دفتر اول: حکایت: 37
منازعت کردنِ اُمراء با یک دیگر
سرداروں کی باہمی خانہ جنگی
1
یک امیرے زاں امیراں پیش رفت
پیشِ آں قومِ وفا اندیش رفت
ترجمہ: ان سرداروں میں سے ایک سردار آگے بڑھا۔ (اور) اس وفا اندیش قوم کے پاس گیا۔
2
گُفت اینک نائِب آں مرد من
نائبِ عیسیٰؑ منم اندر زمن
ترجمہ: بولا دیکھو میں اس مرد (متوفی) کا جانشین ہوں۔ (اب) عہدِ حاضر میں، میں ہی عیسیٰ علیہ السلام کا نائب ہوں۔
3
اِینک ایں طُورمار بُرہانِ من ست
کاِیں نیابت بعد از و آنِ من ست
ترجمہ: دیکھو یہ دفتر (اس امر پر) میرا ثبوت ہے۔ کہ یہ نیابت اس کے بعد میرا ہی حق ہے۔
4
آں امیرِ دیگر آمد از کمیں
دعوئے او در خِلافت بُد ہمیں
ترجمہ: (اُدھر سے) وہ دوسرا سردار (اپنی) جگہ سے نکلا۔ اسکا دعویٰ بھی خلافت کے متعلق وہی تھا۔
5
از بغلِ او نِیز طُومارے نمود
تا برآمد ہر دو را خشم و حُجُود
ترجمہ: اس نے بھی (اپنی) بغل سے ایک دفتر (نکال کر) دکھایا۔ یہاں تک کہ دونوں کو غصّہ اور ضد آ گئی۔
6
آں امیرانِ دِگر یک یک قطار
برکشیدہ تیغہائے آبدار
ترجمہ: ان باقی سرداروں نے بھی (اپنی اپنی فوج) کی ایک ایک صف (باندھ کر) تیز تلواریں سونت لیں۔
7
ہر یکے را تیغ و طومارے بدست
در ہم اُفتادند چُوں پیلانِ مست
ترجمہ: ہر ایک کے ہاتھ میں تلوار اور ایک رجسٹر تھا۔ (سب کے سب) مَست ہاتھیوں کی طرح ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔
8
ہر امیرے داشت خَیلِ بیکراں
تیغہا را برکشیدہ آں از میاں
ترجمہ: ہر امیر کے پاس ان گنت فوج تھی۔ (جس نے) اس وقت تلواریں نیام سے نکال لیں۔
9
صد ہزاراں مردِ ترسا کُشتہ شد
تاز سرہائے بُریدہ پُشتہ شد
ترجمہ: لاکھوں عیسائی مارے گئے۔ یہاں تک کہ کٹے ہوئے سروں کا انبار لگ گیا۔
10
خُوں رواں شُد ہمچو سیل از چپ و راست
کوہ کوہ اندر ہوا زِیں گرد خاست
ترجمہ: دائیں بائیں سے لہو سیلاب کی طرح بہ نکلا۔ اس (معرکہ) سے غبار کے پہاڑوں کے پہاڑ ہوا میں اڑنے لگے۔
11
تخمہائے فتنہا کو کِشتہ بود
آفتِ سرہائے ایشاں گشتہ بود
ترجمہ: فتنے کے وہ بیج جو اس (مکار وزیر) نے بو دئیے تھے۔ ان (نصارٰی) کے سروں پر وہ آفت بن گئے۔
12
جَوزہا بشکست و آنکو مغز داشت
بعد کُشتن روحِ پاکِ نغز داشت
ترجمہ: (اس ہنگامے میں لوگ کیا قتل ہوئے گویا) اخروٹ (تھے جو) توڑے گئے۔ اور (ان میں سے) جو کوئی (اطاعت و عبادت) کا مغز رکھتا تھا۔ قتل کے بعد اس کی روحِ پاک اور لطیف ہو گئی۔
مطلب: ان نصارٰی میں بعض ایسے صالح لوگ بھی تھے، جو دینِ عیسوی کے سچے متبع، اور احکامِ الہیہ کو پوری طرح بجا لانے والے، اور فضائلِ روحانیہ سے بہرہ ور تھے۔ چنانچہ ان کو بوجہ نزاہتِ قلب و نفاستِ روح وزیر کے مکر کا احساس بھی ہو گیا تھا، وہ اس کے فتنے سے بچ گئے تھے۔ جس کا ذکر مولانا رحمۃ اللہ علیہ پہلے کر چکے ہیں۔ اب فرماتے ہیں کہ اس ہنگامۂ قتل و غارت میں کچھ مذکورہ مشرب کے لوگ بھی کام آئے، مگر یہ قتل ان کے لیے موجبِ راحت بن گیا، کیونکہ وہ دنیوی زندگی کے جھمیلوں سے چھوٹ گئے جو موت سے زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
