دفتر اول: حکایت: 34
طلب کردنِ اُمتِ عیسٰی علیہ السّلام کہ ولی عہد از شما کدام است
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُمت کا یہ دریافت کرنا کہ تم میں سے ولی عہد کون ہے
1
بعد ماہے خلق گفتند اے مہاں
از امیراں کیست بر جایش نشاں
ترجمہ: ایک مہینے بعد کے لوگوں نے کہا اے حضرات! سرداروں میں کون صاحب اس (پیشوائے مرحوم) کی جگہ پر قائم ہوں گے؟
2
تا بجائے او شناسیمش امام
تا کہ کارِ ما ازو گردد تمام
ترجمہ: تاکہ ہم اُس (مرحوم) کی جگہ اِس کو امام سمجھیں۔ تاکہ ہماری مہم اس کی بدولت سر انجام پائے۔
3
سر ہمہ بر اختیارِ او نہیم
دست بر دامان و دستِ او زنیم
ترجمہ: (تاکہ) ہم اس کی (ہر) تجویز کی اطاعت کریں، اس کا آسرا پکڑیں اور اس سے بیعت کریں۔
4
چُونکہ شُد خورشید و ما را کرد داغ
چارہ نبود بَر مَقَامش از چِراغ
ترجمہ: جب سورج غروب ہو گیا اور ہم کو داغِ (جدائی) دے گیا تو (تاریکیِ ہجر میں) اس کی جگہ چراغ ضروری ہے (جیسے کہ سورج ڈوبنے کے بعد چراغ چلایا جاتا ہے)۔
5
چُونکہ شد از پیش دیدہ روئے یار
نائبے باید ازو ماں یادگار
ترجمہ: جب آنکھوں کے سامنے سے محبوب (مرشد) کی صورت جاتی رہی تو ہمارے لیے اس کی طرف سے کوئی نائب بطور یادگار چاہیے۔
6
چونکہ گل بگذشت و گلشن شُد خراب
بُوئے گُل را از کہ جوئیم؟ از گلاب
ترجمہ: جب (فصلِ) گل گزر گئی اور باغ ویران ہو چکا تو پھول کی خوشبو کس (چیز) سے تلاش کریں؟ گلاب سے؟
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بر بوئے آنکہ بوئے تو دارد نسیمِ گل
پیوستہ بوئے باغ و گلستانم آرزوست
مطلب: جب مرشد وفات پاجائے تو اس کے خلیفہ سے فیض حاصل کرنا چاہیے۔
7
چُوں خُدا اندر نیاید در عیاں
نائِبِ حقّند ایں پیغمبراں
ترجمہ: چونکہ خدا (بظاہر) دیکھنے میں نہیں آتا۔ (اس لیے) یہ پیغمبر خدا کے نائب ہیں۔
مطلب: اوپر ذکر تھا کہ مرشد کی عدم موجودگی میں اس کے نائب یا خلیفہ کی ضرورت ہے۔ اب اس نیابت و خلافت کے ذکر کی مناسبت سے ایک اور مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں۔ وہ یہ کہ چونکہ اسی طرح اللہ تعالیٰ، جو تمام اوامر و احکام کا صادر کرنے والا ہے، لوگوں کو نظر نہیں آ سکتا اور اجرائے احکام و اشاعت اوامر کے لیے حاکم کا لوگوں میں مُعایَن و ملاحظہ ہونا لازمی ہے، اسی لیے حضراتِ مرسلین صلوٰت اللہ علیہم اجمعین اللہ تعالیٰ کے نائب قرار پائے تا کہ وہ مُعاشر بالخلق ہونے کی وجہ سے احکامِ الٰہیہ کی بآسانی تبلیغ کر سکیں۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں آیہ ﴿وَ لَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا﴾ (الانعام: 9) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ رسول خالق اور مخلوق کے مابین برزخ ہوتا ہے اور برزخ میں دو مناسبتوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک مناسبت خالق کے ساتھ اور دوسری مخلوق کے ساتھ، تاکہ خالق سے فیوض حاصل کر کے مخلوق پر ان کا افاضہ کرے، کیونکہ استفاضہ اور افاضہ مناسبت کے بغیر ممکن نہیں۔
