دفتر اول: حکایت: 46
طنز و اِنکار کردنِ بادشاہِ جُہود نصیحتِ ناصحاں را
بادشاہِ یہود کا طنز و انکار ناصحوں کی نصیحت پر
1
ایں عجائِب دِید آں شاہِ جہود
جُزِ کِہ طنز و جز کِہ انکارش نبود
ترجمہ: (جب) اس شاہِ یہود نے یہ عجب باتیں دیکھیں تو طنز کے بغیر اور انکار کے سوا اس سے کچھ نہ بن پڑا۔
2
ناصحاں گفتند از حد مگذراں
مرکبِ استیزہ را چنداں مراں
ترجمہ: خیر خواہوں نے عرض کیا (حضور!) حد سے نہ بڑھیں۔ جھگڑے کا گھوڑا اس قدر تیز نہ دوڑائیں۔
3
بگذر از کشتن مکُن ایں فعلِ بد
بعد ازِیں آتش مزن در جانِ خود
ترجمہ: قتل سے باز آئیے۔ یہ برا کام نہ کیجئے۔ اس کے بعد (پھر اپنے ہاتھ سے) اپنی جان میں آگ نہ لگائیے۔
4
ناصحاں را دست بست و بند کرد
ظلم را پیوند در پیوند کرد
ترجمہ: (بادشاہ نے یہ سن کر) ناصحوں کو ہتھکڑیاں لگا دیں اور ان کو قید کر دیا اور ظلم کو پیوند در پیوند کر دیا۔
5
بانگ آمد کار چُوں اینجا رسید
پائے دار اَے سگ! کہ قہرِ ما رسِید
ترجمہ: جب یہاں تک نوبت پہنچی تو (غیب سے) یہ درشت آواز آئی کہ اے کتّے (یہودی) کھڑا ہو جا، ہمارا قہر آن پہنچا۔
6
بعد ازاں آتش چہل گز بر فروخت
حلقہ گشت و آں یہوداں را بسوخت
ترجمہ: اس کے بعد آگ چالیس گز بلند بھڑک اٹھی (اور) اس نے حلقہ بن کر ان یہودیوں کو جلا (کر فنا) کر دیا۔
7
اصلِ ایشاں بود ز آتش زابتِدا
سُوئے اصلِ خویش رفتند اِنتہا
ترجمہ: ان لوگوں کی اصل ابتداء سے آگ تھی۔ اس لیے آخر اپنی اصل کی طرف چلے گئے۔
8
ہم ز آتش زادہ بُودند آں فرِیق
جُزوہا را سُوئے کل باشد طرِیق
ترجمہ: یہ (شیطان سیرت) لوگ آگ ہی سے پیدا ہوئے تھے (اور آگ ہی میں گئے، کیونکہ) اجزا کو (اپنے) کل کی طرف راستہ ہوتا ہے۔
9
ہم ز آتِش زادہ بُودند آں خساں
حرف میراندند از نار و دخاں
ترجمہ: وہ کمینے لوگ آگ ہی سے پیدا ہوئے تھے۔ ان کی باتیں آگ اور دھواں (بن کر منہ سے نکلتی) تھیں۔
10
آتشے بودند مومن سوز و بس
سوخت خود را آتشِ ایشاں چُو خس
ترجمہ: وہ مومن کو جلانے والی آگ تھے۔ (آخر) ان کی آگ نے خود انہی کو پھونس کی طرح جلا دیا۔
11
آنکہ او بودہ ست اُمُّہٗ ہَاوِیَہ
ہاویہ آمد مر اُو را زاوِیہ
ترجمہ: جو شخص ﴿اُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ﴾ (القارعۃ:9) (کا مصداق) ہے (یعنی اس کی ماں ہاویہ ہے) اس کی قرارگاہ ہاویہ ہی ہوئی۔
12
مادرِ فرزند جویاے وے ست
اصلہا مر فرعہا را در پَے ست
ترجمہ: (کیونکہ) فرزند کی ماں اس کی طلبگار ہے۔ اور جڑیں ہمیشہ شاخوں کے درپے رہتی ہیں۔
مطلب: چونکہ کفار و فجار کو دوزخ کے ساتھ وہی مناسبت ہوتی ہے جو ایک فرزند کو اپنی ماں کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ اس لیے جس طرح ماں ہمیشہ اپنے فرزند کو اپنے قریب رکھنا پسند کرتی ہے اسی طرح دوزخ کافروں کی طالب و جویاں ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ”لَا تَزَالُ جَھَنَّمُ یُلْقٰی فِیْھَا وَ تَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ۔۔۔ الخ“ (مشکوٰۃ) ”یعنی دوزخ میں لگا تار کافر لوگ گرائے جائیں گے اور وہ کہتی جائے گی کیا اور بھی ہیں؟“
13
آب اندر حَوض گر زِندانی ست
باد نشفش میکند کارکانی ست
