دفتر اول: حکایت: 50
باز ترجیح نہادنِ شیر جہد را بر توکّل و تسلیم
شیر کا پھر کوشش کو توکّل و تسلیم پر ترجیح دینا
1
گفت آرے گر توکّل رَہْبَر ست
ایں سبب ہم سُنَّتِ پیغمبرؐست
ترجمہ: (شیر نے) کہا اگر توکّل (نیک) راہ دکھاتا ہے تو یہ (اختیارِ) سبب بھی پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلّم کی سُنّت ہے۔
مطلب: پہلے فریق نے جو کہا تھا کہ توکّل کرو اور سعی و کسب کو چھوڑ دو، تو یہ اس کا جواب ہے کہ بے شک توکّل اچھا ہے مگر اختیارِ سبب یعنی سعی کو کیوں چھوڑا جائے؟ یہ کوئی اس سے منافی تو نہیں بلکہ مسنون ہے۔ بہتر یہ ہے کہ توکّل بھی ہو اور سعی بھی ہو۔ صرف توکّل کے بہانہ پر ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا دین و دانش کے خلاف ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
بدوشِ توکّل مَنِہ یارِ خود را
ولی نعمتِ خویش کن کارِ خود را
اب سعی مع التّوکل کے مسنون ہونے کی نقلی دلیل پیش کی جاتی ہے۔
2
گفت پیغمبرؐ بآوازِ بلند
بر توکّل زانوئے اشتر بہ بند
ترجمہ: (چنانچہ) جنابِ پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلّم نے با آواز بلند (یا بوضاحت) فرمایا ہے کہ توکل کے ساتھ اونٹ کے گھٹنے بھی باندھ دو۔
مطلب: صورتِ واقعہ یہ ہے کہ ایک اعرابی جنابِ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد کے دروازہ میں بٹھا دیا اور کہا ”تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ“ یعنی ”میں اس کی حفاظت کے لیے اللہ پر توکّل کرتا ہوں“۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس کو فرمایا ”اِعْقِلْھَا وَ تَوَکَّلْ“۔ (ترمذی) یعنی توکّل کے ساتھ اس کا زانو بھی باندھ دو“۔ جس سے مقصد یہ ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے اسبابِ ظاہری کو بھی کام میں لاؤ اور توکّل بھی کرو۔ اسبابِ ظاہری توکّل کے خلاف نہیں ہیں بلکہ صحیح توکّل یہ ہے کہ استعمالِ اسباب کے ساتھ حافظِ حقیقی اللہ تعالیٰ کو سمجھے اور یقین رکھے کہ اسبابِ ظاہری مؤثّر بالذّات نہیں ہیں۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
چو موجِ بے خطر از بحر می رسید بکنار
بدست ہر کہ عنانِ توکّلے دارد
3
رمز اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللہ شنو
از توکّل در سبب کاہِل مشو
ترجمہ: ”اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللہِ“ (یعنی کسب کرنے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے) کا نکتہ (ہم سے) سنو (اور) توکّل کی وجہ سے (اختیارِ) سبب میں سستی نہ کرو۔
مطلب: ”اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللہِ“ حدیث نہیں ہے، بلکہ ایک مشہور قول ہے۔ نکتہ اس میں یہ ہے کہ کاسِب سے مراد وہ شخص ہے جس میں سعی اور اختیارِ سبب کے ساتھ توکّل بھی پایا جائے، یعنی وہ اپنے کسب و سعی پر مغرور اور اس کو مؤثرِ مستقل ماننے والا نہ ہو، ورنہ وہ حبیب اللہ کیونکر ہو سکتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے۔ اور اس کے حبیب اللہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قائم کئے ہوئے اسباب اور اس کے بنائے ہوئے وجوہِ مکاسِب کا تارک نہیں ہے بلکہ اس کی حکمت کے مقتضا پر چلنے والا ہے۔
