دفتر اول: حکایت: 39
حکایتِ بادشاہِ جہودِ دیگر، کہ دَر ہلاکِ دینِ عیسیٰ علیہ السلام جہد می کرد
ایک اور یہودی بادشاہ کا قصہ، جو دینِ عیسوی کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا تھا
1
بعد ازِیں خُونریزِ درماں ناپذیر
کاندر اُفتاد از بلائے آں وزیر
ترجمہ: اس ناقابلِ علاج خونریزی کے بعد۔ جو اس وزیر کے مکر سے واقع ہوئی تھی۔
2
یک شہِ دیگر ز نسلِ آں جُہود
در ہلاکِ قومِ عیسیٰؑ رُو نمُود
ترجمہ: اس یہودی کی نسل سے ایک اور بادشاہ۔ قومِ عیسیٰ علیہ السّلام کو ہلاک کرنے پر متوجہ ہوا۔
3
گر خبر خواہی ازِیں دیگر خُرُوج
سُورہ بر خواں وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ
ترجمہ: اگر تم اس دوسرے حملے کی خبر (سننا) چاہو۔ تو سورة ﴿وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ﴾ کا مطالعہ کرو۔
مطلب: اس اقتباس سے سورةُ البروج کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ - اَلنَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ - اِذْ هُمْ عَلَیْهَا قُعُوْدٌ - وَّ هُمْ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُهُوْدٌ﴾ (البروج: 4 تا 7) ”کہ خدا کی مار ہے ان خندق (کھودنے) والوں پر، اس آگ والوں پر۔ جو ایندھن سے بھری ہوئی تھی۔ جب وہ اس کے پاس بیٹھے تھے۔ اور وہ ایمان والوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے تھے، اس کا نظارہ کرتے جاتے تھے۔“
تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے مسند احمد و مسلم شریف کے حوالہ سے:کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اس کے یہاں ایک جادوگر تھا، جب جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری موت کا وقت آ رہا ہے مجھے کوئی بچہ سونپ دو تو میں اسے جادو سکھا دوں، چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا۔ لڑکا اس کے پاس جاتا تو راستے میں ایک راہب کا گھر پڑتا تھا جہاں وہ عبادت میں، کبھی وعظ میں مشغول ہوتا۔ یہ بھی کھڑا ہوجاتا اور اسکے طریقۂ عبادت کو دیکھتا اور وعظ سنتا، آتے جاتے یہاں رک جایا کرتا تھا۔ جادوگر بھی مارتا اور ماں باپ بھی، کیونکہ وہاں بھی دیر میں پہنچتا اور یہاں بھی دیر میں آتا، ایک دن اس بچے نے راہب کے سامنے اپنی یہ شکایت بیان کی، راہب نے کہا کہ جب جادوگر تجھ سے پوچھے کہ کیوں دیر لگ گئی تو کہہ دینا گھر والوں نے روک لیا تھا اور گھر والے پوچھیں تو کہہ دینا کہ آج جادوگر نے روک لیا تھا۔ یونہی ایک زمانہ گزر گیا کہ ایک طرف تو جادو سیکھتا تھا اور دوسری جانب دینِ الٰہی سیکھتا تھا۔ ایک دن دیکھتا ہے کہ راستے میں ایک زبردست ہیبت ناک جانور پڑا ہوا ہے، اس نے لوگوں کی آمد و رفت بند کر رکھی ہے، اِدھر والے اُدھر اور اُدھر والے اِدھر نہیں آ سکتے، اور سب لوگ اِدھر اُدھر حیران و پریشان کھڑے ہیں، اس نے اپنے دل میں سوچا کہ آج موقع ہے امتحان کر لوں کہ راہب کا دین اللہ کو پسند ہے یا جادوگر کا۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور یہ کہہ کر اس پر پھینکا کہ اے اللہ! اگر تیرے نزدیک راہب کا دین اور اس کی تعلیم جادوگر کے امر سے زیادہ محبوب ہے تو تُو اس جانور کو اس پتھر سے ہلاک کر دے تاکہ لوگوں کو اس مصیبت سے نجات ملے، پتھر کے لگتے ہی وہ جانور مرگیا اور لوگوں کا آنا جانا شروع ہوگیا۔ پھر جا کر راہب کو خبر دی اس نے کہا پیارے بچے تو مجھ سے افضل ہے، اب اللہ کی طرف سے تیری آزمائش ہوگی۔ اگر ایسا ہوا تو کسی کو میری خبر نہ کرنا۔ اب اس بچے کے پاس حاجت مند لوگوں کا تانتا لگ گیا اور اس کی دعا سے مادر زاد اندھے، کوڑھی، جذامی اور ہر قسم کے بیمار اچھے ہونے لگے۔ بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں بھی یہ آواز پڑی، وہ بڑے تحائف لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر تو مجھے شفاء دے دے تو یہ سب تجھے دے دوں گا۔ اس نے کہا شفا میرے ہاتھ میں نہیں، میں کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفا دینے والا اللہ وحدہٗ لا شریکَ لہٗ ہے۔ اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں اس سے دعا کروں۔ اس نے اقرار کیا، بچے نے اس کے لیے دعا کی، اللہ نے اسے شفاء دے دی۔ وه بادشاہ کے دربار میں آیا اور جس طرح اندھا ہونے سے پہلے کام کرتا تھا کرنے لگا۔ اور آنکھیں بالکل روشن تھیں، بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا کہ تجھے آنکھیں کس نے دیں؟ اس نے کہا میرے رب نے۔ بادشاہ نے کہا ہاں! یعنی میں نے، وزیر نے کہا نہیں نہیں، میرا رب اللہ ہے، بادشاہ نے کہا اچھا تو کیا میرے سوا تیرا کوئی اور بھی رب ہے؟ وزیر نے کہا ہاں میرا اور تیرا رب اللہ عزوجل ہے۔ اب اس کو طرح طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں پہنچانے لگا اور پوچھنے لگا کہ تجھے یہ تعلیم کس نے دی؟ آخر اس نے بتادیا کہ اس بچے کے ہاتھ پر میں نے اسلام قبول کیا، بادشاہ نے بچے کو بلوایا اور کہا اب تم جادو میں خوب کامل ہوگئے ہو کہ اندھوں اور بیماروں کو تندرست کرنے لگ گئے ہو، اس نے کہا میں کسی کو شفا نہیں دے سکتا ہوں، شفا تو اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے۔ کہنے لگا ہاں! یعنی میرے ہاتھ میں ہے، کیونکہ اللہ تو میں ہی ہوں۔ اس نے کہا ہرگز نہیں، کہا پھر کیا تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے؟ تو وہ کہنے لگا ہاں! میرا اور تیرا رب اللہ تعالٰی ہے۔ اس نے اب اسے بھی طرح طرح کی سزائیں دینی شروع کیں یہاں تک کہ راہب کا پتہ لگا لیا، راہب کو بلا کر اس نے کہا کہ تو اسلام کو چھوڑ دے اور اس دین سے پلٹ جا، اس نے انکار کیا تو اس بادشاہ نے آرے سے اس کے چہرے کو چیر دیا اور ٹھیک دو ٹکڑے کر کے پھینک دیا۔ پھر اس نوجوان سے کہا کہ تو بھی دین سے پھر جا مگر اس نے بھی انکار کردیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ ہمارے سپاہی اسے فلاں فلاں پہاڑ پر لے جائیں اور اسکی بلند چوٹی پر پہنچ کر پھر اسے اس کے دین چھوڑ دینے کو کہیں، اگر مان لے تو اچھا ورنہ وہیں سے لڑھکا دیں، چنانچہ یہ لوگ اسے لے گئے جب وہاں سے دھکا دینا چاہا تو اس نے اللہ تبارک و تعالٰی سے دعا کی ”اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْهِمْ بِمَا شِئْتَ“ اس دعا کے ساتھ پہاڑ ہِلا اور وہ سب سپاہی لڑھک گئے، صرف وہ بچہ بچا رہا، وہاں سے وہ اترا اور ہنسی خوشی پھر اس ظالم بادشاہ کے پاس آگیا، بادشاہ نے کہا یہ کیا ہوا؟ میرے سپاہی کہاں ہیں؟ فرمایا میرے اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا، اس نے کچھ اور سپاہی بلوائے اور ان سے کہا کہ اسے کشتی میں بٹھا کرلے جاؤ، اور بیچوں بیچ سمندر میں ڈبو کر چلے آؤ، یہ اسے لے کر چلے اور بیچ میں پہنچ کر جب سمندر میں پھینکنا چاہا تو اس نے پھر وہی دعا کی کہ ”اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْهِمْ بِمَا شِئْتَ“ موج اٹھی اور وہ سپاہی سارے کے سارے سمندر میں ڈوب گئے، صرف وہ بچہ ہی باقی رہ گیا یہ پھر بادشاہ کے پاس آیا، اور کہا میرے رب نے مجھے ان سے بھی بچا لیا، اے بادشاہ تو چاہے تمام تدبیریں کر ڈال لیکن مجھے ہلاک نہیں کرسکتا۔ ہاں جس طرح میں کہوں اس طرح اگر کرے تو البتہ میری جان نکل جائے گی۔ اس نے کہا کیا کروں فرمایا تو لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر، پھر مجھے کھجور کے تنے پر سولی چڑھا اور میرے ترکش میں سے ایک تیر نکال، میری کمان پر چڑھا اور ”بِسْمِ اللّٰهِ رَبِّ الْغُلَامِ“ کہہ کر وہ تیر میری طرف پھینک، وہ مجھے لگے گا اس سے میں مروں گا، چنانچہ بادشاہ نے یہی کیا، تیر بچے کی کنپٹی میں لگا اس نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھ لیا اور شہید ہوگیا۔ اس کے اس طرح شہید ہوتے ہی لوگوں کو اس کے دین کی سچائی کا یقین آگیا، چاروں طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ ”آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ“ یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے مصاحب گھبرائے اور بادشاہ سے کہنے لگے اس لڑکے کی ترکیب ہم سمجھے ہی نہیں، دیکھیے! اس کا یہ اثر پڑا کہ تمام لوگ اس کے مذہب پر ہوگئے، ہم نے تو اسی لیے قتل کیا تھا کہ کہیں یہ مذہب پھیل نہ جائے لیکن وہ ڈر تو سامنے ہی آ گیا اور سب مسلمان ہوگئے، بادشاہ نے کہا اچھا یہ کرو کہ تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدواؤ ان میں لکڑیاں بھرو اور اس میں آگ لگا دو، جو اس دین سے پھرجائے اسے چھوڑ دو اور جو نہ مانے اسے اس آگ میں ڈال دو، ان مسلمانوں نے صبر و ضبط کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کرلیا اور اس میں کود گئے، یہاں تک کہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا بچہ تھا وہ ذرا ہچکچائی، تو اس بچہ کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اس نے کہا: ”اِصْبِرِيْ يَا أُمَّاهُ، فَإِنَّكِ عَلَى الْحَقِّ“ ”اماں صبر کرو تم تو حق پر ہو“۔(المسند لامام احمد: ٦/١٦ و صحيح مسلم برقم: ٣٠٠٥) اس حدیث سے اولیاء کی کرامات کا ثبوت ملتا ہے۔ یہاں مولانا وہی قصہ بیان فرماتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ وہ بادشاہ یہودی تھا اور اسی یہودی بادشاہ کی نسل سے تھا۔ جس کا پہلے ذکر آ چکا ہے اور نصارٰی کُشی میں اسی کے نقشِ قدم پر چلتا تھا۔
4
سُنّتِ بد کز شہِ اوّل بزاد
ایں شہِ دیگر قدم بر وَے نِہاد
ترجمہ: (قتلِ نصارٰی کی) بُری رسم جو پہلے بادشاہ سے پیدا ہوئی۔ اس دوسرے بادشاہ نے بھی اس پر قدم رکھا۔
مطلب: آباؤ اجداد کی مراسم ہر چند کہ بُری ہوں وہ اولاد کے لیے بمنزلۂ طبیعتِ ثانیہ بن جاتی ہیں، اس لیے وہ انہی پر کاربند ہونا لازمی سمجھتے ہیں، اور اس کے خلافِ کسی ہادی کی ہدایت، اور کسی ناصح کی نصیحت سننا گوارا نہیں کرتے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَایَہۡتَدُوۡنَ﴾ (البقرۃ: 170) ”اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ اس کلام کی پیروی کرو جو اللہ نے اتارا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں! ہم تو ان باتوں کی پیروی کریں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ بھلا کیا اس صورت میں بھی (ان کو یہی چاہئے) جب ان کے باپ دادے (دین کی) ذرا بھی سمجھ نہ رکھتے ہوں، اور انہوں نے کوئی ( آسمانی) ہدایت بھی حاصل نہ کی ہو؟
؎
مشکل نہیں ہے اک نئی بدعت کو روکنا
مگر دیدگانِ شیوۂ آباء کا کیا علاج
5
ہر کہ او بنہاد نا خوش سُنّتے
سُوئے اُو نفرِیں روَد ہر ساعتے
ترجمہ: جس شخص نے کوئی بری رسم قائم کی۔ ہر وقت اس پر لعنت پڑتی رہتی ہے۔
مطلب: جو شخص کوئی رسم ایجاد کرتا ہے وہ مرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے عذاب و عقوبت کا مستوجب ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کے بعد آنے والی نسلیں اس رسم میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور ان رسموں کو بجا لانے کا جو گناہ ان سے سرزد ہوتا ہے اس کی شامت بھی موجدِ رسم کی طرف رجوع کرتی ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نماند ستمگار بد روزگار
بماند برو لعنتے پائیدار
6
زانکہ ہر چِہ ایں کُند زانگوں ستم
ز اوّلِیں جُوید خُدا بے بیش و کم
ترجمہ: کیونکہ آئندہ نسلوں میں (پچھلا آدمی) اس قسم کا جو کچھ ظلم و ستم کرے گا۔ اللہ تعالٰی پہلے لوگوں سے (جنہوں نے یہ ظالمانہ رسوم قائم کی ہیں) بلا کم و بیش باز پرس کرے گا۔
الخلاف: ہمارے نسخے میں یہ شعر نہیں ہے۔
7
نیکواں رفتند و سُنّتہا بماند
وز لئیماں ظلم و لعنتہا بماند
ترجمہ: نیک لوگ گزر گئے اور (ان کی نیک) رسمیں رہ گئیں۔ اور بُرے لوگوں سے ظلم اور لعنتیں (یادگار) رہ گئیں۔