ترجمہ: پانی اگرچہ حوض میں مقید ہے (مگر) ہوا اس کو (حوض سے نکال کر) اپنے اندر جذب کرتی رہتی ہے کیونکہ وہ عنصری (ہونے کی وجہ سے ہوا کے ساتھ مناسبت رکھتا) ہے۔
مطلب: یہ مثال اس کی ہے کہ ہر چیز اپنی مناسب اشیاء کی طرف توجہ اور رجوع رکھتی ہے۔ چنانچہ پانی، ہوا اور ہوا، پانی ہوتی رہتی ہے۔ کیونکہ عنصریت میں دونوں متناسب ہیں۔
14
می رہاند مے برد تا معدنش
اندک اندک تا نہ بِینی بُردنش
ترجمہ: (ہوا) اس کو حوض سے نکال کر اپنے کرہ تک تھوڑا تھوڑا کر کے (اس طرح) لے جاتی ہے کہ تم اس کا لے جانا محسوس تک نہیں کرتے۔
15
وِیں نفس جانہائے ما را ہمچناں
اندک اندک دُزدد از حبسِ جہاں
ترجمہ: اور اسی طرح یہ سانس ہماری جان کو دنیا کے قید خانے سے آہستہ آہستہ چرائے لیے جاتا ہے۔
16
تا اِلَیْہِ یَصْعَدُ اَطْیَابُ الْکَلِم
صَاعِدًا مِّنَّا اِلٰی حَیْثُ عَلِم
ترجمہ: حتی کہ (حمد و تسبیح کے) پاک کلمات ہم سے صادر ہو کر اس (خداوندِ جلّ و علا) کی طرف اس مقام تک جس کا اسی کو علم ہے، چڑھتے ہیں۔
مطلب: ہر چیز کے اپنی متناسب و متجانس اشیاء کی طرف راجع و متوجہ ہونے کا جو بیان چلا آ رہا ہے۔ یہ اس کی تائید ہے کہ چونکہ کلماتِ طیبہ اور مقامِ قدس کو باہم مناسبت ہے اس لیے وہ کلمات ہمارے منہ سے نکلتے ہی اس مقام کی طرف صعود کرتے ہیں۔ اس شعر میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ: ﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ﴾ (فاطر: 10) یعنی ”پاک کلمات اور نیک عمل اسی کی طرف جاتے ہیں۔“
17
تَرْتَقِیْ اَنْفَاسُنَا بِالْاِتِّقَا
مُتْحَفًا مِّنَّا اِلٰی دَارِ الْبَقَا
ترجمہ: ہمارے کلمات (طیبات) ہماری پرہیزگاری کی بدولت دارالبقاء کی طرف تحفہ بن کر چڑھتے ہیں۔
18
ثُمَّ یَاْتِیْنَا مُکَافَاتُ الْمَقَالِ
ضِعْفَ ذَاکَ رَحْمَۃً مِّنْ ذِی الْجَلَالِ
ترجمہ: پھر (خداوند) ذوالجلال کی رحمت سے (ہمارے) کلمات (طیبات) کا اجر ہم کو اس سے دوگنا ملتا ہے۔
19
ثُمَّ یُلْجِیْنَا اِلٰی اَمْثَالِھَا
کَیْ یَنَالَ الْعَبْدُ مِمَّا نَالَھَا
ترجمہ: پھر (یہ حصولِ اجر) ہم کو ویسے ہی (عمل کرنے) پر مجبور کرتا ہے، تاکہ بندہ (پھر وہی اجر) حاصل کرے جو پہلے حاصل کر چکا ہے۔
مطلب: یعنی بندہ کو عبادت و اذکار سے اس قدر لطف و لذت ملتی ہے کہ اس کو اور بھی زیادہ کرنے لگتا ہے۔
20
ھٰکَذَا تَعْرُجْ وَ تَنْزِلْ دَائِمًا
ذَا، فَلَا زَالَتْ عَلَیْہِ قَائِمًا
ترجمہ: (غرض) اسی طرح ہمیشہ (ہمارے پاک کلمات) چڑھتے اور وہ (ان کا اجر) اترتا رہتا ہے، پس ہمیشہ وہ (کلمات اور ان کی مکافات) اسی (عروج و نزول) پر قائم ہیں۔
21
پارسی گوئیم یعنی ایں کشِش
زاں طرف آمد کہ آمد اِیں چشِش
ترجمہ: اب ہم فارسی میں اس نکتہ کو بیان کرتے ہیں۔ یعنی یہ کشش (مذکور) اس طرف آتی ہے کہ جس طرف سے پہلے یہ ذوق آیا ہے۔
