دفتر 1 حکایت 1: روحِ انسانی جو اپنی اصل و سرشت کے لحاظ سے ایک پاک و نورانی مخلوق ہے۔ اس کا اصل مقامِ ملکوت یعنی عالمِ ارواح تھا۔ جہاں وہ ذاتِ حق کی محبت اور ذکر و فکر کی سعادت سے بہرہ ور تھی اور ان تمام روحانی معایب اور اخلاقی رذائل سے پاک تھی

آغازِ شرحِ مثنوی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

1

بشُنو از نَے چُوں حکایت میکند

وز جدائی ہا شکایت میکند

ترکیب: "بشنو" فعل با فاعل، "حکایت میکند" جملہ فعلیہ معطوف علیہ۔ دوسرے مصرعہ میں "میکند" اور "ضمیر مستتر" جو "نَے" کی طرف راجع ہے اس کا فاعل، "ایں" اسم اشارہ مقدر، "شکایت" مشارٌ الیہ، یہ دونوں مل کر مبیّن ہوئے۔ اور مابعد کے چھ اشعار جن میں تفصیلِ شکایت درج ہے، اس کا بیان۔ مبیّن و بیان مل کر مفعول بہ اور یہ جملہ فعلیہ بن کر معطوف ہوا۔

صنائعِ: "نَے" استعارہ بالتصریح ہے روحِ انسانی سے۔

ترجمہ: بانسری سے سن کیا حال سناتی ہے، اور ہجر و فراق کی (کیا) شکایت کرتی ہے۔

مطلب: "نَے" سے مراد روحِ انسانی ہے۔ چنانچہ عارفِ جامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شعر کی تفسیر بالتّضمین یوں کی ہے ؎

جاں ازاں لبہا حکایت میکند

طوطی از شکر روایت میکند

دور ازاں لب جاں یکے نالاں نے ست

بشنو از نَے چوں حکایت میکند

زاں لب ہمچو شکر ماندہ جُدا

از جُدائی ہا شکایت میکند

روحِ انسانی جو اپنی اصل و سرشت کے لحاظ سے ایک پاک و نورانی مخلوق ہے۔ اس کا اصل مقامِ ملکوت یعنی عالمِ ارواح تھا۔ جہاں وہ ذاتِ حق کی محبت اور ذکر و فکر کی سعادت سے بہرہ ور تھی اور ان تمام روحانی معایب اور اخلاقی رذائل سے پاک تھی، جن کا گھر ناسوت یعنی عالمِ اجسام ہے۔ لیکن جب وہ بمشیت خداوندی جسمِ عنصری سے متعلق ہو کر عالمِ اجسام میں آئی تو یہ لازمی امر تھا کہ اس کی ان سابقہ سعادات میں کمی آ جائے جو عالمِ ارواح میں اسے میسّر تھیں اور بغض و نفاق، نزاع و فساد، تکبّر و کینہ وغیرہ رذائل غضبیہ، اور حسد و طمع، ریا و فخر، بخل و خیانت وغیرہ معایبِ شہویہ سے ملوث ہو جائے جو عالمِ سفلی کے لوازم سے ہیں۔ اور یہ ایک بدترین نقصان اور خَیبت و خسران کی حالت ہے جس کو عوام کی ارواح محسوس نہیں کرتیں۔ جو اپنے شبا روزی دنیوی کاروبار کے مشاغل اور طولِ امل کی مستی میں غافل ہیں۔ لیکن جو شخص قلبِ بصیر اور نفسِ عبرت گیر رکھتا ہے، یا اس نے تہذیبِ اخلاق و تزکیۂ نفس کی کتابوں کے مطالعہ سے سبقِ عبرت حاصل کیا ہے، یا پیرِ کامل کی تربیت نے اس کے دل سے حجابِ غفلت اٹھا دیا ہے، اس کی روح متنبہ ہو کر معلوم کرتی ہے کہ وہ کس اعلیٰ مقام سے تنزّل کر کے کس ادنیٰ عالم میں اُتری ہے، اور کن کن سعادتوں سے الگ ہو کر کیسی آلودگیوں میں گھر گئی ہے۔ ایسی روح اپنے اس حرمان و خسران کو محسوس کر کے دستِ تاسّف ملتی ہے اور روتی ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

تا مگر ہمچو صبا باز بزلفِ تو رسم

حاصلم دوش بجز نالۂ شبگیر نبود

شعرِ مذکور میں "نَے" سے بطور استعارہ مصرّحہ یہی رُوح مراد ہے، اور اس کی حکایت و شکایت سے وہی عالمِ ارواح کی جدائی کا رونا۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

طائرِ گلشنِ قدسم چہ دہم شرحِ فراق

کہ دریں دامگہِ حادثہ چوں افتادم

لسان العصر اکبر مرحوم ؎

کچھ نہ پوچھ اے ہم نشین میرا نشیمن تھا کہاں؟

اب تو یہ کہنا بھی مشکل ہے وہ گلشن تھا کہاں؟

یہ تو عام صالحین کی ارواح کا حال ہے۔ انبیاء و مرسلین کی ارواح اگرچہ دنیا میں آ کر روحانی رذائل سے ملوث نہیں ہوتیں اور اُن کے قلوب اس عالم میں بھی انوارِ غیب سے مستنیر رہتے ہیں لیکن تاہم ان کی ارواحِ پاک کو عالمِ قدس سے مہجور ہو کر ایسے عالم میں بسر کرنا جس کی آب و ہوا خطیئات و ذنوب کی پرورش گاہ ہے، گوارا نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم کو تکمیلِ دین کے بعد یہ اختیار دیا گیا کہ خواہ دنیا میں رہنا منظور فرمائیں یا عالمِ بالا میں تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے عالمِ بالا ہی کو اختیار فرمایا۔ "عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلّی اللہ علیہ و سلّم جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ اِنَّ عَبْدًا خَیَّرَہٗ اللہُ بَیْنَ اَنْ یُّؤتِیَہُ مِنْ زَھْرَۃِ الدُّنْیَا مَا شَآءَ وَ بَیْنَ مَا عِنْدَہٗ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَہٗ الخ (مشکوٰۃ) ”ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم منبر پر تشریف فرما ہوئے، پھر فرمایا کہ ایک بندے کو اللہ تعالیٰ نے ان دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دے دیا، کہ یا تو اس کو دنیا کے ساز و سامان جس قدر وہ چاہے دیدے یا (اس کو) وہ (شرف بخشے) جو اس کے پاس ہے۔ پس اس (بندے) نے وہ شرف اختیار کر لیا جو اس کے پاس ہے“۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

خرم آں روز کزیں منزلِ ویراں بروم

راحتِ جاں طلبم وز پئے جاناں بروم

پس "نَے" سے ہر نیک روح مراد ہے۔ مومن، متقی، صالح، ولی و نبی، کسی کی ہو، جو وصلِ محبوب کے لیے بے قرار ہے۔

جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ازاں شیریں زباں ہر شب جدا تا روز می سوزم

چو آں مومیکہ محروم از وصالِ انگبیں گردد

بعض شارحین لکھتے ہیں کہ چونکہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اہلِ سماع سے ہیں، اس لیے بعید نہیں کہ یہاں حقیقتًا "نَے" سے رسمی بانسری مراد ہو، جس کی آواز دل گدازی و درد انگیزی کے لیے مشہور ہے، اور اہلِ معنٰی ایسی آوازیں سن کر اپنے محبوبِ حقیقی کی یاد سے لذت گیر ہوتے ہیں۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

مطرب آہنگ ترنم ہائے شوق انگیر کرد

وز دَمِ نَے آتشِ صاحبدلاں را تیز کرد

وَ لَہٗ:

یادِ آں مطرب کہ ما را چہ بود از یاد برد

بادے اندر نَے دمید اندیشہا را باد برد

اس لحاظ سے شعر کا مطلب یہ ہوگا کہ بانسری کی آواز سنو۔ اس کا نالۂ جدائی تم کو اپنے محبوب کی جدائی کی یاد دلاتا ہے۔

جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

چیست میدانی صدائے چنگ و عود

اَنْتَ حَسْبِیْ، اَنْتَ کَافِیْ، یَا وَدُُوْد

نیست در افسردگاں شوقِ سماع

ورنہ عالم را گرفت ست ایں سرود

2

کز نیستاں تا مرا ببریدہ اند

از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند

ترکیب: یہ شعر شکایتِ مذکورہ کا بیان ہے۔ کاف بیانیہ۔ "نالیدہ اند" فعل۔ "مرد و زن" فاعل۔ باقی سب متعلّقات۔ "تا مرا ببریدہ اند" کی تقدیر "از وقتے کہ دراں مرا ببریدہ اند" ہے، اور یہ جار مجرور ہے۔

صنائع: "نَے" کے لیے "نیستاں" اور "نفیرہ" کا اثبات ملائمات سے ہے۔ جس سے یہ استعارہ مرشّحہ بن گیا۔

ترجمہ: کہ جب سے مجھے نَے کی زمین سے کاٹ (کر جدا کر) دیا گیا ہے۔ میرے نالہ و فغاں سے مرد و زن روتے ہیں۔

مطلب: روح کو "نَے" سے تعبیر کیا گیا تو عالمِ ارواح کو نیستاں قرار دے دینا مناسب تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ روح کی نَے فریاد کرتی ہے کہ جب سے مجھے نیستانِ عالم ارواح سے جدا کر کے ناسوت میں مقیّد کیا گیا ہے اس وقت سے میں اپنے فضائلِ روحانیہ کے معدوم یا کم ہو جانے پر اس قدر درد انگیز طریق سے رو رہی ہوں کہ تمام سننے والے، مرد ہوں یا عورت، از راہِ ترحّم یا بوجہِ تاثّر رونے لگتے ہیں ؎

ز دیدہ خوں بچکاند فسانۂ حافؔظ

چو یادِ عہدِ شباب و زمانِ شیب کند

3

سِینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق

تا بگویم شرحِ دردِ اِشتیاق

ترکیب: یہ شعر بیانِ مذکورہ کا تتمہ ہے۔ "خواہم" فعل با فاعل۔ "سینہ شرحہ شرحہ" موصوف و صفت مل کر مفعول بہ۔ مصرعہ اوّل جملہ فعلیہ معلول اور دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ علّت مل کر جملہ معلّلہ ہوا۔

صنائع: "شرحہ" اور "رشح" میں تجنیسِ مطرف ہے۔

ترجمہ: میں (سننے والے کا ایسا) سینہ چاہتی ہوں (جو پہلے ہی) فراق کے مارے پارہ، پارہ (ہو) تاکہ (میں اس کو اپنا ہمدرد سمجھ کر) دردِ شوق (کا حال) کھول کا سناؤں۔

مطلب: قاعدہ ہے کہ جن لوگوں کا دل مصائب سے لذّت گیر اور درد کا مزہ شناس نہیں ہوتا ان پر نہ کسی کے نالہ و فریاد کا اثر ہوتا ہے اور نہ کسی کی درد بھری داستان ان کو اپنی طرف متوجّہ کر سکتی ہے۔

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

اثرِ آہ و فغاں را در دلِ خرم نمے باشد

نہ پیچد نالہ در آں دل کہ کوہِ غم نمے باشد

لہٰذا ایسے بے درد اور بے حِس لوگوں کے سامنے اپنا دکھڑا رونا بھینس کے آگے بین بجانے کا مصداق ہے۔ پس نَے کہتی ہے کہ میں اپنا حال اس درد مند انسان کے آگے پیش کرنا چاہتی ہوں جو پہلے ہی مصیبتِ فراق سے سینہ چاک ہو۔ تاکہ وہ پورے شوق سے میرا حال سنے اور میں جی کھول کر سناؤں۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تندرستاں را نباشد دردِ ریش

جز بہمدردے نگویم رازِ خویش

تا تُرا حالے نباشد ہمچو ما

حالِ ما باشد ترا افسانہ بیش

و قیل ؎

مرا ہمدرد مے باید شب و روز

دو ہیزم را بہم خوشتر بود سوز

4

ہر کسے کو دور ماند از اصلِ خویش

باز جوید روزگار وصلِ خویش

ترکیب: پہلا مصرعہ اسم موصول اور صلہ مل کر مبتدا۔ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ ہو کر خبر۔

ترجمہ: جو شخص اپنے اصل (زاد بوم) سے دور رہ جاتا ہے۔ وہ پھر ایامِ وصل کی تلاش کیا کرتا ہے۔

مطلب: "نَے" یا "روح" کی مذکورہ حکایت و شکایت اور اس کا وہ نفیر مرد و زن کو رُلاتا ہے اور اس کا وہ دردِ اشتیاق کا دفتر جس کے سننے کے لیے کوئی سینہ ریش انسان چاہیے۔ غرض یہ سارے حالات بے وجہ نہیں ہیں کیونکہ ہر مخلوق کا قاعدہ ہے کہ وہ اپنی اصل سے مہجور ہوتا ہے تو اس پر اضطراب و بے قراری طاری ہو جاتی ہے اور وہ اپنے اصلی مقام پر واپس جانے کے لیے ہر طرح کی کوشش کرتا ہے۔ روح بھی جب دیکھتی ہے کہ عالمِ ارواح سے جدا ہو کر میری صفاتِ کمال ضائع ہو گئیں تو وہ پھر اسی عالم میں جانے کی طالب ہوتی ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

چرا نہ در پئے عزمِ دیارِ خود باشم؟

چرا نہ خاکِ کفِ پائے یارِ خود باشم؟

5

من بَہَر جمعیّتے نالاں شدم

جُفتِ خوشحالاں و بدحالاں شدم

ترکیب: دونوں مصرعے الگ الگ جملے ہیں۔

صنائع: "خوشحالاں" و "بدحالاں" میں تضاد ہے۔

ترجمہ: میں ہر مجلس میں رو چکی ہوں اور (نالۂ نَے سے جان پانے والے) خوشحال لوگوں اور (قیودِ جسمانیہ میں جکڑے ہوئے) بدحال لوگوں کی صحبت میں رہ چکی ہوں۔

