دفتر اول: حکایت: 3
عاجز شدنِ طبیباں از مُعالجۂ کنیزک و ظاہر شدن بر بادشاہ و رُو آوردنِ اُو بدرگاہِ پادشاہِ حقیقی
طبیبوں کا لونڈی کے معالجہ سے عاجز آنا اور بادشاہ کو معلوم ہو جانا اور اس کا بادشاہِ حقیقی کی طرف رجوع کرنا
1
شَہ چُوں عجزِ آں طبیباں را بدید
پا برہنہ جانبِ مسجد دوِید
ترجمہ: بادشاہ نے جب طبیبوں کی کمزوری ملاحظہ کی تو ننگے پاؤں مسجد کی طرف دوڑا۔
مطلب: بادشاہ نے ہر طرف سے مایوس ہو کر خدا کی طرف رجوع کیا اور خدا شناس کا یہی کام ہوتا ہے۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
کفِ نیاز بدرگاہِ بے نیاز برار
کہ کارِ مردِ خدا جز خدائے خوانی نیست
2
رفت در مسجد سُوئے مِحراب شد
سجدہ گاہ از اشکِ شاہ پُر آب شُد
ترکیب: "رفت" کا فاعل ضمیر راجع بہ بادشاہ ہے۔ "سُوئے" سے پہلے واؤ عاطفہ مقدّر ہے۔
ترجمہ: مسجد میں جا کر (سیدھا) محراب کی طرف گیا (اور سجدہ میں گر کر) بادشاہ (اس قدر رویا کہ اس) کے آنسوؤں سے سجدے کی جگہ پانی پانی ہو گئی۔
3
چوں بخویش آمد ز غرقابِ فنا
خوش زباں بکشاد در مدح و ثنا
صنائع: "فنا" کو "غرقاب" سے تشبیہ دی ہے اور وجہِ شبہ وہ کیفیت جس میں کوئی چیز ڈوب جائے۔
ترجمہ: جب (وہ) محویت کی گہرائی سے (نکل کر) آپے میں آیا تو (خدا کی) مدح و ثنا میں بخوبی زبان کھولی۔
4
کاے کمینہ بخشِشت ملکِ جہاں
مَن چگویم چُوں تو میدانی نِہاں
ترکیب: تقدیرِ کلام یوں ہے: "و ایں بگفت کہ اے آنکہ کمینہ بخششت الخ"۔ "بگفت" فعل جس میں ضمیر راجع بہ بادشاہ فاعل ہے۔ "ایں" مبیّن۔ کاف بیانیہ۔ "اے" حرفِ ندا۔ "آنکہ" اسمِ موصول۔ "کمینہ" مضاف۔ "بخششت" بترکیبِ اضافی مضاف الیہ۔ دونوں مل کر مبتدا۔ ملکِ جہاں" بترکیبِ اضافی خبر۔ دونوں مل کر جملہ اسمیہ ہو کر صلہ ہوئے۔ اسمِ موصول و صلہ مل کر منادیٰ ہوا۔ "چوں" حرفِ شرط۔ "میدانی" فعل۔ "تو" فاعل۔ "نہاں" مفعول بہ مل کر جملہ فعلیہ ہو کر شرط ہوئی۔ "من چہ چگویم" جملہ فعلیہ انشائیہ ہو کر جزا۔ شرط و جزا مل کر جملہ شرطیہ ہو کر جوابِ ندا۔ ندا اور جوابِ ندا مل کر بیان ہوا۔ مبیّن و بیان مل کر مقولہ ہوا بگفت کا۔
ترجمہ: (اور کہنے لگا) کہ اے (وہ ذاتِ پاک) جس کی ادنٰی بخشش (یہ) ہے (کہ) جہان بھر کا ملک (دے ڈالے)۔ میں (صاف صاف) کیا عرض کروں جب کہ تو خود چھپی باتیں جانتا ہے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
جام جہاں نماست ضمیر منیر دوست
اظہار احتیاجِ خود آں جا چہ حاجت ست
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
پیشِ اربابِ کرم شرط ادب نیست طلب
حاجتِ ما ہمہ دانند چہ حاجت بسوال
5
حالِ ما و ایں طبیباں سر بسر
پیشِ لُطفِ عامِ تو باشد ہَدر
ترکیب: "باشد" فعلِ ناقص۔ "حال" مضاف اور "ما و ایں طبیباں" مضاف الیہ، مل کر موکّد۔ "سر بسر" تاکید۔ یہ سب مل کر اسم ہوا۔ "ہدر" خبر۔ "پیشِ لطفِ عامِ تو" ظرف متعلقِ خبر۔