آزارِ جان حیات دہد بیشر ز مرگ
تا هست زندگی نکنم شکوۂ سر ز مرگ
ان کو علائقِ جِسمانیہ سے نجات پا جانے اور عالمِ سفلی کی آلودگیوں سے بچ جانے سے ایک خاص روحانی آسائش محسوس ہوئی۔
؎ در زندگی بخواب نہ بیند کسے غؔنی
آسائشے کہ دل ز پسِ مرگ دیدہ است
13
کُشتن و مُردن کہ بر نقشِ تن ست
چُوں اَنار و سیب را بشکستن ست
ترجمہ: مارنا اور مرنا جو ظاہرِ جسم پر (طاری ہوتا) ہے۔ اس کی مثال انار اور سیب کو توڑنے کی سی ہے۔
14
آنچہ شِیریں ست آں شُد یار دانگ
و آنچہ بوسیدہ ست نبود غیرِ بانگ
ترجمہ: (ان میں سے) جو میٹھا ہے وہ قیمت پاتا ہے۔ اور جو گلا سڑا ہے (اس میں تڑاخ سے ٹوٹنے کی) آواز کے سوا (کچھ) نہیں ہے۔
15
آنچہ پُر مغزست چُوں مشک ست پاک
و آنچه بوسِیدہ ست نبود غیر خاک
ترجمہ: (ان میں سے) جو پُر مغز ہے وہ خالص مشک کی طرح (خوشبو دار) ہے۔ جو گلا سڑا ہے وہ مٹی سے زیادہ (با وقعت) نہیں ہوتا۔
مطلب: صالحینِ نصارٰی جو مرنے کے بعد مدارجِ عالیہ پر فائز ہو گئے۔ مولانا یہاں اس کے متعلق ایک کلیہ بیان فرماتے ہیں کہ موت سے یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ مرنے والا آدمی افضل ہے یا ارذل۔ جس طرح ایک انار توڑا جائے یا ایک سیب چیرا جائے تو اس سے اس کی اندرونی صفات کا پتا لگ جاتا ہے کہ شیریں ہے یا تلخ، اور پُر مغز و خوشبو دار ہے یا بوسیدہ و متعفّن۔ اسی طرح موت سے انسان کے وہ روحانی فضائل ظاہر ہو جاتے ہیں جو جسمانی حجاب میں چھپے ہوتے ہیں، یا وہ نفسانی رذائل کھل پڑتے ہیں جو حیاتِ جسمانیہ کے پردے میں مخفی ہوتے ہیں۔ غرض انسان کا مرنا انار کے توڑنے یا سیب کے چیرنے سے مشابہ ہے۔ نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
چنیں گفتند دانایانِ ہشیار
کہ نیک و بد بمرگ آید پدیدار
بسازن راکہ آں دم مرد یابی
بسا مردا کہ رویش زرد یابی
الخلاف: بعض نسخوں میں یہ شعر نہیں ہے۔
16
آنچہ با معناست خود پیدا شود
و آنچہ بے معنی ست خود رُسوا شود
ترجمہ: جو پُر حقیقت (یعنی متصف بفضائل) ہے، (وہ اپنے فضائل کے انوار کے ساتھ) جلوہ گر ہوتا ہے۔ اور جو بے معنی (یعنی فضائل سے بے بہرہ) ہے وہ ضرور رسوا ہوتا ہے۔
مطلب: یہ شعر اس آیت کے مضمون کے موافق ہے: ﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ - فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ - وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ - فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ﴾ (القارعۃ: 6-9) ”اب جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے، تو وہ من پسند زندگی میں ہو گا، اور وہ جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو اس کا ٹکھانا ایک گہرا گھڑا ہو گا“ مولانا کے قول ”خود پیدا شود“ میں یہ بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ صالحین کے مرنے کے بعد ان کے انوارِ کمالات کا پَرتو پسماندگان پر کسی نہ کسی طرح پڑتا رہتا ہے۔
میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
کرتا ہوں پس از مرگ بھی حل مشکلِ عالم
بے حسّ ہوں پر ناخن کی طرح عقدہ کشا ہوں
خواجہ نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بیاد آور اے تازہ کبک روی
کہ چوں بر سرِ خاکِ من بگذری
گیا بینی از خاکم انگیختہ
سرے سودہ بالیں فرو ریختہ
نہی دست بر شوشۂ خاکِ من
بیاد آری از گوہرِ پاکِ من
فشانی تو بر من سرشکے ز دُور
فشانم من از آسمان بر تو نُور
دعائے تو بر هر چه دارد شتاب
من آمین کنم تا شود مستجاب
مرا زندہ پندار چوں خویشتن
من آیم بجاں گر تو آئی بتن
مداں خالی از همنشینی مرا
کہ بینم ترا گر نہ بینی مرا
17
رَو بمعنٰی کوش اے صُورت پرست
زانکہ معنٰی بر تنِ صُورت پرست
ترجمہ: اے صورت پرست جا معنٰی کی کوشش کر۔ کیونکہ معنٰی صورت کے لیے بمنزلہ پَر کے ہیں۔
مطلب: جب ثابت ہوا کہ صورت کی گرم بازاری صرف اس حیاتِ فانیہ تک ہے، اور موت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے، پھر اس کے بعد معنٰی ہی معنٰی یعنی فضائلِ روحانیہ پر سارا مدار رہ جاتا ہے، تو معنٰی کے حصول کے لیے سعی کرنی چاہیے۔ جو انسان کے لیے ایسے ہیں جیسے پرندے کے لیے پر۔ ایک طائر کے پر اس کے جسم کو ہوا پر اڑا لے جاتے ہیں، تو ایک با معنٰی انسان کی صفاتِ روحانیہ بھی اس کے جسم کو مدارجِ تہذیب پر فائز، زیورِ آداب سے آراستہ اور لذّاتِ طیبہ سے محفوظ کرتی ہیں۔ جس طرح ایک پرندہ پروں کے بغیر عرضہ زبونی ہے۔ اسی طرح صورت بھی معنٰی کے بغیر نا چیز و بے اثر ہے۔ اکبر رحمۃ اللہ علیہ ؎
جلوہ نہ ہو معنٰی کا تو صورت کا کیا اثر
بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا
غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
سوادِ کعبہ کے منظورِ اربابِ نظر باشد
بسنگ سرمہ حاجت نیست ہرگز چشمِ روشن را
18
ہمنشینِ اہلِ معنٰی باش تا
ہم عطا یابی وہم باشی فتیٰ
ترجمہ: اہلِ معنٰی کا ہمنشین بن تاکہ (ان کے فیضِ صحبت سے فضائلِ اخلاق کا) انعام بھی پائے اور جواں مرد (عارف) بھی بن جائے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
بیا کہ چارہ ذوقِ حضور و نظمِ امور
بفیض بخشی اہلِ نظر توانی کرد
غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
پیروِ ما شو کہ ہمچو خامہ در راہِ سخن
بے بمعنی مے تواں بردن ز نقشِ پائے ما
19
جانِ بے معنٰی درِیں تن بے خلاف
ہست ہمچوں تیغ چوبِیں در غلاف
ترجمہ: بے شک بے معنٰی جان اس بدن میں ایسی ہے۔ جیسے ایک لکڑی کی تلوار غلاف میں۔
اکبر الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ان کا گھر اور ان کی باتیں دیکھ کر کہنا پڑا
قصر عالی شان ہے لیکن مکیں تو کچھ نہیں
20
تا غِلاف اندر بود با قیمت ست
