مکتوب 98
عبد القادر1 پسر شیخ زکریا کی طرف صادر فرمایا۔ احادیثِ نبویہ علی مصدرہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی روشنی میں نرمی اختیار کرنے اور سختی ترک کرنے کی ترغیب کے بیان میں۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ مرکزِ عدالت پر استقامت نصیب فرمائے۔ نبی کریم علیہ من الصلوات أفضلها و من التسلیمات أکملہا کی چند احادیث جو تذکیر و وعظ و نصیحت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، لکھی جاتی ہیں حق سبحانہٗ و تعالیٰ ان کے موافق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُّحِبُّ الرِّفْقَ وَ یُعْطِيْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِيْ عَلَی الْعُنْفِ وَ مَا لَا یُعْطِيْ عَلٰی مَا سِوَاہُ" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2593) ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ رفیق ہے (اپنے بندوں پر لطف و نرمی کرنے والا ہے) اور نرمی کرنے پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سختی اور نرمی کے سوا کسی اور چیز پر عطا نہیں کرتا“۔
(2) اور مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: "عَلَیْکِ بِالرِّفْقِ وَ إِیَّاکِ الْعُنْفَ وَ الْفُحْشَ اِنَّ الرِّفْقَ لَا یَکُوْنُ فِيْ شَيْءٍ إِلَّا زَانَہٗ وَ لَا یُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَہٗ" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2594) ترجمہ: ”یعنی اپنے اوپر نرمی کو لازم کر اور اپنے آپ کو درشت خوئی اور بے جا گفتگو سے دور رکھ کیونکہ نرمی جس چیز میں بھی ہو اس کو زینت دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکل جاتی ہے اس کو عیب دار کر دیتی ہے“۔
(3) اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "مَنْ یُّحْرَمِ الرِّفْقَ یُحْرَمِ الْخَیْرَ" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2592) ترجمہ: ”یعنی جو شخص لطف و نرمی سے (اچھی عادتوں سے) محروم ہے وہ ہر نیکی سے محروم کر دیا جاتا ہے“۔
(4) اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "إِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ إِلَيَّ أَحْسَنُکُمْ أَخْلَاقًا" (صحيح بخاری، حدیث نمبر: 3759) ترجمہ: ”بے شک تم میں سب سے زیادہ محبوب (پسندیدہ) میرے نزدیک وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں“۔
(5) اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "مَن اُعْطِيَ حَظَّہٗ مِنَ الرِّفْقِ اُعْطِيَ حَظَّہٗ مِنَ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ" (شرح السنہ، حدیث نمبر: 3491) ”جس کو لطف و نرمی کا کچھ حصہ دیا گیا اس کو دنیا و آخرت (کی نیکی) کا حصہ دیا گیا“۔
(6) اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "اَلْحَیَاءُ مِنَ الْإِیْمَانِ وَ الْإِیْمَانُ فِي الْجَنَّۃِ وَ الْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ وَ الْجَفَاءُ فِي النَّارِ" (احمد حدیث نمبر: 10512 و ترمذی، حدیث نمبر: 2009) ترجمہ: ”حیا ایمان سے ہے اور اہلِ ایمان جنت میں ہے اور فحش کلامی و بے ہودہ گوئی جفا و بدی سے ہے اور (اہلِ جفاء دوزخ میں ہے“۔
(7) "إِنَّ اللّٰہَ یُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيَّ" (ترمذی، حدیث نمبر: 2002) ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ حد سے زیادہ تجاوز کرنے والے بے ہودہ گو کو دشمن رکھتا ہے“۔
(8) "أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَّحْرُمُ عَلَی النَّارِ وَ بِمَنْ یَّحْرُمُ النَّارُ عَلَیْہِ" ترجمہ: ”کیا میں تمھیں خبر نہ دوں کہ کون سا شخص دوزخ کی آگ پر حرام ہے اور دوزخ کی آگ کس شخص پر حرام ہے؟“ (سنو!) "عَلی کُلِّ ھَیِّنٍ لَیِّنٍ قَرِیْبٍ سَھْلٍ" (ترمذی، حدیث نمبر: 2488) ترجمہ: ”ہر ایک نرم و متواضع (آہستہ روی والے) قریب و سہل (نرم طبع و نرم خو) والے پر حرام ہے“۔