مطلب: اس شعر میں شعرِ سابق کے مضمون کی توجیہ ہے۔ یعنی موجدِ بدعت پر دائمی لعنت اس لیے پڑتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد بھی وہ بدعت جاری رہتی ہے۔ اسی طرح مراسمِ حسنہ کو زندہ کرنے والوں کے بعد ان کی مراسم رہ جاتی ہیں اور اس کا ثواب ان کو پہنچتا رہتا ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نماند حاتم طائی و لیک تا بہ اَبَد
بماند نامِ بلندش بہ نیکوئی مشہور
”عَنْ اَبِیْ ھُرَیَرَۃَ رَضِیَ اللہ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ دَعَا اِلٰی ھُدًی کَانَ لَہٗ مِنَ الْاَجْرِ مِثْلُ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہٗ لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئًا وَّ مَنْ دَعٰی اِلٰی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہٗ لَا یَنْقُصُ ذٰالِکَ مِنْ آثَامِھِمْ شَیْئًا“ (صحيح مسلم الرقم: 2674) یعنی ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا جو شخص لوگوں کو کسی ہدایت کی طرف بلائے تو اس کو اجر ملے گا ان لوگوں کے برابر جنہوں نے اس کی پیروی کی ہے، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کچھ کمی ہو۔ اور جو شخص کسی گمراہی کی طرف بلائے تو اس کے ذمے گناہ ہے ان تمام لوگوں کے گناہوں کے برابر جنہوں نے اس کی پیروی کی ہے، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہوں میں کچھ کمی ہو۔“
8
تا قیامت ہر کِہ جنسِ آں بداں
در وُجود آید بود رویَش بداں
ترجمہ: قیامت تک جو شخص ان برے لوگوں کی جنس (سے) پیدا ہوتا ہے۔ اس کا رخ ادھر ہی ہوتا ہے (یعنی آباؤ اجداد کے نقشِ قدم پر چلتا ہے۔)
9
رگ رگ ست ایں آبِ شیریں و آبِ شور
در خلائِق میروَد تا نفخِ صُور
ترجمہ: یہ (ہدایت اور اتباعِ سنت کا) میٹھا پانی اور (ضلالت و پابندیِ بدعات کا) کھاری پانی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔ اور قربِ قیامت تک مخلوق میں جاری رہے گا۔
مطلب: جس شخص میں جیسی صلاحیت اور جس کام سے مناسبت ہو وہی کام خود بخود اس سے سرزد ہوتا ہے۔
؎ خار کو خُوئے خلش پھول کو خوشبو بخشی
فعل سب کا ہے وہی جیسی اسے خُو بخشی
10
نیکواں را ہست میراث از خوشاب
آنچہ میراث ست اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ
ترجمہ: نیک لوگوں کا ورثہ (ہدایت کے) شیریں پانی سے ہے۔ وہ ورثہ جو (آیۂ) ﴿اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ﴾ (فاطر: 32) (میں مراد) ہے۔
مطلب: یعنی ان نیک لوگوں کو کتبِ الٰہیہ کے ذریعہ سے ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
اگر تو حکمت آموزی بدیوانِ محمد رو
کہ بو جہل آں بود کہ خود بدانش بو الحکم گردد
11
شُد نِیازِ طالِباں ار بنگری
شعلہا از گوہرِ پیغمبری
ترجمہ: اگر غور کرو تو معلوم ہو سکتا ہے۔ کہ جوہرِ رسالت کے انوار طالبوں پر نچھاور کئے گئے ہیں۔
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
شمّہ از طیبِ خلقش عالمے شد تر دماغ
وز فروغِ شمع رویش آتشِ موسٰیؑ زنند
12
شعلَہا با گوہَراں گرداں بود
شعلہ آں جانب رَود ہم کاں بود
ترجمہ: (یہ) انوار (پیغمبروں کی) ذاتِ عالیہ) کے ساتھ (باری باری) گردش کرتے ہیں۔ انوار کا مرجع وہی ہے جہاں وہ (پاک ذاتیں) ہوں۔
مطلب: ہر زمانے میں انبیاء و مرسلین علیہم السّلام نوبت بنوبت مبعوث ہوتے رہتے ہیں، جن کے ذریعے سے لوگوں کو ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ مولانا نے ”گرداں بود“ کا صیغہ جو بمعنی استمرار استعمال کیا ہے، تو اس کا تعلق زمانۂ ماضی کے ساتھ ہے۔ یعنی اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام تک تمام زمانوں پر نظر کرو گے، تو معلوم ہوگا کہ ہر زمانے میں نبی مبعوث ہوتے رہتے ہیں۔ پس یہ شعر فرقہ مرزائیہ کے انکارِ ختم نبوت کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ خود مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ کو دیکھنا چاہیے چنانچہ ان کا قول:
