دفتر 1 مکتوب 97: اس بیان میں کہ مامورہ (حکم دی ہوئی) عبادتوں سے مقصود یقین کا حاصل کرنا ہے اور اس کے مناسب بیان میں

مکتوب 97

شیخ درویش؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ مامورہ (حکم دی ہوئی) عبادتوں سے مقصود یقین کا حاصل کرنا ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔

حق سبحانہٗ و تعالیٰ حضرت سید المرسلین علیہ و علیٰ آلہ و علیہم من الصلوات أتمہا و من التسلیمات أکملہا کے طفیل ہم مفلسوں کو ایمان کی حقیقت سے مشرف فرمائے۔ جس طرح انسان کی پیدائش سے مقصود مامورہ (حکم دی ہوئی) عبادتوں کا بجا لانا ہے اسی طرح حکم دی ہوئی عبادتوں کے ادا کرنے سے مقصود یقین کا حاصل کرنا ہے جو کہ ایمان کی حقیقت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آیت کریمہ ﴿وَ اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ﴾؂2 (الحجر: 99) ترجمہ: ”اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو، یہاں تک کہ تم پر وہ چیز آ جائے جس کا آنا یقینی ہے“۔ میں اس معنی کی طرف اشارہ ہو کیونکہ کلمہ حتیٰ جس طرح نہایت و غایت کے معنی میں آتا ہے سبب اور علت ہونے کے لئے بھی آتا ہے یعنی "لِاَجْلِ اَنْ یَّاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ" (تاکہ تجھ کو یقین حاصل ہو جائے) گویا جو ایمان عبادت ادا کرنے سے پہلے ہے وہ ایمان کی صورت ہے نہ کہ ایمان کی حقیقت جس کو یہاں یقین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا آمِنُوا… الآیہ﴾ (النساء: 136) ترجمہ: ”اے ایمان والو! اللہ پر ایمان رکھو“۔ "اَيْ الَّذِیْنَ آمَنُوا صُوْرَۃً آمِنُوا حَقِیْقَۃً بِأَدَآءِ وَظَائِفِ الْعِبَادَاتِ الْمَأْمُوْرَةِ" ترجمہ: ”یعنی اے لوگو! جو ظاہری طور پر ایمان لائے ہو عبادات مامورہ کے وظائف کی ادائیگی کے ساتھ حقیقی طور پر ایمان لاؤ“۔ اور فنا و بقا کہ جس کے حاصل ہونے کو ولایت سے تعبیر کرتے ہیں اس سے مقصود صرف یہی یقین ہے اور بس۔ اگر فنا فی اللہ اور بقا باللہ سے کچھ اور معنی مراد لے جائیں تو حالیت (حلول کرنے) اور محلیت (محلِ خدا ہونے) کے وہم میں ڈالنے والے ہوں تو یہ عین الحاد اور زندقہ ہے۔ غلبۂ حال اور سکر وقت میں ایسی بہت سی چیزیں ظاہر ہو جاتی ہیں کہ جن سے آخر کار گزر جانا چاہیے اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

ابراہیم بن شیبان؂3 جو کہ مشائخ طبقات قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ "فنا و بقا کا علم وحدانیت کے اخلاص اور عبودیت کی صحت کے گرد گھومتا ہے اور اس کے ما سوا غلطی اور زندقہ ہے"۔ حق یہ ہے کہ وہ (ابراہیم) سچ فرماتے ہیں اور یہ کلام ان کی استقامت کی خبر دیتا ہے۔ فنا فی اللہ سے مراد حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی مرضیات میں فنا ہونا ہے اور سیر الی اللہ و سیر فی اللہ وغیرہ اسی قیاس پر ہیں۔

اور دوسری بات یہ ہے جس کی آپ کو تکلیف دی جاتی ہے کہ نیکیوں کے آثار والے شیخ اللہ بخش نیکی و تقویٰ و فضیلت سے آراستہ ہیں اور ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ وابستہ (تعلق رکھتی) ہے۔ اگر کسی کام کے بارے میں کچھ مدد طلب کریں تو امید ہے کہ ان کے حال پر اپنی بزرگ توجہ فرمائیں گے۔ وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (آپ پر اور ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر سلام ہو)۔

؂1 آپ کے نام تین مکتوب ہیں یعنی دفتر اول مکتوب 41، 42 اور 97۔ لہذا مختصر تعارف مکتوب نمبر 41 میں ملاحظہ ہو۔

؂2 اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے یقین سے مراد موت لی ہے اور کلمۂ حتّٰی کو غایت و نہایت کے معنی میں لیا ہے اور عبادت پر استقامت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت مجدد صاحب قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ حتّٰی علت و سبب کے لئے ہو اور یقین اپنے معنی پر ہو۔

؂3 ابراہیم بن شیبان رحمۃ اللہ علیہ جو کہ مشائخِ طبقاتِ چہارم سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کی کنیت ابو اسحاق ہے۔ جیلانی بزرگ ہیں، اپنے زمانے میں ورع و تقوی میں اس درجے کے مقامات رکھتے تھے کہ مخلوق ان سے عاجز ہے۔ عبد اللہ مغربی اور ابراہیم خواص کے اصحاب میں سے ہیں۔ لوگوں نے عبد اللہ (مغربی) سے پوچھا کہ آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ابراہیم فقرا و اہلِ آداب پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہیں۔ سنہ 337ھ میں وفات پائی۔ آپ فرماتے ہیں جس شخص نے مشائخ کی حرمت نگاہ میں نہ رکھی وہ جھوٹے دعوے و بے ہودہ لاف و گزاف میں گرفتار ہے۔ (نفحات)