مطلب: یہ ہے کہ مجھے ان لوگوں سے ملنے کا موقع بھی ملا جنہوں نے میرے نالہ سے کوئی اثر قبول نہیں کیا، اور ایسے اصحاب کی رفاقت بھی میسر ہوئی جن پر میرے آہ و فغاں سے رقّت طاری ہو گئی۔ اور بے شک

بقولِ حالی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ:

ع بزم میں اہلِ نظر بھی ہیں تماشائی بھی

6

ہر کسے از ظنِّ خود شد یارِ مَن

وز درونِ من نہ جُسْت اَسرارِ من

ترکیب: "ہر کسے" مبتدا، اور مصرعہ کے باقی الفاظ جملہ فعلیہ ہو کر معطوف علیہ اور دوسرا معطوف۔ پھر معطوف علیہ اور معطوف مل کر خبر۔ یا "ہر کسے" ذوالحال، اور دوسرے مصرعہ میں واؤ حالیہ اور باقی الفاظ حال۔ ذوالحال اور حال مل کر مبتدا۔

ترجمہ: ہر شخص اپنی دانست میں میرا یار بنا، اور (حالانکہ) اس نے میرے دل کے بھیدوں کو (کہ ازانجملہ ایک طلبِ قربِ الٰہی ہے) دریافت نہیں کیا۔

مطلب: جن جن لوگوں سے میرا واسطہ پڑا وہ چونکہ اس درد سے نا آشنا تھے، اس لیے بمضمون "اَلْمَرْءُ یَقِیْسُ عَلٰی نَفْسِہٖ" وہ جن باتوں کو اپنے خیال میں موجبِ غم و الم سمجھتے تھے، مثلًا فقدانِ مال یا موتِ عزیز یا المِ مرض وغیرہ۔ انہوں نے مجھ کو بھی اس قسم کے درد میں مبتلا سمجھ کر ہمدری ظاہر کی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے میرے اصلی دکھ کو سمجھا ہی نہیں۔

وَ لَنِعْمَ مَا قَالَ لِسَانُ الْعَصْرِ الْمَرْحُوْمُ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ ؎

یہ دنیا رنج و راحت کا غلط اندازہ کرتی ہے

خدا ہی خوب واقف ہے کہ کس پر کیا گزرتی ہے

الخلاف: یہ شعر بعض نسخوں میں نہیں ہے۔

7

سرِّ من از نالۂ من دُور نیست

لیک چشم و گوش را آں نُور نیست

ترکیب: بعض شارحین کا خیال ہے کہ "چشم و گوش" میں عطف کے بجائے اضافتِ تشبیہی ہوتی تو بہتر تھا، تاکہ مدارِ دعوٰی صرف کان پر ٹھہرتا جو شنیدِ نالہ کے لیے مناسب ہے۔ مگر یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ آئندہ شعر میں "دیدِ جاں" کی تمثیل مستدعی ہے کہ بصارتِ چشم کا بھی ذکر ہو۔ فافہم۔

صنائع: "چشم و گوش" کو عدمِ نور کے حکم میں جمع کرنے سے صنعتِ جمع پیدا ہو گئی۔

ترجمہ: میرا بھید میری آہ و زاری سے جدا نہیں ہے، لیکن (لوگوں کی) آنکھ اور کان کو وہ (ذوق بصارت و سماعت کا) نور حاصل نہیں ہے (جس سے عاشق کی حالت کو دیکھ کر اور اس کے نالہ و فغاں کو سن کر حقیقت کو سمجھ سکیں)۔

مطلب: مجھ سے اظہارِ ہمدردی کرنے والے لوگ جو میرے اصلی درد کو معلوم نہ کر سکے تو یہ ان کے ذوق کی کوتاہی اور وجدان کی نا رسائی تھی، کیونکہ نہ ان کی آنکھوں کو وہ نورِ بصیرت حاصل ہے کہ حقائق کو اصلی رنگ میں دیکھ سکیں، اور نہ ان کے کانوں میں وہ ذوقِ سماعت ہے کہ ہر آواز سے معنٰیِ حقیقت ان کے دل پر عیاں ہو جائے۔ ورنہ اگر ان میں ذرا بھی ذوقِ صحیح ہوتا تو میرا بھید جو میرے آہ و نالہ ہی سے ٹپک رہا ہے ان پر ظاہر ہو جاتا۔ خواجہ حافظ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ؎

حالِ درونِ ریشم محتاجِ شرح نبود

خود مے شود محقّق از آبِ چشمِ خامہ

؎ ہر کہ از نالۂ شب گیر من آگاہ شوم

ہیچ شک نیست کہ چوں روز بداند رازم

8

تن ز جان و جاں ز تن مستور نیست

لیک کس را دیدِ جاں دستور نیست

ترکیب: ”تن ز جان" بہ تقدیرِ "مستور نیست" جملہ اسمیہ معطوف علیہ۔ "و جاں ز تن مستور نیست" جملہ اسمیہ معطوف۔ یہ دونوں مل کر مستدرک منہ۔ دوسرا مصرعہ مستدرک۔ دونوں مل کر جملہ مستدرکہ ہوا۔

صنائع: مصرعۂ اولیٰ میں صنعتِ عکس ہے۔

ترجمہ: (مثلًا) بدن جاں سے اور جاں بدن سے پوشیدہ نہیں۔ مگر یہ دستور نہیں ہے کہ کوئی جاں کو دیکھ سکے۔ (یہی حال اس آہ و زاری کے بھید کا ہے)

مطلب: یہ مضمون اوپر کے دعویٰ کی مثال میں پیش کیا گیا ہے۔ یعنی اگر میرا بھید میرے نالہ سے دور نہ ہونے کے باوجود لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تو جائے تعجّب نہیں، کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ جو چیز بالکل قریب ہو وہ محسوس بھی ہو سکے۔ دیکھو روح جسم کے کس قدر قریب ہے مگر اس کا دیکھنا خلافِ عادت ہے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

بنیشِ ظاہر بکنہِ روح نتواند رسید

چوں مسیحا را تواند دیدۂ سوزن شناخت

9

آتش ست ایں بانگِ نائے و نیست باد

ہر کہ ایں آتش ندارد نیست باد

ترکیب: "ایں بانگِ نائے" مبتدا مؤخر۔ "آتش" خبرِ مقدّم۔ "نیست باد" دوسرا جملہ جس کا مبتدا یعنی ضمیر راجع بطرف "بانگ نائے" محذوف ہے۔ دوسرا مصرعہ "ہر کہ ایں آتش ندارد" اسم موصول و صلہ مل کر مبتدا۔ "نیست باد" اس کی خبر۔

صنائع: پہلے "نیست باد" اور دوسرے "نیست باد" میں تجنیسِ تام مستوفی ہے۔ آتش و باد میں صنعتِ طباق ہے۔

ترجمہ: یہ بانسری کی آواز ایک آتش (سوزاں) ہے اور (صرف) ہوا نہیں ہے۔ جو شخص اس آگ سے بہرہ ور نہیں وہ (خدا کرے) نیست و نابود ہو جائے۔

مطلب: اس سے پہلے اشعار بظاہر "نَے" کا مقولہ تھے۔ اس شعر سے مولانا قدّس سرّہٗ کا مقولہ شروع ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ "نالۂ نَے" یعنی اہلِ کمال کے اقوال و انفاسِ پاک خالی پھونک ہی نہیں کہ اس کو ایک ہوائے بے اثر تصوّر کیا جائے، بلکہ وہ ایک آگ ہے کہ جو اس کے سامنے آ جاتا ہے اس کو بھی اپنی طرح سوزاں و فروزاں کر دیتی ہے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

ازاں بدیرِ مغانم عزیز مے دارند

کہ آتشے کہ نمیرد ہمیشہ در دلِ ماست

پھر ان لوگوں پر اظہارِ ناراضگی کرتے ہیں جن میں اس تاثّر و تاثیر کی آگ نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی مثال پتھر سے دی گئی ہے۔ ﴿ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ (البقرۃ: 74) "پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھروں کی طرح سخت ہو گئے۔" پھر آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پتھروں میں بھی کچھ نہ کچھ خوف و خشیت ہے۔ یعنی تم میں اتنی بھی نہیں۔ ﴿وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ (البقرۃ: 74) "اور بے شک ان پتھروں میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔" اس لیے مولانا فرماتے ہیں کہ ایسا آدمی جو اس روحانی کیفیت سے خالی ہو نیست و نابود ہو جائے تو اچھا ہے۔ بقول سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

چنیں آدمی مردہ بہ ننگ را

کہ بروے فضیلت بود سنگ را

10

آتشِ عِشق ست کاندر نَے فتاد

جوششِ عِشق ست کاندر مَے فتاد

ترکیب: تقدیر کلام یوں ہے۔ "ایں آتش کہ اندرِ نَے فتاد۔ آتشِ عشق است"۔ "ایں" اسم اشارہ مقدّر، آتش مشارٌ الیہ مقدّر۔ دونوں مل کر مبیّن۔ کاف بیانیہ۔ "اندر نَے فتاد" جملہ فعلیہ ہو کر بیان ہوا۔ مبیّن و بیان مل کر مبتدا۔ "آتشِ عشق ست" خبر۔ علٰی ہٰذا دوسرا مصرعہ۔

صنائع: دونوں مصرعوں کے کلمات متّحد الوزن و القافیہ ہیں اور یہ صنعتِ ترصیع ہے۔ "نَے" سے مراد عاشق اور "مے" سے مراد معشوق۔ استعارہ بالتصریح ہے۔

ترجمہ: (یہ) آگ عشق ہی کی ہے جو نَے میں لگ رہی ہے۔ (یہ) جوش عشق ہی کا ہے جو شراب میں برپا ہے۔

مطلب: نَے جو خود مظہرِ درد و سوز ہے اس سے مراد عاشق ہے۔ اور مَے جو دوسروں کو مست و بے خود بناتی ہے، اس مناسبت سے اس سے معشوقِ حقیقی کو تعبیر کیا ہے۔ یعنی کیا عاشق اور کیا معشوق سب عشق سے متاثر ہیں۔ اگر معشوق میں عشق نہ ہوتا تو اکیلے عاشق کے عشق سے کیا حاصل تھا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

پیداست چہ خیزد ز طلبگاریِ عاشق

گر از طرفِ دوست نہانی طلبے نیست

بلکہ بعض اربابِ معنٰی اس سے بھی ترقی کر کے فرماتے ہیں کہ فی الحقیقت معشوق ہی قصۂ عشق کا مبدا ہے۔ کما قیل ؎

عشق اوّل در دلِ معشوق پیدا مَے شود

تا نسوزد شمع کے پروانہ شیدا مَے شود

خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عاشق کی حالت معشوق ہی کی شان کا ایک پرتو ہے ؎

پر توِ معشوق اگر افتاد بر عاشق چہ شد

ما بدو محتاج بودیم او بما مشتاق بود

حقیقت یہ ہے کہ جب تمام کائنات پردۂ عدم میں تھی تو اسماءِ الہیہ اپنے ظہورِ آثار کے مُقتضِی ہوئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کو پیدا کیا جو اس کے اسماء کا مظہر ہے، اور ان اسماء کے آثار اس میں موجود ہیں۔ گویا پہلے مطلوبِ حقیقی یعنی ذاتِ خالق ہی کی طرف سے طلب و محبت کا ظہور ہوا۔ یہی مطلب ہے اس حدیثِ قدسی کا کہ: "کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" (روح المعاني) یعنی "میں ایک مخفی خزانہ تھا تو مجھے شوق ہوا کہ میں پہچانا جاؤں۔ اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا"1؎۔ قال العارف جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

نکو رو تابِ مستوری ندارد

چو در بندی سر از روزن برآرد

بروں زد خیمہ ز اقلیمِ تقدّس

تجلی کرد بر آفاق و انفس

ز ذراتِ جہاں آئینہا ساخت

ز روئے خود بہر یک عکس انداخت

1 ؎ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض کے نزدیک یہ حدیث کلامِ نبوی نہیں۔ نہ اس کی کوئی سند صحیح ہے زرکشی اور عسقلانی نے بھی اس قول سے اتفاق کیا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں لیکن اس کے معنی صحیح ہیں جو آیت ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ (الذاریات: 56) کے ہم مضمون ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت میں "یَعْبُدُوْنَ" کی تعبیر "یَعْرِفُوْنَ" سے کی ہے۔

11

نَے حریفِ ہر کہ از یارے برِید

پَرْدہایش پَرْدہائے ما درِید

ترکیب: نے مبتدا باقی مصرعہ مضاف و مضاف الیہ مل کر اس کی خبر۔ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ الگ جملہ ہے۔

صنائع: ہر دو کلمہ پردہائے میں جناسِ تمام مماثل کی صنعت ہے۔

ترجمہ: بانسری اس (عاشقِ صادق) کی غم خوار ہے جو اپنے معشوق سے دُور ہو رہا ہے۔ اس کے (دلگداز) سُروں نے ہمارے (دل کے) حجاب اٹھا دیئے۔

مطلب: "نَے" چونکہ خود نیستاں سے مہجور ہو کر مبتلائے درد و فراق ہو رہی ہے۔ اس لیے وہ ہر ایسے شخص کی صحبت و رفاقت کو پسند کرتی ہے جو اس کی طرح تیرِ فراق کا نشانہ ہو۔ تاکہ اس کے قولِ سابق "سینہ خواہم شرحہ شرحہ الخ" کے مطابق جس شخص کا سینہ خنجرِ فراق سے پارہ پارہ ہو رہا ہو وہ ذوق و دلچسپی سے اس کے دردِ اشتیاق کی شرح سن لے۔ دوسرے مصرعہ میں فرماتے ہیں کہ چونکہ ہم بھی گرفتارِ فراق ہونے کے باعث ان سامعین میں سے ہیں جن کی صحبت نَے کو پسند ہے۔ اس لیے اس کے سُر ہم پر خاص اثر کرتے ہیں اور انہوں نے ہمارے دل سے وہ حجاب اٹھا دیئے جو یادِ محبوب سے مانع تھے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

