دفتر 1 حکایت 45: ہوا کے قوم ہود علیہ السلام کو ہلاک کرنے کا قصہ

دفتر اول: حکایت: 45

قصہ ہلاک کردنِ باد قوم ہُود علیْہ السّلام را

ہوا کے قوم ہود علیہ السلام کو ہلاک کرنے کا قصہ

1

ہُودؑ گردِ مومِناں خطّے کشید

نرم میشُد باد کانجا میرسِید

ترجمہ: حضرت ہود علیہ السلام نے مومنوں کے گرد ایک خط کھینچ دیا۔ جب ہوا وہاں پہنچتی تو (خود بخود) نرم ہو جاتی۔

2

ہرکہ بیروں بُود زاں خط جُملہ را

پارہ پارہ میشکست اندر ہوا

ترجمہ: جو لوگ اس خطہ سے باہر تھے۔ ہوا ان سب کے پرچخے اڑا دیتی تھی۔

3

ہمچنیں شیبان راعی مے کَشید

گِرد بر گردِ رمہ خطّے پدِید

ترجمہ: اسی طرح حضرت شیبان راعی رحمۃ اللہ علیہ ریوڑ کے گرد ایک نمایاں خط کھینچ دیتے تھے۔

4

چُوں بجمعہ میشد او وقتِ نماز

تا نیارد گرگ آں جا تُرکتاز

ترجمہ: (یہ خط اس وقت کھینچتے) جب کہ جمعہ کے دن نماز کے وقت جاتے تھے۔ تاکہ وہاں کوئی بھیڑیا قتل و غارت نہ مچائے۔

5

ہیچ گُرگے در نرفتے اندراں

گوسپندے ہم نگشتے زاں نشاں

ترجمہ: (چنانچہ) کوئی بھیڑیا اس (خط) کے اندر نہ جاتا۔ کوئی بکری بھی اس نشان سے روگردان نہ ہوتی تھی۔

6

بادِ حِرصِ گُرگ و حِرصِ گو سپند

دائرۂ مردِ خُدا را بُود بند

ترجمہ: بھیڑیے کی حرصِ (دخول) اور بکری کی حرصِ (خروج) کی ہوا اس مردِ خدا کے دائرے میں بند (ہو گئی) تھی۔

مطلب: اوپر ہوا وغیرہ عناصر کا اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہونا بیان ہو رہا تھا۔ پھر اس سے ترقی کر کے یہ فرمایا کہ ان چیزوں کا اللہ تعالیٰ کے لیے مسخّر ہونا تو ایک بات ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لیے بھی مسخّر ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ ہوا نے ہود علیہ السلام کے خط کا لحاظ رکھا۔ اب اس سے ترقی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جذباتِ نفس کی ہوا بھی، جس کا زور و شور ہوائے حِسّیہ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، بندگان خدا کے قابو میں آ جاتی ہے۔ جیسے کہ شیبان راعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھیڑیے اور بکری کے جذبات کو ایک خط میں مسدود و محدود کر دیا۔

7

ہمچنِیں بادِ اجل با عارفاں

نرم و خُوش ہمچُو نسِیمِ بوستاں

ترجمہ: اسی طرح موت کی ہوا (بھی) عارفانِ (حق) پر نسیمِ باغ کی طرح نرم و خوشگوار (ہو کر چلتی ہے)۔

