دفتر 1 مکتوب 9: ان حالات کے بیان میں جو نیچے اترنے کے مقام یعنی مقامِ نزول سے مناسبت رکھتے ہیں

مکتوب نمبر 9

ان حالات کے بیان میں جو نیچے اترنے کے مقام یعنی مقامِ نزول؂1 سے مناسبت رکھتے ہیں۔ یہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں لکھا۔

عریضہ:

اس سیاہ رو بد بخت اور بد خو گنہگار کا عریضہ ہے جو اپنے وقت و حالت پر مغرور اور وصل و کمال پر فریفتہ شدہ ہے۔ جس کا کام سراسر اپنے آقا کی نا فرمانی ہے اور جس کا فعل سر بسر عزیمت و اولیٰ کو ترک کرنا ہے۔ جس نے مخلوق کی نظر گاہ یعنی اپنی ظاہری حالت کو عمدہ بنایا ہوا ہے اور حق تعالی کی نظر گاہ یعنی دل کو خراب و برباد کیا ہوا ہے۔ جس کی تمام ہمت و کوشش اپنے ظاہر کو آراستہ کرنے پر لگی ہوئی ہے اور اس کا باطن اس کے باعث ہمیشہ رسوائی میں ہے۔ اس کا قال اس کے حال کے بالکل بر خلاف ہے اور اس کا حال اس کے اپنے خیال پر مبنی ہے۔ اس خواب و خیال سے کیا حاصل ہوتا ہے اور قال و حال سے کیا عقدہ کشائی ہوتی ہے (لہذا) بد بختی اور خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہے۔ سرکشی اور گمراہی ہر وقت اس کے عمل میں ہے۔ وہ فساد و شرارت کا مبدا اور ظلم و معصیت کا منشا (پیدا ہونے کی جگہ) ہے، غرضیکہ اس کا تمام جسم عیوب اور مجموعۂ گناہ ہے۔ اس کی نیکیاں لعنت اور رد کرنے کے لائق ہیں اور اسکی بھلائیاں طعن اور پھینک دینے کے قابل ہیں۔ "رُبَّ قَارِئٍ لِّلْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ یَلْعَنُہُ"؂2 ”بہت سے قرآن کریم پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے“ یہ حدیث اس کے حق میں معتبر گواہ ہے، اور "کَمْ مِنْ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّا الظَّمَأُ وَ الْجُوْعُ"؂3بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو سوائے بھوک اور پیاس کے روزہ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔“ یہ بھی اس کے بارے میں شاہدِ صادق ہے۔ پس اس شخص پر افسوس ہے جس کا حال اور مرتبہ، کمال اور درجہ اس قسم کا ہو۔ اس کا استغفار؂4 کرنا بھی دوسرے تمام گناہوں کی طرح گناہ ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ شدید گناہ ہے، اور اس کا توبہ کرنا بھی دیگر تمام برائیوں و نا فرمانیوں کی طرح برائی و نا فرمانی ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ یہ مقولہ ''کُلَّ مَا یَفْعَلُہُ الْقَبِیْحُ قَبِيْحٌ'' ”یعنی برا آدمی جو کچھ کرتا ہے، وہ برا ہی ہوتا ہے“۔ اس بات کا مصداق ہے۔ع

ز گندم جو، ز جو گندم نیاید

ترجمہ:

نہ جو گندم سے اگتے ہیں نہ گندم جو سے اگتی ہے

اس کا مرض ذاتی ہے جو علاج کو قبول نہیں کرتا اور اس کی بیماری اصلی ہے جو دوا کو قبول نہیں کرتی۔ جو چیز کسی کی ذات میں داخل ہو یعنی ذاتی ہو وہ اس کی ذات سے کبھی زائل نہیں ہوتی۔ع

سیاہی از حبشی کے رود کہ خود رنگ است

ترجمہ:

نہیں جاتی ہے حبشی کی سیاہی کیونکہ فطری ہے

کیا کرسکتا ہوں۔ ﴿وَ مَا ظَلَمَھُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنْ کَانُوٓا أَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾ (سورہ نحل:33) ”اللہ تعالی نے ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں“۔ ہاں خیرِ محض کے لئے شرِ محض بھی ہونا چاہیے تاکہ خیر (بھلائی و نیکی) کی حقیقت واضح ہو جائے۔ "وَ بِضِدِّھَا تَتَبَيَّنُ الْأَشْیَاءُ" ”اور چیزیں اپنی ضدوں یعنی بالمقابل چیزوں ہی سے پہچانی جاتی ہیں“۔ خیر و کمال موجود تھا لہذا اس کے بالمقابل شر و نقص بھی ہونا چاہیے تھا۔ حسن و جمال کو (اپنے اظہار کے لئے) آئینے کی ضرورت ہوتی ہے اور آئینہ چیز کے مقابل ہی ہوتا ہے پس لازمی طور پر خیر کے لئے شر اور کمال کے لئے نقص بمنزلہ آئینہ کے ہے۔ لہذا جس چیز میں نقص و شر زیادہ ہوگا خیر و کمال بھی اسی قدر زیادہ نمایاں ہوگا۔