ترجمہ: ہمارا اور ان طبیبوں کا حال (یعنی عدمِ توکّل) تیرے لطفِ عام کے سامنے فضول ہے۔
مطلب: ہم نے تجھ پر بھروسہ نہ کیا۔ بے شک بُرا کیا۔ مگر تیری وسیع مہربانی کے آگے اس کی کیا حقیقت ہے۔
علاجِ دردِ عراقی بجز تو کس نکند
توئی کہ زندہ کنی مردہ را بہ کُنْ فَیَکُوْن
6
اے ہمیشہ حاجتِ ما را پناہ
بارِ دیگر ما غلط کردیم راہ
ترکیب: "اے" حرفِ ندا کے بعد آنکہ اسم موصول مقدّر۔ ما بعد کے الفاظ صلہ جن میں ہستی محذوف ہے دوسرا مصرعہ جوابِ ندا۔
ترجمہ: اے (وہ ذاتِ پاک جو) ہمیشہ ہماری حاجت کی پناہ (ہے) ہم پھر (سیدھے) راستے سے بھٹک گئے (کہ تجھ عالم الغیب کو حال سنانے لگے)۔
مطلب: پہلی غلطی ہم سے یہ ہوئی تھی کہ اطبّاء پر بھروسہ کیا جو خلافِ توکّل ہے۔ اب دوسری غلطی یہ ہوئی کہ تجھ علّام الغیب کو حال سنانے کی گستاخی کرنے لگے۔
7
لیک گفتی گرچہ میدانم سِرّت
زُود ہم پَیدا کُنَش بر ظاہرت
ترکیب: "لیک" استدراک ہے۔ "ما غلط کردیم" (یعنی اظہارِ حال کی غلطی) سے۔ "گرچہ میدانم سرت" شرط۔ دوسرا مصرعہ جزا۔ اور یہ جملہ شرطیہ مقولہ ہوا "گفتی" کا۔
ترجمہ: لیکن (چونکہ) تو نے فرمایا ہے کہ گو میں تیرا بھید جانتا ہوں مگر تو بھی اپنی ظاہری حالت کے موافق اسے بیان کر دے (اس لیے بیان کرتا ہوں)۔
مطلب: بے شک علّام الغیوب سے اظہارِ حال کرنا غلطی ہے۔ مگر اے خدا! چونکہ تیرا ارشاد ہے کہ ﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المومن: 60) یعنی "مجھ سے دُعا مانگو میں تمہاری دُعا قبول کروں گا"۔ اس لیے میں عرض کرتا ہوں۔ نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ ؎
تو گفتی ہر آں کس کہ در رنج و تاب
دعائے کند من کنم مستجاب
چو عاجز رہانندہ دانم ترا
دریں عاجزی چوں نخوانم ترا
8
چُوں برآورد از میانِ جاں خروش
اندر آمد بحرِ بخشایش بجوش
ترجمہ: جب اس (بادشاہ) نے تہِ دل سے فریاد کی تو (خدا کی) بخشش کا سمندر جوش میں آ گیا۔
مطلب: دعا کی قبولیت کے لیے یہ شرط ہے کہ کمالِ انکسار کے ساتھ اور تہِ دل سے کی جائے۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
اثر مجو ز دعا تا دلت درست بود
کہ در شکستگی ایں بیضہ بال و پر دارد
9
درمیانِ گریہ خوابش در ربُود
دِید در خواب او کہ پیرے رُو نمود
ترکیب: "خواب" فاعل ہے "بود" کا۔ "شین" ضمیر مفعول بہ۔ دوسرا مصرعہ بتقدیرِ عاطف الگ جملہ ہے۔
ترجمہ: اس (بادشاہ) کو روتے روتے نیند آ گئی۔ خواب میں دیکھا کہ ایک بوڑھا سامنے آیا۔ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بودم بخوابِ خوش کہ رسید از حریمِ دیر
پیریکہ رشحۂ قدحش رشک کوثر ست
10
گفت اے شہ مژدہ! حاجاتت رواست
گر غریبے آیدت فرد ز ماست
