دفتر 1 مکتوب 96: تسویف (آج کا کام کل پر ڈالنے) و تاخیر سے منع اور اس پر زجر کرنے اور حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کی متابعت پر ترغیب دلانے اور اس کے مناسب بیان میں

مکتوب 96

محمد شریف؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ تسویف (آج کا کام کل پر ڈالنے) و تاخیر سے منع اور اس پر زجر کرنے اور حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کی متابعت پر ترغیب دلانے اور اس کے مناسب بیان میں۔

اے فرزند! آج جب کہ فرصت کا وقت ہے اور (دل کی) جمعیت (اطمینان) کے اسباب سب میسر ہیں، تسویف (آج کا کام کل پر ڈالنے) اور تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ سب سے بہترین اوقات کو جو کہ نوجوانی کا زمانہ ہے بہترین اعمال میں یعنی مولیٰ تعالیٰ و تقدس کی طاعت اور عبادت میں مشغول رکھنا چاہیے۔ شرعی طور پر جو چیزیں حرام و مشتبہ ہیں ان سے بچتے ہوئے پانچوں وقت کی نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا لازمی طور پر اختیار کرنا چاہیے اور زکوۃ کا نصاب؂2 موجود ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کا ادا کرنا اسلام کی ضروریات میں سے ہے اس کو بھی خوشی و رغبت سے بلکہ (حق تعالیٰ کا) احسان مانتے ہوئے ادا کرنا چاہیے۔ حق تعالیٰ نے اپنا کمال کرم فرما کر سارے دن میں پانچ وقت عبادت کے لئے مقرر کئے ہیں اور بڑھنے والے مالوں اور چرنے والے چوپایوں میں سے چالیسواں حصہ تحقیقی طور پر یا اندازًا فقراء کے لئے مقرر فرمایا ہے اور مباحات میں تصرف کرنے کا میدان وسیع کر دیا ہے (تو پھر) کس قدر نا انصافی ہے کہ دن رات کی ساٹھ گھڑیوں میں سے دو گھڑی بھی حق تعالیٰ کی عبادت میں خرچ نہ ہوں اور چالیس حصوں میں سے ایک حصہ بھی فقرا کو نہ دیا جائے اور مباحات کے وسیع دائرے سے باہر نکل کر محرمات و مشتبہات میں جا پڑے۔

جوانی کے زمانے میں جب کہ نفس امارہ کے غلبہ اور شیطان لعین کی حکومت کا وقت ہے تھوڑے سے عمل کو بہت زیادہ اجر کے عوض قبول کرتے ہیں اور کل جب کہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچا دیئے جائیں گے اور حواس اور قوتوں میں سستی پیدا ہو جائے گی اور جمعیت و سکون کے اسباب منتشر ہو جائیں گے (اس وقت) حسرت و پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کل تک مہلت نہ دیں اور ندامت و پشیمانی کا موقع بھی جو کہ ایک قسم کی توبہ ہے میسر نہ ہو اور ہمیشہ کا عذاب اور دائمی سزا جس کی نسبت پیغمبر صادق علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ نے خبر دی ہے اور گناہ گاروں کو اس سے ڈرایا ہے وہ در پیش ہے۔ اس وعید کے خلاف ہرگز نہ ہو گا (اس سے ضرور دو چار ہونا پڑے گا)۔ آج شیطان اللہ تعالیٰ جل سلطانہٗ کے کرم کا دھوکہ دے کر سستی میں ڈالتا ہے اور اس کے عفو و معافی کا بہانہ بنا کر گناہوں کا مرتکب بناتا ہے۔

خوب اچھی طرح جان لیں کہ دنیا کا گھر جو کہ آزمائش و ابتلا کا مقام ہے (یہاں) دشمن اور دوست کو خلط ملط کر دیا گیا ہے اور دونوں کو رحمت میں شامل کر دیا ہے۔ آیت کریمہ ﴿وَ رَحْمَتِيْ وَسِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ﴾ (الأعراف: 156) ترجمہ: ”اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ہے وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے“۔ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اور قیامت کے روز دشمن کو دوست سے جدا کر دیا جائے گا۔ آیت کریمہ ﴿وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ أَیُّھَا الْمُجْرِمُونَ﴾ (یس: 59) ترجمہ: ”(اور کافروں سے کہا جائے گا کہ) اے مجرمو! آج تم (مومنوں سے) الگ ہو جاؤ“۔ اسی مضمون کی خبر دے رہی ہے۔ اس وقت "رحمت کا قرعہ" دوستوں کے نام نکلے گا اور دشمنوں کو مطلقا محروم اور حقیقتاً ملعون قرار دے دیا جائے گا۔