چُوں بروں شد سوختن را آلت است
ترجمہ: جب تک (ایسی تلوار) غلاف میں (چھپی) ہوتی ہے قیمتی (سمجھی جاتی) ہے۔ جب باہر آئی تو معلوم ہوا کہ جلانے کے کام کی چیز ہے۔
مطلب: جو شخص دین و مذہب کی برکات سے محروم اور روحانی فضائل سے بے بہرہ ہو۔ وہ جب تک اس زندگی میں صورتِ انسانی کے لباس میں ہے، انسان ہے۔ جب موت کے بعد یہ لباس اترا تو جہنم کا ایندھن بنا۔ جیسے قرآن میں ارشاد فرمایا:﴿وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ﴾ (الاعراف: 179) ”اور ہم نے جنّات اور انسانوں میں سے بہت سے لوگ جہنم کے لیے پیدا کیے۔ ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، اور ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔“
وَ لَنِعْمَ مَا قِیْلَ ؎
اہلِ دنیا را ز غفلت زندہ دل پنداشتم
خفتہ دائم مردگاں را زنده مے بیند بخواب
21
تیغِ چوبیں را مبر در کارزار
بِنگر اوّل تا نگردد کار زار
ترجمہ: لڑائی میں لکڑی کی تلوار نہ لے جا (اس کو) پہلے دیکھ بھال لے تاکہ (آخر میں) کام خراب نہ ہو۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر کہ چوں غنچہ مسرِ خود بگریباں نبرد
وقتِ رفتن ز گلستان لب خنداں نبرد
22
ور بود چوبِیں برو دِیگر طلب
ور بود الماس پیش آ با طرب
ترجمہ: اگر (واقعی تیری تلوار) لکڑی کی ہو تو جا دوسری تلاش کر۔ اور اگر سخت ہو تو خوشی سے مقابلہ پر آ۔
مطلب: اگر روح کمالات دین و اخلاق سے بے بہرہ ہے تو دنیا ہی میں اس کی اصلاح و درستی کر لو، تاکہ میدانِ محشر میں دقّت پیش نہ آئے، اور اگر روح کی حالت تسلی بخش اور موجبِ طمانیت ہے تو اَلْحَمْدُ لِلہ۔ آں را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک است۔
؎ صائب چہ فارغ اند ز اندیشۂ حیات
جمعيکہ کارِ آخرت انجام دادہ اند
23
تیغ در زرّاد خانۂ اولیاست
دیدنِ ایشاں شما را کیمیاست
ترجمہ: (جو) تلوار (تجھے چاہیے وہ) اولیاء (اللہ) کے اسلحہ خانہ میں (موجود) ہے۔ ان (اولیاء) کی زیارت تمہارے حق میں کیمیا ہے۔
مطلب: روح کو تیغِ آبدار کی طرح، صفاتِ حسنہ کے ساتھ صیقل اور چمکدار بنانا مطلوب ہے۔ تو اس کا سامان اولیاء اللہ کے پاس ہے، ان کی صحبت کو اکسیر سمجھو۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
کیمائیست عجب بندگیِ پیرِ مغاں
خاکِ او گشتم و چندیں درجاتم داند
؎ گر بروئے آب رفتن آرزو داری غنؔی
زیر پائے اہلِ دل افتادہ چوں سجادہ باش
24
جُملہ دانایاں ہمیں گُفتہ ہمیں
ہست دانا رحْمَۃٌ لِّلْعٰالَمِیْن
ترجمہ: تمام داناؤں نے بس یہی ارشاد فرمایا ہے۔ (کہ) دانا (فی الواقع) اہلِ عالَم کے لیے (بمنزلہ) رحمت ہے۔
25
گر انارے میخری خنداں بخر
تا دِہد خندہ ز دانہ او خبر
ترجمہ: کہ اگر تو انار خریدتا ہے تو کھِلا ہوا لے۔ کیونکہ کِھلنا اس کے دانے کی (شیرینی کی) علامت ہے۔