مطلب: موت کی تکلیف مسلّمہ ہے مگر جس طرح ہوائے عاد نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مومنوں کو کچھ تکلیف نہیں پہنچائی اسی طرح ہوائے اجل بھی اس کے حکم سے عارف لوگوں کے لیے خوش گوار بن جاتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”تُحْفَۃُ الْمُؤْمِنُ الْمَوْتُ“ (مشکوٰۃ) یعنی ”مومن کا تحفہ موت ہے۔“ طِیبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ موت سعادتِ کبرٰی اور درجۂ علیا کے حاصل ہونے کا ذریعہ ہے، اور انسان کو نعیمِ ابدی کی طرف پہنچانے کا سبب ہے، اور وہ محض ایک عالم کی طرف انتقال کرنے کا نام ہے، اگرچہ بظاہر وہ فنا و بربادی ہے لیکن در حقیقت ایک تازہ ولادت ہے، اور وہ بہشت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس سے مومن بہشت میں داخل ہوتا ہے۔ اگر موت نہ ہوتی تو بہشت کہاں ہوتی۔ انتہٰی (حواشیِ مشکوٰۃ) خصوصًا عاشقانِ الٰہی اور عارفانِ حق دنیا کی زندگی میں موت کے اس طرح متمنّی ہوتے ہیں جس طرح ایک پیاسا ٹھنڈے پانی کی آرزو کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ملاقاتِ حبیب کا یہی راستہ ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”وَ اَمَّا الْعَارِفُ فَاِنَّہٗ یَذْکُرُ الْمَوْتَ دَائِمًا لِاَنَّہٗ مَوْعِدٌ لِلِقَآئِہٖ لِحَبِیْبِہٖ وَ الْمُحِبُّ لَا یَنْسٰی قَطُّ مَوْعِدًا لِلِقَآءِ الْحَبِیْبِ“۔ یعنی ”عارف ہمیشہ موت کو یاد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے دوست کے ملنے کی وعدہ گاہ ہے اور دوست اپنے دوست کی وعدہ گاہ کو کبھی نہیں بھولتا“۔ بقول فقیر دہلوی ؎

موت اک پل ہے کہ جس سے عنقریب

ہوتی ہے حاصل ملاقات حبیب

علاوہ ازیں موت چونکہ اس محبوبِ حقیقی کی طرف سے پیغامِ طلب ہے، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ عارفوں کے لیے اس کے تمام عقبات و سکرات نسیمِ بوستاں کی طرح خوش گوار بن جاتے ہیں۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

اے باد اگر برائے سِر آوردۂ پیام

بارے دگر بگو، سر من از زبان کیست

؎

جاناں چو دہد فرماں در کشتنِ مشتاقاں

پیشِ نظرش رفتن بر دار چہ خوش آید

آتش ابراہیمؑ را دنداں نزد

چُوں گزیدۂ حق بود چُونش گزد

ترجمہ: آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر تعدّی نہ کی۔ جب (ایک پیغمبر) خدا کا مقبول ہو تو (آگ) اس کو کیونکر گزند پہنچائے۔

غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎

فارغ بود از آفتِ گیتی دلِ روشن

از برق زیانے نرسد خرمنِ مہ را

8

آتشِ شہوت نسوزد اہلِ دِین

باغِیاں را بُردہ تا قعرِ زمِیں

ترجمہ: (جس طرح یہ حسّی آگ مقبولانِ حق کو نہیں جلاتی اسی طرح) شہوت کی (معنوی) آگ (بھی) اہلِ دین کو نہیں جلاتی (اور) باغیوں (بے دین لوگوں) کو قعرِ زمین (یعنی دوزخ) میں پہنچا کر چھوڑتی ہے۔

9

موجِ دریا چُوں بامرِ حق بتاخت

اہلِ موسیٰؑ را ز قِبطی وا شناخت

ترجمہ: جب خدا کے حکم سے دریائے (نیل) کی موج اٹھی تو اس نے موسیٰ علیہ السلام کے لوگوں کو قبطی لوگوں سے بخوبی پہچان لیا (اور مقدّم الذکر کو سلامت رکھا اور مؤخّر الذکر کو غرق کر دیا)۔

10

خاکِ قارون را چُو فرماں در رسِید

با زر و تختش بقعرِ خود کشِید

ترجمہ: خاکِ قارون کو جب حکم ہوا تو اس (نے قارون کو) اس کی دولت و تخت سمیت اپنے اندر غرق کر لیا۔