؎ مصطفٰی را وعدہ کرد الطافِ حق
گر بمیری تو نمیرد ایں سبق
ان کے عقیدۂ ختم نبوت کی روشن دلیل ہے۔ تو یہاں مولانا کے شعر کا مصداق فرقہ قادیانیہ کے ہم نوا کیونکر بن سکتے ہیں؟
13
نورِ روزن گردِ خانہ مے دود
زانکہ خور بُرجے بہ بُرجے مے رود
ترجمہ: (جیسے) روشندان کی روشنی گھر میں اِدھر اُدھر پھرتی ہے۔ اس لیے کہ سورج ایک برج سے دوسرے برج میں جاتا ہے۔
مطلب: چونکہ آفتابِ رسالت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں علیہ اَلفُ اَلفِ التّحیۃ و السّلام تک متعدد و مختلف انبیاء علیہم السّلام کی ذاتوں میں طلوع کرتا رہا ہے۔ اس لیے مختلف اقوام و امم پر ان کے انوارِ فیوض پڑتے رہے ہیں۔
14
ہر کِرا با اخترے پیوستگیست
مرد را به اخترِ خود ہم تگی ست
ترجمہ: (مگر سب کو ہدایت نصیب ہونا ضروری نہیں) جس کو کسی (خاص) ستارے سے نسبت ہے۔ وہ اپنے (ہم نسبت) ستارے کے ساتھ ہم قدم چلتا ہے۔
15
طالِعش گر زہرہ باشد در طرب
مَیل کُلِّی دارد و عشق و طلب
ترجمہ: (چنانچہ) اگر اس کا طالع زہرہ ہو گا۔ تو وہ مستی اور عشق و طلب پر پوری طرح مائل ہو گا۔
16
ور بود مِرّیخی و خوں ریز خُو
جنگ و بُہتان و خُصُومت جوید اُو
ترجمہ: اور اگر (اس کا طالع) مِرّیخی اور خونریز ہو۔ تو وہ لڑائی اور بہتان اور جھگڑے کی فکر میں رہے گا۔
رفعِ اشتباہ: کواکب کو سعد و نحس ہونے کے لحاظ سے مؤثرِ مستقل ماننا کفر و شرک ہے: کَماَ صُرِّحَ فِیْ کُتُبِ الْعَقَائِدِ۔ لہٰذا مولانا کے کلام میں جو زہرہ و مریخ کی تاثیرِ سعد و نحس کا ذکر ہے اس کی یہ تاویل کی گئی ہے کہ یہ بیان تمثیلی ہے نہ کہ تحقیقی، یعنی جس طرح ادبیاتِ شعر میں جورِ فلک، جفائے دہر، بیداری طائع وغیرہ تخیلاتِ شاعرانہ کا اِیراد، شاعروں کی عادت میں داخل ہے۔ اسی طرح مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے ان خیالات کو شاعرانہ رسم سے داخلِ کلام فرمایا ہے۔ اگر اس کلام کو محمول بحقیقت ہی کیا جاوے، تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہاں سیرِ کواکب کی تاثیرات بِقَضَآءِ اللہِ تَعَالٰی وَ قَدْرِہٖ مراد ہیں اور یہ اعتقاد جائز ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں علمِ نجوم اور تاثیراتِ کواکب کے اعتقاد کا ابطال کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ وَلَا اَقُوْلُ نَصَّتِ الشَّرِیْعَۃَ عَلٰی اَنَّ اللہَ تَعَالٰی لَمْ یَجْعَلْ فِی النُّجُوْمِ خَوَاصَّ تَتَوَلَّدُ مِنْھَا الْحَوَادِثُ بِوَاسِطَۃِ تَغَیُّرِ الْھَوَاءِ الْمُکْتَنِفِ بِالنَّاسِ ”یعنی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ شریعت نے یہ قطعی فیصلہ کردیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ستاروں میں ایسے خواص نہیں رکھے جن کے سبب سے ہوا میں تبدیلی ہو کر جو لوگوں پر محیط ہے حوادث پیدا ہوتے ہوں۔“ درِّ مختار کی شرح ردّ المحتار میں لکھا ہے۔ اِنَّ عُلُوْمَ النُّجُوْمِ فِیْ نَفْسِہٖ حَسَنٌ غَیْرُ مَذْمُوْمٍ، اِذْ ھُوَ قِسْمَانِ: حِسَابِیٌّ وَ اِنَّهٗ حَقٌّ وَ قَدْ نَطَقَ بِہٖ الْکِتَابُ، وَ اِسْتِدْلالِیٌّ بِسَیْرِ النُّجُوْمِ وَ حَرْکَۃَ الْاَفْلَاکِ عَلَی الْحَوَادِثِ بِقَضَاءِ اللہِ تَعَالٰی وَ قَدْرِہٖ، وَ ھُوَ جَائِزٌ کَاِسْتِدْلَالِ الطَّبِیْبِ بِالنَّبْضِ مِنَ الصِّحَّۃِ وَ الْمَرَضِ۔۔۔الخ (ردّ المحتار1/43) یعنی ”علمِ نجوم فی نفسہٖ اچھا ہے برا نہیں، کیونکہ اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حسابی اور وہ حق ہے اور قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اور دوسری استدلالی جس میں رفتارِ نجوم اور حرکتِ افلاک سے حوادث پر استدلال کیا جاتا ہے جو اللہ تعالٰی کے حکم اور اس کی قدرت سے وقوع پاتے ہیں اور وہ جائز ہے، جس طرح طبیب نبض کے ساتھ صحت اور مرض پر استدلال کرتا ہے“۔ غرض یہاں کواکب کا مؤثر ”بِقَضَآءِ اللہِ تَعَالٰی وَ قَدْرِہٖ“ ہونا مراد ہے نہ کہ مؤثرِ حقیقی ہونا کما قال الجامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ببیں در رقص ازرق طیلسانان