غوطہ در گل دادہ بود اندیشۂ دنیا مرا

نالۂ نَے شد دلیلِ عالمِ بالا مرا

12

ہمچو نَے زہرے و تریاقے کِہ دید؟

ہمچو نَے دمساز و مشتاقے کِہ دید؟

ترکیب: "دید" فعل، کاف استفہامیہ اس کا فاعل۔ "زہرے و تریاقے" بعطف مفعول بہ۔ "ہمچو نَے" جار و مجرور متعلقِ "دید"۔ یہ سب مل کر جملہ فعلیہ انشائیہ ہوا۔ علٰی ہٰذا دوسرے مصرعہ کی ترکیب۔

صنائع: "نَے" کی تشبیہ زہر و تریاق اور دمساز و مشتاق کے ساتھ تشبیہ حِسّی مجمل ہے۔

ترجمہ: "نَے" کا سا زہر و تریاق کس نے دیکھا ہے؟ "نَے" کا سا رفیق و مشتاق کس نے دیکھا ہے؟

مطلب: "نَے" سے مراد اگر انسانِ کامل ہو۔ (کما زعم بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ) تو مطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنے حق میں زہر ہے کہ اپنے آپ کو فنا کر رہا ہے، اور تریاق بھی ہے کہ بقاء باللہ حاصل کر رہا ہے۔ اور اگر ظاہری نَے مراد ہو تو یہ معنٰی ہوں گے کہ اس کا پُر تاثیر نالہ و فغان سامِعین کو ترکِ لذّات اور طلبِ کمال پر آمادہ کرتا ہے حتی کہ ترکِ لذّات سے وہ جسم پر زہر کا کام کرتی ہے اور طلبِ کمال سے ان کی روح پر تریاق کا سا۔ وَ ہٰذَا غَایَتُُہٗ الْمُُرَادُ۔ قَال الحافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

حدیثِ عشق کہ از حرف و صوت مستغنے است

نبالۂ دف و نَے در خروش و ولولہ بود

13

نَے حدیثِ راہِ پُُر خُوں میکند

قِصہ ہائے عِشقِ مجُنوں میکند

ترجمہ: نَے (عشق کے) دشوار گزار راستے کا حال سناتی ہے (اور) مجنوں کے عشق کے قصے بیان کرتی ہے۔

مطلب: سلوک کا راستہ نہایت خطرناک اور بے حد مصائب سے پُر ہے۔ اس کو راہِ پُر خوں سے تعبیر کر کے فرماتے ہیں کہ نَے اس راستے کا حال بیان کرتی ہے اور وہ ایسے عاشقوں کے عشق کی داستان سناتی ہے جن کے دل میں سوائے محبوب کے کسی اور کا تصور باقی نہیں رہتا۔

جامیؔ دمِ توحید زند نَے ہمہ وقتے

خوش وقت حریفے کہ شناسائے دمِ اوست

آوازِ خوشش بر صفتِ وحدتِ خویش ست

با کثرتِ اطوار کہ در زیر و بمِ اوست

14

دو دہاں داریم گویا ہمچو نَے

یک دہاں پنہاں ست در لبہائے وَے

ترکیب: "داریم" فعل با فاعل۔ "دو، دہاں" عدد و معدود مفعول بہ۔ "ہمچو نَے" جار و مجرور، متعلقِ فعل۔ دوسرے مصرعہ میں "یک دہاں" مبتدا۔ "پنہاں" خبر۔ "در لبہائے وَے" متعلقِ پنہاں۔

صنائع: دہاں، گویا، نَے، لب، مناسباتِ غنا ہیں۔

ترجمہ: گویا نَے کی طرح ہم (بھی) دو منہ رکھتے ہیں (جن میں سے) ایک منہ اس (حقیقی نَے نواز) کے لبوں میں چھپا ہوا ہے۔

مطلب: نَے کے متعلق ظاہر ہے کہ اس کے دونوں طرف سوراخ ہوتے ہیں۔ ایک سوراخ پر نَے نواز لب رکھ کر اس کو بجانے کی غرض سے پھونک مارتا ہے اور دوسرے سوراخ سے نَے کی آواز نکلتی ہے۔ اس اعتبار سے فرماتے ہیں کہ ہمارے بھی دو منہ ہیں۔ ایک منہ فیاضِ مطلق سے واصل ہے۔ جس کے ذریعہ سے فیضانِ غیب سے اسرارِ حقیقت کا القاء ہوتا ہے۔ دوسرے منہ کا ذکر آگے فرماتے ہیں۔

الخلاف: اس شعر سے لے کر نیچے چوتھے شعر تک بعض نسخوں میں درج نہیں ہیں۔ یعنی دود ہاں الخ سے لے کر دمدمہ الخ تک۔

15

یک دہاں نالاں شدہ سُوئے شما

ہائے و ہوئے در فگندہ در سما

ترکیب: "شدہ" فعلِ ناقص۔ "سوئے شما" متعلقِ فعل۔ "یک دہاں" اسم، "نالاں" اس کی خبر۔ دوسرا مصرعہ الگ جملہ فعلیہ ہے، بتقدیرِ عاطف۔

صنائع: "شما" اور "سما" میں صنعتِ تجنیس، تصحیف۔

ترجمہ: ایک (دوسرا) منہ تمہاری طرف آہ و فریاد کر رہا ہے (یہاں تک کہ) آسمان میں بھی شور برپا کر دیا۔

مطلب: یہ ہے کہ ایک منہ تو فیاضِ مطلق سے واصل ہو کر استفاضۂ اسرار کر رہا ہے۔ دوسرے منہ سے ہم ان اسرار کو ارض و سما میں اشاعت دے رہے ہیں، جس سے دنیائے غفلت میں ایک ہلچل پڑ رہی ہے۔

16

لیک داند ہر کہ او را منظر ست

کایں فغانِ ایں سرے ہم زاں سرست

ترکیب: "داند" فعل۔ "ہر کہ او را الخ" موصول و صلہ مل کر اس کا فاعل۔ "ایں محذوف" مبیّن، دوسرا مصرعہ بیان، مل کر مفعول بہ۔

ترجمہ: لیکن جس شخص کو چشمِ (بصیرت حاصل) ہے وہ جانتا ہے کہ اس سرے کا نالہ و فریاد بھی اسی سرے سے ہے۔

مطلب: ہر چند عوام کی نظر صرف آثار کے مشاہدہ پر محدود ہے اور مؤثرِ حقیقی تک ان کا قدمِ ادراک نہیں پہنچتا۔ چنانچہ وہ اہلِ سلوک کے اقوال و کلمات کو صرف انہی کی ذات سے منسوب کرتے ہیں اور یہ امر ان کے خیال میں نہیں آ سکتا کہ یہ سب الہاماتِ الٰہیہ ہیں۔ جیسے کہ کوئی بے وقوف کوتہ نظر آدمی نَے کے سوراخِ زیریں سے نکلنے والی سُروں کو سُن کر اتنا نہ سمجھے کہ اس آواز کا محرّک دراصل نَے ہے۔ مگر جو لوگ چشمِ بصیرت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اولیا اللہ رضوان اللہ علیہم کی شان بھی ایک پرتو ہوتی ہے اس شانِ پیغمبری کی کہ: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم: 3) وہ (رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم) جو کچھ بولتے ہیں اپنی ذاتی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ وحی ہوتی ہے) وَ لِلہِ دُرُّ مَوْلَانَا اِسْمٰعِیْلَ الْمِیْرَٹِھیْ رَحِمَہٗ اللہُ حَیْثُ قَالَ فِیْ مَدْحِ شَیْخِہٖ ؎

اے تری آواز آوازِ خُدا

اور خاموشی تری رازِ خُدا

تھے لبِ شیریں لبِ دریائے ذات

اس لیے ہر بات تھی آبِ حیات

جو حکایت جو مثل جو بات تھی

عالمِ معنٰی کی اک سوغات تھی

17

دمدمۂ ایں نائے از دمہائے اوست

ہائے و ہوئے روح از ہیہائے اوست

ترکیب: "دمدمۂ ایں نائے" مبتدا۔ خبر محذوف یعنی "ثابت"۔ "از دمہائے او" متعلقِ خبر۔ اسی طرح مصرعۂ ثانیہ۔

صنائع: "دمدمہ" اور "دمہا" میں اور "ہائے و ہوئے" اور "ہیہائے" میں صنعتِ تجنیسِ مطرف و مضارع اور سب مناسباتِ غنا و سرور ہیں۔

ترجمہ: اس نَے کی آواز اسی (حقیقی نَے نواز) کی پھونکوں سے ہے۔ روح کا شور و غوغا اسی کے ہیہا (یعنی تنبیہات) سے ہے۔

مطلب: اوپر کے شعر میں یہ ذکر تھا کہ جس شخص کو چشمِ بصیرت ملی ہے وہ جانتا ہے کہ نَے کے اس سرے کی آواز بھی اسی سرے کی ہے جو نے نواز کے لبوں میں ہے۔ یہ شعر بھی اس ذکر کا تتمہ ہے۔ یعنی وہ جانتا ہے کہ نَے کی آواز نَے نواز ہی کی پھونک کا اثر ہے۔ نَے کا ذکر محض ایک تمثیل تھی۔ پھر اصل ممثّل لہٗ کی طرف رجوع کر کے فرماتے ہیں کہ روح کی آواز بھی اُسی مبدءِ فیاض اور مؤثرِ حقیقی کی تنبیہات کا نتیجہ ہے۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

یک کرشمہ کردہ با خود جنبشِ عشقِ قدیم

در دو عالم ایں ہمہ شور و فغاں انداختہ

18

محرمِ ایں ہوش جز بیہوش نیست

مر زباں را مشتری چوں گوش نیست

ترکیب: "نیست" فعلِ ناقص۔ "محرمِ ایں ہوش" مستثنیٰ منہ۔ اور "بیہوش" مستثنٰی مل کر اسم۔ "موجودہ" خبرِ محذوف۔ دوسرے مصرعہ میں فعل ناقص کا اسم "مشتری"۔ "مر زباں را" اس کے متعلق۔ اور "چوں گوش" متعلقِ "موجود" خبرِ محذوف۔

ترجمہ: اس (سچے) ہوش (یعنی قصۂ عشق) کا واقف اس شخص کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا جو (ما سوی اللہ سے) بیہوش ہو۔ (چنانچہ) زبان (کی باتوں) کا خریدار کان کے برابر کوئی نہیں ہے۔

مطلب: نالۂ نَے جس قصے کو بیان کر رہا ہے اس کا رازِ حقیقی ہوشِ عقل ہے، اور یہ اسی شخص کو میسر آ سکتا ہے جس کے دل کو جذبۂ محبت نے ما سوی اللہ کے علائق سے پاک اور عقلِ معاش سے بے خبر کر دیا ہو حتٰی کہ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہو۔ خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

آگاہ اس جہاں سے نہیں غیرِ بے خوداں

جاگا وہی ادھر سے جو موندھ آنکھ سو گیا

زبان و گوش کی وجۂ تمثیل یہ ہے کہ جس طرح زبان کی باتوں کے احساس کا اہل کان ہوتا ہے نہ کہ ناک آنکھ وغیرہ دوسرے اعضاء، اسی طرح قصۂ عشق کے سننے اور سمجھنے کا اہل وہی شخص ہے جو عقلِ معاش اور احساساتِ سفلیہ سے پاک ہو۔ اور کوئی شخص اس کا اہل نہیں ہو سکتا۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

ہر کرا کن مکن ہوش و خرد درکار است

مشنو از وے سخنِ عشق کہ او ہشیار است

19

گَر نبودے نالۂ نَے را ثمر

نَے جہاں را پُر نکردے از شکر

ترکیب: "نبودے" فعلِ ناقص اپنے اسم "ثمر" اور خبر محذوف یعنی "ثابت" مع اس کے متعلق "نالۂ نے را" کے ساتھ جملہ اسمیہ ہو کر شرط ہوا۔ اگلا مصرعہ جزا۔

صنائع: اقوالِ کاملین کے لیے نالۂ نَے اور شیرینیِ معرفت کے لیے شکر، استعارہ بالتصریح ہے۔ اگر شعر کو معنٰیِ حقیقی پر محمول کریں تو اس میں حسنِ تعلیل کی صنعت ہے۔

ترجمہ: اگر نَے کی آہ و زاری کا کوئی نتیجہ نہ ہوتا تو جہاں کو شکرِ (معرفت) سے پُر نہ کرتی۔

مطلب: اوپر کے اشعار میں دعویٰ کیا تھا کہ نَے کی آوازِ حقیقی نَے نواز ہی کے لبہائے جاں بخش کا کرشمہ ہے۔ اب اس کے ثبوت میں فرماتے ہیں کہ اگر نَے کی آواز کا کسی سلسلۂ غیب سے تعلق نہیں ہے یعنی کاملانِ طریقت کے اقوال و تعلیمات خاص الہاماتِ الٰہیہ نہیں ہیں تو سارا عالم جو آج حلاوت و معرفت سے لذت گیر ہو رہا ہے یہ بات کہاں سے پیدا ہوئی۔ پس ثابت ہوا۔ ع

کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں

نالۂ نَے کی شیرینی کے بارے میں غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎

ہر زخمِ نے ز زخمۂ شیریں لبالب ست

زنبور خانہ ایست کہ از انگبیں پرست

20

در غمِ ما روزہا بیگاہ شد

روزہا با سوزہا ہمراہ شد

ترکیب: "شد" فعلِ ناقص۔ "روزہا" اسم۔ "بیگاہ" خبر۔ "در غم" متعلقِ فعل۔ اسی طرح دوسرے مصرعہ کی ترکیب۔

صنائع: یہ شعر "ذو القافیتین" واقع ہوا ہے۔ یعنی "روزہا سوزہا" اور "بیگاہ ہمراہ" دو قافیے ہیں۔

ترجمہ: ہمارے غم (کی حالت) میں (نورانی) حالات تلف ہو گئے (اور) ایامِ (عمر) سوز و گداز میں کٹ گئے۔

مطلب: یعنی عنایاتِ الٰہیہ سے ہم پر جو نورانی حالات وارد ہوئے تھے اور جن کا ورود سالک کے لیے خاص مقصود اور موجبِ سرورِ حقیقی ہے، غمِ عشق نے ان کی کیفیت سے ہم کو لذّت گیر نہ ہونے دیا اور آخر وہ یونہی گزر گئے۔ بقولِ قدسی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بہار رفت و نچیدم گل از پریروئے

