دفتر اول: حکایت: 43
کژ ماندن دہانِ آں شخص کہ نامِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلّم را بہ تسخُّر برد
اس شخص کا منہ ٹیڑھا رہ جانا کہ جس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلّم کا نامِ مبارک تمسخر کے ساتھ لیا تھا
1
آں دہن کژ کرد و از تسخّر بخواند
نامِ احمدؐ را دہانش کژ بماند
ترجمہ: وہ شخص جس نے منہ چڑا کر تمسخر سے حضرت اَحمد صلی اللہ علیہ وسلّم کا نامِ مبارک لیا، اسکا منہ (ٹیڑھا کا) ٹیڑھا رہ گیا۔
2
باز آمد کائے مُحمدؐ عفو کُن
اے تُرا الطاف علمِ مِنْ لَّدُنْ
ترجمہ: تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلّم) کے حضور میں آیا (اور یوں ملتجی ہوا) کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلّم معاف فرمائیے (یا حضرت! آپ کو) علمِ لدنّی کے الطاف (حاصل ہیں۔)
3
من تُرا افسوس میکردم بجہل
من بُدم افسوس را منسُوب و اہل
ترجمہ: میں نے جہالت سے آپ سے تمسخر کیا۔ حالانکہ تمسخر کا منسوب و مستوجب میں خود تھا۔
نکتہ: ”علمِ مِنْ لَّدُنْ“ کے ذکر سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو اس شخص کے تمسخر سے باعلامِ خداوندی، اطلاع ہو گئی تھی جس سے آپ کو ناراضگی ہوئی۔ اس لیے وہ آپ کی ناراضگی رفع کرنے کے لیے حاضر ہو کر تضرّع کرنے لگا۔
4
چُوں خُدا خواہد کہ پردۂ کس درد
مَیلش اندر طعنۂ پاکاں برد
ترجمہ: (مولانا فرماتے ہیں) جب اللہ تعالٰی کسی کی رسوائی چاہتا ہے۔ تو اسکو پاک لوگوں پر طعن کرنے کی طرف مائل کر دیتا ہے۔
مطلب: جب کوئی شخص پاک لوگوں پر زبانِ طعن دراز کرتا ہے، تو اس کا یہ فعل بمشیّتِ الٰہی ہوتا ہے، جس میں اسکی خاص حکمتیں مرکوز ہیں: ﴿وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۔ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ۔ وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْـٕدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ﴾ (الانعام: 112-113) ”اور (جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کر رہے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔“ دوسری جگہ قرآن کریم میں نیک لوگوں کی طعنہ زنی کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اللهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النور: 19) ”یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“ اسی طرح حدیث شریف میں رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا یہ ارشاد مروی ہے: ”عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ صَعِدَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَنَادَىٰ بِصَوْتٍ رَفِيْعٍ فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِہٖ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهٖ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِيْنَ وَلَا تُعَيِّرُوْهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيْهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللّٰهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ تَتَبَّعَ اللّٰهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِيْ جَوْفِ رَحْلِهٖ“ (رواہ الترمذی کتاب البر و الصلۃ: باب ماجاء فی تعظیم المؤمن) ”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم منبرپر تشریف لائے بلند آواز سے پکارا اورفرمایا: اے زبانی اسلام لانے والے لوگوں کی جماعت، ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچاہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، انکو عار مت دلاؤ، اور انکے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالٰی اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالٰی جسکے عیب ڈھونڈتاہے اسے رسوا وذلیل کردیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندرہو۔“