سعی و کسب کے منافیِ توکّل نہ ہونے پر قرآن مجید اور حدیث شریف دونوں ناطق ہیں، کیونکہ ان میں جہاں توکّل کے ایک اعلیٰ فضیلت اور مایۂ سعادت ہونے کے روشن دلائل موجود ہیں، وہاں سعی و تدبیر یا کسبِ رزق اور اختیارِ اسباب کی اباحت بلکہ تاکید بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾ (البقرہ: 198) یعنی ”تم پر گناہ نہیں کہ اپنے پروردگار سے مالِ حلال کی خواہش کرو“ اور فرمایا ﴿فَانْتَشِرُوْ فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ﴾ (الجمعہ: 10) ”تم زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضَل چاہو یعنی روزی کماؤ“۔
عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”مَا اَکَلَ اَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِّنْ اَنْ یَّاْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ، وَ اِنَّ نَبِیَّ اللہِ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ یَاْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ﴾ (مشکوٰۃ) یعنی ”کسی نے کبھی بھی کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے کھائے، اور یہ کہ اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی محنت سے کھاتے تھے۔“
دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ کہیں توکّل کے زعم میں اختیارِ اسباب سے غافل و کاہل نہ ہو جانا۔ جو حکمتِ الہیّہ کی خلاف ورزی اور ایک طرح سے خود کشی ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
بے تردد دامنِ روزی نمے آید بدست
میکند با کاملاں ایں نکتہ تلقین آسیا
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے ایک بے دست و پا لومڑی دیکھی، حیران تھا کہ کہاں سے کھاتی ہو گی، اتنے میں ایک شیر نے شکار مارا حسبِ ضرورت اس میں سے کچھ کھایا اور چلا گیا۔ باقی ماندہ لومڑی کے کام آیا۔ اسی طرح اگلے روز اس کی خوراک کی کوئی صورت نکل آئی۔ اس شخص کے دل میں یہ بات جاں گزیں ہو گئی کہ سعی و کوشش فضول ہے۔ لومڑی کی طرح سب کو خداوند تعالیٰ بلا طلب روزی دیتا ہے، یہ سوچ کر وہ دستِ غیب کے بھروسے پر گوشہ نشین ہو گیا۔ جب دو تین روز فاقے میں گذر گئے اور کسی طرف سے روزی نہ ملی تو ہاتفِ غیب نے کہا ؎
برو شیرِ درندہ باش اے دغل
مپندار خود را چو روباہِ عل
چناں سعی کن کز تو ماند چو شیر
چو روبہ چہ باشی برا ماندہ سیر
چو شیراں کرا گردن فربہ است
گر افتد چو روبہ سگ از وے بہ است
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کیمیائے سعادت میں فرماتے ہیں ”توکّل در اسباب بترکِ آں گفتن نبود بلکہ آں بود کہ اعتماد بر فضلِ خدا تعالیٰ بود نہ بر آں۔ پس اگر کسے در غارے نشیند کہ رہگذرِ ہیچ خلق آنجا نبود۔ و آنجا گیاہ ہم نبود۔ و گوید کہ من توکّل مے کنم۔ ایں حرام بود اور خود را ہلاک کردہ باشد۔ و سنّۃُ اللہ را ندانستہ“۔
4
در توکّل کسب و جہد اولیٰ ترست
تا حبیبِ حق شوی ایں بہتر ست
ترجمہ: توکّل میں کسب اور کوشش بہتر ہے۔ تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے پیارے بن جاؤ، یہ بہت اچھی بات ہے۔
مطلب: بے شک توکّل اختیار کرو۔ یہ ایک اعلٰی روحانی فضیلت ہے، مگر ساتھ ہی اسبابِ رزق اور وسائلِ معیشت سے بھی دست بردار نہ ہونا۔ جیسے اوپر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے قول میں گذر چکا۔ اور کتنی اچھی بات ہے کہ کسب کی بدولت تم اللہ کے حبیب بن جاؤ۔
الخلاف: یہ شعر مثنوی کے بعض نسخوں میں نہیں ہے۔
5
رَو توکل کن تو کسب اے عَمُو
جہد مے کن کسب مے کن مُو بمُو
ترجمہ: بڑے میاں! جاؤ کسب کے ساتھ توکّل کرو۔ کوشش کرو (اور) پوری پوری کمائی کرو۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