ترکیب: "گفت" کا فاعل ضمیر ہے جو "پیر" کی طرف راجع ہے۔ "اے شہ" ندا و منادیٰ۔ "مژدہ" فاعل ہے۔ "باد" فعلِ محذوف کا۔ فعل و فاعل مل کر جملہ فعلیہ ہو کر معلول ہوا۔ "حاجاتت رواست" علت۔ معلول و علت مل کر جملہ معلّلہ ہو کر مقولہ ہُوا گفت کا۔ دوسرا مصرعہ جملہ شرطیہ علیحدہ ہے۔
ترجمہ: اس نے کہا اے بادشاہ تجھے بشارت ہو تیری حاجتیں پوری ہوئیں۔ اگر کل کوئی اجنبی شخص آئے تو وہ ہماری طرف سے ہے۔
11
چُونکہ آید او حکیمِ حاذِق ست
صادِقش داں کو امین و صادق ست
ترکیب: "چونکہ آید" شرط۔ "بداں" فعل با فاعل محذوف۔ "ایں" مبیّن محذوف۔ "کہ" بیانیہ محذوف۔ "او حکیمِ حاذق ست" جملہ اسمیہ بیان۔ مبیّن و بیان مل کر مفعول بہ۔ اور یہ جملہ فعلیہ ہو کر جزا ہوئی۔ شرط و جزا مل کر جملہ شرطیہ ہُوا۔ صادقش جملہ فعلیہ معلول۔ "کو امین الخ" جملہ اسمیہ علت۔
صنائع: "امین و صادق" سے اسمائے پیغمبر صلّی اللہ علیہ و سلّم کی طرف تلمیح ہے اور اس حکیم کی تصدیق کے لیے اس کا امین و صادق ہونا حسنِ تعلیل ہے۔
ترجمہ: جب وہ آئے (تو سمجھ لو کہ) وہ حکیمِ حاذق ہے اس کو سچا سمجھو کیونکہ وہ امین اور صادق ہے۔
12
در عِلاجش سحرِ مطلق را ببیں
در مِزاجش قدرتِ حق را ببِیں
صنائع: شعر میں صنعت "ترصیع" ہے۔
ترجمہ: اس کے علاج میں پورے جادو (کا کرشمہ) دیکھ لینا۔ اس کے مزاج میں خدا کی قدرت (کا جلوہ) دیکھ لینا۔
غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
نماید حکمتش چوں در ضیا بخشی یدِ بیضا
گزارد پنبہ را بر داغِ ماہی از کفِ دریا
13
خفتہ بود ایں خواب دید آگاہ شد
گشتہ مَمْلوکِ کنیزک شاہ شد
صنائع: خفتہ و آگاہ اور مملوک و شاہ میں صنعتِ طباق۔
ترجمہ: وہ بادشاہ سو رہا تھا۔ خواب دیکھتے ہی جاگ اُٹھا (یا تو) لونڈی کا غلام بن رہا تھا (یا اب) بادشاہ (بن کر) گیا۔
مطلب: یا تو لونڈی کے غم میں بادشاہ غلاموں کی طرح مجبور اور بے بس ہو رہا تھا۔ یا اب یہ خواب دیکھ کر بادشاہوں کی طرح تمام قیودِ غم سے آزاد ہو کر گیا۔
14
چوں رسید آں وعدہ گاہ و رُوز شد
آفتاب از شرق اختر سوز شد
ترکیب: پہلے مصرعہ میں "رسید آں وعدہ گاہ" جملہ فعلیہ معطوف علیہ۔ شد "روز شد" میں فعلِ تام ہے اور یہ جملہ فعلیہ معطوف۔ معطوف علیہ اور معطوف مل کر شرط۔ دوسرا مصرعہ جزا۔
صنائع: "اختر سوز" کنایہ ہے طلوع سے۔
ترجمہ: جب وعدہ کا وقت آن پہنچا اور دن چڑھ گیا۔ سورج نے مشرق سے (نکل کر) ستاروں کو ماند کر دیا۔
15
بود اندر مَنظرہ شہ مُنتظِر
تابہ بیند آنْچہ بنمودند سِرّ
ترکیب: "بود" فعلِ ناقص۔ "شاہ" اسم۔ اور "منتظر" اپنے متعلق سمیت خبر۔ مل کر جملہ اسمیہ ہو کر معلول ہوا۔ دوسرا مصرعہ جملہ فعلیہ علت۔ "بنمودند" کی ضمیرِ فاعل "کارکنانِ قضا و قدر" کی طرف پھرتی ہے۔
صنائع: "منظرہ" اور "منتظر" میں تجنیسِ ناقص ہے۔
ترجمہ: بادشاہ (محل کی) کھڑکی میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا تاکہ جو بھید اس پر ظاہر کیا گیا ہے، اس کو دیکھ لے۔
16
