دفتر 1 حکایت 2 : (ایک) بادشاہ کا (ایک) لونڈی پر عاشق ہو جانا اور اس کا اس لونڈی کو خرید لینا اور لونڈی کا بیمار ہو جانا اور اس کا علاج کیا جانا


دفتر اول: حکایت: 2

حکایت: عاشق شدنِ بادشاہ بر کنیزک و خریدنِ او آں کنیزک را و بیمار شدنِ کنیزک و درمانِ بیماریِ او

حکایت: (ایک) بادشاہ کا (ایک) لونڈی پر عاشق ہو جانا اور اس کا اس لونڈی کو خرید لینا اور لونڈی کا بیمار ہو جانا اور اس کا علاج کیا جانا

1

بشنوید اے دوستاں ایں داستاں

خود حقیقت نقدِ حالِ ماست آں

صنائع: "دوستاں" اور "داستاں" میں صنعتِ جناس لاحق۔

ترجمہ: اے دوستو یہ قصہ سنو (کہ) وہ ہماری موجودہ حالت کا سچا فوٹو ہے۔

مطلب: اس قصہ کا ربط اوپر کے شعر ؎ رو تو زنگار از رخِ او پاک کن الخ کے ساتھ ہے۔ یعنی اسرارِ عشق کے سمجھنے کے لیے دل زنگارِ علائق سے اس طرح پاک کرو جس طرح طبیب الٰہی نے اس کنیزک کے دل کو درد و رنج سے نجات دی، جو ایک زرگر کے عشق میں مبتلا تھی۔ خلاصہ اس قصہ کا یہ ہے کہ ایک بادشاہ اپنی لونڈی پر عاشق ہو گیا مگر لونڈی ایک اور شخص پر عاشق تھی۔ بادشاہ نے اطبائے ملک سے اس کا علاج کرانا چاہا مگر شفا نہ ہوئی۔ مایوس ہو کر خدا کی طرف رجوع کیا تو ایک غیبی طبیب نے آ کر یہ تدبیر کی کہ لونڈی کے معشوق کو دواؤں کی تاثیر سے بد صورت بنا کر ہلاک کر دیا۔ جس سے لونڈی کو اس کی یاد سے نفرت ہو گئی اور بادشاہ کی مراد بر آئی۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ قصہ ہمارے حسبِ حال ہے۔ چنانچہ بادشاہِ روح اپنی کنیز نفس پر عاشق ہے اور نفس لذّاتِ دنیا پر فریفتہ ہے۔ عام اطبّاء یعنی مشائخِ ناقصین اس کے معالجہ کی قابلیت نہیں رکھتے۔ شیخِ کامل کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو اپنی تربیت کے اثر سے نفس کی نظر میں دنیا کو بد صورت بنا دے گا اور لذّاتِ دنیا کے احساس کو اس کے وجود سے نابود کر دے گا۔ پھر نفس خاص روح کے تابع ہو جائے گا۔ (کذا قال بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ) شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

داروے تربیت از پیرِ طریقت بستان

کادمی را بتر از علّت نادانی نیست

2

نقدِ حالِ خویش را گر پَے بریم

ہم ز دنیا ہم ز عقبٰے بر خوریم

ترکیب: پہلا مصرعہ فعل با فاعل اپنے مفعول بہ کے ساتھ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر شرط۔ دوسرا جملہ فعلیہ ہو کر جزا۔ "ہم" حرفِ عطف۔

ترجمہ: اگر ہم اپنے موجودہ حال کو کھوج نکالیں تو دنیا سے بھی (اور) آخرت سے بھی (اس کا) ثمر (شیریں) کھائیں۔

مطلب: اپنے حالات پر غور کرتے رہیں کہ ماضی سے عبرت اور مستقبل کے لیے بصیرت حاصل ہوتی ہے، جس کا ثمرہ یقینًا یہ حاصل ہوتا ہے کہ آدمی دنیا میں نیک نامی اور آخرت میں نجات حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ فِى الْاَرْضِ اٰيَاتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ۔ وَ فِىٓ اَنْفُسِكُمْ ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات: 20-21) "اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے (کافی) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اندر بھی پس کیا تم غور نہیں کرتے"۔ غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎

رہ بجائے نبرد ہر کہ ز خود بے خبر ست

نقشِ پائے بود آں پائے کہ در خواب بود

وَ لَہٗ ؎

سر ہمچو تارِ سُبحہ بصد درکشیدہ ایم

آخرہ رسیدہ ایم بخود آرمیدہ ایم

3

بود شاہے در زمانے پیشِ ازیں

مُلکِ دنیا بودش و ہم مُلکِ دیں

ترکیب: "بود" فعلِ ناقص، "شاہے" موصوف، جس کی صفت دوسرا مصرعہ ہے۔ دونوں مل کر اسم۔ "در" جار۔ "زمانے" موصوف۔ "پیشِ" ظرف۔ اپنے متعلق یعنی "ازیں زماں" کے ساتھ مل کر صفت۔ موصوف و صفت مجرور ہو کر مع جار کے متعلق "موجود" خبرِ محذوف کے ہوئے۔

صنائع: دوسرے مصرعہ میں صنعتِ مشاکلہ ہے۔

ترجمہ: اس سے پہلے (یعنی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے عہد مبارک سے پہلے) زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس کے پاس دنیا کا ملک بھی تھا اور (اعمالِ حسنہ کے لحاظ سے) دین کا ملک بھی۔

4

اِتفاقًا شاہ روزے شد سوار

با خواصِ خویش از بہرِ شکار

ترکیب: "اتفاقًا" مفعولِ مطلق ہے "اِتَّفَقَ" سے تقدیر کلام یوں ہو گی: "اِتَّفَقَ اِتِّفَاقًا" یعنی "اتفاق یافت اتفاق یافتنی ایں کہ الخ"۔ "ایں" مبیّن۔ "شد" فعلِ ناقص، "شاہ" اسم۔ "سوار" خبر۔ "روزے" ظرف اور دونوں متعلقوں کے ساتھ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر بیان ہوا۔ مبیّن و بیان مل کر فاعل "اِتَّفَقَ" کے۔

ترجمہ: اتفاق سے ایک روز بادشاہ اپنے مصاحبوں سمیت شکار کی غرض سے سوار ہوا۔

5

بہرِ صیدے میشُد اُو بر کوہ و دَشْت

ناگہاں در دامِ عِشقِ او صَید گشت

ترکیب: "مے شد" فعل، "اُو" فاعل۔ "بہرِ صید" اور "بر کوہ و دشت" دونوں متعلق۔ دوسرے مصرعہ میں۔ "گشت" فعلِ ناقص۔ "ناگہاں" ظرف۔ "در دامِ عشق" متعلق۔ "او" اسم۔ "صید" خبر۔

صنائع: "صید" کے لفظ میں مشاکلہ ہے، "دام" اور "عشق" میں اضافتِ تشبیہی ہے۔

ترجمہ: (اس اثنا میں کہ) شکار کے لیے وہ کوہ و صحرا میں چلا جا رہا تھا۔ اچانک وہ (خود) دامِ عشق کا شکار ہو گیا۔

6

یک کنِیزک دید او بر شاہراہ

شُد غلامِ آں کنیزک جانِ شاہ

ترکیب: "دید" فعل، "اُو" فاعل۔ "یک کنیزک" عدد و معدود مل کر مفعول بہ۔ "بر شاہراہ" متعلقِ فعل۔ یہ جملہ فعلیہ ہوا۔ "شد" فعلِ ناقص۔ "جانِ شاہ" اسم۔ "غلامِ آں کنیزک" خبر۔

صنائع: "کنیزک" و "غلام" میں مراعات النظیر۔ "شاہ" اور "شاہراہ" میں تجنیسِ ناقص۔

ترجمہ: (یعنی) بادشاہ نے راستے میں ایک لونڈی دیکھی۔ بادشاہ کی جان اس لونڈی کی غلام ہو گئی۔

7

مُرغِ جانش در قفس چُوں در طپید

داد مال و آں کنیزک را خرید

صنائع: "مرغ" اور "جان" میں تشبیہِ مجمل ہے۔ "قفس" کا مشبہ محذوف ہے یعنی "جسم"۔

ترجمہ: چونکہ اس کا طائرِ جان (جسم کے) پنجرے میں (حرارتِ عشق سے) جل رہا تھا (اس لیے) اس نے روپیہ دے کر اس لونڈی کو خرید لیا۔

8

چُوں خرید او را او برخوردار شد

آں کِنیزک از قضا بِیمار شد

صنائع: "برخوردار شدن" فائدہ اٹھانا، کامیاب ہونا۔

ترجمہ: جب وہ اس کو خرید کر (اپنے مطلب پر) کامیاب ہو گیا۔ تو تقدیر سے لونڈی بیمار ہو گئی۔

