دفتر اول: حکایت: 30
لابه کردنِ مریداں از خلوتِ وزیر بارِ دگر
مریدوں کا وزیر کی گوشہ نشینی کے متعلق پھر خوشامد کرنا
1
جملہ گفتند اے وزیر انکار نیست
گفتِ ما چوں گفتۂ اغیار نیست
ترجمہ: سب (معتقدوں) نے (یک زبان ہو کر) کہا اے وزیر (جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے وہ آپ کے کمالات کا) انکار نہیں ہے۔ ہماری بات غیروں کی بات کی سی نہیں ہے (جس کی دلیل یہ ہے کہ):
2
اشکِ دیدہ ست از فراقِ تو دواں
آہ آہ ست از میانِ جاں رواں
ترجمہ: آپ کے فراق کے باعث آنکھوں سے آنسو لگا تار بہ رہے ہیں۔ (اور) جان سے ہائے ہائے نکلتی ہے۔
سوزِ دل و آبِ چشم خسرؔو
بپذیر کہ از سرِ نیاز ست
3
طفل با دایۂ نہ استیزد ولیک
گریۂ او گرچہ نہ بد داند نہ نیک
ترجمہ: بچہ دایہ کے ساتھ پرخاش و تنازع نہیں کرتا۔ لیکن (پھر بھی جو) وہ روتا ہے (تو کسی اندرونی تکلیف یا بھوک سے روتا ہے) اگرچہ اس کو (اس) نیک و بد کی خبر نہیں (کہ میرے رونے سے دایہ کو کیا تکلیف پہنچتی ہے۔)
مطلب: ہمارا اصرار بطور انکار و تردید نہیں بلکہ ہم اپنی قلبی تکلیف اور روحانی خلجان سے مجبور ہو کر التماس کر رہے ہیں، اور اس مجبوری میں ہم کو اس سوءِ ادب کا بھی خیال نہیں رہتا جو تکرارِ عرض سے لازم آتا ہے۔ جس طرح ایک شیر خوار بچہ کسی تکلیف سے تنگ آ کر روتا ہے تو دایہ سے خصومت کرنا اس کا مقصود نہیں، نہ دایہ کی گھبراہٹ کا اس کو خیال ہوتا ہے۔
یہ بڑا عیب مجھ میں ہے اکؔبر
دل میں جو آئے کہہ گذرتا ہوں
4
ما چو چنگیم و تو زخمہ میزنی
زاری از ما نے تو زاری مے کنی
ترجمہ: (الٰہی!) ہم گویا سارنگی ہیں اور تو اس کو بجاتا ہے (یہ) رونا ہمارا نہیں (بلکہ) تو رو رہا ہے۔
مطلب: اس شعر سے مناجات کی طرف انتقال ہے اور یہ مناجات مریدانِ وزیر کی زبان سے نہیں بلکہ اس کے قائل خود مولانا رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ (بحر العلوم) اوپر بیان ہو رہا تھا کہ مریدانِ وزیر کا اصرار و تکرار مضطرًا و مجبورًا تھا۔ جس طرح ایک شیر خوار بچہ دایہ کی گود میں اضطرارًا روتا ہے۔ اس اضطرار و مجبوری کے مضمون سے مولانا توحید کے بیان کی طرف منتقل ہو گئے۔ جس کو بکلماتِ مناجات بیان فرماتے ہیں۔ یعنی الٰہی! چونکہ ہمارے افعال کا خالق تو ہے، اس لیے تیری طرف ان افعال کی نسبت حقیقتًا ہے اور ہماری طرف مجازًا۔ پس اگر ہم زاری بھی کریں، تو وہ بھی تیرے خالق اور مؤثر ہونے کے اعتبار سے تیری ہی طرف سے منسوب ہو گی۔
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
صدائے صوتِ تو ام گرچه زار مے نالم
بدیں خوشم کہ تو با نالہ ام ہم آوازی
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
اگر جرم بینی مکن عیبِ من
توئی سر برآورده از جیبِ من
واضح ہو کہ بندوں کے افعال کا خالق کے ساتھ منسوب ہونا باعتبار ان کے خلق کے ہے نہ کہ باعتبارِ صدور کے، بلکہ صدور کے اعتبار سے وہ افعال بندوں کے ساتھ ہی منسوب ہیں۔ پس ”زاری مے کنی“ سے یہ مقصود نہیں کہ معاذ اللہ زاری کا صدور فی الواقع اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ چونکہ ہماری زاری کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے گویا زاری اسی کا فعل ہے۔ اور یہ مجاز کی ایک قسم ہے جس میں ایک فعل کو فاعل کے بجائے سبب کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے، جس کے نظائر قرآن و حدیث میں متعدد آئے ہیں۔ چنانچہ وارد ہے۔ ﴿فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ﴾۔ (القیامة: 18) یعنی ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے پیغمبر جب ہم آیاتِ قرآن کو پڑھیں تو تم ساتھ ساتھ پڑھو“۔ جس میں جبرائیل علیہ السلام کی قراءت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منسوب کیا گیا ہے (کذا فی کلید مثنوی) مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”یہ مناجات فرق بعد الجمع کے مرتبے میں ہے۔ جب سالک کی سیر عروج کی طرف ختم اور اس کا وجود فانی ہو جاتا ہے تو پھر وہ بشریت کی طرف نزول کرتا ہے اور اپنی ذات کا جلوہ آئینۂ حق میں دیکھتا ہے اور یہ عرفان کا سب سے بلند مقام ہے۔ اب وہ اپنی ذات کو معدوم اور ذاتِ حق کے ساتھ موجود دیکھتا ہے اور اس کے تمام افعال و صفات کو حق کے ساتھ منسوب پاتا ہے۔ اس شعر اور آیندہ اشعار میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔“ انتھٰی۔
