دفتر اول مکتوب 99
ملا حسن کشمیری1 کی طرف صادر فرمایا۔ ایک استفسار کے جواب میں جو دوام آگاہی کی کیفیت اور حالت خواب کے ساتھ جو کہ سرا سر غفلت اور حواس کی بے کاری کی حالت ہے اس کے جمع ہونے کے بارے میں کیا گیا تھا۔
آپ کا محبت نامہ گرامی شرف صدور لایا، دوام آگاہی کی کیفیت اور نیند کی حالت کے ساتھ اس کے جمع ہونے کے بارے میں جو کہ سرا سر غفلت اور حواس کی بے کاری کی حالت ہے اور اس بزرگ سلسلے کے بعض بزرگوں نے اس دولت کے حاصل ہونے کی خبر دی ہے، جو استفسار آپ نے کیا تھا (معلوم ہوا)
میرے مخدوم! اس اشکال کا حل ایک مقدمہ پر مبنی ہے جس کا بیان کرنا ضروری ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ انسان کی روح کو اس جسمانی صورت کے ساتھ تعلق ہونے سے پہلے ترقی و عروج کا راستہ بند تھا اور ﴿وَ مَا مِنَّا إِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ﴾ (الصافات: 164) ترجمہ: ”اور (فرشتے تو یہ کہتے ہیں کہ) ہم میں سے ہر ایک کا ایک معین مقام ہے“ کے پنجرے میں محبوس و مقید تھا لیکن اس جوہرِ نفیس (روح) کی طبیعت و فطرت میں عروج کی استعداد (جسم میں) نزول کی شرط پر امانت رکھی گئی تھی، اسی (استعدادِ مذکور) کی بنا پر ہی فرشتے پر اس (انسان) کی فضیلت مقرر فرمائی تھی۔ حق سبحانہٗ نے اپنی نہایت مہربانی سے اس نورانی جوہر کو اس ظلمانی جسم کے ساتھ جمع فرما دیا: سُبْحَانَ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ النُّوْرِ وَ الظُّلْمَۃِ وَ قَرَنَ الْأَمْرَ بِالْخَلْقِ (پس پاک ہے وہ ذات جس نے نور اور ظلمت کو جمع کر دیا اور عالمِ امر (روح) کو عالم خلق (نفس) کے ساتھ ملا دیا)۔
اور چونکہ یہ دونوں امر حقیقت میں ایک دوسرے کی نقیض و ضد واقع ہوئے تھے اس لئے حکیم مطلق (اللہ تعالی) جل شانہٗ نے اس اجتماع کے ثابت کرنے اور اس انتظام کے مقرر کرنے کے لئے روح کو نفس کے ساتھ عشق و محبت کی نسبت عطا فرمائی اور اسی محبت کو ان کے انتظام (آراستگی) کا سبب بنایا۔ آیت کریمہ ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ 0 ثُمَّ رَدَدْنٰہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ﴾ (التین: 4-5) ترجمہ: ”کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کر دیتے ہیں“ میں اسی بیان کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہ روح کا تنزل اور اس کی گرفتاری حقیقت میں مَدْحُ بِمَا یُشْبِہُ الذَّمَّ (مذمت کے مشابہ مدح کرنے) کی قسم سے ہے۔ پس اس محبت کی نسبت کے باعث روح نے اپنے آپ کو پوری طرح عالمِ نفس میں ڈال دیا اور اپنے آپ کو اس کے تابع کر دیا، بلکہ اپنے آپ کو بھی فراموش کر دیا اور اپنے آپ کو نفسِ امارہ سے تعبیر کر لیا۔ روح کی اصلیت میں یہ ایک دوسری لطافت ہے کہ کمالِ لطافت کے باعث جس چیز کی طرف متوجہ ہوتی ہے اسی کا حکم اختیار کر لیتی ہے پس جب کہ اس نے اپنے آپ کو فراموش کر دیا ہے تو لازماً اپنی پہلی آگاہی کی نسبت کو بھی جو کہ وجوبِ تعالیٰ و تقدس کے مرتبہ میں رکھتا ہے، فراموش کر دیتی ہے اور اپنے آپ کو ہمہ تن غفلت میں ڈال دیتی ہے اور ظلمت کا حکم اختیار کر لیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال مہربانی اور بندہ نوازی سے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کو مبعوث فرمایا اور اس (روح) کو ان بزرگوں کے ذریعے سے اپنی طرف بلایا اور روح کو نفس کی مخالفت کے لئے جو اس (روح) کا معشوق ہے، حکم فرمایا: "فَمَنْ رَجَعَ الْقَھْقَرٰی فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا وَّ مَنْ لَّمْ یَرْفَعْ رَاْسَہٗ وَ اخْتَارَ الْخُلُوْدَ إِلَی الْأَرْضِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیْدًا" ترجمہ: ”پس جس شخص نے رجعتِ قہقری (الٹے پاؤں پھرنا) کیا وہ بڑا کامیاب ہوا اور جس نے اپنا سر نہ اٹھایا اور ہمیشہ زمین میں ہی رہنا اختیار کیا وہ سخت گمراہ ہو گیا“۔ اس مقدمے کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے۔
اب ہم اس اشکال کا جواب بیان کرتے ہیں کہ اس مقدمے سے روح کا نفس کے ساتھ جمع ہونا سمجھ میں آ گیا بلکہ نفس میں اس کی فنا اور اس کے ساتھ اس کی بقا معلوم ہو چکی پس نا چار یہ اجتماع اور انتظام قائم ہے، ظاہر کی غفلت در اصل باطن کی غفلت ہے اور نیند جو کہ ظاہر کی غفلت ہے وہ عین باطن کی غفلت ہو گی، اور جب اس انتظام میں خلل پڑ جائے اور باطن ظاہر کی محبت سے منھ پھیر کر باطنوں کے باطن (مخفی ترین یعنی حق تعالیٰ) کی محبت اس کو حاصل ہو جائے اور وہ فنا و بقا جو فانی کے ساتھ پیدا کی تھی زائل ہونے لگے اور باقی حقیقی (اللہ) تعالیٰ و تقدس کے ساتھ فنا و بقا حاصل کر لے تو اس وقت ظاہر کی غفلت باطن کے حضور میں تاثیر نہیں کرتی اور کس طرح تاثیر کر سکتی ہے جب کہ باطن نے ظاہر کی طرف پوری طرح پیٹھ کی ہوئی ہے اور باطن میں ظاہر کی طرف سے کوئی شے داخل نہیں ہو سکتی۔ پس جائز ہے کہ ظاہر غافل ہو اور باطن آگاہ ہو وَ لَا مَخْذُوْرَ (اور یہ محال نہیں ہے)۔ مثلاً روغن بادام جب تک کَھلی (بادام کا ملغویہ) میں مخلوط ہے دونوں کا ایک ہی حکم ہے اور جب روغن، کھلی سے جدا ہو گیا تو دونوں کے لئے الگ الگ احکام پیدا ہو گئے، پس ایک کا حکم دوسرے پر جاری نہیں ہو گا۔
اگر اس قسم کی نعمت والے کو دنیا کی طرف واپس لوٹا دیں اور ایک جہان کو اس کے وجود شریف کی برکت سے نفسانی ظلمتوں سے نکالنا چاہیں تو اس کو سیر عن اللہ باللہ کے طریق پر جہان (دنیا) کی طرف نیچے لے آتے ہیں (پس) اس کی تمام تر توجہ مخلوق کی طرف ہوتی ہے بغیر اس کے کہ اس کو ان کے ساتھ کسی قسم کی گرفتاری حاصل ہو کیونکہ وہ اپنی اسی پہلی گرفتاری (توجہ بحق) پر قائم ہے۔ اس کو بے اختیاری طور پر اس جہان میں لائے ہیں پس یہ منتہی1 حق تعالیٰ و تقدس کی بار گاہ سے رو گردانی کرنے اور خلق کی طرف متوجہ ہونے میں ظاہری امور پر تمام مبتدیوں کے ساتھ شریک ہوتا ہے لیکن حقیقت میں (وہ منتہی ہے اور مبتدیوں کے ساتھ) کچھ مناسبت نہیں رکھتا، گرفتاری اور عدمِ گرفتاری میں بہت بڑا فرق ہے۔ نیز مخلوق کی طرف متوجہ ہونے میں یہ منتہی بے اختیار ہے اس میں وہ اپنی رغبت کچھ نہیں رکھتا بلکہ اس توجہ میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی رضا مندی (مقصود) ہے اور مبتدی میں (توجہ بخلق) ذاتی اور اپنی رغبت سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہے۔