ردائے نور بر عالَم فشانان
یکے حرفِ سعادت نقش بستہ
یکے سر رشتۂ دولت گسستہ
بہر دم تازہ نقشے مے نمایند
ولیکن نقشبندی را نشایند
17
اَخترانند از وَرائے اختراں
کاحتِراق و نحس نبود اندراں
ترجمہ: (ان فلکی) ستاروں کے سوا (کئی ایک اور) ستارے ہیں۔ جن میں احتراق اور نحوست نہیں ہوتی۔
مطلب: اولیاء اللہ کو نورانیت میں ستاروں سے تشبیہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان کی نورانیت فلکی ستاروں سے بھی بڑھ کر ہے۔ فلکی ستارے کبھی کسوف سے بے نور ہو جاتے ہیں، اور کبھی بزعمِ منجّمین ان میں نحوست آ جاتی ہے، مگر یہ ستارے ہمیشہ زوالِ نور اور بے برکتی سے محفوظ ہیں۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
فارغ بود از آفتِ گیتی دلِ روشن
از برق ز یانے نرسد خرمنِ مہ را
18
سائِراں در آسمانہائے دگر
غیر ایں ہفْت آسمانِ مُشْتہر
ترجمہ: وہ عروجِ روحانی کے اور ہی آسمانوں میں گردش کرتے ہیں۔ (جو) ان سات مشہور آسمانوں کے سوا ہیں۔
19
راسِخاں در تابِ اَنوارِ خُدا
نے بہم پَیوستہ نے از ہم جدا
ترجمہ: وہ انوارِ خدا کی حرارت (برداشت کرنے) میں ثابت قدم ہیں۔ نہ (بظاہر) آپس میں جڑے ہوئے ہیں نہ (فی الحقیقت) ایک دوسرے سے جدا ہیں۔
مطلب: یہاں بھی نجومِ ولایت کی کواکبِ فلک کی صفات سے تنزیہہ فرماتے ہیں کہ کواکبِ فلک تو شعاعِ شمس سے کبھی بے نور ہو جاتے ہیں اور دوسرے ستاروں سے اتصال و انفصال کی نسبت رکھتے ہیں مگر یہ روحانی ستارے نہ انوارِ حق سے بے نور ہوتے ہیں، اور نہ اجسام کی طرح ان کو باہم اتصال و انفصال کی نسبت ہے۔ کیونکہ یہ صفت اجسام کی ہے اور حقیقتِ انسانی یعنی روح عالمِ امر سے ہے۔ کما مَرَّ۔
20
ہر کہ باشد طالِع او زاں نُجوم
نفسِ اُو کفّار سوزد در رُجُوم
ترجمہ: جس کا طالع ان ستاروں سے ہو۔ اس کا نفس رجوم کے وقت کفار کو جلا دینے والا ہے۔
مطلب: جو شخص ان نجومِ اہتداء سے فیض حاصِل کرتا ہے وہ نفسِ امّارہ کو مغلوب کرنے پر قادر ہوتا ہے جس طرح شہابِ ثاقب شیطان کو مار بھگاتا ہے۔
21
خشمِ مرّیخی نباشد خشمِ او
مُنقلب رو غالِب و مغلُوب خُو
ترجمہ: اس کا غصہ نفسانی غصہ نہیں ہوتا۔ (بلکہ بُغضْ فِی اللہ ہوتا ہے وہ تواضعًا) سر جھکا کر چلنے والا (اور مَنْصُوْر مِنَ اللہ ہونے کی وجہ سے) غالب (ہے) اور (کمال حلم و عفو کے سبب) مغلوب خو (نظر آتا) ہے۔
مطلب: وہ لوگ نفسانی غصّے سے پاک ہوتے ہیں۔ ان کا غصہ لِوَجہ اللہ ہوتا ہے، جو کمالِ ایمان کی دلیل ہے۔ جیسے حدیث میں فرمایا: ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَبِیْ ذَرٍّ یَا أَبَا ذَرٍّ! أَيُّ عُرَی الْإِیْمَانِ أَوْثَقُ؟ قَالَ اَللهُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ اَلْمُوَالَاۃُ فِی اللّٰہِ وَالْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰہِ“ (بیہقی) ”یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے ابوذر! ایمان کی کون سی گرہ زیادہ مضبوط ہے؟ عرض کیا اللہ اور اسکے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی ہی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنا، اور اللہ ہی کے لیے کسی کو دوست بنانا، اور اللہ ہی کے لیےکسی کو دشمن سمجھنا۔“
”منقلب رو“ کی صفت اس آیۃ کریمہ میں مذکور ہے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ (الفرقان: 63) ”اور اللہ تعالٰی کے بندے جو زمین پر خاکساری سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان کو مخاطب کرتے ہیں تو سلام کہتے (اور الگ ہو جاتے) ہیں“ ”غالب و مغلوب خو“ کی تفسیر شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کا یہ شعر کرتا ہے جو انہوں نے اولیاء اللہ کی مدح میں کہا ہے۔ فَلِلّٰہِ دَرَّهٗ ؎