عجیب معاملہ ہے کہ اس ذم (برائی) نے مدح (تعریف) کے معنی پیدا کر لئے اور یہ شرارت و نقصان، خیر و کمال کا محل و مقام بن گیا، پس لازمی طور پر عبدیت کا مقام تمام مقامات سے بلند ہوگا اس لئے کہ یہ معنی یعنی اپنے نقص کو دیکھنا مقامِ عبدیت میں نہایت کامل اور مکمل طور پر پائے جاتے ہیں (لہذا) محبوبوں کو اس مقام سے مشرف فرماتے ہیں اور محبّین (محبت کرنے والے) ذوقِ شہود کے ساتھ لذت حاصل کرتے ہیں۔ بندگی میں لذت حاصل کرنا اور اس کے ساتھ انس اختیار کرنا محبوبوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ محبّوں کا انس محبوب کے مشاہدے میں ہے اور محبوبوں کا انس؂5 محبوب کی بندگی میں ہے۔ اسی انس (یعنی بندگی) میں ان کو اس (دیدِ نقص کی) دولت کا شرف بخشتے اور اس نعمت کے ساتھ سرفراز کرتے ہیں۔ اس میدان کے یکتا شہسوار، دین و دنیا کے سردار اور اولین و آخرین کے آقا حبیب رب العالمین عَلَیْہِ مِنَ الصَّلَوٰاتِ أَتَمُّھَا وَ مِنَ التَّحِیَّاتِ أَکْمَلُھَا ”آپ ﷺ پر کامل ترین درود اور اکمل ترین سلام ہوں۔“ اور (کارکنانِ قضا و قدر) جس کو محض فضل و کرم سے (نقصِ اعمال کے دیکھنے کی) یہ دولت عطا فرمانا چاہتے ہیں اس کو آنسرور ﷺ کی کمال درجے کی متابعت نصیب فرما دیتے ہیں اور اس متابعت کے وسیلے سے اسکو بلند مقامات کی دہلیز پر لے جاتے ہیں۔ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشاءُ وَاللّٰہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الجمعہ: 4) ”یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے، جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل و کرم والا ہے“۔

شر اور نقص کے کمال سے مراد؂6 سالک کا علم ذوقی ہے، اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ شخص شرارت و نقص سے متصف ہو۔ اس علم والا شخص اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کے اخلاق سے متخلق ہوتا ہے۔ (دیدِ نقص کا) یہ علم بھی اسی تَخَلُّقٌ بِأَخْلَاقِ اللّٰہِ ہی کا ثمرہ ہے۔ شرارت و نقص کی اس مقام میں سوائے اس کے اور کوئی گنجائش نہیں ہے کہ علم اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ یہ علم شہودِ تام (کامل مشاہدہ) کے واسطہ سے خیرِ محض (سراسر بھلائی) ہے۔ اس خیر (بھلائی) کے پہلو میں تمام چیزیں نظر آتی ہیں۔ یہ کیفیت نفسِ مطمئنہ کے اپنے مقام میں نزول کر لینے کے بعد ہے۔

جب تک؂6 سالک اس طرح سے اپنے آپ کو زمین پر نہ ڈالے اور (اپنے نفس کی فنائیت) کے کام کو اس درجے تک نہ پہنچائے اپنے مولائے کریم جل شانہٗ کے کمالات سے بے نصیب رہتا ہے۔ پس وہ شخص کس طرح بے نصیب نہیں ہوگا جو اپنے آپ کو عین مولا و آقا جانتا ہے اور اپنی صفات کو حق تعالیٰ شانہٗ کی صفات سمجھتاہے، "تَعَالٰی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا" یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت ہی اعلی و ارفع ہے۔ ایسا خیال کرنا اسماء و صفات میں الحاد و زندقہ ہے۔ اس عقیدے والے لوگ اس گروہ میں شامل ہیں جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے: ﴿وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِی أَسْمَائِہٖ﴾ الأعراف: 180) ”ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کے اسماء میں الحاد کرتے ہیں۔“ یہ بات ضروری نہیں ہے کہ ہر وہ شخص جس کا جذبہ اس کے سلوک پر مقدم ہو وہ ضرور محبوبین میں سے ہے لیکن محبوبیت میں جذبے کا مقدم ہونا شرط ہے۔ ہاں! البتہ ہر جذبے میں محبوبیت کے ایک قسم کے معنی پائے جاتے ہیں کہ جن کے بغیر جذب حاصل نہیں ہوتا اور محبوبیت کے وہ معنی کسی عارض سے پیدا ہوتے ہیں ذاتی نہیں ہیں۔ محبوبیت کے ذاتی معنی اشیاء میں سے کسی شئے کے ساتھ معلل نہیں ہیں (یعنی محبوبیتِ ذاتیہ کسی علت اور سبب کے بغیر حاصل ہوتی ہے) جیسا کہ ہر منتہی کو آخر جذبہ حاصل ہے لیکن وہ محبّوں کے گروہ میں داخل ہے (محبوبین کے گروہ میں داخل نہیں ہے) اور کسی عارض کے تعلق سے اس میں محبوبیت کے معنی پیدا ہو گئے ہیں (ذاتی نہیں ہیں) اور اس قسم کی محبوبیت جو کسی عارض کی وجہ سے حاصل ہوئی ہو سالک کے مطلقاً محبوبین میں سے ہونے کے لئے کافی نہیں ہے، اور وہ عارض تصفیہ اور تزکیہ ہے۔