8
نے غلط گفتم کہ نائِب یا منُوب
گر دو پنداری قبیح آید نہ خوب
ترجمہ: نہیں (نہیں، اس تفریق کے ذکر میں) میں نے غلطی کی، کیونکہ اگر تم نائب اور منوب عنہ کو دو سمجھو گے تو یہ بری بات ہے۔ اچھی نہیں۔
مطلب: نیابت کے ذکر سے احتمال ہوتا تھا کہ جب پیغمبر نائب اور اللہ تعالیٰ منوب عنہ ہوا تو دونوں الگ ہوں گے۔ اس احتمال کو رفع کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا نائب کا لفظ کہہ دینا غلطی تھی جو موہمِ مغایرت ہے۔
9
نے دو باشد تا تُوئی صورت پرست
پیشِ او یک گشت کز صورت برست
ترجمہ: نہیں یہ (نائب و منوب عنہ) جداگانہ بھی ہیں۔ جب کہ تو ظاہر پرست ہے۔ جو شخص ظاہریت سے نکلا اس کے نزدیک یہ دونوں ایک ہو گئے۔
مطلب: نائب و منوب عنہ کا جدا ہونا اوپر غلط قرار دیا تھا۔ اب اس سے استدراک کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بات غلط تو ہے مگر کلیۃً غلط نہیں، بلکہ ظاہر پرستوں کے نزدیک وہ دونوں الگ ہیں لیکن جن لوگوں کی نظر صورت آشنا نہیں اور ان کے شہود سے تعین اٹھ گیا ہے وہ ان کو ایک جانتے ہیں۔ (کذا قال بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ)
10
چُوں بصُورت بِنگری چشمت دواست
تو بنُورش درنگر کاں یک تواست
ترجمہ: (مثلًا) تمہاری آنکھیں اگر بظاہر دیکھو تو دو ہیں (لیکن) ان کے نورِ بصارت کو دیکھو تو وہ اندر سے ایک ہے۔
مطلب: یہ دو چیزوں کے بظاہر دو اور بحقیقت ایک ہونے کی مثال ہے، یعنی آنکھیں جو آلۂ بصارت ہیں دو ہیں، لیکن اصل بصارت ایک ہے۔ واضح ہو کہ آلۂ بصارت دو عصب ہیں جو الگ الگ دونوں آنکھوں سے نکل کر آپس میں متقاطع ہوتے ہوئے مقدّمِ دماغ تک پہنچتے ہیں۔ ان کا یہ مقامِ تقاطع منبعِ بصارت ہے۔ (کما فی کتب التشریح)
11
لا جَرَم چوں بر یکے اُفتد بصر
آں یکے باشد دو ناید در نظر
ترجمہ: (اسی لیے) ضرور (ہے کہ) جب تیری نگہ ایک (چیز) پر پڑے گی تو ایک (چیز محسوس) ہو گی (دو آنکھوں کو) دو چیزیں نظر نہیں آئیں گی۔
مطلب: اطباء نے لکھا ہے کہ قوتِ باصرہ آنکھوں کے ان دو مجوّف عصبوں کے اندر ودیعت کی گئی ہے جو مقدّمِ دماغ سے نکلے ہیں۔ ہر چند کہ یہ دو عصبے الگ الگ دونوں آنکھوں سے متعلق ہیں۔ مگر آنکھوں کو ہر چیز کی ایک صورت ہی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنے تقاطع صلبی کے مقام پر متحد ہو گئے ہیں۔ اگر یہ اتحاد نہ ہوتا تو دونوں آنکھیں ہر چیز کو الگ الگ دو صورتوں سے محسوس کرتیں۔ مولانا کا مدّعا یہ ہے کہ دونوں آنکھیں بظاہر دو ہیں مگر بباطن ان کی قوت متحد ہے۔ اس لیے ان کا احساس متحد ہے۔
12
نورِ ہر دو چشم نتواں فرق کرد
چونکہ بر نُورش نظر انداخت مرد
ترجمہ: دونوں آنکھوں کے نور میں فرق نہیں کیا جا سکتا۔ جب آدمی ان کے نور پر نظر کرے۔