قوی بازو انند و کوتاہ دست
خردمند شیدا و ہوشیار مست
روایت ہے کہ یہودیوں میں سے ایک عالم شخص کا کچھ قرض جنابِ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلّم کے ذمہ آتا تھا۔ اس نے تقاضا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا اس وقت میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، وہ کہنے لگا میں تو آپ کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ آپ میرا قرض ادا نہیں کریں گے۔ فرمایا تو پھر بیٹھ جاؤ آپ نے اسی جگہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء، اور فجر کی نمازیں پڑھیں۔ اصحاب اس یہودی کو دھمکیاں دیتے رہے مگر وہ ٹلا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو معلوم ہوا تو اصحاب کو اس سلوک سے منع فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایک یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو باندھے بیٹھا ہے۔ فرمایا اللہ تعالٰی نے مجھے غیر مسلم رعیت پر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ روایت کے اس قدر حصے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا ”مغلوب خو“ ہونا معلوم ہو گیا کہ کس طرح تاجدارِ کونین و سرورِ دارین نے اپنی رعایا میں سے ایک عام آدمی وہ بھی مسلمان نہیں بلکہ یہودی کے آگے اپنے آپ کو مجبور و مغلوب بنا لیا۔ اب باقی بیان سے ظاہر ہوگا کہ اس مجبوری و مغلوبیت کی تہہ میں کس قدر عظیم الشّان غلبہ اور زبردست طاقت اپنا کام کر رہی تھی جس سے ”مغلوب خو“ کا غالب ہونا ثابت ہوگا۔ یعنی جب دن چڑھا تو وہ یہودی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور اس نے کہا: میں اپنا نصف مال اللہ کی راہ میں دیتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے جو کچھ کیا اس لیے کیا ہے کہ آپ کے حالات کی آزمائش کروں جو میں نے تورات میں پڑھے ہیں کہ آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلّم عبداللّٰہ کے بیٹے مکہ میں پیدا ہوں گے، مدینہ میں ہجرت کر کے جائیں گے، ان کی حکومت شام تک ہوگی، وہ بدخُو اور سنگدل نہ ہوں گے، نہ بازاروں میں غُل مچانے والے، نہ برا کرنے والے، اور نہ برا بولنے والے ہوں گے۔
22
نورِ غالِب ایمن از کسف و غَسق
درمیانِ اصبَعین نُورِ حق
ترجمہ: (وہ ایک) نور (ہے) سب پر چھا جانے والا، گہن اور تاریکی سے محفوظ۔ (اور) نورِ حق کی دو انگلیوں کے درمیان (ہے۔)
مطلب: وہ نور یعنی ولیِ کامل اللہ تعالٰی کی دو انگشتِ قدرت کے درمیان یعنی اس کا مطیع و منقاد رہتا ہے۔
23
حق فشاند آں نُور را بر جانہا
مُقبلاں برداشتہ دامانہا
ترجمہ: اللہ تعالٰی نے (اولیاء و انبیاء کے) اس نور کو (طالبوں) کی روحوں پر نازل فرمایا۔ (اور جو) اہلِ اقبال (ہیں وہ ان انوار کو لینے کے لیے) دامن اٹھائے ہوئے ہیں۔
24
واں نثارِ نُور ہر کو یافتہ
رُوئے از غَیرِ خُدا بر تافتہ
ترجمہ: اور جس نے نور کا یہ نثار پا لیا۔ اس نے غیر خدا سے منہ پھیر لیا۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بہ سوداے جاناں ز جاں مشتغل
بذکرِ حبیب از جہاں مشتغل
25
ہر کِرا دامانِ عشقے نا بُدہ
زاں نِثارِ نُور بے بہرہ شُدہ
ترجمہ: جس کے پاس عشق (و شوق) کا دامن نہیں۔ (وہ) اس نثارِ نور سے بے بہرہ ہے۔
مطلب: حصولِ کمالات کے لیے عشق شرط ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
حافظ ہر آنکہ عشق نورزید و وصل خواست
احرامِ طوفِ کعبۂ دل بے وضو به بست
26
جُزوہا را رویہائے سوئے کل ست
بُلبُلاں را عِشق با رُوئے گل ست
ترجمہ: (اور اہلِ طلبِ کاملین سے مستفیض کیوں نہ ہوں آخر) اجزاء کی توجہ کُل ہی کی طرف ہوتی ہے۔ (اور) بلبلوں کو پھول کے چہرے سے عشق ہوتا ہے۔
مطلب: انبیاء علیہم السّلام بمنزلہ کل ہیں اور افرادِ امت بمنزلہ اجزاء کے، جس طرح اجزاء کا رجوع کل کی طرف ہوتا ہے، اسی طرح تمام افرادِ امت اپنے نبی کے خاک آستانہ ہوتے ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
