دفتر 1 حکایت 38: حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کی تعظیم کا بیان جو انجیل میں درج تھی

دفتر اول: حکایت: 38

نعتِ تعظیمِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کہ در انجیل بُود

حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کی تعظیم کا بیان جو انجیل میں درج تھی

1

بود در انجیل نام مصطفٰیؐ

آں سرِ پیغمبراں بحرِ صفا

ترجمہ: (پہلے) انجیل میں حضرت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کا نام ( یوں درج) تھا، وہ (مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم جو) پیغمبروں کے سردار (اور) بحرِ صفا (ہیں۔)

2

بود ذکرِ حلیہ ہا و شکلِ اُو

بود ذکرِ غزو و صوم و اکلِ اُو

ترجمہ: (انجیل میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے اوصافِ جسمانیہ اور شکل و شمائل کا ذکر (بھی درج تھا۔ اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے جہاد کرنے اور روزہ رکھنے اور کھانے (پینے) کا حال (بھی لکھا) تھا۔

3

طائفۂ نصرانیاں بہرِ ثواب

چوں رسیدندے بداں نام و خطاب

ترجمہ: نصرانیوں میں سے ایک گروہ (کی یہ عادت تھی) جب اس مبارک نام و خطاب پر (تلاوت کرتے وقت) پہنچتے، تو ثواب (حاصل کرنے)کی خاطر۔

4

بوسہ دادندے بداں نامِ شرِیف

رُو نہادندے بداں وصفِ لطیف

ترجمہ: (آپکے) اسم شریف پر بوسہ دیتے تھے۔ (اور) آپکے اوصافِ لطیف پر رخسار ملتے تھے (محبت و تعظیم سے۔)

5

اندریں فتنہ کہ گفتم آں گروہ

ایمن از فتنہ بدند و از شکوہ

ترجمہ: میں نے جو فتنہ (وزیر کا) بیان کیا ہے، (اس قصہ میں) وہ لوگ (اس عمل کی برکت سے) فتنۂ (وزیر) اور خوف (محاربۂ امراء) سے امن میں رہے۔

6

ایمن از شرِّ امیران و وزِیر

در پناہِ نامِ احمدؐ مستجیر

ترجمہ: نہ امراء کا شرِّ (جنگ ان کو پہنچا، کہ ہلاکِ جسمانی تھا) نہ وزیر (کا فتنۂ اضلال، کہ ہلاکِ روحانی تھا) ان تک آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے اسمِ مبارک کی پناہ میں انکو پناہ مل گئی۔

نکتہ: ”در پناہِ نامِ احمدؐ“ میں یہ خاص نکتہ مرکوز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا نامِ پاک جو سریانی زبان میں انجیل کے اندر آیا ہے، اس کا ٹھیک ترجمہ ”اَحْمَدْ“ ہوتا ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے اپنی امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے اسی نامِ مبارک کے ساتھ، آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد کی بشارت دی تھی۔ جیساکہ قرآن میں ہے: ﴿وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ﴾ (الصف: 6) ”اور وہ وقت یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا تھا کہ اے بنو اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا ایسا پیغمبر بن کر آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی) تھی، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں، اور اس رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہے۔

7

نسلِ ایشاں نیز ہم بسیار شد

نُورِ احمدؐ ناصِر آمد یار شُد

ترجمہ: ان کی نسل بھی بہت بڑھی۔ حضرت احمد صلی اللہ علیہ وسلّم کا اسم مبارک (انکا) مددگار (اور) رفیق ہو گیا۔

مطلب: اس فصل سے اوپر یہ ذکر تھا کہ طالبِ کمال کے لیے اَخیار و ابرار کی صحبت میں رہنا، اور ان سے ارادت و عقیدرت رکھنا لازم ہے۔ یہ فصل اسی بیان کی تائید میں ہے، یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے نامِ پاک کے ساتھ حُسنِ اعتقاد رکھنے، اور اس کی تعظیم بجا لانے کی یہ برکت ہے کہ مفسدوں کے فساد، اور مکّاروں کے مکر سے امن رہتا ہے۔ تو خود نام والے کی صحبت سے مستفیض ہونے اور اس کی تعظیم بجا لانے میں، کیا کچھ برکات و کرامات نہ ہوں گی؟ چنانچہ خود مولانا اس مطلب کو بطورِ تفریع چند شعر بعد آگے چل کر فصل کے خاتمہ پر بیان فرمائیں گے۔

8

واں گروہِ دیگر از نصرانیاں

نامِ احمدؐ داشتندے مُستہاں

ترجمہ: لیکن عیسائیوں کا دوسرا گروہ، (جو) احمد صلی اللہ علیہ وسلّم کے نامِ مبارک کی بے قدری کیا کرتا تھا۔

9

مُستہان و خوار گشتند از فتن

از وزیرِ شوم رائے شوم فن

ترجمہ: وہ لوگ اس منحوس وزیر کے سبب، فتنوں سے ذلیل خوار ہوگئے۔

الخلاف: بعض نسخوں میں یہ شعر نہیں ہے۔

10

مستہان و خوار گشتند آں فریق

گشتہ محروم از خود و شرطِ طریق

ترجمہ: وہ لوگ ذلیل و خوار ہو گئے۔ اپنی ہستی سے بھی محروم ہو گئے (کہ قتل کئے گئے) اور دین سے بھی (محروم ہوگئے، کہ وزیر نے انکے عقائد خراب کردیئے۔)

11

ہم مُخبط دینِ شاں و حکمِ شاں

از پئے طُومارہائے کژ بیاں

ترجمہ: انکا مذہب اور احکام، کج بیان دفتروں کی وجہ سے مخبوط ہو گیا (یہ ضرر انکی نسل میں بھی باقی رہا۔)

12

نامِ احمدؐ چوں چنیں یاری کند

تا کہ نورش چوں مددگاری کند

ترجمہ: (ماقبل تفریع کر کے فرماتے ہیں) کہ جب حضرت احمد صلی اللہ علیہ وسلّم کا نامِ مبارک ہی ایسی مدد کرتا ہے، تو (خیال کرو) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا نور (ذات مبارک) کس قدر مدد کرسکتا ہے؟

13

نامِ احمدؐ چوں حصارے شد حصیں

تا چہ باشد ذاتِ آں رُوح الامیں

ترجمہ: جب احمد صلی اللہ علیہ وسلّم کا نام مبارک ہی (حفاظت کے لیے) مضبوط قلعہ ہے (کہ شرور کو آنے نہیں دیتا،) تو اس روح الامین صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ مبارک کیسی کچھ (محافظ) ہو گی۔