5
ما چو نائیم و نوادرِ ما ز تست
ما چو کوہیم و صدا در ما ز تست
ترجمہ: ہماری مثال ایک نَے کی سی ہے اور ہم میں (سے جو) آواز (نکلتی ہے وہ) تجھ سے ہے۔ ہم گویا پہاڑ ہیں اور ہماری گونج تجھ سے ہے۔
مولانا اسمٰعیل مرحوم ؎
بزمِ ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں
ہے یہ تیری ہی صدا غیر کی آواز نہیں
6
ما چو شطرنجیم اندر برد و مات
برد و ماتِ ما ز تست اے خوش صفات
ترجمہ: ہم شطرنج (کے مہروں) کی طرح فتح و شکست میں (مصروف) ہیں اے عالی صفات! ہماری فتح و شکست تیری طرف سے ہے (جس طرح شطرنج کے مہروں کی برد و مات شاطر کا فعل ہے)۔
7
ما کہ باشیم اے تو ما را جانِ جاں
تاکہ ما با شیم با تو درمیاں
ترجمہ: اے (وہ ذات حق) جو ہماری جانِ جان ہے! ہماری کیا ہستی ہے کہ تیرے وجود کے ساتھ ہمارا وجود باقی رہے۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
عجب است با وجودت کہ وجودِ من بماند
تو بگفتن اندر آئی و مرا سخن بماند
8
ما عدمہائیم و ہستی ہائے ما
تو وجودِ مطلقی فانی نما
ترجمہ: ہم اور ہماری ہستیاں (جن کو عوام موجود سمجھتے ہیں درحقیقت سب) معدوم ہیں، تو وجودِ مطلق ہے (مگر کوتہ نظر جاہلوں کی نظر میں) نابود دکھائی دیتا ہے۔
مطلب: حضرت اکبر الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے”وجودِ مطلق فانی نما“ کی کیا عجب تفسیر کی ہے۔
؎ تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
حجابِ روئے تو ہم تست در ہمہ عالم
نہانی از ہمہ عالم ز بس کہ پیدائی
9
ما ہمہ شیراں ولے شیرِ علَم
حملۂ ما از باد باشد دمبدم
ترجمہ: (فرض کیا کہ) ہم سب شیر ہیں، مگر جھنڈے (کی تصویر) کے شیر (ہیں اور) ہمارا حملہ (جو) دمبدم (ہوتا ہے تو) ہوا (کی جنبش) سے ہوتا ہے۔
مطلب: اپنی ہستی ”معدوم باقی نما“ اور خدا کی ہستی ”مطلقِ فانی نما“ کی تمثیل شیرِ عَلَم کے حملے اور ہوا سے دی ہے۔ یعنی اس شیر کا حملہ دم بدم محسوس ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ کچھ بھی نہیں اور اس کی محّرک ہوا موجود ہے، مگر وہ محسوس و مدرک نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ ذاتِ مطلق حجابِ خفا میں ہے۔ مولانا اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ ؎
حجابِ شاہدِ مطلق نہ اُٹھا ہے نہ اُٹھے گا
جسے ہم لا مکاں سمجھتے تھے وہ بھی اک مکاں نکلا
10
حملۂ ما پیدا و ناپیدست باد
آنکہ ناپیدست ہرگز گم مباد
ترجمہ: ہمارا حملہ نظر آتا ہے اور ہوا نظر آنے والی نہیں ہے (دعا ہے کہ) وہ (ذات پاک) جو نظروں میں محسوس ہونے سے منزہ ہے (ہمارے قلوب سے اس کی تجلیات) کبھی ناپید نہ ہوں۔
11
بادِ ما و بودِ ما از دادِ تُست
ہستیِ ما جملہ از ایجادِ تُست
ترجمہ: ہمارا بولنا اور ہمارا وجود تیری عطا ہے۔ ہم سب کی ہستی تیری ایجاد ہے۔
مطلب: پہلا مصرعہ ان دو آیتوں کے مضمون پر مشتمل ہے۔ ﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ، عَلَّمَہُ الْبَیَانَ﴾ (الرحمٰن: 3-4) اسی نے انسان کو پیدا کیا (پھر) اس کو بولنا سکھایا)۔ مصرعۂ دوم میں اس آیت کے مفہوم کی طرف اشارہ ہے: ﴿قَالَ رَبُّکَ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ وَّ قَدْ خَلَقْتُکَ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ تَکُ شَیْئًا﴾ (مریم: 96) ”تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ یہ بات مجھ پر آسان ہے۔ اس سے پہلے تم ہی کو میں نے پیدا کیا حالانکہ تم کچھ بھی نہ تھے“۔