گذشت عید و ندیدم ہلال ابروئے

21

روزہا گر رفت گو رو باک نیست

تو بماں اے آنکہ چونتو پاک نیست

ترکیب: "گر" حرفِ شرط۔ "روزہا رفت" جملہ فعلیہ ہو کر شرط ہوئی۔ "گو" فعل با فاعل۔ باقی تمام شعر اس کا مقولہ ہوا۔ اور یہ سب مل کر جملہ فعلیہ ہو کر جزا ہوئی۔

ترجمہ: اگر یہ حالات (یا اوقات) جا ہی رہے ہیں تو کہہ دو چلے جائیں کچھ مضائقہ نہیں۔ اے وہ (محبوب پاک) کہ تیرے برابر کوئی پاک نہیں تو موجود ہے (تو کیا پروا ہے)۔

مطلب: شعر سابق میں اپنی پستی اور فقدانِ حالات پر افسوس کیا تھا جو ایک طرح سے عجب و خود پسندی کا علاج تھا۔ اب اس شعر میں جو اپنی حالت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے یہ یاس و کفران کی اصلاح ہے۔ چونکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ صاحبِ مقام تھے۔ اس لیے محبوبِ حقیقی سے خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ تو ہمارے لیے موجود و مشہود ہے تو پھر ہم کو ان حالات کی کیا پروا ہے۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ علم و مشاہدہ کا رتبہ حال سے بڑھ کر ہے۔ خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

گر باد فتنۂ ہر دو جہاں را بہم زند

ما و چرا غِ چشم و رہِ انتظارِ دوست

22

ہر کہ جز ماہی ز آبش سیر شد

ہر کہ بیروزی ست روزش دیر شد

ترکیب: "شد" فعلِ ناقص۔ "ہر کہ" اسمِ موصول اور مبتدا محذوف۔ "جزِ ماہی" مرکب اضافی خبر۔ یہ جملہ اسمیہ ہو کر صلہ ہوا۔ موصول و صلہ مل کر اسم۔ "سیر" خبر۔ "آبش" کی ضمیر راجع ہے محبوبِ حقیقی کی طرف۔ مصرعہ ثانیہ میں "ہر کہ بے روزی ست" موصول و صلہ مل کر مبتداء۔ "شد" فعلِ ناقص۔ "روزش" اسم اور "دیر" خبر کے ساتھ مل کر خبر۔ "روزش" کی ضمیر اسمِ موصول کی طرف راجع ہے۔

صنائع: "ماہی و آب" میں مناسبت ہے۔ "روزی" اور "روز" میں جناسِ زائد۔

ترجمہ: مچھلی (یعنی عاشقِ حق) کے سوا جو لوگ ہیں وہ اس کے (تھوڑے) پانی سے (بھی) سیر ہو جاتے ہیں (اور) جو بیروزی (بالکل محروم) ہے۔ اس کے (تو) اوقات (ہی) ضائع ہو گئے۔

مطلب: اربابِ توحید تین طرح کے لوگ ہیں۔ ایک عاشقِ حق جن کو یہاں مچھلی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسرے عامہ مسلمین جن کو مچھلی کے سوا دوسرے لوگ قرار دیا ہے۔ تیسرے وہ لوگ جو تعلیماتِ شریعت سے مستفیض نہیں ہوتے بلکہ فلسفہ و عقلیات سے توحید کے قائل ہو جاتے ہیں جیسے کہ فلاسفہ مشائین۔ پانی سے مراد کلامِ حق تعالیٰ جو انبیاء علیہھم السلام پر نازل ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ مچھلی کے سوا جو عام لوگ ہیں وہ صرف کلامِ حق سے سیر ہو جاتے ہیں۔ جو بذریعہ انبیاء ان کو پہنچتا ہے۔ مگر وہ عشق سے خالی ہیں۔ ورنہ کبھی اس افاضۂ قلیل سے سیر نہ ہوتے۔ تاہم وہ لوگ آخرت میں نجات پا جائیں گے اور اہلِ جنت میں شامل ہو کر دیدارِ الٰہی سے بہرہ ور ہوں گے۔ اور جو لوگ مچھلی ہیں وہ اس تھوڑے سے پانی پر قانع نہیں بلکہ تقلیدِ رسل کے بعد وہ دنیا ہی میں مشاہدۂ حق کے طالب ہوتے ہیں اور سیر و سلوک کے جس قدر مدارج طے کرتے جاتے ہیں کسی پر قانع نہیں ہوتے اور ہر دم ترقی کے جویاں رہتے ہیں۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

کسیکہ روئے تو بیند نگہ بکس نکند

ز عشق سیر نہ گردد ز عیش بس نکند

غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

عاشق بفنا سیر ز معشوق نہ گردد

ماہی طلبِ آب کند گر چہ غذا شد

تیسرے گروہ کے لوگ جو اس پانی سے بالکل محروم ہیں (کذا فی بحر العلوم) اکبر الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ ؎

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں

ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

23

در نیابدحالِ پختہ ہیچ خام

پس سخن کوتاہ باید والسّلام

ترکیب: پہلا مصرعہ جملہ فعلیہ ہو کر معطوف علیہ۔ "پس" حرفِ عطف۔ "سخن کوتاہ باید" جملہ اسمیہ معطوف۔ "والسّلام" بتقدیرِ خبرِ محذوف جملہ اسمیہ معطوف۔

صنائع: "پختہ" اور "خام" میں صنعتِ تضاد۔

ترجمہ: کوئی ناقص (آدمی) کامل کا حال معلوم نہیں کر سکتا۔ پس قصہ کوتاہ (کر دینا) چاہیے اور (ہمارا) سلام ہے۔

مطلب: حالاتِ عشق کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ پختہ کار لوگوں کے حالات ہیں۔ جو دریائے مشاہدہ سے سیر نہ ہونے میں بمنزلۂ ماہی ہیں۔ غیر ماہی یعنی ناقص لوگ ان حالات کو معلوم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ لوگ اجمالی یقین کے چلّو بھر فیضان سے سیراب ہونے والے ہیں اور مذکورہ حالات ایک قلزمِ ناپید کنار ہیں۔ لہذا نا اہل لوگوں کے سامنے اس قصہ کو طول دینا غیر مناسب ہے کہ مبادا مُنْجرّ بفساد ہو جائے۔ باقی رہے "بے روزی" یعنی محجوب و محروم لوگ ان کا ذکر ہی فضول ہے، وہ اس کوچہ ہی سے آشنا نہیں۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

آہنگ دراز شب و رنجوریِ عشاق

با آں نتواں گفت کہ بیدار نباشد

24

بادہ در جوشش گدائے جوشِ ماست

چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ما مست

ترکیب: "بادہ" موصوف۔ "در جوشش" متعلق "کائن" صفت کے۔ موصوف و صفت مل کر مبتدا ہوا۔ "گدائے جوش" مرکب اضافی باضافتِ متوالی خبر۔ "است" علامتِ جملہ اسمیہ۔ علٰی ہٰذا مصرعہ ثانیہ کی ترکیب۔

ترجمہ: پر جوش شراب ہمارے جوش کی محتاج ہے۔ چرخِ گرداں ہمارے ہوش کا فریفتہ ہے۔

مطلب: اوپر پختہ کارانِ منازلِ عشق کا ذکر تھا۔ چونکہ خود مولانا بھی اسی طبقۂ عالیہ سے ہیں۔ اس لیے نظیرًا اپنی حالت بیان کرتے ہیں کہ شراب ہر چند پُر جوش مشہور ہے مگر اس نے یہ جوش ہمیں سے مانگ کر حاصل کیا ہے۔ اور آسمان ہر چند سیر و گردش میں سب پر فائق ہے مگر ہماری روح پر وہ بھی لٹو ہے، جو منازلِ عشق میں سریع السیر ہے ؎

در علمِ فقر ہر کہ شد استاد چوں غنؔی

برداشت نسخہ از ورق بوریائے ما

الخلاف: بعض نسخوں میں "بادہ در جوشش" سے لے کر "بر سماع الخ" تک تین شعر درج نہیں ہیں۔

25

بادہ از ما مست شد نے ما ازو

قالب از ما ہست شد نے ما ازو

ترکیب: "بادہ از ما مست شد" جملہ اسمیہ معطوف علیہ۔ "نے" حرفِ نفی عاطف۔ "شدیم" فعلِ ناقص محذوف۔ "ما" اسم۔ "مست" خبرِ محذوف۔ "ازو" متعلق۔ یہ جملہ اسمیہ ہو کر معطوف ہوا۔ اسی طرح دوسرے مصرعہ کی ترکیب۔

ترجمہ: شراب ہم سے مست ہوئی ہے نہ کہ ہم اس سے (مست ہوئے ہیں)۔ جسمِ خاکی ہماری بدولت وجود میں آیا ہے نہ کہ ہم اس کی بدولت۔

مطلب: یہ شعر شعرِ سابق کا ہم معنٰی ہے۔ یعنی شراب جو مے نوش کو مست کر دینے والی سمجھی جاتی ہے ہم اس سے مست نہیں بلکہ ہماری کیفیت نے اس میں سرایت کر کے خود اس کو مست کر دیا ہے، اور قالبِ خاکی کے آثارِ زندگی ہماری بدولت ہیں نہ کہ ہماری زندگی اس پر موقوف ہے۔ مولانا اسمٰعیل مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎

چل رہی ہے جس سے جسمانی مشین

کوئی پوشیدہ کمانی اور ہے

26

بر سماعِ راست ہر کس چیر نیست

طُعمۂ ہر مرغکے انجیر نیست

ترکیب: پہلے مصرعہ میں "ہر کس" مبتدا۔ "چیر" خبرِ او۔ "بر سماعِ راست" متعلقِ خبر۔ دوسرا مصرعہ بھی مبتدا و خبر پر مشتمل ہے۔

صنائع: لفظ "راست" میں صنعتِ ایہام تناسب ہے کیونکہ یہ لفظی موسیقی میں ایک مقام کا نام ہے، اس اعتبار سے سماع کے ساتھ مناسب ہے۔

ترجمہ: سچی بات کے سننے پر ہر شخص قادر نہیں ہے، (چنانچہ) ہر حقیر پرندہ کی خوراک انجیر نہیں (ہو سکتی)۔

مطلب: یہ شعر اوپر کے شعر ”در نیابد حالِ پختہ ہیچ خام“ کی تاکید میں فرمایا ہے۔ یعنی پختہ کارانِ منازلِ عشق کا حال عوام کے آگے کیا بیان کیا جائے جب کہ وہ اس کے سننے کی قدرت ہی نہیں رکھتے۔ اگر بیان کیا جائے تو ان کی جانب سے شکوک و شبہات بلکہ ردّ و انکار کا احتمال ہے۔ دیکھو انجیر کیا مزے دار میوہ اور عجیب الخواص پھل ہے مگر خاص خاص پرندے ہی اس کو کھا سکتے ہیں۔ ہر پرندے کا یہ بل بوتا نہیں کہ اس کو کھائے اور ہضم کر سکے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

سماعِ انس کہ دیوانگاں ازو مستند

بسمعِ مردمِ ہشیار در نمے گنجد

27

بند بگسل، باش آزاد اے پسر

چند باشی بندِ سیم و بندِ زر

ترکیب: "اے" حرفِ ندا۔ "پسر" منادیٰ۔ باقی تینوں جملے بتعلقِ عطف جوابِ ندا ہو کر جملہ ندائیہ ہوا۔

ترجمہ: بیٹا! قید کو توڑ کر آزاد ہو جا۔ چاندی سونے (کے خیال) میں تو کہاں تک مقیّد رہے گا؟

مطلب: اوپر کے اشعار میں یہ مضمون چلا آتا تھا کہ پختہ لوگوں کے حالات کو خام کار نہیں سمجھ سکتا۔ اب مولانا پختہ ہونے کا اصول بتاتے ہیں جس سے خامی دُور ہو جائے اور ان میں اسرارِ عشق کے سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے۔ خلاصہ اس اصول کا یہ ہے کہ ما سِوی اللہ سے تعلقات نہ رکھے جائیں اور مال و دولت کا شوق منقطع کر دیا جائے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

ز صحرائے تعلق چوں کسے سالم بروں آید

زمیں گیر است از تر دامنی ریگِ رواں اینجا

سونا چاندی وغیرہ اموالِ دنیا خصوصیت سے عشقِ الٰہی کے لیے سنگِ راہ ہوتے ہیں۔ اس لیے بزرگانِ دین نے درویشی کو پسند فرمایا ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

اے دلِ اگر بدیدۂ تحقیق بنگری

درویشی اختیار کنی بر تونگری

28

گر بریزی بحر را در کُوزۂ

چند گنجد؟ قِسمتِ یک روزۂ

ترکیب: مصرعہ اول جملہ فعلیہ ہو کر شرط۔ دوسرے مصرعہ کی تقدیر یوں ہے: "سوائے قسمتِ یک روزہ دراں نگنجد"۔ "قسمتِ یک روزہ" بترکیبِ توصیفی مضاف الیہ اپنے مضاف "سِوا" کے ساتھ مل کر فاعل ہوا "نگنجد" کا۔ اور یہ سب جملہ فعلیہ ہو کر جزا ہوئی۔

ترجمہ: اگر تو (چاہے کہ) سمندر کو ایک کوزے میں ڈالے (تو اس میں سمندر کا) کتنا (پانی) سمائے گا؟ ایک دن کا حصہ (زیادہ نہیں)۔

مطلب: اس شعر میں سیم و زر کو ضرورت سے زیادہ جمع کرنے کی بیہودگی کا اظہار ہے۔ یعنی زندگی کا سامان اسی قدر درکار ہے جس سے دنیوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہوں۔ اور ضرورت صرف اتنی ہے کہ تن ڈھکنے کو کپڑا، پیٹ پالنے کو دو روٹیاں ملتی رہیں۔ اس سے زیادہ کی حرص کرنی فضول ہے۔ اگر دنیوی نعمتوں کا انبار پیٹ میں ڈالنا چاہیں تو دو روٹی سے زیادہ اس میں نہیں پڑ سکتا۔ پھر حرصِ زائد سے کیا حاصل؟