9

آں یکے خر داشت و پالانش نبُود

یافت پالاں گرگ خر را در ربود

ترکیب: دوسرا مصرعہ بتقدیر "چوں یافت پالاں الخ" جملہ شرطیہ ہے۔

ترجمہ: (سچ ہے) ایک شخص گدھا رکھتا تھا مگر اس کے پاس پالان (موجود) نہ تھا، (پھر جب) پالان ملا تو گدھے کو بھیڑیا اٹھا لے گیا۔

10

کُوزہ بودش آب مے نامد بدست

آب را چوں یافت خود کوزہ شکست

ترکیب: "شین" بمعنی "او را" جار و مجرور متعلق خبرِ محذوف یعنی "حاصل"۔ "آب مے نامد بدست" سے پہلے "لاکن" حرفِ استدراک مقدّر ہے۔ دوسرا مصرعہ جملہ شرطیہ۔

ترجمہ: (اسی طرح وہ شخص کہ) اس کے پاس کوزہ تھا مگر پانی نہ ملتا تھا۔ جب پانی ملا تو کوزہ ٹوٹ گیا۔

مطلب: اوپر کے دونوں شعر اس امر کی تمثیل ہیں کہ دنیا میں اکثر لوگوں کو کامیابی کا پورا سامان میسر نہیں۔ ایک چیز میسر ہے تو دوسری کی کمی ہوتی ہے اور جب دوسری ملتی ہے تو پہلی نہیں رہتی۔ یہی حال بادشاہ کا تھا کہ یا تو اس کی معشوقہ یعنی کنیزک اس کے پاس نہ تھی، جب اسے خرید لیا تو اس کے مرض کے سبب وصل کا موقع ہاتھ سے جاتا رہا۔ سچ ہے: ؎

دانت تھے جب تو چنے نہ پائے

چنے ملے تب دانت گنوائے

11

شہ طبیباں جمع کرد از چپ و راست

گفت جانِ ہر دو در دستِ شماست

ترکیب: "طبیباں" مفعول بتقدیرِ حرفِ را۔ دوسرے مصرعہ کے آغاز میں واؤ حرفِ عطف مقدّر ہے۔

ترجمہ: (الغرض) بادشاہ نے دائیں بائیں سے حکیموں کو جمع کیا (اور ان کو) کہا (میری اور لونڈی) دونوں کی جان تمہارے ہاتھ میں ہے۔

مطلب: بادشاہ نے طبیبوں سے کہا لونڈی کی جان تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے کہ نہ علاج کرو گے تو مر جائے گی۔ اور میری جان بھی تمہارے ہاتھ میں ہے کیونکہ میں اس کا شیدا ہوں۔ اس کا مرنا میرا مرنا ہے اور معشوق کی سلامتی عاشق کی سلامتی ہے۔ خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

سلامتِ ہمہ آفاق در سلامتِ تست

بہیچ عارضۂ شخصِ تو درد مند مباد

12

جانِ من سہل ست و جانِ جانم اوست

دردمند و خستہ ام درمانم اوست

صنائع: "جانِ جاں" کنایہ ہے معشوق سے۔

ترجمہ: میری جان تو معمولی چیز ہے اور میری جان کی جان تو وہی (لونڈی) ہے۔ میں (مرضِ عشق سے) درد مند اور زخمی ہوں۔ میرا علاج وہی ہے۔

مطلب: پہلے مصرعہ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عاشق اپنے معشوق کے سامنے اپنی ہستی کو شمار نہیں کرتا۔

شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

هر کہ با یار آشنا شد گو ز خود بیگانہ باش

تکیہ بر ہستی مکن در نیستی مردانہ باش

13

ہر کہ درماں کرد مَر جانِ مرا

بُرد گنجِ دُرّ و مَرجانِ مرا

صنائع: "مرجان" کے دونوں کلموں میں تجنیسِ مرکب ہے پہلے "مر جان" میں حرفِ "مر" زاید ہے۔ دوسرے "مرجان" کے معنی مونگا۔

ترجمہ: جس نے میری جان (یعنی معشوقہ) کو علاج (سے تندرست) کر دیا وہ میرے موتی مونگے کے خزانے لے (لینے کا حقدار ہو) گیا۔ (جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎)

