دفتر اول: حکایت: 44
عتاب کردنِ جہود آتش را کہ چرا نمی سوزد و جوابِ او
یہودی (بادشاہ) کا آگ کو عتاب کرنا کہ کیوں نہیں جلاتی اور اس کا جواب
1
رو بآتش کرد شہ کاے تند خو
آں جہاں سوز طبیعی خوت کو
ترجمہ: بادشاہ آگ سے مخاطب ہوا (اور بولا کہ) کہ اے تندخو! تیری دنیا کو جلانے والی فطری خصلت کہاں گئی؟
2
چوں نمی سوزی چِہ شد خاصیّتت
یا ز بختِ ما دگر شد نیّتت
ترجمہ: تو جلاتی کیوں نہیں، تیری (جلانے کی) خاصیت کہاں گئی؟ یا ہماری (شومیِ) قسمت سے تیری نیت بدل گئی۔
3
مے نہ بخشائی تو بر آتش پرست
آنکہ نپرستد ترا چوں او برست
ترجمہ: (تیری بے رحمی تو ضرب المثل ہے) کہ تو اپنی پرستش کرنے والے پر بھی رحم نہیں کیا کرتی، (پھر) وہ شخص تجھ سے کیونکر نجات پا گیا، جو تجھ کو پوجتا بھی نہیں۔
4
ہرگز اے آتش تو صابر نیستی
چوں نسوزی؟ چِیست قادر نیستی؟
ترجمہ: اے آگ تو (جلانے سے) ہر گز صبر کرنے والی نہیں ہے، (پھر) کیوں نہیں جلاتی؟ کس چیز (کی وجہ سے تو جلانے) پر قادر نہیں ہے؟
5
چشم بندست اے عجب یا ہوش بند؟
چوں نسوزند چنیں شعلہ بلند؟
ترجمہ: اے (آگ) تعجب ہے، یہ نظر بندی ہے یا ہوش بندی؟ اتنا بلند شعلہ جلاتا کیوں نہیں؟
6
جادوئے کردت کسے یا سیمیات
یا خلافِ طبعِ تو از بخت ماست
ترجمہ: تجھ پر کسی نے جادو کر دیا ہے، یا کوئی طلسم و شعبدہ ہے۔ یا ہماری بدقسمتی سے تیرے مقتضائے طبیعت کے خلاف (کام ہو رہا) ہے۔
7
گفت آتش من ہمانم آتشم
اندر آ تا تو بِینی تابشم
ترجمہ: آگ بولی، میں وہی آگ ہوں، تو (ذرا) اندر تو آ تاکہ میری تپش (کا مزہ) چکھ لے۔
8
طبعِ من دیگر نگشت و عنصرم
تیغِ حقم ہم بدستوری برم
ترجمہ: میری طبیعت اور میری اصل نہیں بدلی۔ میں خدائی تلوار ہوں (لیکن) اجازت سے کاٹتی ہوں۔
9
بر در خرگہ سگانِ ترکماں
چاپلوسی کردہ پیشِ میہماں
ترجمہ: (تم نے دیکھا ہوگا کہ) خیمے پر ترکمان (لوگوں) کے کُتے، مہمان کے آگے خوشامد کرتے (اور دُم ہلاتے) ہیں۔
10
ور بخرگہ بگزرد بیگانہ رو
حملہ بیند از سگاں شیرانہ او
ترجمہ: اور اگر خیمے کے پاس سے کوئی اجنبی صورت کا آدمی گزرتا ہے۔ تو کتوں کو شیر کی طرح حملہ آور پاتا ہے۔
11
من ز سگ کم نیستم در بندگی
کم ز ترکے نیست حق در زندگی
ترجمہ: میں (خدا کی) غلامی میں کتے سے کم نہیں ہوں۔ (مجھ پر) زندگی میں ایک ترک سے کم (خدا کا) حق نہیں (جو وہ کتے پر رکھتا ہے۔)
انتباہ: یوں بھی ترجمہ ہو سکتا ہے: ”کہ میں بندگی میں ایک کتے سے کم رتبہ نہیں ہوں (اور) زندہ ہونے میں اللہ تعالٰی ایک ترک سے کم نہیں ہے۔“ (ترجمۂ ثانیہ کے اعتبار سے شعر میں صنعتِ مزاوجہ ہے۔)
12
آتش طبعت اگر غمگیں کند
سوزش از امرِ ملیک دیں کند
ترجمہ: اگر تیری طبیعت کی آتشِ (غم) تجھے غمگین کرے۔ تو (یاد رکھ) وہ مالکِ دین کے حکم سے سوزش کرتی ہے۔
13
آتشِ طبعت اگر شادی دہد
اندر و شادی ملیکِ دیں نہد
ترجمہ: اگر تیری طبیعت کی سرگرمی تجھے خوش کرے۔ تو (یاد رکھ) اس میں مالکِ دین ہی خوشی (کا سامان) رکھتا ہے۔