غلام علی آزاد ؎
عیبِ مرداں فاش کردن بدترین عیب ہاست
عیب گو اول کند بے پردہ عیبِ خویش را
رفعِ اشتباہ: ”میلش اندر طعنۂ پاکاں برد“ پر شاید کسی کو یہ شبہ عارض ہو کہ جب ایک طاعن کو خود اللہ تعالٰی نے طعن پر مائل کیا ہے تو اسکا کیا قصور؟ اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ﴿وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ﴾ (الشورٰی: 30) ”اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔“ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام مصائب و نوائب اسکے اپنے اعمال کا ثمرہ ہوتے ہیں۔ پس بمضمون ”چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد“ مشیّتِ الٰہیہ کا کسی کی رسوائی و خواری سے متعلق ہونا اس شخص کے کسی سابقہ جرم و گناہ کے باعث ہے، نہ کہ بلا علّت و بلا سبب، لیکن اس رسوائی و وبال کے واقع کرنے کے لیے طعنِ ابرار کو اسکا سببِ مقارن بنا دیا جاتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں: وَ مِنْھَا اَن يَّقْضِيَ اللہُ تَعَالٰی بِشَيْئٍ فَيَجُرُّ ذٰلِکَ الشَّيْئُ شَیْئًا اٰخَرَ لِاَنَّهٗ لَازِمُهٗ فِیْ سُنَّۃِ اللہِ وَ خَرْمُ نِظَامِ اللُّزُوْمِ غَيْرُ مَرْضِيٍّ وَالْاَصْلُ فِیْہِ قَوْلُهٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِذَا قَضَی ﷲُ لِعَبْدٍ اَنْ یَّمُوْتَ بِاَرْضٍ جَعَلَ لَهٗ اِلَیْھَا حَاجَۃً (حجۃ اللہ البالغۃ) یعنی ”کبھی اللہ تعالٰی کسی ایسی چیز کا حکم دیتا ہے جس سے لزومًا دوسری چیز پیدا ہو جاتی ہے، اور سلسلۂ لزوم کا درہم برہم ہونا سنتُ اللہ میں غیر منظور ہے، اسکی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا یہ قول ہے کہ جب اللہ تعالٰی کو منظور ہوتا ہے کہ فلاں بندہ فلاں سر زمین میں مرے تو اسکے وہاں چلے جانے کا کوئی سبب پیدا کر دیتا ہے۔“ غرض ممکن ہے کہ ایک بندہ کے پچھلے اعمالِ سیئہ کی سزا دینا اللہ تعالٰی کو منظور ہو، تو وہ اسکو طعنِ ابرار پر مائل کر دے۔ جسکے لیے اس بندے کا رسوا و خوار ہونا اور اپنے اعمال کی پاداش کو پہنچنا لازم ہو۔ ہاتفے رحمۃ اللہ علیہ ؎
چہ خواہد قضا سرنگونت کند
بکردارِ بد رہ نمونت کند
اگر زمانے کے ہاتھوں سے پہنچے کچھ ایذا
نہ ہونا چاہیے مغموم و بے قرار تجھے
بغور دیکھ تو عملوں کی اپنے فردِ حساب
ضرور کوئی ملا ہے ترا ادھار تجھے
5
ور خُدا خواہد کہ پوشد عَیبِ کس
کم زند در عَیبِ معیوباں نفس
ترجمہ: جب خداوند تعالٰی کسی شخص کی عیب پوشی چاہتا ہے۔ تو وہ شخص معیوب لوگوں کے عیب میں بھی کلام نہیں کرتا۔
مطلب: یعنی لوگوں کے عیوب و نقائص سے زبان بند رکھنا اللہ تعالٰی کی رحمت و کرم کی علامت ہے جیساکہ حدیث میں ہے: ”عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ رَأَىٰ عَوْرَةً فَسَتَرَهَا كَانَ كَمَنْ أَحْيَا مَوْءُوْدَةً“ (سنن أبي داؤد,كِتَابُ الْأَدَبِ الرقم: 4891) ”سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جس نے کسی کی کوئی برائی دیکھی اور پھر اس پر پردہ ڈال دیا تو اس نے گویا قبر میں گاڑی گئی لڑکی کو زندہ کر دیا۔“ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
پردہ پوشِ خلق باش از صد بلا ایمن نشین
تیرہ گردد از نفش چو آئینہ ستار نیست
6
چوں خدا خواہد کہ ماں یاری کند
مَیلِ ما را جانبِ زاری کند
ترجمہ: جب اللہ تعالٰی ہمدردی فرمانا چاہتا ہے۔ تو عجز و تضرع پر ہم کو مائل کر دیتا ہے۔