12
لذتِ ہستی نمودی نیست را
عاشقِ خود کردہ بودی نیست را
ترجمہ: تو نے معدوم کو وجود کی لذت چکھائی۔ تو نے (ہی) معدوم کو اپنا گرویدہ بنایا تھا۔
مطلب: دوسرے مصرعہ میں آیتِ میثاق یعنی: ﴿وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ۔۔۔﴾(الاعراف: 172) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ جس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تمام آنے والی اولاد کو بروزِ میثاق پیدا کر کے ان سے اقرار لیا کہ ﴿اَ لَسْتُ بَرَبِّکُمْ﴾ (الاعراف: 172) ”کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟“۔ ﴿قَالُوْا بَلٰی﴾ (الاعراف: 172) ”انہوں نے عرض کیا بے شک، تو ہمارا پروردگار ہے“۔ مولانا فرماتے ہیں کہ جو مخلوق ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی یومِ میثاق میں اس کو بھی اپنا گرویدہ اور اپنی الوہیت کا قائل و مُقر بنا لیا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
پیش ازاں روزیکہ گردوں خاکِ آدم مے سرشت
عشق در آب و گِلم تخمِ تمنائے تو کشت
13
لذتِ انعامِ خود را وا مگیر
نُقل و بادہ و جامِ خود را وا مگیر
ترجمہ: اپنے انعام (عشق) کی لذت (بخش کر) واپس نہ لے (اور) اپنے نُقل و شراب اور جام (وغیرہ اس مے نوشی کا سامان ہم سے) واپس نہ لے۔
؎ ز جامِ شوقِ تو باشد مدام جامؔی مست
مباد آنکہ ازیں بادہ ہوشیار شود
14
ور بگیری کیست جُست و جُو کند
نقش با نقاش چوں نیرُو کند
ترجمہ: اور اگر تو لے ہی لے تو کون ہے جو (معاذ اللہ پھر تجھ سے لینے کے لیے) ساعی ہو (بھلا) نقش کیونکر نقاش کے ساتھ زور (آزمائی) کر سکتا ہے۔
مطلب: ”کَمَا یُقَالُ فِی الدُّّعَاءِ الْمَاْثُوْْرِ "لَا مَانِعَ لِمَآ اَعْطَیْتَ وَ لَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ“ یعنی ”جو کچھ تو بخشے اُسے کون بند کرے اور جو چیز تو بند کر دے اسے کون دے سکے“۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
اگر بلطف بخوانی مزید الطاف ست
وگر بقہر برانی درونِ ما صاف ست
15
منگر اندر ما مکن در ما نظر
اندر اکرام و سخائے خود نگر
ترجمہ: ہمارے (عدمِ استحقاق) کی طرف نظر نہ کر۔ نہ ہم کو (ہماری عدمِ صلاحیت کے لحاظ سے) دیکھ۔ بلکہ اپنے فضل و کرم کو دیکھ (کہ بہرحال عطائے انعام کا مقتضی ہے)۔
ع بر من منگر بر کرمِ خویش نگر
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
چوں حسنِ عاقبت نہ برندی و زاہدی ست
آں بہ کہ کارِ ما بعنایت روا کنند
16
ما نبودیم و تقاضاماں نبود
لطفِ تو ناگفتۂ ما مے شنود
ترجمہ: (جب) ہم (موجود) نہ تھے اور ہمارا تقاضا (بھی) نہ تھا۔ تو تیری مہربانی ہماری بے کہی (درخواست) کو سنتی تھی۔
مطلب: ہم موجود بھی نہ تھے۔ تو تو نے بے مانگے ہم کو دولتِ وجود عطا کی۔ اور جن جن حاجات کا ہم اظہار بھی نہ کرنے پائے تھے تو نے خود ان کو سمجھ کر پورا کر دیا۔ مولانا اسمٰعیل مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎
تری عطا ہے میری احتیاج سے سابق
کبھی سوال کی نوبت نہ تو نے آنے دی
17
نقش باشد پیشِ نقاش و قلم
عاجز و بستہ چو کودک در شکم
ترجمہ: نقش تو نقاش اور (اس کے) قلم کے آگے پیٹ کے بچے کی طرح (عاجز اور مجبور) ہوتا ہے۔
مطلب: اوپر کہا تھا۔ ؎ نقش با نقاش چوں نیرو کند
یہاں اس کی مزید توضیح فرماتے ہیں کہ اگر خداوند تعالیٰ اپنے انعامات ہم سے چھین لے تو ہم کیا کر سکتے ہیں، ہم بمنزلہ نقش اور وہ نقّاش۔ نقش نقّاش کے آگے کیا سرکشی کر سکتا ہے۔
18
پیشِ قدرت خلقِ جملہ بارگہ
عاجزاں چوں پیشِ سوزن کارگہ
ترجمہ: (خدا کی) قدرت کے آگے تمام بارگاہ (عالم) کی مخلوق (اس طرح) عاجز ہے جیسے سوئی کے آگے کشیدہ کاڑھنے کا پارچہ۔
عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
در ہوائے امر و خورشید چوں ذرّۂ دواں
در فضائے قدرِ او عالم ہبائے مستطیر
19
گاہ نقشِ دیو و گہ آدم کند
گاہ نقشِ شادی و گہ غم کند
ترجمہ: (خدا کی قدرت) کبھی شیطان کا نقش بناتی ہے اور کبھی آدمی کا، کبھی خوشی کا نقشہ کھینچتی ہے اور کبھی غم کا۔
وَ نِعْمَ مَا قَالَ السَّعْدِیُّ تَفْسِیْرًا لِہٰذَا الْبَیْتِ ؎
یکے را به سر برنہد تاجِ بخت
یکے را بخاک اندر آرد ز تخت
کلاہِ سعادت یکے برسرش
گلیمِ شقاوت یکے در برش
گلستان کند آتشے بر خلیل
گروہے بآتش بروز آبِ نیل
20
دست نے تا دست جنباند بدفع
نطق نے تا دم زند از ضرّ و نفع
ترجمہ: کوئی طاقت نہیں جو (اُس کو) روکنے کے لیے ہاتھ اُٹھائے، کوئی قوتِ گفتار نہیں جو (اُس کے پہنچائے ہوئے) نفع و نقصان پر دم مارے۔
مطلب: کَمَا قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَاللهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ وَ ھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ﴾ (الرعد: 41) ”اور اللہ تعالیٰ (جو چاہتا ہے) حکم دیتا ہے۔ کوئی شخص اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا اور وہ بڑی جلدی حساب لینے والا ہے“۔ ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ﴾ (الانبیاء: 23) یعنی ”جو کچھ وہ کرتا ہے اس کی باز پُرس اس سے نہیں کی جا سکتی اور ہاں لوگوں سے (ان کے اعمال کی) باز پُرس ہونی ہے“۔
21
تو ز قرآں باز خواں تفسیرِ بیت
گفت ایزد مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْت
ترجمہ: (اگر تم کو تشفی نہیں ہوئی تو) ان ابیات کی تفسیر قرآن مجید سے پڑھ لو (جہاں) خدا فرماتا ہے۔ وَمَا رَمَیْتَ۔۔۔الخ۔
مطلب: غزوۂ بدر میں جب کفار کی فوج لشکرِ اسلام پر غالب ہونے لگی تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے جنابِ باری میں فتح کے لیے دعا کی اور سجدہ سے سر اٹھا کر کنکریوں کی ایک مٹھی کفار کی طرف پھینکی۔ خدا کی قدرت اس مٹھی کا پھینکنا تھا کہ کفار بد حواس ہو کر بھاگ نکلے۔ یہ آپ کا معجزہ تھا۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللہَ رَمٰی﴾ (الانفال: 17) یعنی ”اے پیغمبر ﷺ تم نے جو کنکریاں پھینکی تھیں۔ وہ تم ہی نے نہیں پھینکی۔ بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں“۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
گرچہ تیر از کماں ہمے گذرد
از کماندار بیند اہلِ خرد
مولانا فرماتے ہیں کہ ابیاتِ بالا میں جو توحید کا ذکر آیا ہے۔ اس کی مزید توضیح اس آیت سے ہوتی ہے جس سے ظاہر ہے کہ عبد کا فعل درحقیقت معبود کا فعل تھا۔ یعنی اس فعل کا خالق معبود تھا۔ قَالَ الْعَارِفُ الْجَامِیْ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ؎
پائے طلب راہگذار از تو یافت
دستِ تواں قوتِ کار از تو یافت
بلکہ توئی کارگر راستیں
دستِ ہمہ دست ترا آستیں
تا نکنی تو نتوانیم ما
تا نہ دہی تو چہ ستانیم ما
نیست دریں کارگہ گیر و دار
جز تو کسے کاید ازو ہیچ کار
22
گر بپّرانیم تیر آں کے زماست
ما کمان و تیر اندازش خداست
ترجمہ: اگر ہم تیر پھینکیں تو وہ (تیر اندازی) ہماری طرف سے کب ہے، (بلکہ) ہم (بمنزلہ) کمان (کے ہیں) اور اس کا تیر انداز خدا ہے۔