ایک دوسرا فرق اور بیان کرتا ہوں (وہ یہ ہے کہ) مبتدی کے لئے یہ بات آسان ہے کہ عالم کی طرف سے منھ پھیر کر حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف توجہ کر لے (لیکن) منتہی کے لئے مخلوق سے رو گردانی محال ہے اور ہر وقت مخلوق کی طرف متوجہ رہنا اس کے مقام کو لازم ہے مگر ہاں جب اس کی دعوت کا کام مکمل ہو جائے اور اس کو دارِ فنا (دنیا) سے دار بقا (آخرت) کی طرف لے جائیں تو اس وقت اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی کی ندا اس کو سنائی دیتی ہے۔
مشائخِ طریقت قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم نے مقامِ دعوت کے مقرر کرنے میں مختلف باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ایک جماعت نے "جمع توجہ بین الحق و الخلق" سے تعبیر کیا ہے (یعنی حق اور خلق کے درمیان توجہ کا جمع ہونا بیان کیا ہے) ان کا اختلاف احوال و مقامات کے اختلاف پر مبنی ہے اور ہر ایک نے اپنے مقام کی خبر دی ہے وَ الْأَمْرُ عِنْدَ اللہِ سُبْحَانَہٗ (اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے)۔
اور یہ جو سید الطائفہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اَلنِّھَایَۃُ ھِیَ الرُّجُوْعُ اِلَی الْبِدَایَۃِ (نہایت یہی ابتدا کی طرف رجوع کرنا ہے) اسی مقامِ دعوت کے موافق ہے جو اس مسودہ میں لکھا جا چکا ہے کیونکہ بدایت میں تمام تر توجہ مخلوق کی طرف ہوتی ہے۔ حدیث مبارکہ "تَنَامَ عَیْنَایَ وَ لَا یَنَامُ قَلْبِیْ"2 ترجمہ:”میری آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا“۔ جو کہ لکھی گئی تھی اس میں دوام آگاہی کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ اپنے اور اپنی امت کے احوال کے جاری ہونے سے غافل نہ ہونے کی خبر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں نیند وضو کو توڑنے والی نہیں ہوئی۔ اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کی حفاظت کے بارے میں چرواہے (جانوروں کے محافظ) کی طرح ہیں اس لئے غفلت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے منصبِ نبوت کے مناسب نہیں ہے۔ اور حدیث: "ليْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِيْ فِیْہِ مَلِکٌ مُّقَرَّبٌ وَّ لَا نَبِیٌّ مُّرْسَلٌ"3 ترجمہ: ”میرے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے جس میں کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی نبی مرسل میرے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا“۔ صحیح ہونے کی صورت میں اس حدیث میں تجلی ذاتی برقی کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے اور اس تجلی سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی پاک بار گاہ کی طرف توجہ ہو بلکہ یہ تجلی اس جانب سے ہے متجلی لہٗ (جس پر تجلی وارد ہوئی ہے) کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے (یہ تجلی) عاشق میں معشوق کی سیر کی قسم سے ہے (کیونکہ) عاشق سیر سے سیر ہو چکا ہے۔ بیت
