دفتر 1 حکایت 35: اس بات کا بیان کہ تمام پیغمبر برحق ہیں بفحوائے آیۃ "لَا نُفَرِّقُ" یعنی "ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے

دفتر اول: حکایت: 35

دربیان آنکہ جملہ پیغمبراں حق اند ﴿لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ﴾(البقرۃ: 285)

اس بات کا بیان کہ تمام پیغمبر برحق ہیں بفحوائے آیۃ "لَا نُفَرِّقُ" یعنی "ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے"

1

دہ چراغ ار حاضِر آری در مکاں

ہر یکے باشد بصورت غیرِ آں

ترجمہ: اگر تو ایک مکان میں دس چراغ لا حاضر کرے تو ہر ایک شکل میں دوسرے سے جدا ہوگا۔

2

فرق نتواں کرد نورِ ہر یکے

چوں بنورش روے آری بے شکے

ترجمہ: (مگر) اس میں شک نہیں کہ ہر ایک کے نور میں فرق نہیں کیا جا سکے گا۔ جب تو اس کے نور پر متوجہ ہوگا۔

3

اُطْلُبِ الْمَعْنٰی مِنَ الْفُرْقَانِ وَ قُلْ

لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اٰحَادِ الرُّسُل

ترجمہ: اس مطلب کو قرآن مجید میں تلاش کر اور کہہ دے ہم پیغمبروں کی جماعت میں فرق نہیں کرتے۔

4

گر تو صد سیب و صد آبی بشمری

صد نماید یک شود چُوں بفشری

ترجمہ: اگر تم سو سیب اور سو بہی کو شمار کرو تو سو نظر آئیں گی (لیکن) جب (ان کو) نچوڑ دو تو (شیرے میں سب) ایک ہو جائیں گی۔

5

در معانی قِسمت و اعداد نیست

در معانی تجزِیہ و افراد نیست

ترجمہ: معنوں میں بانٹ اور گنتی نہیں ہے۔ معنوں میں تقسیم اور اکائیاں نہیں۔ (یہ سب الفاظ کی صفات ہیں)۔

مطلب: مذکورہ تمثیلات سے مقصود یہ ہے کہ تمام پیغمبر نفسِ رسالت میں مشترک و متحد ہیں۔ اگر بظاہر وہ ایک دوسرے سے وجود اور زمانًا و تشخّصًا الگ الگ ہیں تو اس تغایرِ ظاہری سے معنوی اتحاد میں کوئی نقص نہیں آتا۔

6

اتحادِ یار با یاراں خوش ست

پاے معنٰی گیر صُورت سرکش ست

ترجمہ: (ثابت ہوا کہ اصل معنٰی (یعنی حقیقتِ حق) کا اتباع کرو۔ کیونکہ صورت (تعینات و تشخّصات) سرکش ہے (یعنی مانعِ اتحاد ہے، عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎)

دشمنے کت ز دوست وا دارد

زودت از وے فرار باید کرد

7

صورت سرکش گدازاں کن برنج

تا بہ بِینی زیر آں وحدت چُو گنج

ترجمہ: صورتِ سرکش کو ریاضت کے ساتھ گلا دو تاکہ اس کے اندر وحدت (یعنی حقیقتِ حق) خزانہ کی طرح تم کو نظر آئے۔

مطلب: ریاضت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس قدر مشغولی پیدا کرو کہ موجوداتِ ظاہری کی طرف توجہ و التفات نہ رہے۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

خیز دِلا وصل جو، ترک عراقؔی بگو

دوست مدارش کہ او دشمن پنہانی ست

8

ور تو نگدازی عنایتہائے اُو

ہم گدازد اَے دِلم مولائے اُو

ترجمہ: اور (اگر باوجود ریاضت کے) تم (موجوداتِ ظاہر سے) اپنی نظر نہ ہٹا سکو (تو تم غم نہ کرو) خود اس (خدائے کریم) کی عنایات (تم کو اپنی طرف اس طرح متوجہ کر لیں گی کہ موجوداتِ ظاہری کی طرف سے تم کو غیر ملتفت بنا دیں گی، اے مخاطب!) میرا دل تو اس کا حلقہ بگوش ہے۔