مطلب: اوپر آتش ظاہری کے مطیعِ خداوند ہونے کا ذکر ہے۔ اس مناسبت سے یہ بیان فرماتے ہیں کہ انسان کے جذباتِ طبع بھی، جو باطنی آگ ہیں، اسی کے حکم کے تابع ہیں، اور انسان کو کبھی مغموم، اور کبھی مسرور، اسی کے حکم سے بناتے ہیں۔
14
چونکہ غم بینی تو استغفار کن
غم بامرِ خالق آمد کار کن
ترجمہ: (اس لیے) جب تو غم دیکھے، تو (خدا سے) بخشش کی التجا کر۔ (کیونکہ) غم (محض) خدا کے حکم سے کام کرتا ہے۔
مطلب: چونکہ نزولِ غم کا باعث جرم و گناہ ہیں۔ پس ازالۂ غم کے لیے استغفار کرنی چاہیے، کیونکہ جب اللہ تعالٰی گناہ بخش دے گا، تو گناہوں کی سزا یعنی غم کو بھی زائل فرما دے گا۔
15
چوں بخواہد عینِ غم شادی شود
عینِ بندِ پائے آزادی شود
ترجمہ: جب (اللہ) چاہتا ہے تو خود غم ہی خوشی بن جاتا ہے۔ (اور) خود قید ہی آزادی بن جاتی ہے۔
؎ جب سر پہ مصائب کی گھٹا چھاتی ہے
دل کڑھتا ہے اور طبع گھبراتی ہے
ہوتا ہے جو جلوہ گر ترا مہرِ کرم
تاریکی منٹ میں نور بن جاتی ہے
16
باد و خاک و آب و آتش بندہ اند
با من و تو مردہ با حق زندہ اند
ترجمہ: ہوا، اور مٹی، اور پانی، اور آگ (خدا کے) غلام ہیں۔ (گو) یہ ہمارے تمہارے آگے بے جان ہیں، (مگر) اللہ تعالٰی کے آگے زندہ ہیں۔
مطلب: اوپر صرف ایک عنصر یعنی آگ کے تابع فرمان ہونے کا ذکر تھا۔ اب چاروں عناصر کا مطیع و منقاد ہونا بیان فرماتے ہیں۔ یعنی صرف آگ ہی نہیں، بلکہ چاروں عناصر اللہ تعالٰی کے حکم پر چلتے ہیں، ان میں بھی ادراک اور حسّ ہے، اگرچہ ہم کو ان کا مدرک ہونا معلوم نہیں ہوتا۔ جسکی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے محدود و ناقص علم کی بنا پر چند خاص اوصاف کو آثارِ حیات سمجھ رکھا ہے، جن اشیاء میں وہ آثار ہم کو نظر آتے ہیں ان کو زندہ سمجھتے ہیں، اور جن میں نہیں، ان کو بے جان تصور کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالٰی کا علم اور قدرت ہمارے معلومات سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ یہ بات بعید نہیں کہ جن چیزوں کو ہم بے جان سمجھتے ہیں مثلًا مٹی، پتھر، لوہا، درخت وغیرہ ایسی زندگی کے ساتھ زندہ ہوں، جس کے آثار ہمارے علم و تجربہ سے بالا ہوں، مگر اللہ تعالٰی کے علم و قدرت میں وہ زندہ ہوں، اور ان کے لیے خاص آثارِ حیات متحقق و ثابت ہوں۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ ”با من و تو مردہ با حق زندہ اند“ قرآن و حدیث میں جا بجا جمادات کی صفاتِ زندگی کا اثبات موجود ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ﴾ (البقرۃ: 74) ”بے شک پتھروں میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالٰی کے خوف کے مارے گر پڑتے ہیں“۔ سورۃ الحشر میں فرمایا: ﴿لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللهِ﴾ (الحشر: 21) ”اگر ہم قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو تم اس کو اللہ کے خوف سے ڈرتا اور پاش پاش ہوتا دیکھتے۔