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

آخرے نیست تمناے سر و ساماں را

سر و ساماں بہ ازیں بے سر و سامانی نیست

29

کُوزۂ چشمِ حرِیصاں پُر نشد

تا صدف قانِع نشُد پُر دُر نشُد

ترکیب: پہلا مصرعہ فعلِ ناقص سے جملہ فعلیہ ہوا۔ دوسرے مصرعہ میں "تا صدف قانع نشد" شرط۔ "پُر دُر نشد" جزا۔ مل کر جملہ اسمیہ۔

صنائع: چشم کی کوزہ سے تشبیہ حِسّی ہے۔ دوسرے مصرعہ میں قانع کے غنی ہونے کی تشبیہ سیپ کے پُر دُر ہونے کے ساتھ تشبیہِ تمثیل ہے۔

ترجمہ: حریص لوگوں کی (بھوکی) آنکھ کا کوزہ (کبھی) پُر نہ ہوا۔ جب تک سیپ نے قناعت نہ کی موتیوں سے مالا مال نہ ہوا۔

مطلب: پہلے مصرعہ کا یہ مطلب ہے کہ حریص کو خواہ کتنا ہی مال ہاتھ لگ جائے کسی حد تک بھی اس کو سیری حاصل نہیں ہو سکتی۔ حقیقی غنا اور تموّل اگر ہے تو وہ قناعت ہی میں ہو سکتا ہے۔ دوسرے مصرعہ میں اس کی مثال میں صدف کو پیش کیا ہے۔ اگلے لوگوں کا خیال تھا کہ ایک خاص موسم میں جب سیپ کے اندر بارش کا قطرہ پڑ جاتا ہے اور ساتھ ہی اس کا منہ بند ہو جاتا ہے تو قطرہ موتی بن جاتا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں دیکھو سیپ ایک قطرے پر قناعت کرتا ہے اور زیادہ کی حرص نہیں کرتا، تو دولتِ مروارید سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ اگر اس کا دہانِ حرص بند نہ ہوتا تو انعام کیونکر پاتا۔ خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

اگر جمعیت دل ہے تجھے منظور، قانع ہو

کہ اہلِ حرص کے کب کام خاطر خواہ ہوتے ہیں

مولانا اسمٰعیل میرٹھی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎

ممکن نہیں بغیر قناعت فراغِ دل

ہر چند تودہ تودہ تجھے سیم و زر ملے

30

ہر کرا جامہ ز عشقے چاک شد

او زِ حرِص و عیبِ کُلّی پاک شد

ترکیب: "ہر کرا" کی تقدیر "ہر کہ او را" ہے۔ پہلا مصرعہ موصول و صلہ مل کر مبتدا ہوا۔ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ ہو کر خبر۔ کُلّی تاکید ہے پاک کی۔

صنائع: "جامہ از عشق چاک شدن" کنایہ ہے عاشق ہونے سے۔

ترجمہ: جس شخص کا جامہ عشق سے چاک ہو گیا وہ حرص اور (ہر قسم کے) عیب سے بالکل پاک ہو گیا۔

مطلب: اس شعر میں یہ ظاہر فرمایا ہے کہ عشقِ حقیقی تہذیبِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔ تہذیب اخلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک ایک خُلق کو فردًا فردًا لے کر اس کو اعتدال پر لانے کی کوشش کی جائے۔ یہ ماہرانِ فنِ اخلاق کا طریقہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ذکر و شغل وغیرہ سے قلب میں محبتِ حق پیدا کی جائے، جس سے تمام اخلاقِ ذمیمہ خود بخود دور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ روح میں جو لطافت پیدا ہو جاتی ہے وہ ان کیفیاتِ کثیفہ کو برداشت نہیں کر سکتی۔ اور یہ تعلیم اہلِ عرفان کی ہے۔ مولانا دوسرے طریقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس نے عشق میں اپنی ہستی کو بے جان کر لیا وہ رجائے ملائم اور خوفِ نا ملائم سے اور دیگر سب مصائب سے پاک ہے۔ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

کیا کام مجھے خوف و رجا سے کہ میرے پاس

ہے جان سو بے جان ہے، دل ہے سو غنی ہے

خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

ننہادہ ایم یارِ جہاں بر دلِ ضعیف

ایں کاروبارِ بستہ بہ یک سونہادہ ایم

31

شاد باش اے عِشقِ خوش سَودائے ما

اے طبِیبِ جملہ علتہائے ما

ترکیب: "شاد باش" جملہ فعلیہ انشائیہ جوابِ ندا مقدم۔ "اے" حرفِ ندا۔ "عشقِ خوش سودا" منادیٰ۔ اسی طرح دوسرا مصرعہ ندا و منادیٰ قائم مقام جملہ فعلیہ۔ ندا اور جوابِ ندا مل کر جملہ ندائیہ ہوا۔

صنائع: عشق کو بطور استعارہ بالتصریح کے طبیب کہا ہے۔

ترجمہ: اے عشق! جو ہمارا اچھا جنوں ہے۔ اے ہمارے تمام (اخلاقی و روحانی) امراض کے طبیب! تو خوش رہے۔

مطلب: اوپر کے شعر میں عشق کو اخلاق کی درستی کا بہترین ذریعہ قرار دیا تھا۔ اب بطور مدح کے فرماتے ہیں کہ اے عشق تیرا بھلا ہو تو ہماری ان تمام روحانی و اخلاقی بیماریوں کا معالج ہے جو نہ جسمانی علاج کرنے والوں کے ہاتھوں دور ہونی ممکن ہیں اور نہ حکمائے فنِ اخلاق سے۔ خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

در دم نہفتہ بہ طبیبانِ مدعی

باشد کہ از خزانۂ غیبم دوا کنند

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

ما حوصلۂ درد نداریم وگرنہ

ہر درد کہ قسمت شود از غیب دوا است

32

اے دوائے نخوت و ناموسِ ما

اے تو افلاطون و جالینُوسِ ما

صنائع: عشق کو دوا اور افلاطون و جالینوس کہنا استعارہ بالتصریح ہے اور یہ سب مناسباتِ طب ہیں۔

ترجمہ: اے (عشق جو) ہمارے تکبّر اور عزت طلبی کی دوا (ہے)۔ اے (وہ کہ) تو ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے۔

مطلب: اوپر کہا تھا کہ عشق ہماری تمام بیماریوں کا معالج ہے۔ اب تمام بیماریوں میں سے تکبّر اور جاہ طلبی کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے جو اکثر برائیوں کا سرچشمہ ہیں۔اور ابلیس نے، جو موجدِ معاصی ہے، سب سے پہلے تکبّر ہی کا ارتکاب کیا تھا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ عشق اپنی ذلّت و رسوائی کی بدولت ان دو روحانی مرضوں کے لیے تو خاص طور پر دوائے شافی ہے اور نہ صرف دوا بلکہ خود افلاطون و جالینوس کا طبیبِ حاذق ہے جو ذلّت کے مسہل سے تنقیۂ دماغ کر کے مرضِ غرور کو دور کر دیتا ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بذلِ مال و جاہ و ترکِ نام و ننگ

در طریقِ عشق اول منزل ست

صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎

(33)

جسمِ خاک از عشق بر افلاک شد

کوہ در رقص آمد و چالاک شد

ترکیب: "شد" فعل۔ "جسمِ خاک" فاعل۔ یہ بمع ہر دور متعلقات کے جملہ فعلیہ ہوا۔ دوسرے مصرعہ میں دو جملے جداگانہ ہیں۔

صنائع: پہلے مصرعہ میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم کے معراج اور عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر چلے جانے کی تلمیح ہے۔ دوسرے مصرعہ میں کوہِ طور کے تجلّیِ حق سے رقص میں آنے کی روایت کی طرف اشارہ ہے۔

ترجمہ: عشق کی بدولت (آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا) خاکی جسم آسمان پر چلا گیا (عشق کی خوشی سے) کوہِ طور (بھی) ناچنے لگا اور مستعد ہو گیا۔

مطلب: یہ عشق ہی کی طاقت ہے کہ خاکی جسم کو عالمِ بالا پر پہنچا دے، جہاں اجسام کا گزر نہیں ہو سکتا۔ اور یہ عشق ہی کا کرشمہ ہے جو پہاڑ جیسی بے حس چیز کو حرکت میں لے آئے۔ بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ کوہِ طور تجلّی کو قبول کرنے کے لیے مستعد تو ہو گیا مگر چونکہ بفحوائے ﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ۔ الآیۃ (الاحزاب: 72) اس میں تجلّی کو برداشت کرنے کی تاب نہ تھی۔ اس لیے آخر پارہ پارہ ہو گیا۔ یہ طاقت اور یہ سمائی حضرتِ انسان کے دل ہی کو حاصل ہے۔امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ؎

عشق گنجد در دلِ تنگ و نگنجد در جہاں

ویں سخن در دل نگنجد عقلِ دور اندیش را

34

عِشق جانِ طور آمد عاشِقا

طُور مست خَرَّ مُوْسٰیؑ صَعِقًا

ترکیب: "عاشقا" ندا۔ اور "عشق جانِ طور آمد" جملہ فعلیہ ہو کر جوابِ ندا۔ "طور مست" اسم اور خبر "شد" فعلِ ناقص محذوف کا۔ اور "صَعِقًا" بفتحۂ صاد و کسرۂ عین بیہوش۔

صنائع: ﴿خَرَّ مُوْسٰیؑ صَعِقٍا (الاعراف: 143) تلمیح ہے کوہِ طور اور موسیٰ علیہ السلام کی روایت سے اور اقتباس ہے قرآن مجید کی آیت کا۔ کوہِ طور کی حرکت کو مستی سے تعبیر کرنا مجاز ہے۔

ترجمہ: اے عاشق! عشق کوہِ طور کی جان بن گیا (اس لیے معشوقِ حقیقی کے جلوہ سے) طور مست (ہو گیا) اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہو کر گر پڑے۔

مطلب: ذاتِ حق نے جب کوہِ طور پر تجلّی فرمائی تو وہ عشق ہی تھا جس نے جان بن کر کوہِ مذکور میں حرکت ڈال دی۔ اور عشق ہی اس کا باعث تھا کہ موسیٰ علیہ السلام اس تجلّی کی تابِ نظارہ نہ لا کر بیہوش ہو کر گر پڑے اور بات بھی نہ کر سکے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بروں برد از خودش اشراقِ آں نور

ز نورِ خود ظلام سایہ شد دُور

میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

جی فنا ہو ہی گیا اک نگِہ گرم کے ساتھ

درؔد کچھ اور عنایات نہ ہونے پائی

رفعِ اشتباہ: بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام پر جو تجلّیِ حق ہوئی تو اس سے دنیا میں دیدارِ الٰہی کا امکان ثابت ہوتا ہے۔ یہ بڑی غلط فہمی ہے۔ تجلّی سے دیدار ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ دیدار، رؤیت، موسیٰ علیہ السلام کا فعل ہے جس کی نفی قرآن مجید میں آ چکی ہے۔ ﴿لَنْ تَرَانِیْ (الاعراف: 143) یعنی "تو مجھ کو نہیں دیکھ سکتا"۔ اور تجلّی کے معنٰی جلوہ گر ہونا۔ یہ فعل ہے اللہ کا۔ اس کا اثبات قرآن مجید میں بے شک ہے۔ مگر اس سے دیدار و رؤیت ثابت نہیں ہوتی۔ ورنہ نعوذ باللہ قرآن مجید میں تعارض لازم آئے گا۔ پس مطلب آیت کا یہ ہو گا کہ نورِ خدا جلوہ گر ہوا مگر موسیٰ علیہ السلام اسے نہ دیکھ سکے اور بے ہوش ہو گئے۔ (کذا قال بعض افاضل العصر) مولانا اسمٰعیل مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎

نہیں دیکھا کسی نے حسنِ مستور

بقدرِ فہم لیکن کر لیا فرض

35

سرِّ پنہاں ست اندر زیر و بم

فاش اگر گویم جہاں برہم زنم

ترکیب: "سرِّ پنہاں" بترکیبِ توصیفی مبتدا۔ "اندر زیر و بم" متعلقِ خبرِ محذوف یعنی "ثابت"۔ دوسرے مصرعہ میں "فاش اگر گویم" جس میں "او را" مفعول بہ محذوف ہے۔ جملہ فعلیہ ہو کر شرط۔ "جہاں برہم زنم" جزا۔

صنائع: "زیر و بم" کنایہ ہے مضامینِ مختلفہ سے، اور "سرِّ پنہاں" کنایہ ہے وحدۃ الوجود کے مسئلے سے۔

ترجمہ: (ہماری) نیچی اونچی سروں میں ایک سربستہ راز (مضمر) ہے۔ اگر میں اس کو صاف صاف بیان کر دوں تو (گویا) جہان کو تہ و بالا کر ڈالوں۔

مطلب: ہمارے مجمل اقوال میں وحدت الوجود کا راز مضمر ہے، جس کو ہم کنایۃً اور اشارۃً ہی کہنے پر مجبور ہیں۔ اور اس مسئلہ کا مقصد یہ ہے کہ ما سِویٰ اللہ کا وجود کالعدم ہے۔ مگر چونکہ یہ بات عوام کے فہم و ادراک سے برتر ہے اور یہ لوگ اس مسئلے کا مطلب یہی سمجھیں گے کہ جب ما سِویٰ اللہ کچھ نہیں ہے تو فرض و واجب اور حلال و حرام اور امر و نہی بھی کچھ نہیں۔ پس یہ لوگ احکامِ شریعت کو بے حقیقت سمجھنے لگیں گے جو نظامِ عالم کے بگڑ جانے کا مترادف ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو صاف طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

پیراہنے کہ آید ازو بوئے یوسفم

ترسم برادرانِ غیورش قبا کنند

علاوہ ازیں اسرارِ عشق کا اظہار اہلِ ظواہر کی تکفیر و تشنیع کا باعث بھی ہوتا ہے۔ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