ایں قصرِ سلطنت کہ تواش ماہِ منظری
سرہا بر آستانۂ او خاک در شود
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بقا خواہی بروئے اصل بنگر
وفا جوئی بسوئے اصل بنگر
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
میشود راجع باصلِ خویش صائب فرعہا
باز گشتِ بوئے مشک آخر بآہوے ختاست
27
گاؤ را رنگ از بروں و مرد را
از دروں جو رنگِ سرخ و زرد را
ترجمہ: بیل کا رنگ (دیکھنا ہو تو) باہر سے (دیکھو) اور سرخ و زرد آدمی کا رنگ، ظاہر سے نہیں بلکہ باطن سے دیکھو۔
مطلب: اوپر نسبت کا ذکر تھا۔ یعنی عشق و شوق ہی کی بدولت محبّ کو محبوب کے ساتھ نسبت پیدا ہوتی ہے، اور وہ نسبت ایسی ہوتی ہے جیسی جزو کو کل کے ساتھ یا بلبل کو گل کے ساتھ۔ اب فرماتے ہیں کہ تابع و متبوع کی باہمی نسبت ان کو ہم رنگ بنا دیتی ہے مگر اس سے ظاہری رنگ مقصود نہیں جو گائے بیل میں دیکھا جاتا ہے، بلکہ باطنی رنگ یعنی اخلاقی حالت دیکھنی چاہیے کہ اس لحاظ سے آدمی نیک رنگ و بد رنگ ہوتا ہے۔ چنانچہ:
28
رنگہائے نیک از خمِّ صفاست
رنگ زِ شتان از سیاہ آبہ جفاستِ
ترجمہ: نیک رنگ (صدق و صفا) کے (پیغمبری) مٹکے سے ہیں۔ برے لوگوں کا رنگ ظلم کے (شیطانی) گندے پانی سے ہے۔
نکتہ: شعر میں ”جفا“ بالفتح ہو یا بالضم دونوں طرح معنٰی درست ہو جاتے ہیں، اور اکابرِ شرّاح کے اتباع میں ہم نے ضمہ کی تقدیر اختیار کر لی۔ مگر ”جفا“ بالفتح کی صورت میں معنٰی زیادہ مستحسن معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ”جفا“ بضم کی صورت میں اول تو ”سیاہ آبہ جفا“ کی اضافتِ قریب، اضافۃ الشی الٰی نفسہٖ کے ہے اس لیے چنداں مفید نہیں، دوسرے اس صورت میں یہ مرکبِ اضافی صرف مشبہ بہٖ قرار پاتا ہے یعنی جرائم معاصی مقدّر ماننا پڑتا ہے جو تکلّف میں داخل ہے۔ بخلاف اس کے ”جفا“ بفتح جیم قرار دینے سے یہ اضافتِ تشبیہی ہو جاتی ہے اور چونکہ جَور و جفا کے معنٰی ہیں: ”وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ“ اس لیے ”رنگ ز شتاں“ جرائم و معاصی کی تمام انواع پر حاوی ہو جاتا ہے کیونکہ ظلم و جور تمام اقسامِ گناہ کا جامع ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
مباش در پئے آزار و ہر چہ خواہی کن
کہ در شریعتِ ما غیر ازیں گناہے نیست
29
صِبْغَۃُ اللہ نامِ آں رنگِ لطیف
لَعنَۃُ اللہ بُوئے ایں رنگِ کثیف
ترجمہ: ”صِبْغَۃُ اللہ“ اس پاکیزہ رنگ کا نام ہے (جو اتباعِ انبیاء سے حاصل ہوتا ہے۔) ”لَعنَۃُ اللہ“ اس گندے رنگ کی بُو ہے (جو شیاطین کی پیروی سے چڑھتا ہے۔)
30
آنچہ از دریا بدریا میرود
از ہمانجا کايد آنجا میروَد
ترجمہ: جو (پانی) دریا سے (آتا ہے) سمندر میں جاتا ہے۔ جس جگہ سے آیا وہیں چلا جاتا ہے۔
مطلب: سمندر کا پانی آفتاب کی حرکت سے بخارات کی صورت اختیار کر کے ہوا میں مل جاتا ہے، پھر کچھ بلندی پر جا کر اَبر بن جاتا ہے، اور سرد ہو کر پانی بن کر برس پڑتا ہے، جس سے پھر دریا کی صورت اختیار کر کے سمندر میں چلا جاتا ہے۔ گویا جہاں سے آیا تھا وہیں جا پہنچتا ہے۔ وجہِ تمثیل یہ ہے کہ متبوع تابع کے لیے اصل ہوتا ہے، اور جس طرح دریا اپنے اصل یعنی بحرِ اعظم کی طرف رجوع کرتا ہے تابع بھی اپنے متبوع کی طرف رجوع کرتا ہے۔
31
از سرِكُہ سیلہائے تیز رو
وز تنِ ما جانِ عشق آمیز رو
ترجمہ: پہاڑ پر سے سیلاب تیزی سے رواں (ہوتے ہیں۔) ہمارے بدن سے جان عشق آمیختہ ہو کر رواں ہوتی ہے۔
مطلب: بفحوائے ”کُلُّ شَیْءٌ یَرْجِعُ اِلٰۤی اَصْلِہٖ“ سیلاب کوہ سے اتر کر پہاڑی گھاٹیوں کو چیرتا اور میدانی خطوں کو طے کرتا ہوا اپنے اصل، محیطِ اعظم میں پیوست ہونے کے لیے ہزارہا میل کا سفر طے کر جاتا ہے، اسی طرح ہماری روح اپنے مبدأ یعنی ذاتِ حق کی طرف جانے کے لیے مضطرب و بیقرار ہے، اور جسم کو، جو شہواتِ دنیویہ کا منبع ہے، چھوڑنے پر آمادہ ہے۔