زندگی ہے“۔ اور ان کو یہ ہبوط کا حکم تعلقِ اجسام کے بعد ہوا تھا، پس یہاں شعر مذکور میں جو ”اِھْبِطُوْا“ کا ذکر ہے اس سے وہ ”اِہْبِطُوْا“ مراد نہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کو کہا گیا تھا، بلکہ اس سے ﴿وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوْحِیْ﴾ (الحجر: 29) (میں نے اس میں اپنی روح ڈال دی) کا مضمون مقصود ہے، اور اس کی تعبیر ہبوط بمعنی تنزّل و افتادگی کے لفظ سے اس لیے کی کہ روح کا عالمِ قدس سے اتر کر عالمِ ناسوت میں قید جسم کے ساتھ تختہ بند ہو جانا ایک تنزّل کی حالت ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

چگونہ طوف کنم در سرائے عالمِ قدس

چو در سراچۂ ترکیب تختہ بند تنم

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

حالِ جانِ پاک را در قید تن داند کہ چیست

ہر کہ او مصر را در چاہِ زنداں دیدہ است

نتیجہ یہ کہ بے دست و پائی کی حالت جو روح کو عالمِ قدس میں میسر تھی کس قدر عروج و ترقی کی حالت تھی، لہٰذا اب با اختیار خود بے دست و پائی یعنی قیدِ جسمانیت سے مجرّد و آزاد ہو جانا چاہیے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

کنوں کہ قوتِ بازوئے رستمی داری

برار از چہ بابل روانِ روشن را

اوپر جو بچے کی تمثیل دی تھی اب اس کو منطبق کرتے ہیں۔

14

ما عیال حضرتیم و شِیر خواہ

گفت اَلْخَلْقُ عِیَالٌ لِلْاِلٰہِ

ترکیب: ”گفت“ کا فاعل ضمیر مستتر ہے جو آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کی طرف راجع ہے۔

ترجمہ: ہم حضرتِ (باری تعالیٰ) کے عیال اور شیر خوار ہیں (چنانچہ جناب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے) فرمایا ہے کہ ”اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہ“ یعنی مخلوق اللہ کی عیال ہے۔

مطلب حضرت انس اور عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جنابِ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ”اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہِ، فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عِیَالِہٖ“ (مشکوٰۃ) یعنی "مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، پس مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص سب سے زیادہ محبوب ہے جو اس کے عیال کے ساتھ نیک سلوک کرے“۔ قال الحالی المرحوم ؎

یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہُدیٰ کا

کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

وہی دوست ہے خالقِ دو سَرا کا

خلائق سے ہے جس کا رِشتہ وِلا کا

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

مقصود اس مقام پر یہ ہے کہ جب مخلوق اللہ کا کنبہ ہے تو کیا وہ اس کی پرورش نہیں کرے گا؟ کیوں نہیں۔ کما قیل ؎

اعتمادِ رزق بر رازق مرا امروز نیست

تختۂ مشقِ توکّل بود در گہوارہ ام

15

آنکہ او از آسماں باراں دہد

ہم تواند کُو برحمت ناں دہد

ترجمہ: وہ (حضرت باری) جو آسماں سے بارش عطا کرتا ہے (اور اس کی طرف سے زمین سے رزق پیدا کرنے کا سامان ہے) اس کو یہ بھی قدرت ہے کہ ہم کو (اپنے) کرم سے (بلا سعی) روٹی دے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ کو ہر طرح قدرت ہے کہ با وسیلہ و بلا وسیلہ جس طرح چاہے روزی دے۔ جو قادرِ برحق بارش برسانے اور کھیتی اگانے کی قدرت رکھتا ہے اور بندے کو اس کے عقل و تمیز، فہم و فراست، صحت و تندرستی اور عیش و راحت کے سامان دیے ہیں، کیا اُسے ایک روٹی دینے کی قدرت نہیں اور وہ ایک اتنے عطیے کے لیے بندے کو بھلا دے گا؟ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

فراموشت نکرد ایزد دراں حال

کہ بودی نطفۂ مدفون و مدہوش

روانت داد و طبع و عقل و ادراک

جمال و نطق ورائے و فکرت و ہوش

دہ انگشت مرتب کرد بر کف

دو بازویت مرتب ساخت بر دوش

کنوں پنداری اے ناچیز ہمت

کہ خواہد کردنت روزی فراموش

مگر خداوند تعالیٰ کی قدرتِ تامّہ کے اعتقاد اور اس پر کامل توکّل کرنے کا یہ منشا نہ ہونا چاہیے کہ ہم سعی و کسب نہ کریں، کیونکہ یہ خیال درست نہیں۔ کَمَا بَیَّنَّا صَرَاحَتًا مِرَارًا۔

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں۔ ”وَ قَدْ یُظَنُّ اَنَّ مَعْنَی التَّوَکُّلِ تَرْکُ الْکَسْبِ بِالْیَدْ وَ تَرْکُ التَّدْبِیْرِ بِالْقَلْبِ وَ السُّقُوْطُ عَلَی الْاَرْضِ کَالْخِرْقَۃِ الْمُلْقَاۃِ اَوْ کَاللَّحْمِ عَلَی الْوَضْمِ وَ ھٰذَا ظَنُّ الْجُھَّالِ فَاِنَّ ذٰلِکَ حَرَامٌ“۔ یعنی ”بعض لوگوں کا خیال ہے کہ توکّل کا معنٰی یہ ہے کہ ہاتھوں سے کمانا اور دل سے تدبیر سوچنا ترک کر دیا جائے، اور زمین پر اس طرح بیکار و بے حس پڑے رہیں جس طرح کپڑے کا چیتھڑا گرا دیا ہو، یا قصائی کے تختے پر گوشت کا لوتھڑا پڑا ہو، اور یہ جاہلوں کا خیال ہے جو حرام ہے“۔