(9) "اَلْمُؤْمِنُوْنَ ھَیِّنُوْنَ لَیِّنُوْنَ کَالْجَمَلِ الْأَنِفِ إِنْ قِیْدَ اِنْقَادَ وَ إِنِ اسْتُنِیْخَ عَلی صَخْرَۃِنِ اسْتَنَاخَ" (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 5086) ترجمہ: ”تمام مؤمنین نرم طبع (نرمی کے موقع پر ناک میں نکیل (مہار) والے اونٹ کی طرح مطیع ہوتے ہیں اگر اس (اونٹ) کو آگے سے کھینچا جائے تو مطیع ہو کر چل پڑتا ہے اور جب اس کو کسی پتھر پر بٹھایا جائے تو بیٹھ جاتا ہے“۔
(10) "مَنْ كَظَمَ غَیْظًا وَ ھُوَ يَقْدِرُ عَلٰی أَنْ یُّنَفِّذَہٗ دَعَاہُ اللہُ عَلٰی رُءُوْسِ الخَّلَائِقِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُخَیِّرَہٗ فِيْ أَيِّ الْحَوْرَآءِ شَآءَ" (ترمذی، حدیث نمبر: 2493) ”جس نے غصے کو ضبط کر لیا حالانکہ وہ اس کے جاری کرنے پر (بدلہ لینے پر) قدرت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو سب مخلوق کے سامنے بلائے گا یہاں تک کہ اس کو اختیار دیا جائے گا جس حور کو چاہے پسند کر لے“۔
(11) "إِنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ عَلی آلِہٖ وَ سَلَّمَ أَوْصِنِيْ قَالَ لَا تَغْضَبْ فَرَدَّ مِرَارًا قَالَ لَا تَغْضَبْ" (صحيح بخاری، حدیث نمبر: 6116) ترجمہ: ”تحقیق ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے وصیت (نصیحت) فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا غصہ مت کیا کر۔ اس نے کئی مرتبہ اپنی بات کو دہریا (یعنی نصیحت طلب کرنے کے لئے عرض کیا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دفعہ یہی جواب میں فرمایا کہ غصہ مت کیا کر“۔
(12) أَلَآ أُخْبِرُکُمْ بِأَھْلِ الْجَنَّۃِ کُلُّ ضَعِیْفٍ مُّتَضَعَّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللہِ لَأَبَرَّہٗ أَلَآ أُخْبِرُکُمْ بِأَھْلِ النَّارِ کُلُّ عُتُلٍّ جَوَّازٍ مُسْتَکْبِرٍ" (متفق علیہ، حدیث نمبر: 4918) ترجمہ: ”کیا میں تم کو اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ (سنو!) ہر وہ شخص جو ضعیف ہے اور جس کو حقیر سمجھا جائے اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم کو سچا کر دے، (وہ اہل جنت میں سے ہے)۔ (نیز فرمایا) کیا میں تم کو اہل دوزخ کی خبر نہ دوں؟ (سنو!) ہر وہ شخص ہے جو سرکش بد گو، جھگڑالو اور متکبر ہے (وہ اہل دوزخ سے ہے“۔
(13) "إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَ ھُوَ قَائِمٌ فَلْیَجْلِسْ فَإِنْ ذَھَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَ إِلَّا فَلْیَضْطَجِعْ" (احمد، حدیث نمبر: 21348) ترجمہ: ”جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اگر اس وقت وہ کھڑا ہوا ہو تو اس کو چاہیے کہ بیٹھ جائے پس (ایسا کرنے سے) اگر اس کا غصہ دور ہو جائے (تو بہتر ہے) ورنہ اسے چاہیے کہ پہلو پر لیٹ جائے)۔
(14) "إِنَّ الْغَضَبَ لَیُفْسِدُ الْإِیْمَانَ کَمَا یُفْسِدُ الصَّبْرُ الْعَسَلَ" (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 5118) ترجمہ: ”بے شک غصہ ایمان کو ایسا بگاڑ دیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو بگاڑ دیتا ہے“۔
(15) "مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللهُ فَھُوَ فِی نَفْسِہٖ صَغِیْرٌ وَّ فِی أَعْیُنِ النَّاسِ عَظِیْمٌ وَّ مَنْ تَکَبَّرَ وَضَعَہُ اللہُ فَھُوَ فِی اَعْیُنِ النَّاسِ صَغِیْرٌ وَّ فِی نَفْسِہٖ کَبِیْرٌ حَتَّی لَھُوَ أَھْوَنُ عَلَیْھِمْ مِنْ کُلْبٍ أَوْ خِنْزِیْرٍ" (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 5119) ترجمہ: ”جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بلند کر دیتا ہے پس وہ (تواضع و انکساری کرنے والا) اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں بڑا ہوتا ہے اور جس شخص نے تکبر کیا اللہ تعالیٰ نے اس کو حقیر و پست کر دیا پس وہ لوگوں کی نظروں میں صغیر (چھوٹا) ہوتا ہے لیکن خود اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے حتی کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور سور سے بھی زیادہ حقیر و خفیف ہوتا ہے“۔
