دفتر اول: حکایت: 47
قصۂ نخچیراں و بیانِ توکل و ترکِ جہد کردن
شکار کے جانوروں کا قصہ، توکّل اور کوشش ترک کرنے کا بیان
مولانا روم قدّس سرہٗ پیچھے فرما چکے ہیں کہ ”خبردار! کوئی ملمّع ساز تم کو گمراہ نہ کر دے۔ خبردار! ضعیف الاعتقادی تم کو (ہلاکت کے) کنویں میں نہ گرا دے۔ اب فرماتے ہیں کہ کسی شیخِ مزوّر کے مکر و فریب سے دھوکا کھا کر چاہِ ضلالت میں گرنے کی مثال ویسی ہی ہے جیسے وہ نقل مشہور ہے کہ ایک خرگوش شیر کو دھوکا دے کر کنویں پر لے گیا اور اس نے پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خیال کیا کہ یہ میرا حریف ہے۔ جھٹ اس پر حملہ کرنے کے لیے کنویں میں کود پڑا اور غرق ہو گیا اور فرماتے ہیں کہ یہ قصہ پوری طرح معلوم کرنا ہو تو۔ کلیلہ دمنہ کی کتاب پڑھو۔
1۔
از کلیلہ باز جو آں قِصّہ را
و اندراں قِصّہ طلب کن حصّہ را
ترکیب: پہلے مصرعہ میں ”قصہ“ کا مضاف الیہ ”تزویرِ پیر و ہلاکِ مرید“ مقدّر ہے اور ”حصہ“ کا مضاف الیہ ”عبرت و نصیحت“ مقدر ہے۔
ترجمہ: (کتاب) کلیلہ و دمنہ سے اس (شیخ مزوّر کی مکاری اور مرید کی تباہی) بحث کو (شیر و خرگوش کی مثال کے ضمن میں) تلاش کرو اور اس قصے میں (عبرت و نصیحت کا) حصّہ ڈھونڈو۔
2
در کلیلہ خواندہ باشی لیک آں
قشر و افسانہ بود نے مغزِ آں
ترکیب: ”خواندہ باشی“ کا مفعول بہ ”آں قصّہ“ مقدّر ہے۔
صنائع: ”قشر“ استعارہ ہے ”کلامِ بے نتیجہ“ سے۔
ترجمہ: کتاب ”کلیلہ و دمنہ“ میں تم نے (وہ قصّہ) پڑھا ہوگا، لیکن (وہاں) وہ (ایک بے نتیجہ بات ہونے کے لحاظ سے گویا) پوست (ہے) اور (محض ایک) کہانی ہے نہ کہ مغز (و نتیجہ)۔
حکایت نمبر 48
قصۂ نخچیراں و بیانِ توکّل و ترکِ جہد کردن
شکاروں کا قصّہ اور توکل اور ترکِ سعی کا بیان
1
طائِفہ نخچیر در وادیِ خوش
بود شان با شیر دائم کشمکش
ترکیب: ”شان“ مجرور کا جار حرفِ ”را“ مقدر ہے۔ یعنی ”شاں را”۔
ترجمہ: شکاروں کی ایک جماعت (کسی) سر سبز و شاداب وادی میں (رہتی تھی اور ایک) شیر سے ان کی کشمکش چلی آتی تھی۔
2
بس کِہ آں شیر از کمیں در مے ربود
آں چَرا بر جملہ ناخوش گشتہ بود
ترجمہ۔ چونکہ شیر (دبے پاؤں) گھات سے (ایک دو جانوروں کو) اٹھا لے جاتا تھا (اس لیے) وہ چراگاہ سب (جانوروں) کے لیے نا گوار ہو گئی تھی۔
صائبؒ ؎
چوں کشاید ز چمن خاطرِ شاد مرا
ہست گلبن بہ نظر پنجۂ صیاد مرا
3
حیلہ کردند آمدند ایشاں بہ شیر
کز وظیفہ ما ترا دادیم سیر
ترکیب: ”آمدند“ سے پہلے عاطف مقدر ہے۔ دوسرا مصرعہ بیان ہے ایں مبین کا۔ ”ایں گفتند“ جملہ مقدّرہ ہے۔
ترجمہ: (جانوروں نے) ایک تدبیر کی (اور) وہ شیر کے پاس آئے (اور کہنے لگے) کہ ہم نے تجھے پیٹ بھر راتب دینا (منظور) کیا۔
الخلاف: بعض نسخوں میں ”داریم“ رائے مہملہ کے ساتھ ہے، مگر ہمارے نزدیک ”دادیم“ بدالِ مہملہ کی روایت اقوٰی ہے۔ کیونکہ یہاں وہ جانور شیر سے عہد و اقرار کر رہے ہیں، اور عہد و مواثیق کے لیے صیغۂ ماضی زیادہ موزوں ہے۔
4
جُز وظیفہ در پئے صَیدے مَیا
تلخ بر ما تا نگردد ایں گیا
ترجمہ: (اس) راتب کے سوا (پھر) کسی شکار کے پیچھے نہ آنا، تاکہ ہم پر یہ (چرنے چگنے کی) گھاس ناگوار (کڑوی) نہ ہو۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
سرِ منزل قناعت نتواں ز دست دادن
اے سارباں فرو کش کیں رہ کراں ندارد