دِید شخصے کاملے پُر مایۂ
آفتابے درمیانِ سایۂ
ترکیب: "دید" میں ضمیر مستتر جو بادشاہ کی طرف پھرتی ہے اس کی فاعل۔ "شخصے" موصوف اپنی دونوں صفتوں کے ساتھ مل کر مبیّن ہُوا۔ دوسرا مصرعہ بتقدیر ”کہ آفتابے درمیانِ سایہ بود“ بیان۔ مبیّن اور بیان مل کر مفعول بہ۔
صنائع: آفتاب و سایہ میں مراعاۃ النظیر ہے۔ آفتاب سے تشبیہ باعتبار انوار کمالات اور سایہ سے کفر و ضلالت کی تاریکی مراد ہے۔ بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آفتابِ احدیت ذاتِ حق سے اور سایہ تعینِ خاص سے استعارہ ہے۔
ترجمہ: (اتنے میں) اس نے ایک شخص کامل (اور) گُنوں میں پورا دیکھا جو سایہ میں آفتاب (یعنی اندھیرے کا اجالا) تھا (یا یوں کہو کہ جو احدیت کا ایک آفتاب تعینِ خاص کے سایہ میں نمایاں تھا)۔
مطلب: آفتابِ مذکور کی حقیقت پر روشنی ڈالنے کے لیے مولانا اسمٰعیل میرٹھی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کے یہ دو شعر خوب ہیں وہ اپنے شیخ کی مدح میں کہتے ہیں: ؎
ذات کا آئینۂ کامل بنا
یہ امانت تھی کہ تو حامل بنا
حامل و محمول میں یاں فرق کیا
شمسِ ربانی کو غَربْ و شرق کیا
17
میرسید از دور مانندِ ہلال
نیست و بُود ہَست بر شکلِ خیال
ترکیب: "میرسید" کی ضمیر فاعل شخص کی طرف راجع ہے دونوں مصرعے الگ الگ جملے ہیں۔
صنائع: آنے والے شخص کی تشبیہ ہلال کے ساتھ تشبیہِ مُرسل ہے۔
ترجمہ: وہ دور سے ہلال کی طرح (زار و نحیف صورت سے) چلا آتا تھا اور (جیسا کہ ہلال کا قاعدہ ہے) وہ خیال (میں آنے والی صورت) کی طرح کبھی نظر آ جاتا تھا اور کبھی نظر سے اوجھل ہو جاتا تھا۔
مطلب: ہلال کے ساتھ تشبیہ دو وجہ سے دی ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ شخص بوجہ ریاضت و مجاہدہ کے ضعیف و نحیف ہو رہا تھا۔ دوسرے ہلالِ عید کی طرح اس کا انتظار تھا۔ مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ شعر "آفتابے درمیان سایہ" کی تقریر ہے۔ یعنی وہ شخص اپنی حقیقت اور اس کی فنا کے لحاظ سے "نیست" تھا اور بقائے حق کے ساتھ وہ "ہست" تھا۔ یعنی وہ فنا فی اللہ و بقا باللہ کے مقام کو پہنچا ہوا تھا: ؎
سعدیا گر بکند سیلِ فنا خانۂ عمر
دل قوی دار کہ بنیادِ بقا محکم ازوست
خواجہ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
از پائے تا سرت ہمہ نورِ خدا شود
در راہِ ذوالجلال چو بے پا و سر شوی
مولانا اسمٰعیل میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو کس دلفریب انداز میں ادا کیا ہے: ؎
وہ جنتِ وصال جہاں تو ہو میں نہ ہوں
وہ دوزخِ فراق جہاں میں ہوں تو نہ ہو
18
نیست وش باشد خیال اندر جہاں
تو جہانے بر خیالے بیں رَوَاں
ترکیب: "باشد" فعلِ ناقص۔ "خیال" اسم۔ باقی کلمات متعلقہ خبر محذوف۔ دوسرا مصرعہ الگ جملہ ہے۔