بعض مبتدیوں میں آنسرور ﷺ کی اتباع مجمل طور پر اس معنی کے حصول کا سبب ہے خواہ وہ اتباع بعض امور میں ہی ہو۔ بلکہ منتہی میں بھی (اس کے حصول کا باعث) اتباعِ رسول ﷺ ہی ہے اور بس، اور محبوبین میں بھی اس محبوبیتِ ذاتیہ کے معنی کا ظہور فضل ربی ہونے کے با وجود آنسرورﷺ کی اتباع ہی سے وابستہ ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ وہ معنی ذاتی بھی آنحضرت ﷺ کی مناسبتِ ذاتیہ کے واسطے سے ہیں اور (اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے) جو اسم اس سالک کا رب (تربیت کرنے والا) ہے اس خصوصیت کے حق میں اس اسمِ الٰہی کے مناسب واقع ہوا ہے جو کہ آنحضرت ﷺ کا رب ہے اور اس نے یہ سعادت وہیں سے حاصل کی ہے، وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَ إِلَیْہِ الْمَرْجَعُ وَ الْمَآبُ وَ اللہُ یُحِقَّ الْحَقَّ وَ ھُوَ یَھْدِي السَّبِیْلَ ”اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہی حق بات کو جانتا ہے اور اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے اور اللہ تعالی حق بات کو ثابت کرتا ہے اور وہی سیدھا راستہ دکھاتا ہے“۔


؂1 جاننا چاہیے کہ حضرت مجدد الفِ ثانی قدس سرہٗ نے اس مضمون کو دفترِ اول کے مکتوب 222 میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ تحریر فرمایا ہے، وہاں ملاحظہ کرنا چاہیے اور گیارہویں مکتوب میں بھی اس کو بیان فرمایا ہے۔

؂2 یہ ایک حدیث ہے جس کو امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء العلوم حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے سے ذکر کیا ہے اور تخریجِ احیاء کرنے والے سب حضرات نے اس پر سکوت فرمایا ہے۔

؂3 رواہ ابن ماجۃ و النسائی بتغیر الفاظ

؂4 کسی عارف نے کہا ہے کہ "اِسْتِغْفَارُنَا یَحْتَاجُ إِلٰی اسْتِغْفَارٍ کَثِیْرٍ"

ہست استغفارِ ما محتاجِ استغفارِ ما

سبحہ در کف توبہ بر لب دل پُر از ذوقِ گناہ

معصیت را خندہ می آید بر استغفارِ ما

؂5 اُنس بالضم، کسی چیز کے ساتھ آرام پکڑنا۔

؂6 یہ ایک سوال کا جواب ہے جو کہ پہلے بیان سے پیدا ہوتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ صوفی جب بے حد فضائل اور بے شمار بزرگیوں سے متصف ہو جاتا ہے تو پھر وہ کمال درجہ کے شر و نقص سے کیسے متصف ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب حضرت امام ربانی قدس سرہٗ کے فرمان سے ظاہر ہے۔

؂7 اس کا خلاصۂ مقصد یہ ہے کہ سالک کے لئے ضروری ہے کہ اپنے عدم ہونے کی حقیقتِ ممکنہ کو جو کہ شرارت و نقص کا مبدأ ہے اور خیر و کمال سے محض خالی ہے پہچانے تاکہ اللہ جل شانہٗ کے کمال کو پہچان لے کہ وہ ہر لحاظ سے سراسر خیر و کمال ہے جیسا کہ عارفوں نے کہا ہے: "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" ”جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا“۔