مطلب: یعنی جس طرح کمان محض آلۂ تیراندازی ہے اور وہ خود تیر انداز نہیں ہے۔ بلکہ تیر انداز کماندار ہے۔ اسی طرح ہم خود مؤثر نہیں بلکہ مؤثرِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ ہم سے محض فعل صادر ہوتا ہے۔ ان اشعار میں مولانا نے اللہ تعالیٰ کو فاعل اور بندے کو آلہ قرار دیا ہے، اس کو اصطلاحِ تصوف میں قُربِ فرائض کہتے ہیں اور اگر برعکس اس کے بندے کو فاعل اور اللہ تعالیٰ کو آلہ کہا جاوے تو یہ قرب نوافل ہے۔ اور ان دونوں اصطلاحوں کی ماخذ یہ حدیث ہے۔ ”عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ اِنَّ اللہَ تَعَالیٰ قَالَ: مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ، وَ مَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ، وَ مَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ، فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ فَکُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَ بَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَ یَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا، وَ اِنْ سَاَلْنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ، وَ لَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ، وَ مَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ اَنَا فَاعِلُہٗ تَرُدُّدِیْ عَنْ نَفْسِ الْمُؤمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَ اَنَا اَکْرَہُ مَسَاءَتَہٗ وَ لَا بُدَّ لَہٗ مِنْہُ“ (مشکوٰۃ، باب ذکر اللہ عزوجل) یعنی ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص میرے کسی ولی کو ستائے میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں، اور میرا بندہ جن اعمال کے ذریعے میری طرف تقرّب حاصل کرتا ہے ان میں سے فرائض سے بڑھ کر مجھے کوئی عمل محبوب نہیں، اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ساتھ میری طرف تقرّب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں، پس جب میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو میں اس کی شنوائی بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے، اس کی بینائی (بن جاتا ہوں) جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ (بن جاتا ہوں) جس کے ساتھ وہ گرفت کرتا ہے، اور اس کا پاؤں (بن جاتا ہوں) جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے (کچھ) مانگتا ہے تو میں اس کو ضرور دیتا ہوں، اور اگر میری پناہ چاہتا ہے تو میں اس کو پناہ دیتا ہوں۔ اور مجھ کو کسی چیز میں، جو مجھے کرنی ہو اس قدر تردّد نہیں ہوتا جس قدر ایک مومن کی جان (قبض کرنے) میں تردّد ہوتا ہے، جو موت کو نا پسند کرتا ہے۔ اور مجھے اس کی نا پسندیدگی نا پسند ہوتی ہے اور مرنے سے اس کو چارہ نہیں“۔ انتھٰی۔
”مَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ۔۔۔ الخ“ کا مطلب یہ ہے کہ میں اس بندے پر جو ہمیشہ متقرّب بالنوافل رہے اپنی محبت اس قدر غالب کر دیتا ہوں کہ وہ آنکھوں سے وہی چیز دیکھتا ہے جو مجھے محبوب ہو، کانوں سے وہی بات سنتا ہے جو مجھے پسند ہو، ہاتھوں سے وہ ہی چیز چھوتا ہے جو مجھے اچھی لگتی ہو، پاؤں سے اسی راہ پر چلتا ہے جو مجھے منظور ہو۔ (کَذَا فِی مُظَاہِرِ الْحَقِّ) پس جب بندہ کے تمام افعالِ جوارح رضائے الٰہی سے متحد ہو جاتے ہیں تو اس کے متعلق مجازًا یہ فرمایا کہ میں ہی اس کے اعضاء بن جاتا ہوں۔ گویا بندہ فاعل ہے اور آلۂ فعل خداوند تعالیٰ ہے۔ چونکہ یہ مرتبہ کثرتِ نوافل سے حاصل ہوتا ہے اس لیے اس کا نام قُربِ نوافل ہے۔ اس سے پہلے ارشاد ہے کہ ”مَا تَقَرَّبَ اِلَيَّ عَبْدِيْ بِشَيْءٍ اَحَبَّ اِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ“ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو بندے کے تمام تقرب دلانے والے اعمال سے فرائض زیادہ پسند ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقرب، تقرب بالنوافل سے بھی افضل ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ بندے کی ہستی ایسی مضمحل ہو جائے کہ وہ اپنے ارادہ و قدرت کو خداوند تعالیٰ کے ارادہ و قدرت کے سامنے کالعدم سمجھے۔ یعنی حقیقی فاعل خدا کو قرار دے اور اپنے آپ کو صرف آلۂ فعل سمجھے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