طبیبا یکے دفترِ خویش بکشا

مگر دردِ مارا دوائے برآید

14

جُملہ گُفتندش کہ جانبازی کنیم

فہم گرد آریم و انبازی کنیم

ترکیب: "جملہ" تاکید۔ "طبیباں" موکّد محذوف۔ "کہ جاں بازی کنیم الخ" تینوں جملے مل کر مقولہ ہوا "گفتند" کا۔

ترجمہ: سب (حکیم یک زبان ہو کر) اس سے کہنے لگے کہ ہم (اس کام میں) اپنی جان لڑا دیں گے۔ خوب سوچیں گے اور (باہمی مشورے سے) مل کر کام کریں گے۔

15

ہر یکے از ما مسیحِ عالمے ست

ہر اَلَم را در کفِ ما مرہمے ست

ترکیب: "ہر یکے" موصوف۔ "از ما" جار و مجرور متعلق خبر محذوف "موجود" کے۔

صنائع: "مسیح" تشبیہِ مفصّل ہے، کیونکہ وجہِ شبہ یعنی علاجِ الم مذکور ہے۔

ترجمہ: ہم میں سے ہر ایک (حکیم) دنیا بھر کا مسیح (ثانی) ہے۔ ہر درد کا مرہم ہمارے ہاتھ میں ہے۔

16

گر خُدا خواہد نہ گفتند از بَطَر

پس خدا بنمود شاں عجزِ بشر

ترکیب: "گر خدا خواہد" مقولہ ہے "نہ گفتند" کا۔ دوسرے مصرعہ میں "بنمود" کا فاعل "خدا"۔ "شاں" اور "عجزِ بشر" دو مفعول بہ۔

ترجمہ: ان حکیموں نے گھمنڈ میں آ کر ان شاء اللہ تعالیٰ (اگر تعالیٰ نے چاہا) نہ کہا تو خدا نے ان کو (ان کی) انسانی کمزوری دکھا دی۔

مطلب: حکیموں کو اپنے طبی تجربہ کا زعم تھا۔ مریض کے علاج کی حامی بھرتے وقت ان شاء اللہ کہنے کی بھی پروا نہ کی۔ حالانکہ شریعتِ الٰہی کی تعلیم ہے کہ ﴿وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللهُ ”تم کسی کام پر یوں نہ کہا کرو کہ اس کو کل کر دوں گا۔ ہاں (یوں کہا کرو کہ) اگر اللہ چاہے گا (تو کروں گا)“ (الکھف: 23) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے زعمِ فاسد کو یوں باطل فرمایا کہ ان کے علاج سے خاک بھی فائدہ نہ ہوا۔

قرآن مجید کی سورۂ بقرہ میں بنی اسرائیل کا ایک قصہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی معرفت حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کریں۔ وہ بار بار پوچھتے تھے کہ وہ کیسی گائے ہے؟ اس کا رنگ کیا ہے؟ اس کی کیا صفت ہے؟ اور جناب باری سے ہر مرتبہ ان کے سوال کا جواب مل جاتا تھا۔ آخر میں ان لوگوں نے یہ کہا: ﴿اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَاؕ وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللهُ لَمُهْتَدُوْنَ (البقرۃ: 70) یعنی "ہم کو تو بہت سی گائیں ایک سی دکھائی دیتی ہیں اللہ نے چاہا تو ہم ٹھیک پتا لگا لیں گے"۔ غرض پھر انہوں نے فرمانِ الٰہی کے مطابق وہ گائے ذبح کر دی۔ جناب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے "اگر وہ لوگ ان شاء اللہ کا کلمہ نہ کہتے تو ان کو ابد الآباد تک اس گائے کا پتا نہ ملتا جس کے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا۔ (تفسیرِ مظہری)

17

ترکِ استثنا مُرادم قسوتے ست

نے ہمیں گفتن کہ عارضِ حالتے ست

ترکیب: "ترکِ استثناء" سے پہلے "از" مقدّر ہے۔ دوسرے مصرعہ کی تقدیر یوں ہے: "نے نے بل ایں گفتن نیز کہ حالتے ست عارض۔ داخل قسوت است" (ہذا ما یستفاد من بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ)

صنائع: دوسرے مصرعہ میں کلمہ "نے" رجوع کے لیے ہے۔ جس کا ایراد کسی نکتۂ لطیفہ کی غرض سے ہوتا ہے۔