(16) قَالَ مُوْسَی بْنُ عِمْرَانَ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ: "یَا رَبِّ مَنْ أَعَزُّ عِبَادِکَ؟ قَالَ مَنْ إِذَا قَدَرَ غَفَرَ" (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 5120) ترجمہ: ”حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے عرض کیا: اے رب! تیرے نزدیک تیرے بندوں میں سے کون سب سے زیادہ عزیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ شخص جو (بدلہ لینے پر) قادر ہونے کے با وجود معاف کر دے“۔
(17) اور نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "مَنْ خَزَنَ لِسَانَہٗ سَتَرَ اللہُ عَوْرَتَہٗ وَ مَنْ کَفَّ غَضَبَہٗ کَفَّ اللہُ عَنْہُ عَذَابَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ مَنِ اعْتَذَرَ إِلَی اللہِ قَبِلَ اللہُ عُذْرَہٗ" (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 5121) ترجمہ: ”جس شخص نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کے عیب ڈھانپ لے گا اور جس شخص نے اپنے غصے کو روکا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس سے اپنا عذاب روک لے گا۔ اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عذر خواہی کی اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرما لے گا (اس کو معاف کر دے گا)“ ۔
(18) اور نیز آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: "مَنْ کَانَتْ لَہٗ مَظْلِمَۃٌ لِّاَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ أَوْ شَيْءٍ فَلْیَتَحَلَّلْ مِنْهُ الْیَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَّا یَکُوْنَ دِیْنَارٌ وَّ لَا دِرْھَمٌ إِنْ کَانَ لَہٗ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِہٖ وَ إِنْ لَّمْ یَکُنْ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَیِّئَاتِ صَاحِبِہٖ فَحُمِلَ عَلَیْہِ" (صحيح بخاری، حدیث نمبر: 2449) ترجمہ: ”جس شخص پر اپنے کسی (مسلمان) بھائی کا کوئی حق اس کی عزت و آبرو سے یا کسی اور چیز سے ہے (یعنی اس نے کسی کا کوئی مالی یا کوئی اور حق بطور ظلم دبا لیا ہو) تو اس کو چاہیے کہ آج (دنیا ہی میں) اس سے معاف کرا لے۔ اس (قیامت کے) دن سے پہلے جب کہ اس کے پاس کوئی دینار و درہم نہ ہو گا (اس دن) اگر اس کے پاس کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے موافق اس سے لے لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس صاحب حق (مظلوم) کی برائیاں لے کر اس ظالم کے اوپر ڈال دی جائیں گی“۔
(19) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "أَ تَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا اَلْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ لَّا دِرْھَمَ لَہٗ وَ لَا مَتَاعَ فَقَالَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہٖ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِيْ مَنْ یَّاْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصَلٰوۃٍ وَّ صِیَامٍ وَّ زَکٰوۃٍ وَّ یَاْتِی قَدْ شَتَمَ ھٰذَا وَ قَذَفَ ھٰذَا وَ أَکَلَ مَالَ ھٰذَا وَ سَفَکَ دَمَ ھٰذَا وَ ضَرَبَ ھٰذَا فَیُعْطٰی ھٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ وَ ھٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ فَإِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُہٗ قَبْلَ اَنْ یُّقْضٰی مَا عَلَیْہِ أُخِذَ مِنْ خَطَایَاھُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ طُرِحَ فِی النَّارِ" (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 2581) ترجمہ: ”یعنی کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس درہم (مال) و اسباب کچھ نہ ہو۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے اور ساتھ ہی اس حال میں آئے کہ اس نے کسی کو گالی دی ہے، کسی کو تہمت لگائی ہے، کسی کا مال کھایا ہے کسی کا خون بہایا ہے اور کسی کو مارا ہے، پس ان میں سے ہر شخص کو اس کی نیکیوں میں (بقدر حق) دیا جائے گا۔ پھر اگر لوگوں کے وہ حقوق جو اس پر ہیں ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو حق داروں کی خطائیں (گناہ) لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا“۔