از دست دَورِ مہ و مہر نے ز گردشِ چرخ
کہ دائرہ زنگارندہ، نے زیرِ کار است
یہی مطلب ہے ”ما کمان و تیر اندازش خداست“ کا، اور یہی تفسیر ہے ﴿وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ﴾ (الانفال: 17) کی۔
23
ایں نہ جبر ایں معنیِ جبّاری ست
ذکرِ جباری بری از زاری ست
ترجمہ: (لیکن) یہ جبر (فرقہ جبریہ کے عقیدہ کے موافق) نہیں (بلکہ) یہ خدا کی جبّاری (کا) ہے (اور خدا کی) جبّاری کا ذکر (بندے کی مطلق) مجبوری (کے غلط عقیدے) سے بری ہے۔
مطلب: پچھلے مضمون سے بعض کم فہم لوگوں کو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ اس سے بندے کی مطلق مجبوری ثابت ہوتی ہے۔ جو اہلِ حق کے عقیدے کے خلاف ہے۔ مولانا بطورِ دفعِ دخل مقدر فرماتے ہیں کہ یہاں تو خدواند تعالیٰ کے غلبہ و قدرت کا ذکر مقصود ہے اور اس کے غلبہ و قدرت سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس نے ہم کو بالکل عدیم الاختیار اور مجبور بجرِ مذموم بنا رکھا ہے کہ جو چاہے ہم سے کرائے۔
24
زاریِ ما شد دلیلِ اضطرار
خجلتِ ما شد دلیلِ اختیار
ترجمہ: ہمارا ضعف و عجز مجبوری کی دلیل ہے اور ہمارے (گناہوں پر) شرمندگی اختیار کی علامت ہے۔
مطلب: بندہ کے مجبورِ محض ہونے کا عقیدہ بھی غلط ہے اور مختارِ مطلق ہونے کا خیال بھی باطل بلکہ ان دونوں شقوں کا توسط حق ہے۔ بقول کسے ؎
جبر باطل ہے قدر باطل ہے
بین الامرین امرِ حاصل ہے
یعنی حق یہ ہے کہ بندہ کسی حد تک مجبور بھی ہے اور کسی حد تک مختار بھی، چنانچہ حیات و موت و رزق و اولاد وغیرہ امورِ اضطراریہ اور بعض امورِ اختیاریہ میں قدرتِ حق کے سامنے ہمارا عاجز اور بے بس ہونا تو مجبور ہونے کی علامت ہے۔ اور اپنے کیے پر پشیمان و نادم ہونا اختیار کی نشانی ہے۔ اگر وہ کام بلا اختیار سرزد ہوتا تو ندامت کیوں ہوتی؟
25
گر نبودے اختیار ایں شرم چیست؟
ویں دریغ و خجلت و آرزم چیست؟
ترجمہ: اگر (ہم کو اپنے افعال پر) اختیار نہ ہوتا۔ تو (اقدامِ معاصی کے بعد) یہ شرم کیا چیز ہے؟ اور (ارتکابِ قبیح کے بعد) افسوس اور ندامت اور (وقوعِ عداوت کے بعد) صلح جوئی کیسی ہے؟
26
زجرِ استاداں بشاگرداں چراست
خاطر از تدبیرہا گرداں چراست
ترجمہ: (اگر) شاگردوں (کو قواعدِ درسگاہ اور آدابِ تعلیم کی پابندی پر اختیار نہیں تو ان) پر اُستادوں کی خفگی کیوں ہوتی ہے؟ (اگر سب کام مجبوری سے ہوتے ہیں۔ تو مدبروں کے) دل تدبیروں سے چکر میں کیوں ہیں؟
27
ور تو گوئی غافل ست اَز جبرِ اُو
ماہِ حق پنہاں شد اندر ابرِ اُو
ترجمہ: اور اگر تو یہ اعتراض کرے کہ (بندہ جو اپنے کیے سے پشیمان ہوتا ہے) اس کو اپنی مجبوری کا احساس نہیں ہے (پس جبر کے عقیدۂ) حق کا چاند اس کے ابر (جہل) کے نیچے چھپ رہا ہے۔
مطلب: اثباتِ جبر کے لیے جو اوپر ارتکابِ افعال پر دریغ و خجلت کا عارض ہونا بطور دلیل پیش کیا تھا۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا تھا کہ ممکن ہے بندہ مجبورِ محض، مسلوب الاختیار مطلقًا ہو۔ مگر اس کو اپنی مجبوری کا احساس نہ ہو اور اپنے جہل و لا عملی کے تقاضے سے اس فعل کو جو درحقیقت خداوند تعالیٰ کے اختیار سے سرزد ہوتا ہے اپنا فعل سمجھ کر افسوس کرتا ہو۔ مولانا اس کا جواب بیان فرماتے ہیں:
28۔
ہست ایں را خوش جواب ار بشنوی
بگذری از کفر و بر دیں بگروی
ترجمہ: تو اس کا (بھی) ایک عمدہ جواب (موجود) ہے۔ اگر تو (اس کو) سن لے۔ تو (فرقۂ جبریہ کے معتقداتِ) کفر سے باز آئے اور دین کا معتقد ہو جائے۔
29
حیرت و زاری کہ در بیماری است
وقتِ بیماری ہمہ بیداری ست
ترجمہ: (یعنی) حالتِ مرض میں جو (بندے کو اپنے سابقہ اعمال پر) پریشانی و زاری لاحق ہوتی ہے۔ وہ بیماری کے وقت ایک کامل تنبہ ہوتا ہے (کیونکہ بوجۂ خوفِ موت غفلت کا حجاب اُٹھ جاتا ہے۔)
32