ترجمہ: جہاں میں خیال بھی ایک بے بود چیز کی سی حیثیت رکھتا ہے (خیال تو خیال) تم جہان بھر کو (بے بود ہونے میں) خیال کی رفتار پر پاؤ گے۔ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
مت جا تر و تازگی پہ اس کے
عالم تو خیال کا چمن ہے
19
بر خیالے صلحِ شاں و جنگِ شاں
وز خیالے فخرِ شاں و ننگِ شاں
صنائع: یہ شعر مرصّع ہے۔
ترجمہ: لوگوں کی (باہمی) صلح و جنگ ایک (نہ ایک) خیال ہی پر موقوف ہوتی ہے اور خیال ہی سے ان کو فخر یا ندامت ہوتی ہے۔ مولانا اسمٰعیل میرٹھی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ: ؎
ہے میری ہستی اک طرفۂ مضمون
کچھ بھی نہیں ہوں پر میں ہی میں ہوں
20
آں خیالاتیکہ دامِ اولیا ست
عکسِ مہ رُویانِ بُستانِ خدا ست
ترکیب: "آں خیالاتے" موصول۔ "کاف" صلہ۔ اور باقی کلمات صلہ مل کر مبتدا۔ دوسرا مصرعہ خبر ہے۔
صنائع: اولیاء کے خیالات کو دام سے تشبیہ دی ہے جس میں وہ اسیر ہوتے ہیں۔ مہ رویان یعنی چاند کی شکل والے معشوق اللہ تعالیٰ کے علومِ متکثرہ سے، اور بستان اس کی صفتِ علمیہ سے استعارہ ہے۔
ترجمہ: (مگر ولیوں کے) وہ خیالات جو (ان) اولیاء (کو اپنا وابستہ شیفتگی کرنے میں ان) کے (لیے بمنزلہ) جال (کے) ہیں خداوند تعالیٰ کے باغ (علم) کے حسینوں (یعنی علومِ متکثرہ) کا پرتو ہیں۔
مطلب: اوپر کے دو شعروں میں جو خیال کے بے بنیاد اور نا چیز ہونے کا ذکر تھا۔ اب اس سے یہ استدراک کیا ہے کہ اولیاء اللہ کے خیالات کا یہ حال نہیں۔ بلکہ وہ ٹھیک اور ایک صحیح اصلیت پر مبنی ہوتے ہیں جن کو اصطلاحِ تصوف میں مراقبات و مکاشفات کہتے ہیں۔ اور جوں جوں یہ خیالات ترقی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دلبستگی و شیفتگی بڑھتی جاتی ہے۔ اس لیے وہ گویا اولیاء کے لیے دام ہیں۔ دوسرے مصرعہ میں ان کے صحیح اور محمود ہونے کا ذکر ہے کہ وہ خیالات محض فرضی و وہمی نہیں بلکہ وہ علومِ متکثرہ الٰہیہ کا عکس ہیں جو خدا کے باغِ علم کے حسین نونہال ہیں۔ چونکہ بفحوائے "اِنَّ اللہَ جَمِیْلٌ" اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سب جمیل ہیں اور علم بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس اعتبار سے ان علوم کو "مہ روئے" یعنی خوبرو کہا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ خیالات علومِ الٰہیہ کے فیوض ہیں۔ دنیا داروں اور جاہلوں اور کمالات کے جھوٹے مدعیوں کے خیالات کی طرح شیطانی وسوسے نہیں ہیں۔ صائب رحمۃ اللہ علیہ نے خوب کہا ہے: ؎
در تہِ تودۂ خاکستر ہستی چُوں برق
گرم روشنگرِ آئینۂ جانانِ خود اند
21
آں خیالے را کہ شہ در خواب دید
در رُخِ مہماں ہمے آمد پدید
ترجمہ: (چنانچہ) بادشاہ نے (بھی) جو خیالات خواب میں دیکھے تھے وہ مہمان کے چہرے میں بخوبی نمایاں تھے۔
مطلب: یہ کہ بادشاہ بھی اولیاء میں سے تھا۔ اس کے خیالات بھی حقیقتِ اصلیہ کا عکس تھے۔ چنانچہ خواب میں پیر مرد نے آنے والے مہمان کے جو اوصاف بیان کئے تھے وہ ٹھیک اس مہمان کے چہرے میں مشاہدہ کر لیے۔