اے درد کہوں کس سے بتا رازِ محبت

عالم میں سخن چینی ہے یا طعنہ زنی ہے

36

آنچہ نے میگوید اندر ایں دو باب

گر بگویم من جہاں گردد خراب

ترجمہ: "نَے" (زیر و بم کے) ان دو سُروں میں جو کچھ کہہ رہی ہے، اگر میں اس کو بیان کر دوں تو عالم تہ و بالا ہو جائے۔ مولانا اسمٰعیل مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎

منہ پہ لاؤں تو یہ کم ظرف بہک جائیں گے

بات جو پیرِ خرابات نے سمجھائی ہے

الخلاف: یہ شعر ہمارے نسخے میں نہیں ہے۔

37

با لبِ دمسازِ خود گر جفتمے

ہمچو نَے من گُفتنیہا گفتمے

صنائع: لب، دمساز اور نَے میں صنعت مراعاۃ النظیر ہے۔

ترجمہ: اگر میں بھی اپنے (یار) دمساز کے لب سے ملا ہوتا تو بانسری کی طرح کچھ کہنے کی باتیں کہتا۔

مطلب: اسرارِ عشق چونکہ عوام کی سمجھ سے بالا ہیں اس لیے انہیں لوگوں کے آگے بیان کرنے سے عوام کی غلط فہمی کے باعث الحاد و زندقہ کے خیالات پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ اس لیے مولانا تمنا کرتے ہیں کہ کاش ہم کو کسی اپنے ہم خیال اور صاحبِ فراست سے ہم کلام ہونے کا موقع ملتا تو جو کہنے کی باتیں ہیں اس سے جی کھول کر کہہ لیتے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ما زباں اندر کشیدیم از حدیثِ خلق در وے

گر حدیثے ہست با یارست با اغیار نیست

ترکیب: پہلا مصرعہ اسم موصول اور صلہ مل کر مبتدا۔ "بے نوا شد" جزا مقدّم اور باقی مصرعہ شرطِ مؤخر مل کر جملہ شرطیہ ہو کر خبر ہوئی۔

صنائع: کلمہ "نوا" دوسرے مصرعہ میں بطور صنعتِ "رَدُّ الْعَجْزِ عَلٰی الْاِبْتِدَاءِ" واقع ہوا ہے۔

ترجمہ: جس شخص کا ہم کلام (و ہمراز) اس سے جُدا ہو گیا وہ (بظاہر) بے سامان ہو گیا۔ اگر چہ (فی الحقیقت) اس کے سینکڑوں سامان ہوں۔

مطلب: اظہارِ حقائق اور بیانِ معارف کے لیے سامعین کی ارادت و قابلیت ضروری ہے۔ اگر یہ بات نہیں تو صاحبِ سخن کو مصلحتًا یا سامعین کی سرد مزاجی سے متاثر ہو کر اس طرح خاموش ہو جانا پڑتا ہے گویا اس کے پاس کچھ علم و تحقیق کا سامان ہی نہ تھا۔ غرض اسرارِ عشق کے بیان کرنے کے لیے سامعین کی صلاحیت لازم ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

وسعتِ میدانِ ارادت بیار

تا بزند مردِ سخن گوئے گوئے

غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

استماعِ دوستاں آورد ما را در سخن

پردہائے سازِ ما جز پردہ ہائے گوش نیست

39

چُونکہ گل رفت و گلستاں درگذشت

نشنوی زِیں پس ز بُلبُل سرگذشت

ترکیب: پہلے مصرعہ میں دو جملے معطوف علیہ اور معطوف مل کر شرط۔ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ ہو کر جزا۔

ترجمہ: جب پھول (کا موسم) جاتا رہا اور باغ اجڑ گیا تو اس کے بعد تم بلبل سے سر گذشت (عشق یعنی اس کے چہچہے) نہ سنو گے۔

مطلب: یہ مضمونِ بالا کی نظیر ہے۔ یعنی پھول کا حسن ہی تھا جو بلبل کے چہچہے کا محرک تھا۔ جب وہ نہ رہے تو بلبل اپنے آشیانے میں دم بخود ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

دور از رخِ تو ماند دلم بے سرودِ عشق

بلبل چو گل ندید فتاد از نوائے خویش

غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎

گل برنگِ شعلۂ حسن از چمن پرواز کرد

گرم تا در آشیاں گردید جائے عندلیب

اسی طرح مخاطبِ سخنِ فہم ہی جاذبِ مضامین ہوتا ہے۔ جب وہ نہ ہو تو سکوت لازم ہے۔

40

چونکہ گل رفت و گلستاں شد خراب

بوئے گل را از کہ جوئیم؟ از گُلاب؟

ترکیب: پہلے مصرعہ میں دو جملے معطوف علیہ اور معطوف مل کر شرط ہوئی۔ "بوئے گل را از کہ جویم" جملہ فعلیہ ہو کر جزا۔ شرط و جزا مل کر جملہ شرطیہ استفہامیہ ہوا۔ "از گلاب" بتقدیرِ "جویم" الگ جملہ استفہامیہ ہے۔

صنائع: گل، بوئے گل، گلستان اور گلاب مناسبات ہیں۔

ترجمہ: جب پھول (کا موسم) جاتا رہا اور باغ تباہ ہو گیا تو ہم پھول کی خوشبو کس سے طلب کریں؟ (عرقِ) گلاب سے؟

مطلب: جب لوگوں میں اسرار کو سمجھنے کی قابلیتیں ہی نہیں رہیں تو قابل لوگوں کو، جن سے ان مضامین میں تخاطب اور ہم کلامی کر سکیں، کہاں تلاش کریں؟ گر کسی میں کچھ قابلیت ہے بھی تو ایسی ہی برائے نام ہے جیسے گلاب میں بوئے گل۔ اور بوئے گلاب بلبل کی تسلی خاطر کا موجب نہیں ہو سکتی۔

الخلاف: یہ شعر بعض نسخوں میں نہیں ہے۔

41

جملہ معشُوق ست و عاشق پردۂ

زِندہ معشوق ست و عاشق مردۂ

ترکیب: "جملہ" تاکید۔ "موجودات" محذوف موکد۔ دونوں مل کر مبتدا۔ "معشوق" خبرِ "است" جملہ اسمیہ۔ "عاشق پردہ است" الگ جملہ اسمیہ۔ "زندہ" خبرِ مقدم۔ "معشوق" مبتدا مؤخر۔ دونوں مل کر جملہ اسمیہ۔ "عاشق مردہ است" الگ جملہ اسمیہ ہے۔

صنائع: یہ سارا شعر کنایات پر مشتمل ہے۔ "معشوق" سے ذاتِ حق۔ "عاشق" سے ممکنات۔ "پردہ" سے وجودِ ظاہری یا شخص۔ "مردہ" سے مثلِ مردہ یا کالعدم مراد ہے۔

ترجمہ: تمام (موجودات) معشوق ہے اور عاشق پردہ ہے۔ معشوق زندہ ہے اور عاشق مُردہ ہے۔

مطلب: رازِ عشق کو، جو وحدت الوجود کا مسئلہ ہے، عوام کے سامنے بیان کرنا اوپر موجبِ فتنہ قرار دیا تھا یہاں اس کو خواص کے لیے اس شعر میں بیان فرمایا ہے۔

واضح ہو کہ وحدۃ الوجود کا مسئلہ وہ معرکہ خیز مسئلہ ہے جن کی بنا پر صدیوں سے اہلِ ظواہر اور صوفیہ میں سخت اختلاف چلا آتا ہے۔ بزرگانِ سلف قدیم سے اس مسئلہ پر اشارات کرتے آئے ہیں اور صوفیہ اس مسئلے کو معرفت کی جان سمجھتے ہیں۔

طبقہ سلف کے گزر جانے اور ہجرت نبویہ سے پانچ سو برس مقضی ہونے کے بعد اس مسئلے میں صوفیہ کے دو گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ وحدت الوجود کا اور دوسرا وحدۃ الشہود کا قائل سمجھا جاتا ہے۔ پہلا گروہ صوفیہ سابقین کے اشارات کو حقیقت پر حمل کرتا ہے اور وہ اس بات کا قائل ہے کہ وجودِ مطلق ایک ہی ہے جو وجوب و امکانِ قدیم و حادث مجرد و جسمانی، مومن و کافر، طاہر و نجس وغیرہ مختلف مظاہر میں ظاہر ہے، لیکن ہر مظہر کا جدا حکم ہے اور مظاہر کے احکام میں فرق قائم کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ مومن کے لیے نجات کا حکم ہے اور کافر کے لیے قتل و قید کا حکم ہے۔ اس لیے فرمایا ہے:

ہر مرتبہ از وجود حکمے دارد

گر فرقِ مراتب نکنی زندیقی

مذکورہ مسئلے کی تقریر بزرگانِ دین نے مختلف طریقے سے کی ہے۔ چنانچہ بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ اس شعر کی شرح کے ضمن میں وحدۃ الوجود کے مسئلے پر یوں روشنی ڈالتے ہیں کہ تمام موجودات عینِ معشوق ہیں، جو ذاتِ حق ہے۔ اور عاشق جو تعینات و تشخصات میں پایا جاتا ہے محض ایک پردہ ہے۔ اگر یہ پردہ اٹھ جائے تو عالم نابود ہو جائے۔ اسی طرح معشوق یعنی ذاتِ حق زندہ جاوید ہے اور عاشق مثل مردہ ہے کیونکہ عاشق کا وجود اور اس کی حیات و ممات خدا ہی کی ایک شان ہے۔ اگر وہ اس شان کے بغیر جلوہ گر ہونا چاہے تو عالم نیست و نابود ہو جائے۔

مذکورہ بالا تقریر شریعت کے مذاق میں ذرا اجنبیت و بے گانگی کا رنگ رکھتی ہے۔ بخلاف اس کے حضرت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی قُُدِّسَ سِرّہٗ کی تقریر اگرچہ اصطلاحی اخلاق سے آزاد نہیں مگر اعتراضات سے مامون ہے۔ فرماتے ہیں:

"وجود سے صوفیوں کی مراد مصدری معنٰی نہیں۔ کیونکہ وہ خارج میں موجود نہیں، اور معقولاتِ ثانیہ سے ہے۔ بلکہ وجود سے ما بہ الموجودیت مراد ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ اپنے توابع کے وجود میں اور خود اپنے وجود میں غیر کا محتاج نہیں بلکہ اس کی ذات ہی اس کے وجود کی مقتضی ہے اور اس کی ذات ہی اپنے ارادے کے موافق ممکنات کے وجود کا تقاضا کرتی ہے تو وجود بمعنٰی مصدری، جو ممکن سے منتزع ہوتا ہے، وہ ذاتِ ممکن کا مقتضا نہیں اور نہ اس امر کا مقتضا ہے جو اس سے منضم ہوا ہے۔ بلکہ ممکن کا ما بہ الموجودیت کیا ہے؟ اس کے وجود سے ارادۂ الہی کا تعلق ہے۔ اور یہ ارادہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور اس ارادہ کا تعلق خاص اللہ تعالیٰ کی ذات کا مقتضا ہے۔ کوئی دوسری چیز درمیان میں واسطہ نہیں ہے۔ پس ممکنات کا ما بہ الموجودیت ذاتِ حق کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب ذاتِ حق اللہ تعالیٰ کو موجود بمعنٰی ما بہ الموجودیت کہنا بالکل حق اور صواب ہے اور اس کا تمام اشیاء پر احاطہ جو قرآن سے ثابت ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ اشیا کا ما بہ الموجودیت وہی اللہ تعالیٰ ہے اور اس کو وجودِ مطلق لا بشرطِ شے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ذات جس طرح اپنے وجود کی مقتضی ہے اسی طرح اپنی تمام صفاتِ کمال مثلًا سمع، حیات، بصر، علم، قدرت، ارادت اور کلام کے وجود کی بھی مقتضی ہے۔ اس لیے اس کی ذات کو واجب بالذات کہتے ہیں اور اس کی صفات کو جو اہل اسلام کے نزدیک ذات پر زائد ہیں واجب بالغیر کہتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات لا بشرطِ شیئٍ من الصفات اور مطلق عن القیود و الاعتبارات واجب الذات ہے اور ما بہ الموجودیت اس کی صفات ہیں۔ جن کی مظہر تمام کائنات ہے"۔ (رسالہ وحدۃ الوجود مؤلفہ قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ قُدِّسَ سِرُّہٗ الْعَزِیْز نے وحدۃ الوجود کی بہت صاف و نمایاں تقریر فرمائی ہے۔ فتاوٰی عزیزی جلد اول صفحہ 124 میں لکھا ہے۔ اول معنٰیِ ایں کلمہ باید فہمید، باز حقیقتِ حال باید شنید۔ معنٰیِ وحدۃ الوجود آنست کہ وجودِ حقیقی بمعنٰی ما بہ الموجودیت، نہ بمعنٰی مصدری اعتباری، یک چیز ہست کہ در واجب واجب و در ممکن ممکن و در جوہر جوہر و در عرض عرض ست۔ و ایں اختلافات موجبِ اختلافات در ذات نمے شوند۔ مثل شعاعِ آفتاب کہ بر پاک و نا پاک مے افتد، و فی ذاتہ پاک ست نا پاک نمے شود۔ و ایں مسئلہ فی نفسہ حق ست و ہیچگونہ مخالفِ شرع نیست۔ زیرا کہ ہر مرتبہ از مراتبِ ایں وجودِ حقیقی حکمے جداگانہ دارد۔ شرع شریف بیانِ حکمِ ہر مرتبہ میکند۔ بعضے را ھادی و بعضے را مضل و بعضے را واجب الاطاعت و بعضے را واجب العصیان و بعضے را حلال و بعضے را حرام و بعضے را پاک و بعضے را ناپاک مے فرماید۔ مردمِ کوتاہ بیں میدانند کہ ایں ہمہ اختلافاتِ ذات است۔ حاشا و کلّا۔ ایں ہمہ اختلافِ شیون و اعتبارات ست۔ مانند آنکہ در معرکۂ جنگ غیر از جسم نمودار نمے باشد۔ اگر قاتل ست جسم ست و اگر مقتول ست جسم ست۔ و علیٰ ہذا القیاس راکب و مرکوب و غالب و مغلوب۔ و در قرآن مجید چند جا اشارہ بایں مسئلہ واقع شدہ۔ صریح ترین آیات والہ بر ایں مسئلہ ایں آیت ست۔ ﴿سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَ فِي أَنفُسِهِمْ حَتّٰی يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَ لَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَاء رَبِّهِمْ أَلا إِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ (فصلت: 53-54) ”عنقریب ہم ان لوگوں کو اپنی نشانیاں اطراف عالم میں دکھائیں گے۔ ان کے اپنے درمیان میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ (قرآن) بر حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز کا شاہد ہے۔ یاد رکھو کہ یہ لوگ تو اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہونے کی طرف سے شک میں ہیں۔ سنو! خدا ہر چیز پر حاوی ہے۔“ و نیز آیۃ ﴿ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ الْبَاطِنُ (الحدید: 3) "وہی شروع سے ہے اور وہی آخر تک رہے گا اور وہ ظاہر ہے اور پوشیدہ ہے۔"