آں زماں کہ میشوی بیمار تو
میکنی از جرم استغفار تو
ترجمہ: جس وقت تو بیمار ہوتا ہے۔ تو (اپنے) گناہوں سے استغفار کرتا ہے۔
33
مے نماید بر تو زشتیِ گنہ
میکنی نیّت کہ باز آیم برہ
ترجمہ: اس وقت تجھ پر گناہ کی برائیاں عیاں ہو جاتی ہیں تو (دل سے) نیت کر لیتا ہے کہ میں آئندہ راہِ (ہدایت) پر چلوں گا۔
32
عہد و پیمان میکنی کہ بعد ازیں
جز کہ طاعت نبودم کار گزیں
ترجمہ: تو (دل سے) عہد و پیمان کرتا ہے کہ میں اس کے بعد طاعت (خدا) کے سوا کوئی کام اختیار نہ کروں گا۔
33
پس یقین گشت آنکہ بیماری تُرا
مے بہ بخشد و بیداری تُرا
ترجمہ: پس اس امر کا یقین ہوا کہ تیری بیماری تجھ کو (غفلت سے نکال کر) ہوش اور بیداری بخشتی ہے۔
مطلب: اگر معترض کے خیال کے مطابق افعالِ قبیحہ سے نادم ہونا بوجۂ جہل و غفلت کے ہے تو بیماری میں تو انسان غافل و جاہل نہیں ہوتا۔ اس وقت قربِ موت کے تصور سے پوری ہوشیاری و بیداری ہوتی ہے۔ پھر کیوں نادم ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو فی الواقع اپنے اعمال کا اختیار حاصل ہے۔ جبھی تو اس کو ارتکابِ معاصی پر ندامت لاحق ہوتی ہے۔
34
پس بداں ایں اصل را اے اصل جُو
ہر کرا دردست او بُردست بُو
ترجمہ: پس اے حقیقت کے طالب اس قاعدہ کلیہ کو سمجھ لے (کہ) جس آدمی میں درد ہے۔ اسی نے (محبوب) کا سراغ پایا ہے۔
مطلب: ان دو شعروں میں انتقال ہے اس بات کی طرف کہ آدمی میں دردِ عشق ہونا چاہیے اور دردِ عشق ہی فوز و سعادت کا ذریعہ ہے۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
نایند ببازارِ بتاں اہلِ سلامت
کانجا ہمہ جاں و دل افگار فروشند
35
ہر کہ او بیدار تر پُر درد تر
ہر کہ او آگاہ تر رُخ زرد تر
ترجمہ: جو زیادہ ہوشمند ہے۔ وہی زیادہ پُر درد ہے۔ جو زیادہ با خبر ہے (سوزِ عشق سے اسی کا) چہرہ زیادہ زرد ہے۔
مطلب: دردِ عشق اور سوزِ محبت آگاہ بحق کا ہی حصہ ہے، یہ دولت بے خبر اور حق سے بیگانہ پا نہیں سکتا۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎
عشق نہ جامے ست کش بے خبرے را دہند
اشک نہ لعلیست کاں بد گہرے را دہند
پیش دو بیناں نداد صورتِ اسرارِ عشق
آہ گر ایں آئینہ کژ نظرے رادہند
36
گر ز جبرش آگہی زاریت کُو
جنبشِ زنجیرِ جباریت کُو
ترجمہ: اگر تو اس کے جبر کا معتقد ہے۔ تو تیرا عجز کہاں ہے؟ (جو لازمۂ جبر ہے، اور) تیری زنجیرِ جبّاری کی جھنکار کہاں ہے؟ (جس میں تو بزعمِ خود) جکڑا ہوا ہے۔
مطلب: یہاں سے پھر جبر و قدر کی بحث کی جانب عود کیا ہے اور قائلِ جبر کو الزامی جواب دیتے ہیں کہ اگر تم اپنے آپ کو مجبورِ محض سمجھتے ہو تو تم میں مجبوری کے آثار یعنی کمال عاجزی و بے اختیاری اور انکسار و تذلل ہونے چاہییں وہ کہاں ہیں؟ اور اگر تم اپنے آپ کو جباری کی خدائی زنجیر میں جکڑے ہوئے سمجھتے ہو تو اس زنجیر کی جھنکار یعنی تمہاری اس مجبوری کی علامات بھی ہونی چاہییں۔ مطلب یہ کہ تم ایک بے حس و حرکت تصویر ہوتے۔ پھر یہ مزا اور خود مختارانہ شوخیاں کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
37
بستہ در زنجیر رادی چوں کند
چوب اشکستہ عمادی چوں کند
ترجمہ: (بھلا) زنجیر کا (دست) بستہ داد و دہش کیونکر کر سکتا ہے۔ ٹوٹی لکڑی ستون کیونکر بن سکتی ہے۔
38
کے اسیرِ حبس آزادی کند
کے گرفتارِ بلا شادی کند
ترجمہ: جیل خانہ کا قیدی آزاد کب رہ سکتا ہے۔ بلا کا گرفتار کب خوشی منا سکتا ہے۔
الخلاف: بعض نسخوں میں یہ شعر نہیں ہے۔
39
ور تو مے بینی کہ پایت بستہ اند
بر تو سرہنگانِ شہ بنشتہ اند
40
پس تو سرہنگی مکن با عاجزاں
زانکہ نبود طبع و خوئے عاجزآں
ترجمہ: اور اگر تو دیکھتا ہے کہ (کارکنانِ قضا و قدر نے) تیرے پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ اور شاہِ (حقیقی) کے چوبدار تجھ پر تعینات ہیں۔ تو تو عاجزوں پر سپاہیانہ جبر و تعدّی نہ کر۔ کیونکر یہ بات ایک عاجز (و مجبور) کی خصلت و عادت نہیں ہو سکتی۔