مطلب: جس طرح انارِ شیریں اپنے دانوں کو نمایاں کر دیتا ہے، اسی طرح جو بزرگ با کمال اور اہل اللہ ہوتے ہیں ان کے باطنی کمالات اور قلبی انوارات انکے ظاہری آثار سے نمایاں ہوتے ہیں۔ مثلًا ان میں پیغمبری اخلاق پائے جاتے ہیں۔ ان کی صحبت سے دل کو سکون و طمانیت حاصل ہوتی ہے، ان کے گفتار و کردار سے اخلاص و حقانیت ٹپکتی ہے، اور ان کی باتوں سے تابعین کے دلوں میں محبتِ الٰہی اور بے رغبتیِ دنیا پیدا ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پس ایسے بزرگوں کو اپنا مقتدا و پیشوا بنانا چاہیے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
سرشکِ گوشہ گیراں را چو دریا بند دُر یابند
رخ از مہر سحر خیزاں نگر دانند اگر دانند
26
اے مُبارک خندہ اش کو از دہاں
مینماید دِل چُو دُر از دُرجِ جاں
ترجمہ: اے (مخاطب!) اس کی خندہ روئی مبارک ہے۔ جو ہنس مکھ کی صورت سے اپنا موتی کا سا دل جان کے صندوقچہ سے نمایاں کر رہا ہے۔
مطلب: اوپر کے شعر میں ”خندۂ انار“ سے اس شعر میں ”خندہ اش“ سے بطور استعارہ وہ بیرونی و ظاہری آثار و علامات مراد ہیں، جن سے باطن کی کیفیت کا حال کھلتا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ مقبولانِ حق وہ بندے ہیں جن کا ظاہر ان کے کمالاتِ باطن کا عنوان ہے، اور ان کا دیدار بھی اہل ارادت کے لیے سامانِ ہدایت ہے۔ جیسے فرمایا: عَنْ اَسْمَآءَ بِنْتِ یَزِیْدٍ اَنَّھَا سَمِعَتْ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اَلَآ اُنَبِّئُکُم بِخَیَارِکُمْ قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللہِ قَالَ خِیَارُکُمُ الَّذِیْنَ اِذَا رَءُوْا ذُکِرَ اللہُ (ابن ماجہ:حدیث: 4258) ”یعنی اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو یہ فرماتے سنا: کہ کیا میں تم کو تم میں سے اچھے لوگوں کا پتا نہ بتاؤں۔ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! فرمایا تم میں بہت اچھے وہ لوگ ہیں کہ جب ان کا دیدار کیا جائے تو اللہ یاد آئے“ تمثیل کے ضمن میں یہ اشارہ بھی ہے کہ لوگوں سے خندہ روئی کے ساتھ پیش آنا صفائے قلب اور خلوصِ باطن کی دلیل ہے، جو مسخر دل اور جاذبِ طبع ہوتی ہے۔ مولانا اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ ؎
دل کی تسخیر ہے شیریں سخنی پر موقوف
کچھ کرامت نہیں، جادو نہیں، اعجاز نہیں
خندہ روئی و شگفتہ پیشانی رہنا سنت ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: عَنْ عَبْدِ اللہِ بِنِ حَارِثِ بْنِ جَزْءٍ قَالَ مَا رَاَیْتُ اَحَدًا اَکْثَرَ تَبَسُّمًا مِّنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (رواہ الترمذی في جامعه باب في بشاشة النبي صلى الله عليه وسلم حديث رقم: 3733) ”عبد اللہ بن حارث بن جزء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے زیادہ تبسم کرتے کسی کو نہیں دیکھا“۔
27
نا مُبارک خندۂ آں لالہ بُود
کز دہانِ اُو سواد دِل نُمود