9

او نماید ہم بدِلہا خویش را

او بدوزد خرقۂ درویش را

ترجمہ: وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا بلکہ قلوب میں اپنا جلوۂ دکھاتا ہے۔ وہ (اپنے جلوۂ ذات سے) عاشقوں کے پارہ پارہ دل کو تسکین بخشتا ہے۔ (عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎)

نگاہ کردم و در خود ہمہ ترا دیدم

نظر چنیں کند آنکس کہ او بخود بیناست

جامؔی بزیرِ خرقہ خود یافت دوست را

زاں رو کشیدہ پائے بداماں و سر بجیب

10

منبسط بودیم و یک گوہر ہمہ

بے سر و بے پا بُدیم آں سر ہمہ

ترجمہ: ہم (مرتبہ روح میں) بسیط اور جواہر واحد تھے۔ (ترکیب اور تعدد نہ تھا) اس عالم میں سب کے سب اعضاء و جوارح (وغیرہ جسمانیت) سے منزّہ تھے۔

مطلب: اوپر طلبِ حق کا ذکر تھا اور چونکہ طلب و مطلوب میں مناسبت ضروری ہے اس لیے اب اس مناسبت کا ذکر فرماتے ہیں۔

11

یک گوہر بُودیم ہمچُو آفتاب

بے گرہ بودیم و صافی ہمچُو آب

ترجمہ: ہم سورج کی طرح ایک ذات تھے (جس میں کثرت اور خارجی ترکیب نہیں ہے) بے قید (مادہ) اور پانی کی طرح صاف و شفاف تھے۔

12

چُوں بصُورت آمد آں نورِ سرہ

شُد عدد چُوں سایہائے کُنگرہ

ترجمہ: جب اس خالص نور نے صورت (یعنی جسمانیت) اختیار کی (یعنی بدن سے متعلق ہوا) تو کنگرے کے سایوں کی طرح متعدد بن گیا۔

مطلب: روح جو ایک جوہرِ بسیط ہے اس کے اجسام سے متعلق ہو کر متعدد و کثیر ہونے کی مثال ہے، یعنی آفتاب کا نور ایک ہوتا ہے مگر جب وہ چند کنگروں پر پڑتا ہے تو جتنے کنگرے ہوں اتنے ہی نور کے حصے ہو جاتے ہیں۔

13

کنگرہ ویراں کنید از مِنجنِیق

تا رَوَد فرق از میانِ ایں فریق

ترجمہ: (اے طالبانِ حق اس جسمانیت کے) کنگروں کو (ریاضت کے) منجنیق سے ویران کر ڈالو، تا کہ اس جماعت (ارواح) سے فرق اٹھ جائے۔

مطلب: اشعارِ بالا میں حق اور طالبانِ حق میں یہ مناسبت ثابت ہوئی کہ مقدّم الذکر بسیط ہے تو مؤخّر الذکر کی ارواح بھی بسیط ہیں۔ وہ واحد ہے تو یہ بھی واحد۔ وہ قیدِ مادہ سے پاک ہے تو یہ بھی پاک۔ اس کا نور مظاہرِ کثیرہ میں جلوہ گر ہے تو ارواح بھی مختلف اجسام سے متعلق ہیں۔ انہی مناسبات کی بنا پر روح کو امرِ ربّانی کہا جاتا ہے، جب مناسبت ثابت ہو گئی تو طالبانِ حق کے لیے وصول الٰی الحق کے ممکن ہونے میں شبہ نہ رہا۔ ؎

بیا جامؔی ز بودِ خود بپرہیز

ز پندارِ وجودِ خود بپرہیز

بود نورِ جمال شاہدِ غیب

بتابد چوں کلیم اللّہت از جیب