مکتوب 92
یہ مکتوب بھی شیخ کبیر کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ دل کا اطمینان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ نظر و استدلال سے اور اس کے مناسب بیان میں۔
ثَبَّتَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ عَلَی الشَّرِیْعَۃِ الْمُصْطَفَوِیَّۃِ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ وَ التَّحِیَّۃُ (اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت پر ثابت قدم رکھے) ﴿أَلَآ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد: 28) ترجمہ: ”یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے“۔ اطمینانِ قلب حاصل ہونے کا ذریعہ صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے، نہ کہ نظر و استدلال (قرائن و دلائل) بیت:
پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود
ترجمہ:
بحث بے جا ہے فقط کٹھ حجتی
کاٹھ کے پاؤں میں دم خم کچھ نہیں
چونکہ ذکر اللہ کے ذریعے حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کے ساتھ ایک قسم کی مناسبت حاصل ہو جاتی ہے اگرچہ (ذکر کو) اس پاک ذات کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے۔ مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبِّ الْأَرْبَابِ (خاک کو پرور دگارِ عالم کے ساتھ کیا نسبت ہے) لیکن ذاکر (ذکر کرنے والا) اور مذکور (جس کا ذکر کیا جائے) کے درمیان ایک قسم کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے جو محبت کا سبب بنتا ہے اور جب محبت غالب ہو گئی تو پھر اطمینان کے سوا کچھ نہیں ہے اور جب معاملہ دل کے اطمینان کے حصول تک پہنچ گیا تو اس کو ہمیشہ کی دولت حاصل ہو گئی۔
ذکر گو ذکر تا ترا جان ست
پاکئ دل ز ذکر رحمٰن ست
ترجمہ:
جان جب تک ہے ذکر کرتا رہ
دل کی پاک خدا کے ذکر سے ہے
وَ السَّلَامُ أَوَّلًا وَّ آخِرًا۔