مطلب: اوپر جو ذکر تھا کہ ایک شخص نے رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا نامِ مبارک استہزاء سے لیا، تو اس کے وبال میں مبتلا ہوا مگر چونکہ رحمتِ خداوندی اس پر متوجہ تھی اس لیے وہ زاری و تضرع پر مائل ہو گیا، جس نے اسکو ہلاکت سے بچا دیا۔ مولانا اس واقعہ سے بطورِ کُلّیہ یہ حکم اخذ کرتے ہیں کہ اسی طرح جس شخص پر نصرتِ الٰہیہ سایہ فگن ہوتی ہے وہ توبہ و استغفار اور عجز و ابتہال کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎
زمین کی طرح جس نے عاجزی و خاکساری کی
خدا کی رحمتوں نے اسکو ڈھانکا آسمان ہو کر
غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
خاکساراں مدد از عالمِ بالا یابند
گرد را میکند از روئے زمین باراں پاک
7
اے خُنک چشمِ کہ او گریانِ او
وَے ہُمایوں دِل کہ او بِریانِ او
ترجمہ: اے (مخاطب!) وہ آنکھ ٹھنڈی ہے جو اس (محبوبِ حقیقی) کے لیے روتی ہے۔ اور اے (مخاطب) وہ دل مبارک ہے جو اس (کی سوزشِ عشق) سے بریاں ہے۔
مطلب: اللہ تعالٰی کی محبت اور اس کے خوف سے رونے کی فضیلت بیان فرماتے ہیں جس پر بہت سی احادیث بھی شاہد ہیں۔ چنانچہ حدیث ہے: ”عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ يَخْرُجُ مِنْ عَيْنَيْهِ دُمُوعٌ وَإِنْ كَانَ مِثْلَ رَأْسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ثُمَّ تُصِيْبُ شَيْئًا مِنْ حُرِّ وَجْهِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللّٰهُ عَلَى النَّارِ“( السنن ابن ماجہ, كتاب الزهد, باب الحزن والبكاء) ”سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جس مسلمان کی آنکھوں سے اللہ تعالٰی کے خوف سے آنسو جاری ہوں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر (چھوٹے چھوٹے) ہی ہوں پھر اپنے رخسار پر کچھ پائے تو اللہ تعالٰی اس کو آتش دوزخ پر حرام کر دیتا ہے۔“ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
خوشا نماز و نیاز کسے کہ از سرِ درد
بآب دیدہ و خونِ جگر طہارت کرد
وَ لَہٗ ؎
گریہ آبے بُرج سوختگاں باز آورد
نالۂ فریاد رسِ عاشقِ مسکیں آمد
8
از پئے ہر گِریہ آخِر خندہ ایست
مردِ آخر بِیں مُبارک بندہ ایست
ترجمہ: ہر گریہ و بکاء کا انجام (بشرطیکہ وہ اللہ تعالٰی کی محبت اور اسکے خوف سے ہو) ہنسی ہوتا ہے۔ اور انجام و مآل کا نظر رکھنے والا ہی مبارک بندہ ہے۔
مطلب: اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا﴾ ”بے شک تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔“ لہذا آج جو شخص یادِ الٰہی میں رونے کی تکلیف اٹھاتا ہے وہ کل کو حصولِ مرادات سے خنداں و مسرور ہو گا اور مبارک بندہ وہی ہے جو کل کی بہتری کے لیے آج کی تکلیف و زحمت کو گوارا کر لے۔ جس نے کچھ پایا ہے گریہ و بکاء سے پایا ہے۔ ؎
خسرؔو اگر غمت خورد نالۂ بس ست خدمتش
واجب چاوشاں دہند از پئے ہائے و ہوئے را
بخلاف اس شخص کے جو آج ہی دنیا کے فانی عیش و راحت میں مستغرق ہو جائے، اور کل کی کچھ فکر نہ کرے کہ کس انجام کو پہنچوں گا اور کیا حشر ہو گا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مدہ براحتِ فانی حیاتِ فانی را
بمحنتِ دو سہ روز از غمِ ابد بگریز
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
غمے کز پیشِ شادمانی بری
بہ از شادئیے کز پیشِ غم خوری
9
ہر کُجا آبِ رواں سبزہ بود
ہر کُجا اشکِ رواں رحمت بود
ترجمہ: (قاعدہ ہے کہ) جہاں آب رواں ہو وہاں سبزہ اُگتا ہے۔ (اسی طرح) جہاں آنسو بہتے ہوں وہاں (اللہ تعالٰی کی) رحمت (کا باغ لہلہانے لگتا) ہے۔