مطلب: یہ عنصرِ خاک کی فرماں پذیری کی دلیل ہے۔

11

آب و گِل چوں از دمِ عیسیٰؑ چرِید

بال و پر بکشاد و مُرغے شد پدِید

ترجمہ: پانی اور مٹی (سے بنے ہوئے پیکر) نے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دم کی غذا کھائی تو پر و بازو کھولے اور ہو بہو ایک پرندہ بن گیا۔

مطلب: پھر آب و خاک کے مسخّرِ قدرت ہونے کی ایک نظیر بیان فرماتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مٹی کی ایک شکل چمگادڑ سے مشابہ بنائی اور اس پر دم کیا تو وہ بحکمِ خدا آپ کے دم کی تاثیر سے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنے لگی۔ فرماتے ہیں کہ جس آب و ہوا سے وہ شکل تیار کی گئی تھی اس نے اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے پرندوں کا فعل کر دکھایا۔

12

از دہانت چُوں برآید حمدِ حق

مُرغِ جنّت سازدش رَبُّ الْفَلَق

ترجمہ: تیرے منہ سے جب خدا کی حمد نکلتی ہے تو اسے صبح کا پیدا کرنے والا (خدا) بہشت کا پرندہ بنا دیتا ہے۔

مطلب: جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مٹی سے بنائی ہوئی تصویر بحکمِ خدا پرندہ بن کر اڑنے لگتی تھی۔ اسی طرح تمہارا ”الحمد للہ“ کہنا بھی بامرِ حق ایک بہشتی پرندہ بن جاتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں تَطبیق اور وجہِ مشابہت خود نیچے کے شعر میں فرماتے ہیں:

13

ہست تسبِیحت بجائے آب و گِل

مُرغِ جنت شُد ز نفخِ صدقِ دل

ترجمہ: تیری تسبیح (سبحان اللہ کہنا) بمنزلہ گارے کے ہے (جو تیرے) صدقِ دل کی پھونک سے بہشت کا پرندہ بن جاتی ہے۔

مطلب: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بنائے ہوئے پرندے اور تمہاری تحمید سے بنے ہوئے بہشتی پرندے میں تقابل و تشابہ یوں ہے کہ وہ مٹی سے بنا ہے اور یہ تحمید سے۔ اُس کو دمِ عیسیٰ علیہ السلام نے زندگی بخشی اور اِس کو تمہارے صدقِ دل نے۔

14

کوہِ طُورِ از نورِ مُوسٰیؑ شُد برقص

صُوفیِ کامِل شُد درست او ز نقص

ترجمہ: کوہِ طور نورِ (الٰہی سے جس کی تجلّی) موسیٰ علیہ السلام کی خواہش سے (ہوئی تھی) رقص کرنے لگا (اور) صوفیِ کامل بن گیا۔ اور (نا قابلیت عشق کے) نقص سے چھوٹ گیا۔

15

چِہ عجب گر کوہ صُوفی شد عزِیز

جِسمِ موسیٰؑ از کُلُوخے بود نیز

ترجمہ: اے عزیز! اگر پہاڑ صوفی ہو گیا تو کیا عجب ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا جسم بھی تو مشتِ خاک سے تھا (جو صوفیوں کے سرتاج ہیں۔)

مطلب: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام صوفی بلکہ صوفیوں کے سرتاج بن گئے جن کا جسم خاک تھا تو پہاڑ کا صوفی بن جانا کون سی بڑی بات ہے، جو جمادات کی قسم سے ہے۔ خلاصۂ مطلب ان سب اشعار کا یہ ہے کہ تمام موجوداتِ عالم، کیا حیّ کیا جمادات، سب مسخّرِ قدرت ہیں۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

پرستارِ امرش ہمہ چیز و کس

بنی آدم و مرغ و مور و مگس

عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

در ہواے امرِ او خورشید چوں ذرہ دواں

در فضائے قدرِ او عالم ہبائے مستطیر