آئینہ صورت از سفر دور است
کاں پذیرائی صورت از نور است
ترجمہ:
ہے آئینہ کی مثل جو عاشق سفر سے دور
صورت کا عکس دور سے لیتا ہے اس کا نور
جاننا چاہیے کہ مخلوق کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں زائل شدہ حجابات پھر واپس نہیں آتے، بے پردہ ہونے کے با وجود اس کو مخلوق میں مشغول رکھا گیا ہے اور مخلوقات کی خلاصی و کامیابی اس کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے۔ ان بزرگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو بادشاہ کے ساتھ بڑا تقرب رکھتا ہے اور اس کے اور بادشاہ کے درمیان ظاہری و باطنی کوئی حجاب حائل نہیں ہے اس کے با وجود اس کو حاجت مندوں کی خدمت پر مشغول رکھا گیا ہے۔ رجوع کرنے والے منتہی میں یہ ایک اور فرق ہے کیونکہ مبتدی حجابات والا شخص ہے اور منتہی سے حجابات دور کر دیئے گئے ہیں۔ وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (اور آپ پر اور ہدایت کی پیروی کرنے والے تمام لوگوں پر سلام ہو)
1 مکتوبات میں آپ کے نام پانچ مکتوبات ہیں دفتر اول مکتوب 99، 100، 101، 279 اور دفتر سوم مکتوب 122۔ شیخ حسن کشمیری ثم دہلوی علم و فضل اور بزرگی میں مشہور تھے طریقت کی تکمیل شیخ نجم چائیں سہنوی سے کی، پھر حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ کی صحبت اختیار کر کے کسبِ فیض کیا۔ حقائق و معارف میں ممتاز تھے۔ سنہ 1051ھ میں وفات ہوئی۔ (نزھۃ الخواطر، جلد: 5، صفحہ نمبر: 132) حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آپ ہی لے گئے۔ (زبدۃ المقامات)
2 جاننا چاہیے کہ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے مبتدی اور منتہی کا فرق چار طرح پر بیان فرمایا ہے: اول یہ کہ مبتدی بخلاف منتہی کے مخلوق کی طرح دنیا میں پھنسا ہوا ہے۔ دوم یہ کہ مخلوق کی طرف متوجہ ہونا منتہی کے لئے غیر اختیاری و بغیر رغبت کے صرف رضائے حق کی وجہ سے ہے اور مبتدی میں مخلوق کی طرف رجوع ہونا ذاتی اغراض اور اپنی رغبت سے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر ہے۔ سوم یہ کہ مبتدی کو خلق سے رو گردانی کرکے حق تعالی کی طرف متوجہ ہونا آسان ہے اور منتہی کے لئے خلق سے رو گردانی کرنا محال ہے اور خلق کی طرف متوجہ رہنا اس کے مقام کے لئے لازمی ہے۔ چہارم یہ کہ مبتدی صاحبِ حجابات ہوتا ہے اور منتہی سے حجابات دور ہو جاتے ہیں جیسا کہ مکتوب ہذا میں درج ہے۔
3 اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس کو امام بخاری و مسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بیان میں روایت کیا ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ "رفیق اعلیٰ" اللہ تعالیٰ کا ایک اسم مبارک ہے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کا گروہ ہے جو کہ اعلیٰ علیین میں رہتے ہیں، پس اس جملے کا ترجمہ یہ ہے کہ "یا اللہ مجھے جماعتِ اعلیٰ کے ساتھ ملا دے یا میں رفیقِ اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں" اور بعض نے رفیق اعلیٰ سے بہشت مراد لی ہے۔
4 یہ حدیث مسند ابو داؤد میں حضرت عائشہ سے مروی ہے۔