آیت کریمہ: ﴿فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ (الأعراف: 156) ترجمہ: ”چنانچہ میں یہ رحمت (مکمل طور پر) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھیں“۔ اسی معنی کی شاہد ہے۔ یعنی تحقیق میں اس رحمت کو ان لوگوں کے لئے خاص کر دوں گا جو کفر اور گناہوں سے بچتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ پس کرم و رحمت کو آخرت میں نیک کام کرنے والے اور اچھے عمل والے مسلمانوں کے لئے رکھا ہے۔ ہاں مطلق اہل اسلام کے لئے بھی خاتمہ؂3 بالخیر ہونے کی صورت میں رحمت کا کچھ حصہ ہے۔ اگرچہ وہ طویل زمانے کے بعد (اپنے اعمال بد کی سزا بھگت کر) دوزخ کے عذاب سے نجات پائیں گے۔ لیکن گناہوں کی سیاہی؂4 اور آسمان سے نازل شدہ احکام (خداوندی) کی طرف بے باکی اور بے پروائی کرنا (وغیرہ) یہ باتیں ایمان کے نور کو کب سلامت لے جانے دیں گی۔ علماء نے فرمایا ہے "کہ (گناہ) صغیرہ پر اصرار کرنا (گناہ) کبیرہ؂5 تک پہنچا دیتا ہے اور کبیرہ پر اصرار کرنا کفر تک لے جاتا ہے" اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔

فرد اند کے پیشِ تو گفتم غم دل ترسیدم

کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

ترجمہ:

مختصر تجھ سے کہی ورنہ ہے یہ بات بڑی

محض اس ڈر سے کہ آزدہ نہ ہو دل تیرا

حق سبحانہٗ و تعالیٰ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و سلم کے طفیل اپنی رضا کے کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔ باقی مقصود یہ ہے کہ حامل رقمیہ ہذا مولانا اسحق اس فقیر کا آشنا و مخلص ہے اور قدیم زمانے سے ہمسائیگی کا حق بھی رکھتا ہے۔ اگر کوئی مدد و اعانت طلب کرے تو اس کے حال پر توجہ فرمائیں۔ موصوف کتابت اور انشاء (تحریر) کے فن میں اچھی مہارت رکھتا ہے، و السلام۔

؂1 آپ کے نام صرف یہی مکتوب ہے، غالبًا معتمد خاں بخشی مراد ہیں، آپ کا نام محمد شریف تھا اور معتمد خاں خطاب۔ کئی سال تک احدیوں کے بخشی بھی رہے، غرض کہ ساری عمر کسی نہ کسی منصب پر فائز رہے۔ آپ کو تاریخ سے بے حد لگاؤ تھا اور تاریخ عالم کی متعدد کتابیں مہیا کی تھیں۔ جہانگیر آپ پر بہت مہربان تھا۔ شاہ جہاں کے زمانے میں انتقال ہوا۔ (ذخیرۃ الخوانین، جلد 2، صفحہ نمبر: 253)

؂2 سونے کی زکوٰۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے اور چاندی کا نصاب 200 درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔ چلنے والے چوپاؤں کی زکوٰۃ کی تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ فرمائیں۔

؂3 متفق علیہ حدیث شریف میں ہے: "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ" یعنی اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ (جیسے اعمال پر خاتمہ ہو گا وہی اعمال معتبر ہوں گے)

؂4 صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ، كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِيْ قَلْبِهِ، فَإِنْ تَابَ وَ نَزَعَ وَ اسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهٗ، فَإِنْ زَادَ زَادَتْ، فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللّٰهُ فِيْ كِتَابِهٖ: ﴿كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾"۔

؂5 جاننا چاہیے کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر شرع شریف میں کوئی حد مقرر ہو یا اس پر کوئی وعید وارد ہوئی ہو یا اس کی ممانعت میں قطعی دلیل وارد ہوئی ہو اور وہ فعل دین کی حرمت کی ہتک کا باعث ہو۔ جو گناہ اس قسم کا نہ ہو وہ صغیرہ ہے۔ گناہ کبیرہ کے درجات مختلف ہیں بعض بعض سے زیادہ بڑے اور زیادہ برے ہیں۔ کذا فی ترجمۃ الشیخ۔ روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ کبیرہ گناہوں کی تعداد کتنی ہے؟ آپ نے فرمایا سات سو تک ہیں، ان میں سے اقرب سات تک ہیں سوائے اس کے کہ توبہ و استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں ہے اور اصرار کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ صغیرہ نہیں ہے۔ (یعنی وہ صغیرہ بھی کبیرہ ہو جاتا ہے)