عرقِ سعی محال است کہ گوہر نشود
میرسید ذرّہ بخورشید بلند آخر کار
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
توقّع مدار اے پسر گر کسی
کہ بے سعی ہرگز بجائے رسی
6
جہد کن جدّے نما تا وا رہی
گر تُو از جَہدش بمانی ابلہی
ترجمہ: کوشش کرو۔ تندہی کر دکھاؤ تاکہ (تم مشکلاتِ معیشت سے) نجات پاؤ اور اگر اس (حکیمِ مطلق اور قادرِ برحق) کے (مقرر کئے ہوئے) جدّ و جہد سے قاصر رہ گئے تو تم احمق ہو۔
مطلب: اس شعر میں اشارہ ہے اس امر کا کہ اسبابِ معیشت اور وجوہِ مکاسِب اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و قدرت سے مقرر کئے ہیں اور ان کو اختیار کرنا عین سنت اللہ پر عمل ہے۔ ان اسباب کو ترک کرنا سنت اللہ سے جاہل و بے خبر رہنا ہے جو سراسر حماقت و بلاہت ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ ایک زاہد کسی ایسی غار میں متوکّل ہو کر بیٹھ گیا جہاں نہ گھاس تھی نہ پانی۔ ایک ہفتہ بھوک کاٹنے کے بعد جب بہت تنگ آ گیا تو دُعا کی کہ الٰہی تو نے جو رزق میرے مقسوم میں لکھ دیا ہے مجھے کیوں نہیں ملتا، یا تو مجھے میرا رزق دے ورنہ میری جان قبض کر لے۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آیا۔ ”اَرَدْتَ اَنْ تُذَھِبَ حِکْمَتِیْ بِذُھْدِکَ فِی الدُّنْیَا وَمَا عَلِمْتَ اَنِّیْ اَرْزُقَ عَبْدِیْ بِاَیْدِیْ عِبَادِیْ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَرْزُقَہٗ بِیَدِ قُدْرَتِیْ“۔ ”کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے ترکِ دنیا سے ہماری حکمت کو توڑ دو؟ اور کیا تم جانتے نہیں کہ ہمیں اپنے دستِ قدرت سے اپنے بندے کو رزق دینے سے اپنے بندوں کے ہاتھوں سے دلانا زیادہ محبوب ہے۔“ امامِ ممدوح آگے چل کر فرماتے ہیں۔ ”التَّبَاعُدُ عَنِ الْاَسْبَابِ کُلِّھَا مُرَاغَمَۃٌ لِلْحِکْمَۃِ وَ تَجَھُّلٌ بِسُنَّۃِ اللہِ تَعَالیٰ وَ الْعَمَلُ بِمُوْجَبِ سُنَّۃِ اللہِ تَعَالیٰ مَعَ الْاِتِّکَالِ عَلَی اللہِ عَزَّوَجَلَّ دُوْنَ الْاَسْبَابِ لَا یُنَاقَضِ التَّوَکُّلِ﴾ یعنی ”تمام اسباب سے کنارہ کش ہو جانا حکمتِ الٰہیہ کے ساتھ مقابلہ کرنا اور سنت اللہ کو کچھ نہ سمجھنا ہے اور سنۃ اللہ کے مقتضا پر عمل کرنا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ بھی ہو اسباب پر بھروسہ نہ ہو توکل کے مناقض نہیں“۔
لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ جدوجہد بھی مِن کُلِّ الوجوہ مستحسن نہیں، بلکہ اگر کوئی معصیت مقصود ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے سعی و جہد بھی معصیت ہے۔ علٰی ہذا القیاس اگر مقصد مباح ہو مگر اس کے حاصل کرنے کے ذرائع معصیت ہوں تو اس کے لیے سعی کرنا بھی معصیت ہے، اور اگر ذرائع مباح ہوں اور مقصد بھی مباح اور بلحاظِ حاجت ضروری ہو لیکن ان ذرائع پر مقصود کا ترتّب غیر یقینی ہو تو اس کے لیے سعی ضعفاء و اقویاء سب کے لیے جائز ہے۔ مگر اقویاء کے لیے ترک افضل ہے۔ نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بشاخے چہ باید در آویختن
کہ نتواں ازو میوہ ریختن
اگر مقصدِ دُنیاوی مباح مگر غیر ضروری ہو اور اس کے اسباب بھی جائز ہوں تو اس کا ترک افضل ہے۔ نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چو در دانہ باشد تمنائے سود
کدیور در آید بکشت و درود
چو غلہ بود کاسد و کم بہا
کند بر دگر کار کردن رہا