22
نورِ حق ظاہر بود اندر ولی
نیک بیں باشی اگر اہلِ دلی
ترکیب: دوسرے مصرعہ میں "اہلِ دلی" کی "ی" بمعنی ہستی فعلِ ناقص۔ ضمیرِ خطاب اسم۔ "اہلِ دل" خبر۔ مل کر جملہ اسمیہ ہو کر شرط۔ "نیک بیں باشی" جملہ اسمیہ ہو کر جزا۔
ترجمہ: ولی (جو فانی فی اللہ اور باقی باللہ ہوتا ہے۔ اس) میں اللہ تعالیٰ کا نور درخشاں ہوتا ہے۔ اگر تو دل (کی بصیرت) رکھتا ہے تو اچھی طرح پہچان لے۔
مطلب: بادشاہ کو مہمان کی شناخت کیا مشکل تھی جب کہ اہلِ دل ولی کو اس کے غیبی امتیازات سے پہچان سکتے ہیں۔
غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ ؎
توتیائے حشم مہ جز پرتوِ خورشید نیست
ما بنورِ دوست مے بینم حسنِ روئے دوست
23
آں ولیِ حق چو پیدا شد ز دور
از سراپایِش ہمے میریخت نُور
صنائع: نور کی برسنے والی چیز سے تشبیہ استعارہ بالکنایہ ہے اور اس کے لیے "میریخت" کا ایراد استعارہ تخییلیہ ہے۔
ترجمہ: (القصہ) جب وہ ولِی حق دور سے ظاہر ہوا (گویا) اس کے سر سے پاؤں تک نور برستا تھا۔
24
شہ بجائے حاجباں در پیش رفت
پیشِ آں مہمانِ غَیبِ خویش رفت
ترکیب: "رفت" فعل۔ "شہ" فاعل۔ باقی کلمات متعلق۔ دوسرے مصرعہ میں "رفت" کی ضمیر مستتر فاعل۔ باقی کلمات بترکیبِ اضافی ظرف۔
ترجمہ: بادشاہ دربانوں کی طرح (خود) استقبال کے لیے اپنے اس غیبی مہمان کے سامنے گیا۔
مطلب: ایک سلطان کی سلطانی فقر کے سامنے جھکتی ہے۔ عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎
با عاشقانِ شیدا سلطان کجا براید
در پیش آشنایاں بیگانۂ چہ سنجد
25
ضَیفِ غیبی را چو استقبال کرد
چُوں شکر گوئی کہ پَیوست او بَوَرد
ترکیب: پہلا مصرعہ جملہ فعلیہ شرط دوسرے مصرعہ کی تقدیر یہ ہے "او (بآں مہمان) چناں پیوست کہ گوئی شکر بورد (پیوست)"۔ "پیوست" فعل اور فاعل۔ "چناں" اسمِ اشارہ تشبیہی۔ "پیوستنی" محذوف مشارٌ الیہ۔ دونوں مل کر مبیّن۔ کاف بیانیہ۔ "گوئی" فعل با فاعل قول۔ "شکر بورد پیوست" جملہ فعلیہ ہو کر مقولہ یہ سب مل کر بیان ہُوا۔ مبیّن و بیان مل کر مفعولِ مطلق۔
ترجمہ: اپنے غیبی مہمان کا جب استقبال کیا (تو اس سے پیار کے ساتھ یوں لپٹ گیا) گویا وہ شکر کی طرح گلاب کے پھول کے ساتھ گھل مل گیا۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر چند بروں نیتی از خاطرِ تنگم
پیش آے کہ چوں جاں کشمت تنگ در آغوش
26
ہر دو بحری آشنا آموختہ
ہر دو جاں بیدوختن بردوختہ
ترکیب: "ہر دو" مبتدا۔ باقی کلمات خبر۔ مصرعہ ثانیہ میں "ہر دو" مبتدا۔ "بر دوختہ" اپنے مفعول "جاں" اور متعلق کے ساتھ مل کر خبر۔ "بحری" منسوب بہ بحر۔
ترجمہ: دونوں (کے دونوں) دریائے (معرفت) کا تیرنا سیکھے ہوئے تھے۔ دونوں جانیں بلا سیئے (آپس میں) سلی ہوئی تھی۔ مولانا محمود الحسن محدث دیوبندی علیہ الرحمۃ ؎