وحدت الوجود کے قائلین میں بڑے بڑے صلحاء و عارفین اور اکابر صوفیہ شامل ہیں۔ چنانچہ سلسلہ قادریہ میں شیخ اکبر محی الدین ابن العربی، شیخ صدر الدین قونوی، شیخ عبد الکریم، شیخ عبد الرزاق جہانوی، شیخ امان پانی پتی اور کبرویہ میں سے حضرت مولانا روم، حضرت شمس الدین تبریز اور سہروردیہ میں سے شیخ فرید الدین عطار اور چشتیہ میں سے سید محمد گیسو دراز۔ سید جعفر مکی اور نقشبندیہ میں سے حضرت خواجہ عبید اللہ احرار اور مولانا جامی، ملا عبد الغفور لاری، حضرت خواجہ باقی باللہ کابلی، شیخ عبد الرزاق کاشی، شمس الدین غفاری۔ سعید الدین فرغانی اور علمائے مدینہ منورہ سے حضرت شیخ ابراہیم کردی مشائخ مکہ معظمّہ سے شیخ حسام الدین علی متقی۔ علمائے ہند میں سے شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیھم اجمعین اس کے قائل ہیں۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں اس کے اشارات موجود ہیں اور خواجہ فرید الدین شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ سے تواتراً منقول ہے کہ وہ اپنے مریدوں کو وحدۃ الوجود کی تلقین کرتے تھے۔ (کذا فی فتاوٰی عزیزی)

اوپر بیان کیا گیا تھا کہ ہجرت سے پانچ صدی بعد صوفیہ کے دو گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ وحدۃ الوجود کا قائل ہے اور اس مسئلے کی تقریرات اوپر درج ہو چکیں۔ دوسرا گروہ صوفیہ سلف کے ان اشارات کی تاویل کرتا ہے اور اس کو سُکر و استغراق پر محمول کرتا ہے۔ ان حضرات کو وحدۃ الوجود کی واقعیت سے انکار ہے اور فرماتے ہیں کہ سالک کو بعض اوقات وحدتِ وجود کا احساس ہوتا ہے لیکن نفس الامر میں وہ واقع نہیں جیسے کہ سورج کی روشنی میں تمام ستارے بے نور ہو جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے حالانکہ نفس الامر میں وہ موجود و منوّر ہوتے ہیں لیکن دن کے وقت نور آفتاب کے غلبہ سے ان کا نور مضمحل ہو جاتا ہے۔ پس یہ وحدت جس کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے دراصل وحدۃ الشہود ہے۔

شیخ علاؤ الدولہ سمنانی رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے دیگر حضرات متقدمین میں سے اور حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سر ہندی قُُدِّسَ سِرُّہٗ اور ان کے اتباع متاخرین میں سے وحدۃ الشہود کے قائل ہیں۔

شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب بوستان کے تصفح سے پایا جاتا ہے کہ وہ بھی وحدۃ الشہود کے قائل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ عارف لوگوں کے نزدیک خدا کے سوا کوئی چیز موجود نہیں۔ لیکن اہل قیاس اس بات کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کی ہستی اس قدر عظیم الشان اور ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے کہ اس کے آگے کوہ و دریا، ارض و فلک، انس و ملک کی ہستی کا نام لینا بھی سوءِ ادب ہے۔ لیکن یہ لطیف احساس اہلِ صورت کو کہاں حاصل ہے۔ یہ خاص اہلِ معنٰی کا حصہ ہے ؎

رہِ عقل جز پیچ در بیچ نیست

بر عارفاں جز خدا ہیچ نیست

تواں گفت ایں با حقائق شناس

ولے خردہ گیرند اہلِ قیاس

کہ پس آسمان و زمین چیستند

بنی آدم و دام و دو کیستند

پسندیدہ پرسیدی اے ہوشمند

بگویم گر آید جوابت پسند

کہ ہاموں و دریا و کوہ و فلک

پری آدمی زاد و دیو و ملک

ہمہ ہر چہ ہستند ازاں کمترند

کہ باہستیش نام ہستی برند

عظیم ست پیشِ تو دریا بموج

بلند ست گردونِ گرداں باوج

ست پیشِ تو دریا بموج

بلند ست گردونِ گرداں باوج

ولے اہل صورت کجا پے برند

کہ اربابِ معنی بملکے درند

کہ گر آفتاب ست یک ذرہ نیست

دگر ہفت و ریاست یک قطرہ نیست

چو سلطانِ عزت علم بر کشد

جہاں سر بجیبِ عدم در کشد

شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ کوئی دیہاتی رئیس کسی بادشاہ کے خیمہ و خرگاہ کے پاس سے گزرا۔ اس کا بیٹا اس کے ساتھ تھا۔ رئیس نے جب فوج کی پر ہیبت نمائش، چمکتی تلواریں، سر بفلک شاہی خیمے اور سپاہ کا زرق برق لباس دیکھا تو اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ بیٹا بولا ابّا جان! آپ بھی تو رئیس و سردار ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آپ دہشت سے مرے جاتے ہیں؟ باپ نے جواب دیا۔ میں اپنے گاؤں ہی میں سردار ہوں۔ یہاں میری کوئی حقیقت نہیں ؎

بلے گفت سار و فرماں دہم

ولے عزّتم ہست تا در دہم

بزرگاں ازاں دہشت آلودہ اند

کہ دربار گاہِ ملک بودہ اند

تو اے بے خبر ہمچناں در دہی

کہ بر خویشتن منصبے مے نہی

اس مقام پر صاحبِ کلیدِ مثنوی نے شاید شیخ سعدی کی مذکورہ حکایت کا مطلب لے کر ہی وحدۃ الوجود کے مسئلے کو وحدت الشہود کی شکل میں مستحیل کر کے دکھایا ہے۔ چنانچہ کتاب مذکور میں لکھا ہے کہ "جملہ معشوق ست" ہم معنٰی "ہمہ اوست" کا ہے۔ جو گویا وحدۃ الوجود کا دعویٰ ہے۔ خلاصہ اس دعویٰ کا یہ ہے کہ ممکنات تو صرف موجودِ ظاہری ہیں اور حقیقت میں کوئی موجودِ حقیقی یعنی موصوف بکمال ہستی نہیں ہے بجز ذاتِ حق کے۔ جس طرح کوئی حاکم کسی داد خواہ سے کہے تم نے پولیس میں رپٹ لکھوائی؟ وہ عرض کرے جناب آپ ہی پولیس ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حاکم اور پولیس میں کوئی فرق نہیں۔ بلکہ حاکم کا صاحبِ اختیار ہونا مراد ہے۔ اسی طرح "ہمہ اوست" میں ”ہمہ“ اور ”او“ کا اتحاد مقصود نہیں۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ”ہمہ“ کی ہستی قابلِ اعتبار نہیں۔ صرف ”او“ کی ہستی قابلِ شمار ہے۔ ہستی تو باقی موجودات کی بھی ہے مگر ان کی ہستی ہستیِ کامل کے سامنے محض ایک ظاہری ہستی ہے حقیقی اور کامل نہیں۔ دوسرا مصرعہ اسی مضمون کی تفسیر ہے۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ ہر صفت کے دو درجے ہوتے ہیں۔ ایک کامل اور دوسرا ناقص اور یہ قاعدہ ہے کہ ناقص کو ہمیشہ کامل کے سامنے کالعدم سمجھا جاتا ہے مثلًا کوئی ادنیٰ درجہ کا حاکم کرسی اجلاس پر بیٹھا ہوا اپنی شانِ حکومت دکھاتا ہے۔ اتنے میں بادشاہِ وقت اتفاق سے بر سرِ اجلاس جا پہنچا تو حاکم مذکور کا نشۂ غرور ہرن ہو جاتا ہے۔ رعبِ سلطانی سے بے حس و حرکت ہو کر رہ جاتا ہے۔ گو اس وقت اس کا منصب و عہدہ معدوم نہیں ہوا۔ مگر کالعدم ضرور ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

عجب است باوجودت کہ وجودِ من بماند

تو بگفتن اندر آئی و مرا سخن بماند

اسی طرح ممکنات سے گو موجود ہیں مگر وجودِ حق کے رو برو ان کا وجود نہایت ناقص اور ضعیف و حقیر ہے۔ گو ان کے وجود کو معدوم نہیں کہہ سکتے مگر تقریبًا معدوم کے برابر ہے۔ ؎

بیادِ ہستی حافظ ز پیشِ او بردار

کہ با وجودِ تو کس نشنود ز من کہ منم

اس کو ”ادعائے“ وحدۃ الوجود کہا جاتا ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے:

یکے قطرۂ باراں ز ابرے چکید

خجل شد چو پہنائے دریا بدید

کہ جائیکہ دریا ست من کیستم

گر او ہست حقا کہ من نیستم

شیخ نے تصریح کر دی کہ ہست تو سب ہیں مگر ان کی ہستی ہستیِ حق کے سامنے ہستی کہلانے کے قابل نہیں۔ مولانا نے اس مصرعہ میں تمثیلًا فرمایا ہے کہ حضرتِ حق کو مثل زندہ کے سمجھو اور ممکن کو مثل مردہ کے۔ گو نعشِ مردہ بھی کسی درجہ کا وجود رکھتی ہے مگر زندہ کے سامنے اس کی ہستی قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ مردے کی ہستی ناقص ہے اور زندے کی کامل اور یہی حاصل وحدۃ الشہود کا ہے جس کا معنٰی ہے ہستیِ متعدد کا مشاہدہ میں ایک نظر آنا۔ شیخ نے ایک مثال اس سے بھی زیادہ واضح لکھی ہے:

مگر دیدہ باشی کہ در باغ و راغ

بتابد بشب کرمکے چوں چراغ

یکے گفتش اے کرمکِ شب فروز

چہ بودت کہ بیروں نیائی بروز

ببیں کاتشیں کرمکِ خاک زاد

جواب از سرِ روشنائی چہ داد

کہ من روز و شب جز بصحرا نیم

ولے پیشِ خورشید پیدا نیم

حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں مسئلوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ تحقیق یہ ہے کہ وحدۃ وجودی مرتبۂ ذات اور صرافتِ اطلاق میں حق متعین ہے اور توحیدِ شہودی جو غیریت کو ظاہر کرتی ہے تعینات کے مراتب میں واجب القبول ہے۔ پس یہ دونوں امر فی الواقع صحیح ہیں۔ حکمتِ الٰہی مقتضی ہوئی کہ اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلٰوۃ والتحیۃ کی نشوونما سے کمال کے آغاز میں علومِ توحید القاء کئے جائیں تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے قرب و معیت کے معنی سے متلذّذ ہو کر زہد و مجاہدہ میں مشغول ہوں۔ و لنعم ما قیل ؎

صنما رہِ قلندر سر زد ار بمن نمائی

کہ دراز و دور دیدم رہ و رسمِ پارسائی

جب یہ معرفت معراجِ کمال کو پہنچ گئی تو رفتہ رفتہ کج فہم لوگ عارفوں کے کلمات سے ملحدانہ معانی لینے لگے اور انہوں نے اس باریک معرفت کو تعطیلِ شرائح اور ابطالِ تکلیفات کا وسیلہ بنانا چاہا۔ چنانچہ شیخ محبّ اللہ الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب جو بظاہر وادیِ الحاد میں گام فرسا تھا زور و شور سے اطرافِ زمین میں پھیلنے لگا۔ یہاں تک کہ عنایتِ الہیہ حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کو بروئے کار لانے کی مقتضی ہوئی اور اس نے اپنے علوم عالیہ ان پر القاء کئے جن کی اشاعت نے بطور تعدیلِ الحاد بالبارد و الرطب بالیابس اپنا کام کیا حتٰی کہ لوگوں کے خیالاتِ زائغہ میں اعتدال آ گیا اور حق و باطل میں امتیاز پیدا ہو گیا۔ اور مجدّدیت کے معنٰی کا مصداق یہی ہے۔ انتہٰی۔

اے درؔد سبھوں سے بر ملا کہتا ہوں

توحید نہ میں چھپا چھپا کہتا ہوں

ملّا کو بھی اس میں نہیں چاہیے انکار

بندہ بندہ، خدا خدا کہتا ہوں

حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ کے فتاویٰ کی جلد اوّل نمبر 54 میں لکھا ہے۔ وحدت الوجود کے قائل کو کافر کہنا، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا، اس سے مناکحت نہ کرنا، اس کا ذبیحہ نہ کھانا ہر گز روا نہیں بلکہ اس کو مسلمان سمجھے اور اس کے ساتھ ابتداء بالسلام، جواب عطسہ، عیادتِ مریض شہودِ جنازہ لازم ہے۔ لیکن وحدۃ الوجود کا اعتقاد عقائدِ اسلام کی ضروریات میں داخل نہیں۔ اگر کوئی اس کا معتقد نہ ہو اور اس کو نہ سمجھے، اس کے اسلام میں کوئی نقصان نہیں۔ لیکن جو بزرگانِ دین اس کے معتقد ہیں ان کے حق میں کلماتِ نازیبا کہنے سے پرہیز لازم ہے۔ اور عوام الناس کو واجب ہے کہ اس مسئلہ میں اثباتًا و نفیًا کوئی بات منہ سے نہ نکالیں اور اس کے بارے میں بحث نہ کریں کہ فساد عقیدہ کا اندیشہ ہے۔ انتہٰی۔ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