مطلب: یہاں مولانا اشکِ رواں کی فضیلت بیان فرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالٰی کو دو قطرے بہت زیادہ محبوب ہیں: ”قَطْرَۃُ دُمُوْعٍ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ وَ قَطْرَۃُ دَمٍ تُھْرَاقُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ“ (الترمذي: 1669) ”ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ تعالٰی کے خوف سے بہے، اور ایک خون کا قطرہ جو اللہ تعالٰی کی راہ میں بہایا جائے۔“
خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
گر طمع داری ازاں جامِ مرصّع مے لعل
دُرّ و یاقوت بنوکِ مژہ ات باید سفت
غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چوں شمع تا مسافرِ راہِ عدم شدم
ہر دانۂ سرشکِ مرا زادِ راہ شد
10
باش چُوں دُولاب نالاں چشمِ تر
تا ز صِحنِ جانت بر روید خضِر
ترجمہ: رہٹ کی طرح نالاں اور چشم تر رہو۔ تاکہ تمہارے صحنِ جان میں سبزہ پیدا ہو جائے۔
مطلب: جس طرح رہٹ کی آبپاشی سے صحنِ باغ سرسبز و شاداب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نالہ و گریہ سے تمہاری روح انوار الٰہی سے منوّر ہو جائے گی۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
گریۂ شام و سحر شکر کہ ضائع نگشت
قطرۂ بارانِ ما گوہرِ یک دانہ شد
11
مرحمت فرمُود سیّدؐ عفو کرد
چُوں ز جُرأت توبہ کرد آں رُوئے زرد
ترجمہ: جب اس شرمندۂ (تقصیر) نے جرأت کر کے توبہ کی۔ تو سرورِ (کونین صلی اللہ علیہ وسلّم) نے اس پر رحم کیا (اور اسکو) معاف فرمایا۔
12
رحم خواہی رحم کُن بر اشکبار
رحم خواہی بر ضعیفاں رحمت آر
ترجمہ: اگر تم (اللہ تعالٰی سے اپنے لیے) رحم چاہتے ہو تو آبدیدہ (ہو کر معافی مانگنے والے) پر رحم کرو۔ اگر تم رحم کے خواستگار ہو، تو (پہلے خود) کمزروں پر رحم کرو۔
مطلب: اس شعر میں دو باتوں کی تعلیم فرمائی ہے۔ ایک تو یہ کہ اگر کوئی قصوروار اپنی تقصیر پر عذر پیش کرے اور معافی مانگے، تو از راہِ ترحّم اسکو معاف کر دینا چاہیے: ”عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ اعْتَذَرَ اِلٰی اَخِیْہِ فَلَمْ یَعْذِرْہُ اَوْ لَمْ یَقْبَلْ عُذْرَہٗ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلُ خَطِیْئَۃِ صَاحِبِ مَکْسٍ“ (رواه البيهقي في شعب الإيمان) ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے پاس عذر کرے اور وہ اس کو معذور نہ رکھے، یا (یوں فرمایا کہ) اس کا عذر قبول نہ کرے، تو اس پر ٹیکس وصول کرنے والے کی مثل گناہ ہے۔“ مالیانہ وصول کرنے والا جب کسی غریب کے عذر کو نہ سنے کہ میری اراضی میں پیداوار نہیں ہوئی، اور زبردستی اس سے مالیانہ وصول کرنے لگے تو وہ گنہگار ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ تعالٰی سے رحم کی آرزو ہے، تو اسے خود بھی لوگوں پر رحم کرنا چاہیے۔ چنانچہ حدیث ہے: ”عَنْ جَرِیْرِ ابْنِ عَبْدُ اللہِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَّا یَرْحَمُ النَّاسَ لَا یَرْحَمُہُ اللہُ“ (بخاری و مسلم) ”حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ تعالٰی اس پر رحم نہیں کرے گا۔“ ایک اور حدیث شریف میں آیا ہے: ”اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِی السَّمَاۤءِ“ (السنن الترمذي) ”تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔“
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
خواہی کہ خدا در دو جہاں پاسِ تو دارد
زنہار تو در پاسِ دلِ خستہ دلاں کوش
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
حاصل نشود رضائے سلطاں
تا خاطرِ بندگاں نہ جوئی
خواہی کہ خدائے بر تو بخشد
با خلقِ خدائے کن نکوئی
؎
درگاہِ خدا میں تو سدا ہاتھ اٹھائیں
مسائل کی اجابت پر، زباں تک نہ ہلائیں
دامان تو، گو وقتِ دعا اشک سے تر ہو
محتاج کی زاری کا مگر کچھ نہ اثر ہو
اعمال کا یہ حال ہے پھر خواہشِ فردوس
افسوس ہے، افسوس ہے، افسوس ہے افسوس