دفتر 1 مکتوب 10: قُرب و بُعد اور فرق و وصل کے حصول کے بارے میں اور اُن کے بعض مناسب علوم میں

مکتوب نمبر 10

غیر مشہور معانی کے لحاظ سے قُرب و بُعد اور فرق و وصل کے حصول کے بارے میں اور اُن کے بعض مناسب علوم میں۔

یہ بھی اپنے محترم پیر و مرشد کی خدمت میں تحریر کیا۔

عریضہ:

حضور کا کم ترین خادم عرض کرتا ہے کہ کافی عرصے سے اس بلند بارگاہ کے خادموں کے حالات سے اس خادم کو اطلاع موصول نہیں ہوئی، ہر وقت انتظار ہے؎

عجبے نیست اگر زندہ شود جانِ عزیز

چوں از آں یارِ جدا ماندہ پیامے برسد

ترجمہ:

کیا عجب ہے کہ میری جاں کو ملے تازہ حیات

اگر اس دُور کے محبوب کا آ جائے پیام

یہ خادم جانتا ہے کہ یہ آپ کی بارگاہ کے لائق نہیں ہے۔ ع

ایں بسکہ رسد ز دور بانگِ جرسم

ترجمہ:

یہی کافی ہے کہ آتی ہے جرس کی آواز

عجیب معاملہ ہے کہ انتہائی بُعد کو قُرب کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور نہایت فراق کو وصل کہتے ہیں۔ گویا کہ در حقیقت اسکے ضمن میں ان حضرات نے قرب و وصال کی نفی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شعر

کَیْفَ الْوُصُوْلُ اِلَی سُعادَ وَ دُوْنَھَا

قُلَلُ الْجِبَالِ وَدُوْنَھُنَّ خُیُوْفٌ

ترجمہ:

کس طرح پہنچوں میں اپنے یار تک

راہ میں حائل ہیں کوہ و غار تک

لہذا نا چار ہمیشہ کا غم اور دائمی فکر لاحق رہتی ہے، مراد کو بھی آخر کار مرید کے ارادہ کے ساتھ مرید ہو جانا چاہیے اور محبوب کو محب کی محبت کے ساتھ محب بن جانا چاہیے۔ دین و دنیا کے سردار آنحضرت عَلَیْہِ مِنَ الصَّلَوٰاتِ أَکْمَلُہَا وَ مِنَ التَّحِیَّاتِ أَفْضَلُہَا ”آپ پر کامل ترین صلوات اور افضل ترین تحیات ہوں“۔ مرادیت و محبوبیت کے مقام پر فائز ہونے کے با وجود محبین و مریدین میں سے ہوئے ہیں۔ اسی لئے راویانِ حدیث نے آپ ﷺ کے حال کے متعلق اس طرح خبر دی ہے کہ "کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مُتَوَاصِلَ الْحُزْنِ دَائِمَ الْفِکْرِ"؂1 یعنی ”رسول ﷺ پر ہمیشہ غم و فکر کے آثار چھائے رہتے تھے“۔ اور آنسرور ﷺ نے فرمایا ہے کہ "مَا أُوْذِیَ نَبِیٌّ مِّثْلَ مَا أُوْذِیْتُ"؂2 یعنی ”جتنی ایذا مجھ کو دی گئی ہے اس کی مثل ایذا کسی نبی کو نہیں دی گئی“۔

محب؂3 (محبت کرنے والے حضرات) محبت کے بوجھ کو اٹھا سکتے ہیں محبوبوں کو اس بوجھ کا اٹھانا دشوار ہے۔ اس قصہ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ع

قِصَّۃُ الْعِشْقِ لَا انْفِصَامَ لَھَا

ترجمہ:

نہیں ہے انتہائے قصۂ عشق

حاملِ عریضہ ہذا شیخ اللہ بخش ایک قسم کا جذب و محبت رکھتا ہے، اس نے اصرار کر کے چند کلمات حضور کے خادموں کی طرف لکھوائے ہیں۔ غرضیکہ حضور کی خدمت میں حاضری کا شوق ظاہر کر کے ان حدود کی طرف متوجہ (یعنی روانہ) ہوا ہے۔ پہلے اس نے اپنے بعض ارادوں کا اظہار کیا، جب اس خاکسار کی طرف سے عدم دلچسپی محسوس کی تو صرف ملاقات پر راضی ہو کر یہ چند کلمات لکھوائے ہیں۔ زیادہ (عرض کرنے کی) گستاخی ادب کے خلاف ہے۔


؂1 رواہ الترمذي في شمائلہ و البیہقي في شعب و دلائلہ و الطبراني في کبیر و ابن عساکر

؂2 رواہ ابن عدي و ابن عساکر از جابر رضي اللہ عنہ و لفظہ "مَا أُوْذِيَ أَحَدٌ مَّا أُوْذِیْتُ" و رواه أحمد و الترمذي و ابن حبان عن أنس رضي الله عنه مرفوعًا بلفظ "لَقَدْ أُوْذِيْتُ فِيْ اللهِ وَ مَا يُوْذٰى أَحَدٌ وَّ أُخِفْتُ فِيْ اللهِ وَ مَا يَخَافُ أَحَدٌ"۔

؂3 یعنی آنسرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم با وصف محبوب و مراد ہونے کے چونکہ محب بھی ہیں اسی لئے یہ متواتر غم و فکر میں رہنے کی تکلیف برداشت کرنا محب ہونے کی حیثیت سے تھا نہ کہ محبوبیت ہونے کی حیثیت سے۔