تعیّن گر مٹے دل سے تو کفر آثار ہو جاوے

اگر عقدے کھلیں تسبیح کے زنار ہو جاوے

42

چوں نباشد عشق را پروائے او

او چو مُرغے ماند بے پر، وائے او

ترکیب: پہلا مصرعہ شرط۔ "او چو مرغے بے پر بماند" اس کی خبر۔ "وائے بر او" الگ جملہ ہے۔

صنائع: معشوق کو بطور مبالغہ عشق کہا ہے، جیسے "زَیْدٌ عَادِلٌ" کے بجائے "زَیْدٌ عَدْلٌ" کہہ دیتے ہیں۔ "پروائے او" اور "بے پروائے او" میں تجنیسِ مرفوہ ہے یعنی رفو دار۔

ترجمہ: جب معشوق کو اس کی پروا نہ ہو تو وہ ایک بے پر و بال پرندے کی طرح رہ گیا۔ اس کی حالت (پر) افسوس ہے۔

مطلب: اس شعر سے پھر عشق کی مدح مقصود ہے۔ یعنی عشق وصول الٰی الحق کا ذریعہ ہے کیونکہ عشق کی وجہ سے معشوق کو بھی عاشق کے حال پر توجہ ہو جاتی ہے اور یہی توجہ عاشق کے وصول بلکہ اس کے وجود کی باعث ہے۔ بقول غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

کند تاثیر در معشوق ہم بے تابی عشق

کہ مہ ہمچوں کتاں آخر گریباں چاک میگردد

لیکن جب معشوق کو پروا اور توجہ نہ رہے تو وہ قربِ معشوق حاصل نہیں کر سکتا بلکہ اس کا وجود ہی کالعدم ہو جائے گا (کذا فی بحر العلوم) بقول کسے ؎

اے واے بر اسیرے کز یاد رفتہ باشد

در دام ماندہ باشد صیاد رفتہ باشد

43

پرّ و بالِ ما کمندِ عشقِ اوست

مُو کشانش میکشد تا کوئے دوست

ترکیب: "کمندِ عشقِ او" مبیّن۔ دوسرا مصرعہ بیان۔ یہ دونوں مل کر مبتدا "پرّ وبالِ ما" خبر۔

صنائع: "کمندِ عشق" میں تشبیہ ہے۔ شبہ عقلی اور مشبہ بہ حسّی۔

ترجمہ: اس کے عشق کی کمند ہمارے (لیے) پر وبال کا کام دیتی ہے (جو) اس (عاشق) کو کوچۂ یار تک مُو کشاں لے جاتی ہے۔

مطلب: اس شعر سے اوپر کے شعر کی توضیح مقصود ہے۔ یعنی اس کی کمند عشق ہی وہ چیز ہے جو عاشق کو معشوق کی طرف جذب کرتی ہے۔ یہی اس کے پر وبال ہیں جس سے وہ اپنے محبوب کی طرف پرواز کرتا ہے اور جس کے بغیر وہ گویا مرغِ بے پر تھا۔ ؎

حافظ ہر آنکہ عشق نورزید وصل خواست

احرامِ طوفِ کعبۂ دل بے وضو بہ بست

الخلاف: یہ شعر بعض نسخوں میں نہیں ہے۔

44

من چہ گویم ہوش دارم پیش و پس

چُوں نباشد نور یارم پیش و پس

ترکیب: پہلا مصرعہ بایں تقدیر کہ "من چہ گویم ایں کہ ہوشِ پیش و پس دارم"۔ "ایں" مبیّن۔ جملہ ما بعد اس کا بیان۔ دونوں مل کر مقولہ ہوا "گویم" کا۔ اور یہ جملہ فعلیہ انشائیہ استفہامیہ ہو کر جزائے مقدّم ہوئی۔ دوسرا مصرعہ شرطِ مؤخّر۔

ترجمہ: جب میرے یار کا نور آگے پیچھے (ہر طرف) نہ ہو (تو) میں کیونکر کہہ سکتا ہوں کہ مجھے (اپنے) پس و پیش کا ہوش (باقی) ہے۔

مطلب: اگر خداوند تعالیٰ کی عنایت کا نور میری طرف رہنمائی کرنے والا نہ ہو تو مجھے اپنے پیش و پس کی کیا خبر رہے اور مکرِ شیطان سے کیونکر محفوظ رہوں۔ اکبر الہ آبادی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ ؎

نہ خلق اس کی خبر لیتی نہ عقل اس کی مدد کرتی

خدا جب تک کسی کا یاور و ناصر نہیں ہوتا

45

نُورِ اُو در یُمن و یُسر و تَحت و فَوق

بر سر و بر گردنم مانندِ طوق

ترکیب: "نُورِ او" مبتدا۔ "در یُمن و یُسر الخ۔ مرکب عطفی بعطف متوالی مجرور۔ جار و مجرور متعلق "موجود" خبرِ محذوف کے۔ مبتداء و خبر مل کر جملہ اسمیہ ہوا۔ دوسرا مصرعہ الگ جملہ اسمیہ ہے جس میں ضمیر مرفوع راجع بطرف نور مبتدا محذوف ہے۔ "مانندِ طوق" خبر۔ "بر سر و بر گردنم" متعلقِ خبر۔

ترجمہ: اس کا نور دائیں بائیں۔ نیچے اوپر (ہر طرف جلوہ گر ہے اور) میرے سر اور گردن پر طوق کی طرح (حاوی ہے)۔

مطلب: حق تعالیٰ کی معیت کا بیان ہے کہ اس کا نورِ عنایت میرے ہر طرف محیط ہے جس کے متعلق حدیث شریف میں دعا آئی ہے: "اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ مِنْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَّ مِنْ تَحْتِیْ نُوْرًا وَّ عَنْ یَّمِیْنِیْ نُوْرًا وَّ عَنْ شِمَالِیْ نُوْرًا" (صحیح مسلم) یعنی "الٰہی میرے اوپر اور نیچے اور دائیں اور بائیں نور ہی نور جلوہ گر کر دے"۔ مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا نور ہر جگہ اور تمام جہات میں اور ساری کائنات میں ساری و طاری ہے۔ جس کو سالک فنا کے بعد نزول کر کے کثرتِ متغائرہ میں مشاہدہ کرتا ہے۔ اگر یہ مشاہدہ نہ کرے تو گویا مقامِ فنا میں ہے اور پیش و پس کی خبر نہیں۔ جس کا اشارہ شعرِ سابق میں ہے۔

خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

گر معرفت کا چشمِ بصیرت میں نور ہے

تو جس طرف کو دیکھیے اس کا ظہور ہے

عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

آفتابے در ہزاراں آبگینہ تافتہ

پس برنگے ہر یکے تا بے عیاں انداختہ

46

عِشق خواہد کایں سخن بیروں رَود

آئینہ ات غماز نبود چوں بود؟

ترکیب: "خواہد" فعل۔ "عشق" فاعل۔ "ایں محذوف" مبیّن۔ باقی مصرعہ بیان۔ دوسرے مصرعہ کے شروع میں لاکن حرفِ استدراک اور چوں حرفِ شرط مقدر ہے۔ "آئینہ ات غماز نبود" شرط۔ "چوں بود" جزا۔

صنائع: "غماز" کنایہ ہے کسی کی صورت کا عکس دکھانے والی چیز سے۔ آئینہ استعارہ بالتصریح ہے قلب کے لیے۔

ترجمہ: عشق تو چاہتا ہے کہ یہ بیان (یعنی نور خدا کا مخلوق میں جلوہ گر ہونا) ظاہر ہو جائے لیکن جب آئینہ (ضمیر) عکس نما نہ ہو تو (یہ بات) کیونکر ہو سکے؟

مطلب: یعنی جوشِ عشق تو مقتضٰی ہے کہ وحدۃ الوجود یا مخلوق کے مظاہرِ خالق ہونے کا مسئلہ واشگاف بیان کر دیا جائے۔ لیکن جب سامع کا دل روشن نہ ہو تو اس میں ان باریک اسرار کا عکس کیوں کر پڑ سکتا ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎

بقدرِ آئینہ حسنِ تو مے نماید روے

دریغ کائینۂ ما نہفتہ در زنگ است

47

آئینہ ات دانی چرا غَمّاز نیست

زانکہ زنگار از رُخش ممتاز نیست

ترکیب: پہلا مصرعہ جملہ فعلیہ استفہامیہ بایں تقدیر کہ "آیا تو دانی کہ آئینۂ تو چرا غماز نیست؟"۔ دوسرے مصرعہ میں زاء تعلیلیہ جار۔ "آں" مبین۔ کاف بیانیہ۔ "زنگار از رخش الخ" جملہ اسمیہ ہو کر بیان۔ مبین و بیان مل کر مجرور ہوا۔ جار و مجرور مل کر متعلق جملہ فعلیہ مقدر یعنی "آئینۂ تو غماز نیست" کے۔ جو جوابِ استفہام ہے۔

ترجمہ: کیا تجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا آئینہ (دل) کیوں عکس نما نہیں۔ اس لیے کہ اس کے چہرے سے زنگار دور نہیں (کیا گیا)۔

مطلب: یعنی اے مخاطب تو اسرار و حقائق کو اس لیے نہیں سمجھ سکتا کہ تیرے آئینۂ قلب پر زنگِ غفلت چڑھا ہوا ہے اور اس زنگ کا باعث تعلقاتِ ما سویٰ اللہ ہیں۔ خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎

فارغ ہو بیٹھ فکر سے دونوں جہان کے

خطرہ جو ہے سو آئینۂ دل پہ زنگ ہے

عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

منم گر آئینہ تو چرا نے تابد

در رُخِ تو ہمانا کہ نیست آئینہ پاک

48

آئینہ کز زنگ و آلائشِ جُدا ست

پُر شعاعِ نورِ خورشیدِ خدا ست

ترکیب: "آئینہ" مبین باقی مصرعہ بیان۔ یہ دونوں مل کر مبتدا۔ دوسرا مصرعہ خبر۔

صنائع: آئینہ، زنگ، شعاع، نورِ خورشید میں مراعاۃ النظیر ہے۔

ترجمہ: جو آئینہ (قلب کہ غفلت کے) زنگ اور میل سے صاف ہے وہ خورشید خدا کے نور سے جگمگا رہا ہے۔

مطلب: اوپر آئینۂ مکدّر کا ذکر تھا۔ اب آئینۂ روشن کا وصف بیان فرماتے ہیں کہ جو آئینۂ دل تعلقاتِ ما سویٰ اللہ کی کدورت سے پاک ہو، وہ نورِ خدا سے منور ہے۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎

مے تواں دید ز ہر ذرہ فروغِ خورشید

دل اگر صاف شود روئے زمین آئینہ است

49

رَو تو زنگار از رُخِ او پاک کُن

بعد ازاں آں نور را اِدراک کُن

ترکیب: "رو تو" جملہ انشائیہ معطوف علیہ باقی مصرعہ جملہ فعلیہ انشائیہ معطوف۔ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ انشائیہ دوسرا معطوف۔ بعد ازاں ظرفِ زماں ہے۔

ترجمہ: (اے طالب) جا (پہلے) اس (آئینۂ دل) کے چہرے سے زنگار صاف کر۔ پھر اس نور کو حاصل کر۔

مطلب: یعنی اپنے آئینۂ دل کو نورِ حق سے منوّر کرنے کے لیے جو بات سب سے پہلے لازم ہے وہ یہ ہے کہ اس کو تعلقاتِ ما سوی اللہ سے پاک کرو۔ ؎

اے درؔد کر ٹک آئینۂ دل کو صاف تو

پھر ہر طرف نظارۂ حسن و جمال کر

50

ایں حقیقت را شنو از گوشِ دل

تا بروں آئی بکلّی ز آب و گِل

ترکیب: پہلا مصرعہ جملہ فعلیہ انشائیہ معلول۔ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ علت۔

صنائع: "آب و گل" مجازِ مرسل ہے جسمانیات سے۔

ترجمہ: اس سچی بات کو دل سے کان لگا کر سن، تاکہ تو آب و گل (یعنی جسمانیات کے بکھیڑوں) سے بالکل چھوٹ جائے۔

مطلب: صفائیِ باطن، تزکیۂ نفس اور تنویرِ قلب کی جو ہدایت اُوپر کی ہے اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ سچی بات گوشِ ہوش سے سنو اور عمل کرو تاکہ علائقِ سفلیہ سے پاک و صاف ہو جاؤ۔ کیونکہ علائقِ سفلیہ جسمانیہ ہی انسان کو عالمِ قدس کی سیر سے باز رکھتے ہیں۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎

چگونہ طواف کنم در فضائے عالمِ قدس

چو در سرا چہ ترکیب تختہ بندِ تنم

الخلاف: یہ شعر اور نیچے کا شعر بعض نسخوں میں مؤخر درج ہیں۔

51

فہم گر دارید جاں را رہ دہید

بعد ازاں از شوق پا در رہ نہید

ترکیب: پہلے مصرعہ میں دو جملے شرط و جزا مل کر جملہ شرطیہ ہو کر معطوف علیہ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ ہو کر معطوف حرفِ عطف محذوف ہے۔ "بعد ازاں" ظرفِ زمان۔

ترجمہ: اگر تم سمجھ (کا مادہ) رکھتے ہو تو (اپنی) روح کو (ترقی کا) راستہ دو۔ پھر اس راستے پر شوق سے چلو۔

مطلب: یعنی اگر کچھ اپنی بہبودیِ دارین کا خیال ہے تو روح کو تنزّل سے بچا کر روحانی عروج کی طرف متوجہ کرو اور پھر منزل بمنزل ترقی کرتے جاؤ۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

قدم پیش نہ کز مَلِک بگذری

و گر باز مانی ز دد کمتری