“، ”عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰه صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَلَعَ لَہٗ أُحُدٌ فَقَالَ: هٰذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَ نُحِبُّهٗ“ (صحیح بخاری, کتاب المغازی، باب أحد یحبنا ونحبہ, حدیث نمبر: 4084) ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے سامنے احد پہاڑ نمودار ہوا، تو آپ نے فرمایا یہ پہاڑ، ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔“ قرآن و حدیث کے علاوہ اہل کشف کے نزدیک بھی جمادات کا زندہ ہونا مسلّم الثبوت ہے۔ صرف فلسفہ اسکا منکر ہے جس کا مدار دلائلِ وہمیہ پر ہے۔ لهذا اسکا کوئی اعتبار نہیں۔
اکبر مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎
دلیلیں فلسفہ کو، نورِ باطن کر نہیں سکتیں
کواکب کی شعائیں، رات کو دن کر نہیں سکتیں
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
در کارخانہ کہ رہِ علم و عقل نیست
وہمِ ضعیف رائے فضولی چرا کند
17
پیشِ حق آتش ہمیشہ در قیام
ہمچو عاشق روز و شب بے جاں مدام
ترجمہ: حق تعالٰی کے حضور میں آگ، ہمیشہ رات دن ایک عاشقِ بے جان کی طرح، (خدمت و اطاعت کے لیے حاضر) کھڑی ہے۔
18
سنگ بر آہن زنی آتش جہد
ہم بامرِ حق قدم بیروں نہد
ترجمہ: (جس طرح آگ پانی وغیرہ بسائط کا حال ہے۔ اسی طرح مرکبات کا حال سمجھو، چنانچہ) تم لوہے پر پتھر مارتے ہو تو (اس سے) آگ نکلتی ہے، (یہ) بھی خدا کے حکم سے نکلتی ہے۔
19
آهن و سنگ از سِتم برهم مزن
کایں دو میزانید ہمچوں مرد و زن
ترجمہ: (اے مخاطب!) ستم کے آہن و سنگ کو ایک دوسرے سے نہ ٹکراؤ۔ کیونکہ یہ دونوں مرد و زن کی طرح (باہم مقترن ہو کر نتائجِ بد کا بچہ) جنم دیتے ہیں۔
مطلب: سنگ و آہن کے ذکر میں ضمنًا یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ کسی پر ظلم نہ کرو۔ اس سے بہت بُرے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ ظلم سے نتائجِ بد پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک گناہ کی وجہ سے ظالم کے سر پر اور بہت سے گناہوں کا بوجھ آن پڑتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”أَتَدْرُونَ مَا المُفْلِسُ؟ قَالُوْا: اَلمُفْلِسُ فِيْنَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَہٗ وَ لَا مَتَاعَ، فَقَالَ: اِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ اُمَّتِیْ مَنْ یَّاْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ بِصَلوٰۃٍ وَّ صِیَامٍ وَّ زَکوٰۃٍ، وَّ یَاْتِیْ قَدْ شَتَمَ ھٰذَا، وَ قَذَفَ ھٰذَا، وَ اَکَلَ مَالَ ھٰذَا، وَ سَفَکَ دَمَ ھٰذَا، وَ ضَرَبَ ھٰذَا، فَیُعْطٰی ھٰذَا مِنْ حَسَنٰتِہٖ، وَ ھٰذَا مِنْ حَسَنٰتِہٖ، فَاِنْ فَنِیَتْ حَسَنٰتُہٗ قَبْلَ اَنْ یُّقْضٰی