ترجمہ: استثناء (یعنی ان شاء اللہ) نہ کہنے سے میری مراد سیہ دلی ہے۔ نہیں نہیں (بلکہ) یہ (زبانی استثناء) کہنا بھی (سیہ دلی میں داخل ہے) جو عارضی حالت ہے۔

مطلب: استثناء سے مدّعا اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ پر توکّل ہے اور ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ اظہار دل سے ہو۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ترکِ استثناء سے مراد سیہ دلی ہے۔ جو انسان کو خدا سے غافل کر دیتی ہے اور خدا پر متوکل نہیں ہونے دیتی۔ پھر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ صرف ترکِ استثناء ہی سیہ دلی نہیں بلکہ جو شخص زبان ہی زبان سے استثناء کا کلمہ ورد کر رہا ہے مگر دل میں اس کا اثر نہیں وہ بھی سیہ دل ہے کیونکہ اس کی یہ استثناء گوئی ایک عارضی حالت ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا "اِنَّ اللہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَ اَمْوَالِکُمْ وَ لٰکِن یَّنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ اَعْمَالِکُمْ" (مشکوٰۃ) یعنی "اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے"۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

روندگانِ طریقت بہ نیم جو نخرند

قبائے اطلس آنکس کہ از ہنر عاری ست

ایک عربی مقولہ ہے "اَللِّسَانُ یُسَبِّحُ وَ الْقَلْبُ یُذَبِّحُ" یعنی زبان اللہ اللہ کرتی ہے اور دل لوگوں کی خونخواری پر تلا ہُوا ہے۔ مولانا ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ؎

بر زبان تسبیح و در دل گاؤ خر

ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا۔ "يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنَ اللِّينِ ، أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ السُّكَّرِ ، وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الذِّئَابِ الخ" (مشکوٰۃ) یعنی "آخری زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین کے ذریعے سے دنیا کماتے پھریں گے۔ لوگوں کو اپنی نرمی دکھانے کے لیے دُنبے کی کھالیں پہنیں گے۔ ان کی زبانیں قند سے زیادہ شیریں ہوں گی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دلوں کے سے ہوں گے"۔

18

اے بسا ناوردہ استثنا بگفت

جانِ اُو با جانِ استثنا ست جُفت

ترکیب: "اے" حرفِ ندا۔ منادی مخاطب محذوف۔ "نیاوردہ" فعل۔ اس میں ضمیر ہے شخصے کی طرف راجع۔ وہ فاعل۔ "استثناء" مفعول بہ۔ "بسا" ظرف۔ "بگفت" جار مجرور متعلق فعل۔

صنائع: دوسرے کلمہ "جان" میں صنعتِ مشاکلہ مرکوز ہے اور مراد اس سے معنٰی ہے جس کو جان کی صحبت میں واقع ہونے کی رعایت سے کلمۂ جان سے تعبیر کیا گیا۔

ترجمہ: اے (مخاطب) بارہا ایسا شخص (دیکھنے میں آیا ہے) جو زبان سے استثناء نہیں کہتا مگر اس کی جان استثناء کے معنٰی میں ڈوبی ہوئی ہے۔

مطلب: مذکورہ جماعت کے بر خلاف اہل اللہ اگرچہ زبان سے ذکر و تسبیح کے کلمات نہ کہیں مگر ان کے قلوب ہر وقت ذکر و تسبیح کے ورد میں مصروف ہوتے ہیں۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

چو باداند پنہاں و چالاک بوے

چو مشک اند خاموش تسبیح گوے

19

ہرچہ کردند از عِلاج و از دَوا

گشت رنج افزوں و حاجت ناروا

ترکیب: "ہرچہ" اسمِ موصول۔ "کردند" فعل، جس میں ضمیر راجع بطبیباں ہے وہ فاعل۔ "شین" مقدر ضمیر راجع بموصول مبیّن۔ "از" بیانیہ۔ "علاج و دوا" بیان۔ موصول و صلہ مل کر مبتدا۔ دوسرا مصرعہ خبر۔ جس کے شروع میں "از دو" آخر میں "بماند" مقدّر ہے۔

ترجمہ: ان طبیبوں نے جو بھی علاج و دوا کی (اس سے) بیماری بڑھ گئی اور مقصد لا حاصل رہا۔

