دفتر 1 مکتوب 91: اس بیان میں کہ عقائد کی درستی اور نیک اعمال کا بجا لانا یہ دونوں عالم قدس (عالم ملکوت) کی طرف اڑنے (پرواز) کے لئے بال و پَر ہیں اور اعمال شریعت و احوال طریقت سے مقصود تزکیہ نفس و تصفیہ قلب ہے

مکتوب 91

شیخ کبیر؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ عقائد کی درستی اور نیک اعمال کا بجا لانا یہ دونوں عالم قدس (عالم ملکوت) کی طرف اڑنے (پرواز) کے لئے بال و پَر ہیں اور اعمال شریعت و احوال طریقت سے مقصود تزکیہ نفس و تصفیہ قلب ہے۔

رَزَقَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ الْاِسْتِقَامَۃَ عَلٰی مُتَابَعَۃِ السُّنَّۃِ السَّنِیَّۃِ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ وَ التَّحِیَّۃُ (حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو اور آپ کو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی روشن سنت کی متابعت پر استقامت نصیب فرمائے)۔

اصل مقصد یہ ہے کہ اول اہل سنت و جماعت کی آراء کے موافق عقائد کو درست کرنا چاہیے کیونکہ فرقہ ناجیہ (نجات پانے والا گروہ) یہی ہے۔ دوسرے فقہی احکام کے موافق علم و عمل کو (اپنے اوپر) لازم کر لینا چاہیے۔ ان اعتقادی و عملی دو پروں کے حاصل کرنے کے بعد عالمِ قدس (عالمِ ملکوت) کی طرف پرواز کرنے کا ارادہ کرنا چاہیے۔ مصرع

کار این؂2 است و غیر ایں ہمہ ہیچ

ترجمہ:

کام اصلی ہے یہی اس کے سوا سب ہیچ ہے

شریعت کے اعمال اور طریقت و حقیقت کے احوال سے مقصود نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ ہے، جب تک نفس کا تزکیہ نہ ہو جائے اور قلب؂3 میں سلامتی پیدا نہ ہو جائے ایمان حقیقی کہ جس پر نجات کا مدار ہے حاصل نہیں ہوتا۔ دل کی سلامتی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ حق تعالیٰ کے غیر کا خیال دل پر ہرگز نہ گزرے، اگر ہزار سال بھی گزر جائیں تب بھی دل میں غیر اللہ کا خیال نہ گزرے کیونکہ اس وقت دل کو ما سوی اللہ کا نسیان پوری طرح حاصل ہو چکا ہے لہذا اگر تکلف کے ساتھ بھی اس کو (غیر اللہ کی) یاد دلائیں تو وہ یاد نہ کرے، یہ حالت فنا سے تعبیر کی گئی ہے اور یہ اس راستے میں پہلا قدم ہے۔

؂1 شیخ کبیر کے نام صرف یہی دو مکتوب ہیں نمبر 91 اور 92۔ غالبا شیخ کبیر بن شیخ منور لاہوری مراد ہیں جنہوں نے فیضی کا تقرب حاصل کر کے اکبر کے دربار میں رسائی حاصل کی۔ (نزھۃ الخواطر، جلد: 3، صفحہ نمبر: 315، منتخب التواریخ)

؂2 اس مصرع کا معرب ملاحظہ ہو:

ھٰذَا ھُوَ الْأَمْرُ وَ الْبَاقِيْ مِنَ الْعَبَثِ

؂3 قرآن کریم میں "بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ" دو جگہ آیا ہے: 1- ﴿إِلَّا مَنۡ أَتَى اللّٰہَ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ﴾(الشعراء: 89) ترجمہ: ”ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا (اس کو نجات ملے گی)“۔ 2- ﴿إِذْ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ﴾ (الصافات: 84) ترجمہ: ”جب وہ اپنے پرور دگار کے پاس صاف ستھرا دل لے کر آئے“۔