مَا عَلَیْہِ، اُخِذَ مِنْ خَطَایَاھُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ طُرِحَ فِی النَّارِ“ (صحيح مسلم الرقم: 2581) یعنی ”آپ جانتے ہوں مفلس کون ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے فرمایا جس کے پاس مال ومتاع نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، اور روزہ، اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا۔ اور (ساتھ ہی اس مجرمانہ حیثیت سے) آئے گا کہ اس (ایک) کو گالی دی تھی، اور اس (دوسرے) پر زنا کی تہمت لگائی تھی، اور اس (تیسرے) کا مال کھا لیا تھا، اور اس چوتھے کو جان سے مار ڈالا تھا، اور اس (پانچویں) کو مارا پیٹا تھا، تو اس کی نیکیوں میں سے کچھ اِس کو دلایا جائے گا، اور کچھ اُس کو۔ پھر اگر اس کی تمام نیکیاں قبل اس کے کہ سارے حقوق جو اس کے ذمہ ہیں ادا ہوں، ختم ہو جائیں، تو ان لوگوں کے گناہوں کو لے کر اسکے سر پر ڈالا جائے گا، اور پھر اسکو دوزخ میں گرا دیا جائے گا۔“
20
سنگ و آهن خود سبب آمد و لیک
تو ببالا تر نگر اے مردِ نیک
ترجمہ: پتھر اور لوہا، بے شک (آگ کا) سبب ہیں، لیکن اے مردِ نیک! تو اس سے اعلٰی سبب پر نظر کر۔
21
کیں سبب را آں سبب آورد پیش
بے سبب کے شد سبب هرگز ز خویش
ترجمہ: کیونکہ اس سبب کو بھی اسی سبب نے مہیا کیا ہے۔ کوئی سبب بھلا خود بخود، بے سبب کب بن سکتا ہے۔
مطلب: تمام موجوداتِ حادثہ کا وجود اسباب و علل کے سلسلہ سے وابستہ ہے، کیونکہ ہر حادث کے لیے کسی مُحدِث کا ہونا لازم ہے، جو اس کا سبب ہے۔ کبھی اس سبب کا بھی کوئی اور سبب ہوتا ہے۔ اسی طرح دور تک سلسلہ چلا جاتا ہے، اور اس سلسلۂ اسباب کی انتہاء کسی مُسَبِّبُ الْاَسْبَابْ یا سببِ قدیم تک ہونی ضروری ہے، تاکہ تسلسل نہ لازم آئے، جو کہ باطل ہے، اور وہ سبب قدیم اسماء و صفاتِ الٰہیہ ہیں، جن سے عالم میں حوادث پیدا ہوتے ہیں۔ ”آں سبب آورد پیش“ سے وہی سبب مراد ہے۔ اور ”ببالا تر نگر“ سے اسی کی طرف نظر کرنے کا اشارہ ہے۔
22
ایں سبب را آں سبب عامل کند
باز گاہے بے پَر و عاطل کند
ترجمہ: اس سببِ (حادث) کو وہ سببِ قدیمی ہی کارگر بناتا ہے۔ پھر کبھی وہی اس کو بے اثر، و بیکار بنا دیتا ہے۔
مطلب: سببِ حادث کے اندر سبب ہونے کی صلاحیّت، سببِ قدیم ہی کی پیدا کردہ ہے۔
23
واں سببہا کانبیاءؑ را رهبرست
آں سببها زِیں سببها برترست
ترجمہ: اور وہ اسبابِ (قدیمہ) جو انبیاء علیہم السّلام کے پیش نظر ہیں، ان اسبابِ (قدیمہ) سے صرف انبیاء علیہم السّلام واقف ہیں۔
مطلب: عوام کی نظر چونکہ محسوسات و مدرکاتِ ظاہریہ تک محدود ہوتی ہے، اس لیے ان کا علم اسبابِ زیریں سے آگے تجاوز نہیں کر سکتا۔ بخلاف انبیاء علیہم السّلام کے کہ انکی بصیرت اسباب و علل کے تمام سلسلے تک پہنچتی ہے، اس لیے ان کا علم ان اسبابِ قدیمہ و عالیہ پر بھی حاوی ہوتا ہے، جن سے عوام کی نظر قاصر ہے۔ مثلًا عوام سمجھتے ہیں کہ ماہ و مہر کی گردش کا سبب فلک کی گردش ہے۔ مگر انبیاء علیہم السّلام جانتے ہیں کہ دراصل اس گردش کا باعث کون سی ذات ہے۔
امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
از دست دور مہ و مہر نے گردشِ چرخ
کہ دائرہ زنگارندہ نے ز پرکار است
بدستِ اوست عنانِ ارادت ہمہ کس
کہ ہر طرف ز پئے ہر ضمیر مضمار است
25
ایں سبب چِہ بود؟ بتازی گو رسن
اندریں چَہ ایں رسن آمد بفن
ترجمہ: (اگر کوئی پوچھے) یہ سبب کیا ہوتا ہے، تو بتا دو کہ عربی (زبان) میں رسّی (ہے،) یہ رسّی (دنیا کے) کنوئیں میں (کسی کی) تدبیر سے پہنچتی ہے۔
26
گردشِ چرخ ایں رسن را علّت ست
چرخِ گرداں را ندیدن زلّت ست
ترجمہ: (بظاہر) آسمان کی گردش (چرخی کی طرح) اسی رسّی (کے لپٹنے اور ڈول کے نکلنے) کی موجب ہے۔ (مگر) چرخی گھمانے والے کو نہ دیکھنا ایک غلطی ہے۔
27
ایں رسنہائے سببہا در جہاں
ہاں و ہاں زِیں چرخِ سرگرداں مداں
ترجمہ: (مگر) خبردار! خبردار! (کہیں حکمائے فلاسفہ کی طرح،) دنیا میں اسباب کی رسیوں کو (صرف) اس چرخِ گرداں سے (آسمان کو ان کا مسبّبِ حقیقی) نہ سمجھ لینا۔
28
تا نمانی صِفر و سرگرداں چو چرخ
تا نسوزی تو ز بے مغزی چو مرخ
ترجمہ: تاکہ تم کوئیں کے چرخ کی طرح (تمیز و بصیرت سے) خالی، اور (حرکتِ جاہلانہ سے) سرگرداں نہ رہو (اور) تاکہ تم بے مغزی سے (دوزخ میں) درختِ مرخ کی طرح نہ جلو۔
مطلب: اوپر کے چار شعروں کا مطلب یہ ہے کہ جزئی اسباب کی مثال رسی کی سی ہے اور آسمان کو بمنزلہ چرخی کے سمجھو جس پر سے رسی کنوئیں میں جاتی ہے، اور دنیا گویا کنواں ہے۔ جس طرح ڈول رسی کی حرکت حقیقتًا چرخی کا فعل نہیں ہے، بلکہ چرخی گھمانے والے کا فعل ہے، اور چرخی کا وقوعِ فعل محض ایک واسطہ ہے۔ اسی طرح حوادثات عالم کا حقیقی فاعل آسمان کو سمجھنا جہالت ہے۔ حقیقی فاعل اللہ تعالٰی ہے۔ آسمان بعض حوادث کے وقوع میں محض واسطہ ہے۔ وہ بھی مشیتِ الٰہیہ سے۔
29
باد و آتش میشوند از امرِ حق
ہر دو سرمست آمدند از خمرِ حق
ترجمہ: ہوا، اور آگ خدا کے حکم سے (موجود) ہو جاتے ہیں۔ دونوں خدا کی شرابِ (محبت) سے مست ہیں۔
الخلاف: بعض نسخوں میں ”باد آتش میشود“ ہے۔ یعنی ہوا آگ بن جاتی ہے جیسا کہ علمِ طبعی میں ثابت ہے۔
30
آبِ حلم و آتشِ خشم اے پسر
ہم ز حق بینی چو بکشائی نظر
ترجمہ: اے بیٹا! اگر تم آنکھ کھول کر دیکھو، تو حلم کا پانی، اور غصے کی آگ، بھی خدا ہی کی طرف سے دیکھو گے۔
مطلب: یعنی جس طرح آب و آتش قدرتِ الٰہیہ سے مسخر ہیں اسی طرح انسان کے تمام جذباتِ نفسانیہ بھی بامرِ حق پیدا ہوتے ہیں۔
31
گر نبودے واقف از حق جانِ باد
فرق چوں کردے میانِ قومِ عاد
ترجمہ: اگر روحِ ہوا، اللہ (تعالٰی) سے واقف نہ ہوتی۔ تو وہ قومِ عاد (کے مومنوں اور کافروں) میں فرق (کر کے صرف کافروں کو قتل) کیونکر کرتی؟
مطلب: اس بیان سے بھی غیرِ حیوانات میں شعور و ارادہ اور ان کے حکمِ حق کے تابع ہونے کا اثبات مقصود ہے۔