دفتر اول: حکایت: 49
باز ترجیح نہادنِ نخچیراں توکّل را بر جُہد
شکاروں کا پھر توکّل کو کوشش پر ترجیح دینا
1
جملہ گفتند اے امیرِ با خبر
اَلْحَذَرْ دَعْ لَیْسَ یُغْنِیْ عَنْ قَدَر
ترکیب: ”دَعْ“ کا مفعول بہ ضمیر منصوب محذوف ہے جو ”اَلْحَذَرْ“ کی طرف راجع ہے۔ ”یُغْنِیْ“ کا فاعل ضمیر مستتر عائد بہ ”اَلْحَذَرْ“ ہے۔
ترجمہ: سب (جانوروں) نے کہا اے فرمانروائے دانا! (اپنی اس) چوکسی کو چھوڑ دے۔ وہ تقدیر کے آگے کچھ فائدہ نہیں دیتی (پس توکّل اختیار کر)۔
مطلب: یہاں سے شیر اور نخچیروں کا مناظرہ شروع ہوتا ہے۔ شیر تدبیر و سعی کو افضل قرار دیتا ہے۔ نخچیر توکّل و تسلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور دونوں فریقوں کے دعویٰ اور دلائل اپنے اپنے اعتبار سے درست ہیں۔ سعی و توکّل کا اسی قسم کا ظاہری فریبِ تعارض یہودی وزیر کے متعارض طوماروں میں بھی تھا۔ جس کی تفصیل اس شرح کے پہلے حصے میں گذر چکی ہے اور وہاں رفعِ تعارض اور توجیہِ مطابقت پر کافی بحث ہو چکی ہے، یہاں بھی حسبِ ضرورت اس پر کچھ روشنی ڈالی جائے گی۔ مذکورہ قول کا مدّعا یہ ہے کہ سعیِ نجات اور تدبیرِ سلامتی غیر نافع ہے، مگر اس کا غیر نافع ہونا درجۂ عموم و کلّیت میں صحیح نہیں بلکہ خلافِ بداہت ہے۔ ہاں اگر سعیِ انسان تقدیرِ الٰہی کے خلاف ہو تو غیر نافع ہوتی ہے۔ ؎
جامی مکن اندیشہ کہ تغییر نیاید
در حکمِ ازل ہرچہ مقرر شدہ باشد
لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ انسان جو تدبیر کرے وہ تقدیرِ الٰہی کے موافق ہو، پھر اس کے مفید ہونے میں کیا کلام ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
گرچہ دانم کہ بجائے نبرد راہِ غریب
من ببوئے خوشِ آں زلفِ پریشان بروم
اور یہ کس کو معلوم ہے کہ وہ جو سعی کرتا ہے وہ تدبیرِ الٰہی کے موافق نہیں، لہٰذا بہر حال سعی و تدبیر شرط ہے۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
کہ گفت بجیحوں درانداز ز تن
چو افتادہ ہم دست و پائے بزن
قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بکوشش گرفتند شاہاں خراج
ز مادر نیاورد کس تخت و تاج
اگر سرفرازست وگر زیردست
بہمت بجائے رسد ہر کہ ہست
الخلاف: بعض نسخوں میں ”جملہ گفتند اے با خبر “ہے۔ شیر کو امیر کے کلمہ سے خطاب کرنا بایں معنٰی زیادہ موزوں ہے کہ وہ امیر السّباع اور سلطانُ الوحوش مانا جاتا ہے۔ مگر چونکہ وہ اس بحث میں توکّل و تسلیم کی صوفیانہ تعلیم کے مقابلہ میں سعی و تدبیر کے حکیمانہ پہلو کا طرف دار ہے لہٰذا اس کے لیے حکیم کا لقب بھی بیجا نہ ہوگا۔
2
در حذر شوریدنِ شور و شرست
رَو توکّل کن توکّل بہتر ست
صنائع: ”شوریدنِ شور و شر“ میں جناسِ ناقص ہے۔
ترجمہ: بچاؤ (کی کوشش) میں شور و شر پیدا ہوتا ہے۔ جاؤ توکّل کرو۔ توکّل سب سے بہتر ہے۔
مطلب: حذر و احتیاط کے موجبِ شور و شرر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ سعیِ نجات اور تدبیرِ سلامتی کو مؤثرِ مستقل سمجھتے ہیں، جیسے کہ حکمائے طبیعین اور منکرینِ تقدیر کا مسلک ہے، وہ کفر و زندقہ کے ساتھ مطعون ہیں کیونکہ یہ عقیدہ شرعًا حرام و باطل ہے۔ اور اہلِ حق کا مذہب یہ ہے کہ سعی و تدبیر کی تاثیر غیر مستقل ہے۔ تو جب سعی و تدبیر کا معاملہ فریقین میں بحث و تکرار اور شور و شر کا موجب ہے تو اس سے کنارہ کشی ہی بہتر ہے، یا یہ مطلب ہے کہ اس بچاؤ اور احتیاط میں لوگوں سے بدگمانی، پہلو تہی، بے مروتی، ترکِ رفاقت کرنی پڑتی ہے جس سے باہم شکوک و شکایت اور شور و شر پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے توکّل اچھا ہے کہ نہ اس میں اختیارِ تدبیر سے کسی پر فسادِ عقائد کا طعن وارد ہوتا ہے اور نہ کسی کو ایک محتاط کی طرف سے اس کی بدگمانی وغیرہ کا شکویٰ اور شکایت ہو گی۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
آنانکہ بکنجِ عافیت بنشستند
دندانِ سگ و دہانِ مردم بستند
کاغذ بدریدند و قلم بشکستند
وز دست و زبانِ حرفگیراں رستند
یہاں جو ترکِ سعی کی تعلیم دی گئی ہے وہ اسی حد تک درست ہے جب کہ وہ سعی کسی ناجائز فتنہ و فساد کی موجب ہو یا فسادِ عقیدہ پر مشتمل ہو یا کسی معصیت کے لیے کی جائے یا کسی ایسے دنیاوی امرِ مباح کے لیے کی جائے جس کے اسباب دین کے لیے مضر ہوں۔ لیکن جو سعی کسی دینی امرِ واجب یا مستحب کے لیے کی جائے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ یا کسی ایسے دنیوی امرِ مباح کے لیے کی جائے، جو ضروری ہو اور اس کے اسباب پر مقصد کا ترتّب بھی یقینی ہو، مثلًا جائز نوکری یا کسی مباح پیشے سے اپنا اور عیال کا پیٹ پالنے کی سعی تو ایسی سعی نیک اور مشروع ہے اور اس کا ترک محمود نہیں نہ اس کا ترک کرنا توکّلِ مشروع کے ترک کو مستلزم ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر چند فلک گرمِ عداوت گردد
دورے نزند کہ رنج راحت گردد
رو قطرۂ چند از عرقِ سعی بریز
شاید عسرت بدل بہ عشرت گردد
3
با قضا پنچہ مزن اے تند و تیز
تا نگیرد ہم قضا با تو ستیز
ترکیب: ”تند و تیز“ صفات ہیں جن کا موصوف شیر یا جانور مقدر ہے۔
ترجمہ: اے تند و تیز (شیر) قضا کا مقابلہ نہ کر۔ مبادا قضا تجھ سے جنگ پر آمادہ ہو جائے۔
مطلب قضاءِ الٰہی کا مقابلہ بے معنٰی اور باطل ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
با حکمِ ایزدی چہ بود گیر و دار خلق
خاشاک را بآبِ رواں اختیار نیست
بحث و تکرار میں عمومًا حق و انصاف ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور اکثر حریف کے صحیح قول کو الزامًا غلط پر محمول کیا جاتا ہے، یہاں بھی یہی حال ہے کہ شیر کے دعوائے سعی و تدبیر کو مقابلۂ قضا کے دعویٰ پر حمل کیا ہے، حالانکہ وہ قضا کے مقابلہ کا مدّعی نہیں بلکہ صرف سعی و تدبیر کا قائل ہے، اور یہ کوئی قضا کا مقابلہ نہیں۔ ورنہ اعداء کی مدافعت کرنا، سردی گرمی سے بچنا اور امراض کا علاج کرنا بھی قضائے الٰہی کا مقابلہ ہوتا۔ حالانکہ یہ امور مباح بلکہ مستحسن ہیں اور قضا کا مقابلہ کرنے کا ارادہ باطل اور ایسا عقیدہ رکھنا حرام ہے۔
4
مردہ باید بود پیشِ حکمِ حق
تا نیاید زحمت از رَبُّ الْفَلَق
ترجمہ: خدا کے حکم کے آگے (دم نہ مارنا چاہیے بلکہ) مردہ بن جانا چاہیے کہ مبادا (نا فرمانی کی پاداش میں) خدائے صبح آفرین کی طرف سے عذاب نازل ہو جائے۔
مطلب: یہ مضمون فی نفسہٖ اس لحاظ سے صحیح ہے کہ یہ اطاعتِ حق بدرجۂ اَتمّ کی تعلیم پر مشتمل ہے اور وہ حزم و احتیاط اور حذر و احتراز کے منافی نہیں ہے۔ لیکن یہاں اس کا ایراد اس انداز سے ہوا ہے کہ گویا وہ اس سے منافی ہے، اور یہ فریقِ مناظر کا محض مغالطہ ہے۔ جس کی تنقیح خود فریقِ ثانی کے جواب میں موجود ہے۔