ترجمہ: (اور) نا مبارک ہنسی اس گلِ لالہ (کی سی حالت والے شخص) کی تھی۔ جس کے منہ سے اسکے دل کی سیاہی دکھائی دیتی ہے۔
مطلب: چونکہ بعض جھوٹے مدعیانِ کمال بھی بزرگ بن بیٹھتے ہیں، اور ظاہر بیں لوگوں کو فریب دینے کے لیے اپنے اندر بناوٹی اوصافِ جمیلہ پیدا کر لیتے ہیں، ان کے ظاہری اوصاف کو گلِ لالہ کے کھلنے سے تشبیہ دی ہے یعنی مکّار و عیّار لوگ بھی اخلاقِ فاضلہ دکھاتے ہیں، مگر وہ بجائے اس کے کہ ان کے باطنی کمالات کی شہادت دیں، ان کے اندرونی خبث و ظلمت کا ثبوت دیتے ہیں، کیونکہ ان لوگوں کی صحبت سے اہلِ صحبت پر بڑا بُرا اثر پڑتا ہے۔
28
نارِ خنداں باغ را خنداں کند
صُحبتِ مردانت از مرداں کند
ترجمہ: تر و تازہ انار (سارے) باغ کو تر و تازہ بنا دیتا ہے۔ مردانِ حق کی صحبت تم کو مردوں میں سے بنا دے گی۔
کما قیل ؎
آہن کہ بپارس آشنا شد
فی الحال بصورتِ طلا شد
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بلے میوہ ز میوہ رنگ گیرد
ز خوباں خوبرو خوبی پزیرد
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
بود کیمیا قربِ اہلِ سعادت
ہما مغزِ دولت کند استخواں را
الخلاف: ہمارے نسخے میں یہ شعر نہیں ہے۔
29
یک زمانے صحَبتے با اَولِیاء
بِہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا
ترجمہ: کچھ دیر اولیاء اللہ کی خدمت میں حاضر ہونا۔ سَو برس کی بے ریا (یعنی خالص) طاعت سے (فضیلت میں) بڑھ کر ہے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
اگر بہر دو جہاں یک نفس زنم با دوست
مرا ز ہر دو جہاں حاصل آں نفس باشد
30
گر تو سنگِ خارہ و مرمر شوی
چُوں بصاحبِ دِل رسی گوہر شوی
ترجمہ: اگر تو سخت پتھر یا (سنگِ مرمر) بھی ہو۔ جب کسی صاحبِ دل (ولیِ کامل) سے ملے گا (تو اسکی برکت سے) موتی بن جائے گا۔
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
صحبتش اکسیرِ مسِ ہر وجود
ہمتش ایثار کن بحرِ جود
31
مِہرِ پاکاں درمیانِ جاں نشاں
دِل مدہ اِلَّا بمہرِ دل خوشاں
ترجمہ: پاک لوگوں کی محبت (اپنی جان) میں جما لے۔ دلِ خوش لوگوں کے سوا (جو دنیا سے بے غم ہیں) کسی کی محبت میں دل نہ دے۔
مطلب: حصولِ کمال کے لیے کسی با کمال کا ارادت مند بننا چاہیے، نہ کہ ناقص و نا اہل کا۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
عقل اگر داری مکن کسبِ کمال از ناقصاں
کے رسد آخر دماغت از شرابِ نیمرس
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مکن با صوفیانِ خام یاری
کہ باشد کارِ خاماں خام کاری
طریقِ پختہ کاری را ندانند
بخامی میوہ از باغت فشانند
ز اصلِ خویش آں میوہ بریدہ
بماند تا قیامت نا رسیده
32
کُوئے نومیدی مَرو اُمّیدہاست
سُوئے تاریکی مَرو خورشیدہاست
ترجمہ: نا امیدی کے کوچہ میں نہ جا، امیدوں کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ اندھیرے کی طرف نہ جا (ہدایت کے) سورج (درخشاں) ہیں۔