قربِ جسمانی پہ ہے ان کے تعلق کا مدار
قربِ روحانی سے ہیں یکدل و یک جاں دونوں
27
آں یکے لب تشنہ واں دیگر چو آب
واں یکے مخمور و آں دیگر شراب
ترکیب: "یکے" اسمِ عدد اور اس کا معدود یعنی "شخص" محذوف مل کر مشارٌ الیہ۔ اسمِ اشارہ و مشارٌ الیہ مل کر مبتدا۔ "لب تشنہ" خبر۔ علیٰ ہذا باقی ترکیب۔
صنائع: یہ شعر تشبیہات پر مشتمل ہے اور طلب و شوق وجہِ شبہ ہے۔
ترجمہ: وہ ایک تو پیاسے کی طرح (تڑپتا) تھا اور وہ دوسرا پانی کی طرح (سیراب کرنے والا) تھا۔ وہ ایک مست تھا اور وہ دوسرا شراب ؎
جامی از بوئے تو شد مست نہ مے دید نہ جام
بزمِ عشق ست چہ جائے مے و جام ست اینجا
28
گفت معشوقم تو بُودستی نہ آں
لیک کار از کار خیزد در جہاں
ترکیب: "معشوقم الخ" جملہ اسمیہ مستدرک منہ۔ اور "لیک الخ" جملہ فعلیہ مستدرک۔ مل کر مقولہ ہُوا "گفت" کا۔ "تو" اور "نہ آں" معطوف علیہ مل کر اسم ہوا "بودستی" کا۔ "معشوقم" خبر۔
ترجمہ: بادشاہ بولا میرا معشوق (دراصل) تو ہی تھا نہ کہ وہ (لونڈی) لیکن دنیا میں ایک کام سے دوسرا کام نکلتا ہے۔ (اس لیے وہ میری معشوقہ قرار پائی۔)
مطلب: کام سے مراد غیبی مہمان کی زیارت۔ یعنی اللہ نے عشقِ کنیزک کو آپ کی زیارت کا سبب بنا دیا یا کام سے مراد کنیزک کی شفا یابی۔ اس لحاظ سے بادشاہ کی مراد یہ ہوگی کہ لونڈی کو معشوقہ بنانے سے میں اس کی بیماری پر مضطرب ہوا۔ شفا کے لیے دعا کی اور قبولیتِ دعا سے آپ کی تشریف آوری لونڈی کی شفا کا باعث ہو گئی۔ بس یہی کام اقتضائے حکمت تھا۔ ورنہ حقیقتًا وہ میری معشوقہ نہ تھی بلکہ آپ ہی کا مجھے عشق تھا۔
29
اے مرا تو مُصطفٰی من چُوں عُمر
از برائے خِدمتت بندم کمر
ترکیب: "اے" حرفِ ندا۔ "آں" مبین محذوف۔ باقی کلمات بیان۔ مبیّن و بیان مل کر منادٰی۔ دوسرا مصرعہ جوابِ ندا۔
ترجمہ: اے (وہ کہ) میرے لیے تو (گویا) مصطفٰی ہے۔ میں (تیرے لیے) مثل عمر ہوں تیری خدمت کے لیے میں کمر بستہ ہوں۔
مطلب: اس شعر سے اہلِ کمالات کی خدمت و اطاعت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے جو وسیلۂ مراداتِ کونین ہے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
شباں وادیِ ایمن گہے رسد بمراد
کہ چند سال بجاں خدمتِ شعیب کند
شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ جب یہ قصہ اممِ سابقہ کا ہے تو بادشاہ کو مصطفٰی اور عمر کی کیا خبر۔ جواب یہ ہے کہ یہ مقولہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اور مدّعا یہ ہے کہ ایک تابع اپنے متبوع کے لیے کمالِ اطاعت کا قرار کر رہا ہے جس کے لیے مولانا نے شاعرانہ تمثیل کے طور پر آنحضرت صلّی اللہ علیہ و سلّم اور خلیفۂ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام پاک پیش کر دیئے اور تقویتِ کلام کے لیے اس ذکر کو خود بادشاہ کا مقولہ فرض کر لیا۔