دفتر اول: حکایت: 48
جوابِ شیر نخچیراں را و بیانِ خاصیّتِ جہد
شیر کا شکارکو جواب دینا اور کوشش کی خاصیت کا بیان
1
گفت آرے گر وَفا بِینم نہ مکر
مکرہا بس دیدہ ام از زید و بکر
ترکیب: ”گر وفا الخ“ شرط۔ ”آرے“ معناً جملہ فعلیہ اس کی جزا۔ دوسرا مصرعہ جملہ معترضہ یہ سب مل کر مقولہ ہُوا ”گفت“ کا۔
ترجمہ: شیر بولا مجھے منظور ہے بشرطیکہ میں (آپ لوگوں سے) وفا (کا سلوک) دیکھوں، نہ (کہ) مکر (کا)۔ میں ایرے غیرے لوگوں سے بہتیرے دھوکے کھا چکا ہوں۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
پیر پیمانه کش ما کہ روانش خوش باد
گفت پرہیز کن از صحبتِ پیماں شکناں
2
من ہلاکِ قول و فعل مردمم
من گزیدۂ زخمِ مار و کژدمم
صنائع: مار و کژدم استعارہ مصرحہ ہے موذی فتنہ گر اور شریر آدمیوں سے۔
ترجمہ: میں لوگوں کی زبانی اور عملی دھوکا بازیوں سے تباہ ہو چکا ہوں۔ میں سانپ اور بچھو سے ڈنگ کھا چکا ہوں (یعنی موذی لوگوں سے اذیت اٹھا چکا ہوں)۔
3
نفس ہر دم از درُونم در مکیں
از ہمہ مردم بتر در مکر و کیں
ترجمہ: (غیروں سے تو کیا شکایت خود میرا) نفس میرے اندر تاک لگائے (بیٹھا) ہے جو مکر اور کینے میں سارے لوگوں سے بدتر ہے۔
مطلب: یہاں سے مولانا نفسِ امّارہ کے مکر و فریب کے بیان کی طرف انتقال فرماتے ہیں اور تمام مثنوی اس قِسم کے انتقالات سے معمور ہے۔ یہی باتیں ہر قصے کی جان اور کلام کا مغز ہیں جن کی بحث و تمحیص کی غرض سے یہ قصے بیان کئے گئے ہیں، ورنہ خالی افسانوں کہانیوں سے کیا مقصد تھا۔ عبرت گیر طبائع کا حصہ یہی نتیجہ اور سبق ہے جو ان قصوں سے حاصل ہوتا ہے اور جس کی نسبت مولانا اوپر فرما آئے ہیں کہ ”و اندراں قصہ طلب کن حصہ را“۔
فرماتے ہیں کہ موذی و مفسد لوگوں کے شر کا جو کھٹکا ہے سو ہے، خود ہمارا مارِ آستین یعنی نفس ان سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جو ہمارے ہی باطن میں مخفی ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
آنہا کہ زخم از سگِ خاموش خوردہ اند
از نفسِ آرمیدہ حذر بیشتر کنند
شیطان نے جو ہمارے متعلق اپنی بدگمانی ظاہر کی تھی ہمارا نفس عملًا اس کی تصدیق کرتا ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نہ ابلیس در حقِ ما طعنہ زد
کز خیال نیاید جز افعالِ بد
فغاں از بدیہا کہ در نفسِ ماست
کہ ترسیم شود ظنِ ابلیس راست
لہٰذا دوسرے موذی و مفسد لوگوں کی نسبت اس باطنی موذی سے زیادہ ڈرنا چاہیے ؎
ہر کس از دستِ غیر نالہ کند
سعدی از دستِ خویشتن فریاد
4
گوشِ من لَا یُلْدَغُ الْمُوْمِنُ شنید
قولِ پیغمبرؑ بجان و دلِ گزید
ترجمہ: میرے کانوں نے حدیث ”لَا یُلْدَغُ۔۔۔ الخ“ سن لی ہے (اور) اس قولِ نبوی کو دل و جان سے اختیار کر لیا ہے۔
مطلب: ”عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَّاحِدٍ مَرَّتَیْنِ“۔ یعنی ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مومن آدمی ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا“ (مشکوۃ) اس حدیث کا مورد ابو عزہ نام ایک کافر شاعر ہے جو دین کا دشمن تھا۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی ہجو کیا کرتا اور اپنے زورِ بیان سے کفارِ عرب کو اسلام کی عداوت پر اکساتا رہتا تھا۔ غزوۂ بدر میں گرفتار ہو کر آیا تو اس نے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم سے رحم کی درخواست کی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے یہ اقرار لے کر اُسے چھوڑ دیا کہ پھر اسلام کی ہجو اور دشمنانِ اسلام کو فتنہ و فساد پر آمادہ نہیں کرے گا، مگر وہ اپنے عہد و اقرار پر قائم نہ رہا۔ کما قیل ؎
ز بد گوہر نیاید ہیچگہ ترکِ بدی کردن
نگردد کُند دنداں از گزیدن مار و افعی را
غرض وہ پھر عداوت و بغض کا اظہار کرنے لگا۔ آخر غزوۂ احد کے موقع پر دوبارہ پکڑا گیا تو اس نے پھر رحم کے لیے التماس کی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا۔ ”لَا یُلْدَغُ الْمُوْمِنُ۔۔۔الخ“ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہوشیار دینی غیرت رکھنے والے اور اسلام کے حامی مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ ایسے غدار و سرکش دشمنِ اسلام کو بار بار معافی دے کر اس کے دھوکے میں نہ آئے، بلکہ اس کو اس کی غداری و بدعہدی کی مناسب سزا دے۔ اگرچہ اس حدیث کا مورد و محل خاص دینی معاملہ ہے یعنی مسلمان آدمی دینی معاملے میں دوبارہ دھوکا نہ کھائے۔ مگر حدیث کے الفاظ دینی و دنیوی معاملات دونوں کے لیے عام ہیں اور اس لحاظ سے اس کو شیر کا مقولہ قرار دے سکتے ہیں کہ وہ وُحوش و دواب کے دھوکے میں آنا نہیں چاہتا تھا حالانکہ ان کا معاملہ محض دنیوی تھا۔ لیکن اگر اس کو مولانا کے مقولہ کا تتمہ قرار دیا جائے (کَمَا اَشَارَ اِلَیْہِ بَحْرُ الْعُلُوْمِؒ) تو اس تکلیف کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ پھر مطلب یہ ہو گا کہ مومن آدمی بار بار نفس پر رحم نہیں کرتا اور اس کے دھوکے میں نہیں آتا۔ ؎
اژدہا میشود ایں مار ز مہلت صائب
رحم بر نفس نمودن ز مسلمانی نیست