مطلب: یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اہلِ کمال عنقا ہیں، بلکہ طالب کو امید رکھنی چاہیے کہ خدا کے فضل سے کوئی نہ کوئی کامل اس کی دستگیری کے لیے نمودار ہو جائے گا۔
شہر خالی ست ز عشاق مگر کز طرفے
دستے از غیب بروں آید و کارے بکند
حافظؔ گر نروی از درِ او ہم روزے
گزرے بر سرت از گوشہ کنارے بکند
اور تاریکِ باطن مکّاروں عیّاروں کے معتقد نہ ہو جانا۔ بلکہ طالبِ استقاضہ کے لیے پیرانِ کامل موجود ہیں۔
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مستغنیم بتربیتِ پیرِ مَے فروش
زیں مرشدانِ رہ زن و از رہ فتادہ ہم
33
دِل تُرا در کُوئے اہلِ دل کشید
تن ترا در حبسِ آب و گِل کشید
ترجمہ: دل تجھ کو اہل دل کے کوچے میں لے جانے کا مقتضی ہے۔ جسم تجھ کو علائقِ جسمانیہ کی قید میں ڈالنے کا متقاضی ہے۔
مطلب: اوپر کہا تھا کہ تم کو روشن ضمیر لوگوں کی صحبت میں جانا چاہیے، اب فرماتے ہیں کہ تمہارے اندر خود ایسے متضاد جذبات موجود ہیں جن میں سے بعض کا میلان اہل اللہ کی صحبت کی طرف ہے اور بعض کی کشش لذاتِ جسمانیہ کی طرف۔
34
ہیں غذائے دِل بِدہ از ہمدِلے
رَو بجو اِقبال را از مُقبلے
ترجمہ: (ان مختلف جذبات کی کش مکش میں) ہوشیار رہو (اور جذبۂ روح کی متابعت کرتے ہوئے) دل کو غذائے (محبت و معرفت) کسی ہمدل سے (لے کر) دو۔ جاؤ کسی با اِقبال سے نصیبہ تلاش کرو۔
مطلب: طالب کو اپنی روحانی نشو و نما کے لیے پیر کی آغوشِ تربیت کی ضرورت ہے، جہاں وہ غذائے معرفت حاصل کر کے کمالِ متوقع کو پہنچ سکتا ہے۔ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہست دلت بیضۂ مرغ نکو
نے اثرِ جنبش و پرّش درو
تاکہ بہ جنبش رسدانگہ پرش
زیرِ پرِ پیر و ہش پرورش
35
دست زَن در ذَیل صاحبِ دولتے
تا ز اِفْضالش بیابی رِفعتے
ترجمہ: کسی صاحبِ دولت کا دامن پکڑ۔ تاکہ اس کی بزرگی (کی بدولت) تو سر بلندی حاصل کرے۔
مطلب: بقول جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
پیر کہ باشد شہِ کون و مکاں
خواجۂ داد و ستدِ کن فکاں
تخت نشینے ز سر افگندگی
تاجِ سرش خاکِ در بندگی
طلعتِ او نورِ سعادت نما
خلعتِ او دامنِ دولت کشا
جامؔی اگر نقدِ یقیں بایدت
جدے و جہدے بہ ازیں بایدت
پا بکش از ہر چہ بود نا گزیر
دامنِ اقبال چنیں پیر گیر
36
صحبتِ صالِح ترا صالح کند
صُحبتِ طالحِ ترا طالحِ کند
ترجمہ: نیک کی صحبت تجھ کو نیک بنا سکتی ہے۔ بد بخت کی صحبت تجھ کو بد بخت بنا سکتی ہے۔
مطلب: خاصانِ خدا کی صحبت میں آدمی فرشتہ بن سکتا ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
تو خود فرشہ شو اما ز خویش نتواں شد
جز آنکه صحبتِ خاصانِ کردگار بود
لیکن اگر شیطان کی صحبت ہو تو فرشتہ بھی مبتلائے معاصی ہو جاتا ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
گر نشیند فرشتۂ با دیو
وحشت آموزد و خیانت و ریو
از بداں جز بدی نیاموزی
نکند گرگ پوستیں دوزی
اکبر مرحوم ؎
مل کے یاروں سے ہوا شوقِ گناہ
آدمی کا آدمی شیطان ہے