مطلب: یعنی آدمی کو اسی مشرب کی طرف کشش ہوتی ہے جس کا مذاق طبیعت میں ہو۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ وہ ذوق فطری طور پر پہلے ہی سے طبیعت میں مضمر ہو۔ جیسے کہ عمومًا دیکھا جاتا ہے کہ بعض طبائع بلا تعلیم و تربیت کے بدوِ شعور سے فضائل و محاسن کی طرف مائل ہوتی ہیں، اور بعض لوگ جو شریر بالطبع ہوتے ہیں وہ قدرتًا عہدِ طفلی سے شر و بدی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی فطرت میں جو ذوق ودیعت ہوتا ہے وہ ان کو باوجود مختلف موانع کے کشاں کشاں اپنے مقتضا کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ وہ ذوق کسی اچھی یا بری صحبت کے باعث پیدا ہوا تو بھی صاحبِ ذوق بے اختیار اسی صحبت میں جانے کے لیے بے قرار رہتا ہے جس سے وہ ذوق پیدا ہوا ہے۔
22
چشمِ ہر قَومے بُسوئے ماندہ است
کاں طرف یکروز ذوقے راندہ است
ترجمہ: ہر قوم کی آنکھ اسی طرف لگی رہتی ہے جس طرف اس نے ایک (نہ ایک) دن ذوق کو متوجہ کیا ہے۔
23
ذوقِ جنس از جنسِ خود باشد یقین
ذوقِ جُزو از کُلِ خود باشد ببیں
ترجمہ: یقینًا جنس کو اپنی جنس سے ذوق حاصل ہوتا ہے، دیکھو! جزو کو اپنے کل سے ذوق حاصل ہوتا ہے۔
24
یا مگر آں قابلِ جِنسی بود
چوں بدو پَیوست جِنسِ او شود
ترجمہ: یا شاید (اس چیز میں جنسیت بالفعل نہ ہو تو) وہ جنسیت کے قابل ہو گی (اور) جب اس میں مل جائے گی تو اس کی جنس ہو جائے گی۔
مطلب: جنسیت ہونی ضروری ہے خواہ بالفعل ہو یا بالقوّۃ۔
25
ہمچُو آب و ناں کہ جِنسِ ما نبُود
گشت جنسِ ما و اندرِ ما فزود
ترجمہ: (ایک غیر جنس کے قابل جنسیت ہونے کی مثال) جیسے پانی اور روٹی جو (پہلے) ہماری جنس (سے) نہ تھی (غذا بن کر) ہماری جنس بن گئی اور ہم میں اضافہ ہو گئی۔
مطلب: پانی اور روٹی کو انسان کے ساتھ اگرچہ بالفعل جنسیت نہیں ہے مگر بالقوّۃ ہے۔
26
نقشِ جنسِیّت ندارد آب و ناں
ز اعتبارِ آخِر آں را جنس داں
ترجمہ: پانی اور روٹی (بالفعل ہماری) جنسیت کا نقش نہیں رکھتے مگر (ان کے) انجام کے لحاظ سے (جب کہ وہ ماکول و منہضم ہو کر جزوِ بدن بن جاتے ہیں) ان کو جنسِ (بالقوۃ) سمجھو۔
27
ور زِ غَیرِ جنس باشد ذوقِ ما
آں مگر مانِند باشد جنس را
ترجمہ: اگر غیر جنس سے ہمارا ذوق ہوگا تو غالبًا وہ (غیر جنس) ہماری جنس سے مشابہ ہوگا۔
مطلب: کبھی کسی غیرجنس کی طرف بھی میلان ہو جاتا ہے۔ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی نہ کوئی ایسا عارضی وصف ہوتا ہے جو اس کو جنس سے مشابہ بنا دیتا ہے۔ پس اس کو بھی میلان الٰی الجنس ہی سمجھو۔ کما قیل: ع
اے گل بتو خورسندم تو بوے کسے داری
28
آنکہ مانِندست باشد عاریت
عاریت باقی نماند عاقبت
ترجمہ: (مگر یہ ذوق و میلان قابلِ اعتبار نہیں۔ کیونکہ) جو (وصف اس کو) مثلِ (جنس بنا رہا) ہے وہ عارضی ہے (اور) عارضی آخرکار باقی نہیں رہتا (پس وہ ذوق و میلان بھی نہ رہے گا جو اس وصف کا باعث تھا۔)
29
مُرغ را گر ذَوق آید از صفِیر
چُونکہ جنس خود نیابد شُد نفیر
ترجمہ: پرندے کو اگر (شکاری کی) سیٹی سے لطف آتا ہے (اور وہ اس سے مانوس ہو کر اتر آتا ہے) تو جب اپنے ہم جنس کو نہیں پاتا تو گریز کر جاتا ہے۔
30
تشنہ را گر ذَوق آید از سراب
چُوں رسد در وے گریزد جوید آب
ترجمہ: پیاسے کو اگر چمکتی ریت سے (بگمانِ آب) ایک لطف سا آتا ہے۔ جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو (سب لطف زائل ہو جاتا ہے اور وہاں سے) دوڑ جاتا ہے (اور) پانی تلاش کرتا ہے۔
31
مُفلساں گر خوش شوند از زرِّ قلب
لیک آں رُسوا شود در دارِ ضرب
ترجمہ: مفلس لوگ اگرچہ کھوٹے سونے (کے مل جانے) سے خوش ہو جاتے ہیں لیکن وہ (سونا) ٹکسال میں جا کر بے قدر ہو جاتا ہے۔