(20) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو لکھا کہ آپ مجھے کچھ نصیحت تحریر فرمائیں لیکن بہت نہ ہو (بلکہ مختصر ہو) پس انھوں نے لکھا: "سَلَامٌ عَلَیْکُمْ أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ سَلَّمَ یَقُوْلُ مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللہِ بِسَخَطِ النَّاسِ کَفَاہُ اللہُ مَؤُنَۃَ النَّاسِ وَ مَنِ الْتَمَسَ رِضَی النَّاسِ بِسَخَطِ اللہِ وَ کَّلَہُ اللہُ إِلَی النَّاسِ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ" (ترمذی، حدیث نمبر: 2414) ترجمہ: ”آپ پر سلام ہو، اس کے بعد واضح ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص لوگوں کی نا راضگی کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کی رو گردانی اور تکلیف سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نا راضگی کے مقابلے میں لوگوں کی رضا مندی چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے حوالہ کر دیتا ہے اور تجھ پر سلام ہو“2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سچ فرمایا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو اور آپ کو ان سب باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو مخبر صادق صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی ہیں۔
یہ حدیثیں اگرچہ ترجمے کے بغیر لکھی گئی ہیں لیکن شیخ جیو3 کی خدمت میں حاضر ہو کر ان حدیثوں کے معانی سمجھ کر کوشش کریں کہ ان کے موافق عمل میسر ہو جائے۔ دنیا کا قیام بہت تھوڑا ہے اور آخرت کا عذاب بہت سخت اور دائمی ہے، عقلِ دور اندیش سے کام لینا چاہیے اور دنیا کی پھیکی ترو تازگی پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر دنیا کی وجہ سے کسی کی عزت و آبرو ہوتی تو دنیا دار کافر سب سے زیادہ عزت والے ہوتے۔ دنیا کے ظاہر پر فریفتہ ہونا بے وقوفی ہے۔ چند روزہ فرصت کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور حق تعالیٰ کی خوشنودیوں میں کوشش کرنی چاہیے اور مخلوق خدا پر احسان کرنا چاہیے۔ اَلتَّعْظِیْمُ لِأَمْرِ اللہِ وَ الشَّفْقَۃُ عَلٰی خَلْقِ اللہِ (اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعظیم کرنا (یعنی اس کے مطابق عمل کرنا) اور مخلوقِ خدا پر شفقت کرنا) یہ دونوں آخرت کی نجات کے لئے اصلِ عظیم ہیں۔ مخبر صادق علیہ الصلوۃ و السلام نے جو کچھ فرمایا ہے، حقیقت امر کے مطابق ہے بے ہودہ بکواس اور بہکی ہوئی باتیں نہیں ہیں۔ یہ خوابِ خرگوش کب تک، آخر (اس کا نتیجہ) رسوائی در رسوائی اور خواری در خواری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿أَ فَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ أَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (المؤمنون: 115) ترجمہ: ”بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمہیں یونہی بے مقصد پیدا کر دیا، اور تمہیں واپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا؟“۔
اگرچہ معلوم ہے کہ تمھارا وقت اس قسم کی باتیں سننا گوارا نہیں کرتا (کیونکہ) نو جوانی کا آغاز ہے اور دنیوی عیش و آرام سب میسر ہیں اور مخلوق پر حکومت و غلبہ حاصل ہے لیکن آپ کے حال پر جو شفقت ہے، وہ (شفقت) اس گفتگو کا باعث ہو رہی ہے۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا، توبہ و انابت (رجوع الی اللہ) کا وقت موجود ہے اس کی خبر دینا ضروری ہے۔
در خانہ اگر کس است یک حرف بس است
ترجمہ:
گھر میں کوئی ہو تو بس ایک بات کافی ہے اُسے
1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے۔ آپ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خسر شیخ سلطان کے بھائی شیخ زکریا کے صاحب زادے ہیں۔
2 رَوَاهُ التِّرْمَذِيُّ، اور یہ سب حدیثیں مشکوٰۃ شریف سے ملتقط ہیں۔