مطلب: بقول حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

دردیست دردِ عشق کہ اندر علاجِ او

ہر چند سعیِ بیش نمائی بتر شود

20

آں کنیز از مرض چوں مُوئے شد

چشمِ شاہ از اشکِ خُوں چوں جُوے شد

صنائع: "مُوے" اور "جُوے" تشبیہاتِ مجملہ ہیں۔

ترجمہ: وہ لونڈی بیماری سے (یہاں تک لاغر ہو گئی کہ) بال کی سی بن گئی (اور) بادشاہ کی آنکھ اشکِ خونیں (کی کثرت) سے نہر کی طرح (جاری) ہو گئی۔ نظامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

شد زخم زدہ بہارِ باغش

زد باد طپانچہ بر چراغش

شد بدرِ مہیش چوں ہلالے

واں سرو سہیش چوں خلالے

21

چوں قضا آید طبیب اَبْلہ شود

آں دَوَا در نفعِ خود گُمرہ شود

ترجمہ: جب (بیمار کی) قضا آتی ہے تو طبیب کی عقل ماری جاتی ہے (اور وہ کچھ کا کچھ نسخہ تجویز کر بیٹھتا ہے۔ اور اگر نسخہ مفید بھی ہو تو) وہ دوا اپنے (مسلّمہ) فائدے کے بجائے الٹی تاثیر کرتی ہے۔

الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخے میں نہیں ہے۔

22

از قضا سرکنگبِیں صفرا فزود

روغنِ بادام خشکی مے نُمود

ترجمہ: تقدیر سے سکنجبین نے صفرا کو ترقی دی (اور) روغن بادام خشکی کرتا تھا۔

مطلب: ہر دوا مخالف پڑتی تھی اور اصولِ علاج ناکارہ ثابت ہو رہا تھا۔

حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

وے گفت طبیب از سرِ حسرت چو مرا دید

ہیہات کہ دردِ تو ز قانون و شفا رفت

23

از ہلیلہ قبض شد اطلاق رفت

آب آتِش را مدد شد ہمچو نفت

ترجمہ: ہلیلہ (جو قبض کشا ہے، اس سے) قبض ہو گئی اور کھل کر اجابت ہونا جاتا رہا۔ (اسی طرح) پانی (جو ٹھنڈی چیز ہے) مٹی کے تیل کی طرح آتش (بخار) کی مدد بن گیا۔

مطلب: بیماری کے آگے دوا کی کچھ پیش نہ گئی۔ ہر کوشش کا الٹا اثر ہوا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

با نسخۂ طبیب چہ کار آں مریض را

کز خون دیدہ شربت و از غم غذا کند

24

سُستیِ دل شد فُزوں و خواب کم

سوزشِ چشم و دِل پُر دَرد و غم

ترکیب: "سُستیِ دل" ترکیبِ اضافی معطوف علیہ۔ واؤ عاطفہ محذوف۔ "سوزش" مضاف۔ "چشم" معطوف علیہ اور "دلِ پُر درد و غم" ترکیبِ توصیفی معطوف مل کر مضاف الیہ ہوئے "سوزش" کے۔ مضاف و مضاف الیہ مل کر معطوف علیہ "سستیِ دل" کے۔ معطوف علیہ اور معطوف مل کر اسم ہوا "شد" فعلِ ناقص کا۔ "فزوں" اس کی خبر۔ "خواب کم" بتقدیر "شد" الگ جملہ ہے۔

ترجمہ: دل کی سستی بڑھ گئی اور نیند گھٹ گئی۔ آنکھ (کی جلن) اور دل پر درد و غم کی جلن زیادہ ہو گئی۔

مطلب: طبیبوں کی تدبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیماری اور بھی بڑھ گئی۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بہرِ تسکین دل افگارِ من مسکین طبیب

ساخت صد مرہم ولے مرہم نے سازد مرا

25

شربت و ادوِیہ و اسبابِ اُو

از طبیباں بُرد یکسر آبرُو

ترکیب: "او" کی ضمیر مرض کی طرف راجع ہے۔ پہلے مصرعہ کے ہر سہ معطوفات مل کر "بُرد" کا فاعل ہوا۔ "آبرُو" مفعول بہ۔

ترجمہ: شربت اور دوائیں اور اسبابِ مرض (کی تشخیص) نے طبیب کی آبرو کھو دی۔

مطلب: طبیبوں کی بے بسی اور ان کے علاج کی ناکامی نے سب کے آگے ان کو ذلیل کر دیا۔ ذوق مرحوم ؎

بیمارِ عشق کا جو نہ تجھ سے ہوا علاج

کہ اے طبیب تو ہی بتا کہ پھر تیرا کیا علاج