مطلب: مذکورہ تینوں شعروں میں تین نظیریں اس مضمون کے اثبات میں لائی گئی ہیں جس پر یہ مصرعہ مشتمل ہے۔ ع عاریت باقی نماند عاقبت۔ یعنی پرندہ آوازِ صیاد کو اپنے ہم جنس کی آوازِ سمجھ کر بتقاضائے ذوق چلا آتا ہے، مگر چونکہ وہ صفتِ جنسیت جعلی اور بناوٹی تھی اس لیے اس کا ذوق و میلان زائل ہو جاتا ہے۔ ایک تشنہ کام رہرو دور سے چمکتی ریت کو پانی کی ہم شکل دیکھ کر پانی کے ذوق سے اس کی طرف جاتا ہے، مگر جب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پانی کا سا وصف محض خطائے نظر تھی تو اس کا سب ذوق سرد پڑ جاتا ہے اور اس سے بھاگتا ہے۔ ایک مفلس کو جو حصولِ زر کا دیوانہ ہے کہیں سے کھوٹا سونا مل جاتا ہے اس کو کھرے سونے کا ہم شکل پا کر وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ کیونکہ وہ طالبِ زر تھا اور طالب مطلوب متجانس ہوتے ہیں، مگر جب معلوم کرتا ہے کہ اس کی رنگت محض ملمّع ہے تو اس کی سب خوشی مایوسی سے بدل جاتی ہے اور وہ سونا اس کا مطلب نہیں رہتا۔ غرض جمالِ نمائشی اور حسنِ بے بقا دلبستگی کے لائق نہیں۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
نیست حسن بے بقا شائستۂ دلبستگی
با چراغِ برق یک پروانہ ہمراہی نہ کرد
32
تا زر اندُودیت از رَہ نفگند
تا خِیالِ کژ ترا چَہ نفگند
ترجمہ: خبردار! کوئی ملمّع ساز تم کو گمراہ نہ کر دے۔ خبردار! ضعیف الاعتقادی تم کو (ہلاکت کے) کنوئیں میں نہ گرا دے۔
مطلب: اوپر یہ بیان چلا آ رہا تھا کہ بعض اوقات آدمی کسی چیز میں اپنے مطلوب و مقصود کے سے اوصاف دیکھ کر ان اوصاف کی بنا پر اس کا شیفتہ و گرویدہ ہو جاتا ہے لیکن جب اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اوصافِ حقیقی و اصلی نہیں بلکہ جعلی و عارضی تھے تو اپنی طلب و شوق پر نادم ہوتا ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس بیان پر یہ تفریع فرماتے ہیں کہ بعض مکار خرقۂ فقر زیب بدن کر کے اپنے آپ کو صوفیہ و مشائخ میں شامل کر لیتے ہیں اور عوام فریبی کے لیے ایسے ایسے اطوار و رسم اختیار کر لیتے ہیں جن سے ان کے کامل ہونے کا دھوکا ہوتا ہے، حالانکہ وہ نہ صوفی ہوتے ہیں نہ صفاتِ کمال کا کوئی شمّہ ان میں ہوتا ہے۔ اگر چہ بعض افعالِ عجیب کا ظہور ان سے ہوتا ہو۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
خرقِ عادت کے بکار آید دلِ افسردہ را
گر رود بر آب نتواں معتقد شد مردہ را
مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اُوپر کے اشعار میں جن چند دھوکا دینے والی اشیاء کا ذکر تمثیلًا فرمایا تھا۔ ان میں سے آخری تمثیل کھوٹے سکہ کی تھی جو کوئی قُلب ساز تیار کرے۔ اب اس کی تمثیل کی مناسبت سے مذکورہ شیخ مزوّر کے لیے ایک قُلب ساز یا ملمّع ساز کا استعارہ استعمال کر کے نصیحت فرماتے ہیں کہ خبردار! ان فقر و درویشی کے ٹھگوں سے بچو جو کید و شید کے کھوٹے مال کو سلوک و معرفت کے سیم و طلا کے رنگ میں دکھا کر تم کو اپنا مرید و معتقد بنانا چاہتے ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
بخط و خالِ گدایان مدہ خزینۂ دل
بدستِ شاہ و شے دہ کہ محترم دارد