41
چوں تو جبرِ او نمے بینی مگو
ور ہمے بینی نشانِ دید کو
ترجمہ: جب تو (اپنے افعال میں) اس کا (یعنی خدا کا) جبر نہیں دیکھتا تو اس کا دعوٰی نہ کر۔ اگر دیکھتا ہے تو دیکھنے کی دلیل کیا ہے؟
42
در ہر آں کاریکہ میل استت بداں
قدرتِ خود را ہمے بینی عیاں
ترجمہ: جس کام سے تجھے لگاؤ ہے اس میں صاف طور پر تو اپنی قدرت و اختیار کا مشاہدہ کرتا ہے۔
43
در ہر آں کاریکہ میلت نیست و خواست
اندراں جبری شوی کیں از خداست
ترجمہ: جس کام سے تجھے لگاؤ اور خواہش نہیں ہے۔ اس میں تو مجبور بن بیٹھتا ہے اور (کہنے لگتا ہے) کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
مطلب: ان دو شعروں میں قائلِ جبر کے ایک فریبِ نفس کو ظاہر کیا ہے یعنی اگر تم مجبورِ محض ہو تو تمام خوش گوار و ناگوار حالات میں مجبور و بے اختیار بنے رہو۔ یہ کیا معنٰی کہ حصولِ رغائب اور جر منافع کے لیے تو خود اپنی مرضی و اختیار سے ایسے بھاگے بھاگے پھرتے ہو گویا تمہارے نزدیک جبر و مجبوری کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ لیکن جب غیر ملائم حالات پیش آتے ہیں، گو ان کا اصلی باعث خود اپنی سوءِ تدبیر ہی کیوں نہ ہو، تو جبری بن جاتے ہو اور کہنے لگتے ہو ہمارے کیا بس ہے جو کچھ ہوا ہمارے اختیار سے باہر تھا۔
44
انبیا در کارِ دنیا جبرِیَند
کافراں در کارِ عقبٰی جبرِیَند
ترجمہ: (پس) انبیاء علیہم السلام تو دنیا کے معاملات میں جبری (و تارکِ اسباب) ہیں۔ اور کفار آخرت کے کاموں میں جبری اور تارک اسباب ہیں۔
مطلب: خلاصۂ بحث یہ ہے کہ نہ مطلق اختیار صحیح ہے نہ مطلق جبر۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک حالت مقید بقیدِ دیگر پائی جاتی ہے، یعنی یہ دونوں حالتیں خاص خاص حیثیات کے ساتھ اکٹھی پائی جاتی ہیں۔ ہاں بعض طبقات میں ایک حالت کو غلبہ ہے، بعض میں دوسری کو۔ مثلًا انبیاء علیہم السلام دنیا کے کام میں جبری یعنی تارک اسباب ہیں۔ اس لیے اسبابِ معیشت میں سادگی بلکہ فقر و بے سامانی اختیار کر لیتے ہیں۔ اور امورِ عقبٰی میں نہایت ہوشیار و زیرک اور اسباب و ذرائع کو اختیار کرنے والے ہوتے ہیں۔ اہلِ دنیا کا حال اس کے برعکس ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
مکش یکبارگی بر ما خطِ نادانی اے خواجہ
کہ در کارِ جہاں گو گولیم و در عشقِ بتاں زیرک
45
انبیاء را کارِ عقبٰی اختیار
کافراں را کارِ دنیا اختیار
ترجمہ: انبیا کے لیے کارِ آخرت (زیر) اختیار ہے کافروں کے لیے کارِ دنیا (زیر) اختیار ہے۔
مطلب: انبیاء آخرت کے کاموں میں اسباب کے لیے سعی کرتے ہیں اور کافر دنیا کے کاموں میں۔
46
زانکہ ہر مرغے بسوئے جنسِ خویش
میروَد و او در پس و جاں پیش پیش
ترجمہ: کیونکہ ہر پرندہ اپنی جنس کی طرف اڑتا ہے۔ (اور ایسی رغبت سے کہ) وہ پیچھے پیچھے (ہوتا ہے) اور (اس کی) جان آگے آگے۔
نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز
47
کافراں چوں جنسِ سجِّیں آمدند
سجنِ دُنیا را خوش آئیں آمدند
ترجمہ: کافر لوگ دوزخ کی جنس سے ہیں اس لیے زندانِ دنیا کے خوب آئین شناس ہیں۔
48
انبیا چوں جنسِ علیّین بُدند
سوئے علیّین بجان و دل شدند
ترجمہ: انبیا چونکہ علیّین کی جنس سے تھے (اس لیے) دل و جان سے علیّین کی طرف گئے۔
49
اے خدا بنما تو جاں را آں مقام
کاندر وبے حرف میروید کلام
ترجمہ: اے خدا جان کو (ذوق و وجدان کا) وہ مقام دکھا دے جس میں حرکتِ لسان کے بغیر بات چیت ہو جاتی ہے (تاکہ اس قسم کی تکلیفِ مکالمت کے بغیر ہی اسرار القاء ہو جایا کریں۔ جو یہاں بحثِ جبر میں کرنی پڑی)۔
الخلاف: بعض نسخوں میں یہ شعر نہیں ہے۔
50
ایں سخن پایاں ندارد لیک ما
باز گوئیم آں تمامی قصّہ را
ترجمہ: اس بحث کی تو کوئی انتہا نہیں ہے لیکن ہم پھر اس باقی قصے کو چھیڑتے ہیں۔